انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں ۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
برائے اصلاح ۔۔۔

الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ


انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں

کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں

کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں

قدم قدم پر تھی ایسی پھسلن کہ دونوں پل بھر بھی چل نہ پائے
میں گر گیا، وہ بھی گر گئے تھے، مرے برابر پڑے ہوئے ہیں

گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے
کہ عہدِ حاضر میں ہر قدم پر بہت سے رہبر پڑے ہوئے ہیں

وہ پہلا دن تھا کہ جس میں کوئی نظر سے دل تک پہنچ گیا تھا
سو اب نشانہ ہے عقل میری کہ جس پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں

وہ اک ملاقات ، پھر خموشی، کئی برس تک غرور تیرا
مجھے بھی پل بھر کو ڈھونڈنے دے، کہاں وہ تیور پڑے ہوئے ہیں؟

زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں

جو وقت آنا ہے، جان لینا کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کہ چاروں جانب ہیں صرف لاشیں ،کٹے ہوئے سر پڑے ہوئے ہیں

 

ارشد رشید

محفلین
شاہد صاحب - غزل اچھی ہے مگر مجھے اس میں زبان و بیان کی غلطیاں نظر آتی ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں - اس سے اتفاق کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی ہے -

انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں
== یہاں دوسرے مصرعے میں آپ نے نگاہ کرم کی خواہش رکھنے والوں کو لعل و گہر سے تشبیہ د ی ہے - سوال ہے کہ کیوں - دیکھیں ایسا نہیں ہوتا کہ ہم شاعری میں تشبیہات یا استعارات کا استعمال تو کریں مگر اس کی وجہ تسمیہ کا ذکر نہیں کریں - وہ لوگ کیوں لعل ہو گہر کہے جا رہے ہیں اس کا کو ئ ذکر نہیں - پھر آپ کہہ رہے ہیں کہ دیکھنا کیا !
اس کا مطلب ہوتا ہے دیکھ تو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرنا چاہیئے - تو یہ مصرع خود ہی دوسرے کی نفی کر رہا ہے -
یہ باتیں حرمتِ الفاظ کہلاتی ہیں اور آپ کی غزل میں اس کی کمی مجھے صاف نظر آتی ہے -

کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں
== پہلی بات تو یہ کہ یہاں سجا کے نہیں آئیگا - لگا کے لکھتے تو بھی کوئ بات تھی- سجا کے بستر کا اور مفہوم ہے اور یہ پر سکون حالات کے لیئے ہوتا ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ مشکل حالات ہیں - وہی حرمت َ لفظی کا مسئلہ -
پھر مجھے دونوں مصرعوں کے زمانے بھی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے نہیں لگ رہے ہیں - سوچنا تھا ماضی ہے اور پڑے ہوئے ہیں حال جاریہ ہے - یہ ضعف ردیف ہوئ-
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں
- یہ شعر مجھے سمجھ نہیں آیا - شاعر کہنا کہا چاہ رہا ہے - اگر اتنے منفی جذبات اسکے دل میں ہیں تو وہ انکا اظہار کیوں کر رہا ہے ؟ اور پھر جب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ باہر نہ مل سکییں گے تو مطلب یہ ہوا کہ محبوب کیا ان چیزوں کو ڈھنڈھ رہا تھا کہ شاعر کہہ رہا ہے یہ باہر نہیں اندر ملیں گے - ان کو ڈھونڈھتا کون ہے ؟
اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ شاعر محبوب کو بتا رہا ہے کہ یہ سب تم اپنے اندر ہی ڈھونڈو تو وہی سوال کہ ان کو ڈھونڈتا کون ہے ؟

اتنا ہی لکھتا ہوں - ہو سکتا ہے آپ ان باتوں سے متفق نہ ہوں تو میں اپنا اور آپ کا مزید وقت کیوں برباد کروں-
شکریہ
 
آخری تدوین:
انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں
کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں
انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہ جو تیری ایک نگاہِ کرم کی طلب اور تڑپ میں لعل و گہر کی طرح قیمتی ہوگئے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ ریزے اور سنگ ریزے تو بہت جنھیں ایسی کوئی چاہ نہ تھی۔
کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔لگا کے نہیں سجا کے اِس لیے دُرست ہے کہ اِس گدڑی کے لعل اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِس بوریے کی زینت ہی وہ ہیں جو تمام دروازے چھوڑ کر ایک تیرے در پر آپڑے ۔
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زبان پر ایک لفظ ، حرفِ شکایت،حرفِ ملامت، طعن وتشنیع ،نفرت و عداوت کا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالاں کہ دل تیری کج ادائیوں سے رنجور و مغموم ہی نظر آئیگاکوئی جو اِس میں جھانکے تو۔۔۔
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
جناب جنگ اخبار کے مراسلات والے حصے میں لکھا ہوتا تھا؎
ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں :)

