امجد اسلام امجد اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں

دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں

مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں

اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں

مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں

امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں

امجد اسلام امجدؔ
 

عاطف بٹ

محفلین
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں

واہ، بہت خوبصورت انتخاب ہے۔
 
Top