تو بس جناب یہاں بھی یہئ حال ہے آپ کی توجیحات سے میں بصد احترام متفق نہیں -
 

الف عین

لائبریرین
ارشد رشید میاں کی نگاہ سے تو میں بھی غور نہیں کرتا، زبان و بیان پر ہی توجہ دیتا ہوں۔ہاں، اگر مفہوم ہی سمجھ میں نہ آئے یا صاف دونوں مصرعوں میں واضح اختلاف پایا جاتا ہو، تب ضرور کچھ کہتا ہوں۔ شاہد شاہنواز کی غزلوں میں عروض کی اغلاط بہت کم نظر آئی ہیں اب تک، اس لئے ممکن تھا کہ میں اس غزل سے بھی سرسری گزر جاتا۔
برائے اصلاح ۔۔۔

الف عین
ارشد رشید
محمد احسن سمیع راحلؔ


انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں​
اس میں مجھے "دیکھنا کیا" سے زیادہ "دیکھتا کیا ہے" کا محل نظر آ رہا ہے

کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں​
سجا کے میں اہتمام زیادہ محسوس ہوتا ہے، مجھے قبول ہے، البتہ "گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا" اچھا بیانیہ نہیں۔ گھر جاؤ ہی درست ہے، "کو" کا اضافہ غلط ہے، سوچنا تھا میں یہ ظاہر نہیں کہ کسے سوچنا چاہیے تھا!

کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں​
درست

قدم قدم پر تھی ایسی پھسلن کہ دونوں پل بھر بھی چل نہ پائے
میں گر گیا، وہ بھی گر گئے تھے، مرے برابر پڑے ہوئے ہیں​
یہ مزاحیہ لگتا ہے، اسے نکال ہی دیا جائے

گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے
کہ عہدِ حاضر میں ہر قدم پر بہت سے رہبر پڑے ہوئے ہیں​
ٹھیک

وہ پہلا دن تھا کہ جس میں کوئی نظر سے دل تک پہنچ گیا تھا
سو اب نشانہ ہے عقل میری کہ جس پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں​
نہیں، یہ تو غلط بیانیہ ہوا، یعنی خود قبول کیا جائے کہ عقل نہیں ہے؟ "ان کا کہنا ہے" قسم کا اضافہ کیا جائے

وہ اک ملاقات ، پھر خموشی، کئی برس تک غرور تیرا
مجھے بھی پل بھر کو ڈھونڈنے دے، کہاں وہ تیور پڑے ہوئے ہیں؟​
ملاقات کا تو تیور میں شمار نہیں! پہلے مصرع میں بے ربطی ہے

زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں​
درست

جو وقت آنا ہے، جان لینا کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کہ چاروں جانب ہیں صرف لاشیں ،کٹے ہوئے سر پڑے ہوئے ہیں

"وہ /جو وقت آیا ہے" .. ہونا چاہیے یا مستقبل کا منظر کہ "آنا ہے" کہا جائے؟ "جان لینا" کا ٹکڑا بھی واضح نہیں، بھرتی کا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد صاحب - غزل اچھی ہے مگر مجھے اس میں زبان و بیان کی غلطیاں نظر آتی ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں - اس سے اتفاق کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی ہے -

انہیں حقارت سے دیکھنا کیا جو تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں
== یہاں دوسرے مصرعے میں آپ نے نگاہ کرم کی خواہش رکھنے والوں کو لعل و گہر سے تشبیہ د ی ہے - سوال ہے کہ کیوں - دیکھیں ایسا نہیں ہوتا کہ ہم شاعری میں تشبیہات یا استعارات کا استعمال تو کریں مگر اس کی وجہ تسمیہ کا ذکر نہیں کریں - وہ لوگ کیوں لعل ہو گہر کہے جا رہے ہیں اس کا کو ئ ذکر نہیں - پھر آپ کہہ رہے ہیں کہ دیکھنا کیا !
اس کا مطلب ہوتا ہے دیکھ تو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں کرنا چاہیئے - تو یہ مصرع خود ہی دوسرے کی نفی کر رہا ہے -
یہ باتیں حرمتِ الفاظ کہلاتی ہیں اور آپ کی غزل میں اس کی کمی مجھے صاف نظر آتی ہے -

کیا تھا جب تو نے حکم جاری کہ گھر کو جاؤ، تو سوچنا تھا
بلا کے سرکش ہیں تیرے شیدا، سجا کے بستر پڑے ہوئے ہیں
== پہلی بات تو یہ کہ یہاں سجا کے نہیں آئیگا - لگا کے لکھتے تو بھی کوئ بات تھی- سجا کے بستر کا اور مفہوم ہے اور یہ پر سکون حالات کے لیئے ہوتا ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ مشکل حالات ہیں - وہی حرمت َ لفظی کا مسئلہ -
پھر مجھے دونوں مصرعوں کے زمانے بھی ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے نہیں لگ رہے ہیں - سوچنا تھا ماضی ہے اور پڑے ہوئے ہیں حال جاریہ ہے - یہ ضعف ردیف ہوئ-
کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں
- یہ شعر مجھے سمجھ نہیں آیا - شاعر کہنا کہا چاہ رہا ہے - اگر اتنے منفی جذبات اسکے دل میں ہیں تو وہ انکا اظہار کیوں کر رہا ہے ؟ اور پھر جب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ باہر نہ مل سکییں گے تو مطلب یہ ہوا کہ محبوب کیا ان چیزوں کو ڈھنڈھ رہا تھا کہ شاعر کہہ رہا ہے یہ باہر نہیں اندر ملیں گے - ان کو ڈھونڈھتا کون ہے ؟
اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ شاعر محبوب کو بتا رہا ہے کہ یہ سب تم اپنے اندر ہی ڈھونڈو تو وہی سوال کہ ان کو ڈھونڈتا کون ہے ؟

اتنا ہی لکھتا ہوں - ہو سکتا ہے آپ ان باتوں سے متفق نہ ہوں تو میں اپنا اور آپ کا مزید وقت کیوں برباد کروں-
شکریہ
آپ کو اپنی رائے مکمل دینی چاہئے تھی، ہوسکتا ہے میں آپ کی بات سے اختلاف کروں، لیکن وہ تو جمہوریت کا حسن ہوا کرتا ہے۔ میری شاعری کی اڑان میری اردو کی قابلیت سے زیادہ بلند ہے، سو ایسی بہت سی باتیں لکھ جاتا ہوں جن پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور میں مکمل طور پر غلط بھی ہوسکتا ہوں۔کہیں میں غلطیوں کو جوں کا توں رہنے دیتا ہوں اور کہیں بہتری پر زور دیتا ہوں۔ یہاں کسی بھی غزل پر مکمل بات ہوجائے تو اچھی بات ہے۔ مجھے کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ کچھ ایسی غلطیاں ہیں جو میں بار بار کرتا ہوں، لیکن اب کافی عرصے بعد دوبارہ لکھنا شروع کیا ہے تو ان کے ساتھ ساتھ نئی غلطیاں بھی سرزد ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ بہت اچھا ہوگا کہ انہیں پہچان کر آئندہ نہ دہرانے کی کوشش کی جائے !
 

ارشد رشید

محفلین
آپ کو اپنی رائے مکمل دینی چاہئے تھی، ہوسکتا ہے میں آپ کی بات سے اختلاف کروں، لیکن وہ تو جمہوریت کا حسن ہوا کرتا ہے۔ میری شاعری کی اڑان میری اردو کی قابلیت سے زیادہ بلند ہے، سو ایسی بہت سی باتیں لکھ جاتا ہوں جن پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور میں مکمل طور پر غلط بھی ہوسکتا ہوں۔کہیں میں غلطیوں کو جوں کا توں رہنے دیتا ہوں اور کہیں بہتری پر زور دیتا ہوں۔ یہاں کسی بھی غزل پر مکمل بات ہوجائے تو اچھی بات ہے۔ مجھے کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ کچھ ایسی غلطیاں ہیں جو میں بار بار کرتا ہوں، لیکن اب کافی عرصے بعد دوبارہ لکھنا شروع کیا ہے تو ان کے ساتھ ساتھ نئی غلطیاں بھی سرزد ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ بہت اچھا ہوگا کہ انہیں پہچان کر آئندہ نہ دہرانے کی کوشش کی جائے !
شاہد صاحب - ابھی نہ آپ کو میں جانتا ہوں نہ آ پ مجھ کو - لہٰذا یہی مناسب لگا کہ کم ہی لکھوں - وہ بھی اس لیئے لکھا کہ آپ کے ہاں شعریت واضح نظر آئی - بس مجھے آپکے ہاں الفاظ کے استعما ل میں مسئلہ نظر آیا جسے میں لفظوں کی حرمت کہتا ہوں -
اب اس پر میں مزید کیا لکھوں اعجاز عبید صاحب لکھ ہی چکے ہیں ہر شعر کی بارے میں-
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
انہیں حقارت سے دیکھتا کیا ہے؟ تیرے در پر پڑے ہوئے ہیں
تری نگاہِ کرم کی خواہش میں لعل و گوہر پڑے ہوئے ہیں

کسی کے شکوے، فریب، طعنے، عداوتیں ، نفرتیں ، فسانے
وہ تجھ کو باہر نہ مل سکیں گے، جو دل کے اندر پڑے ہوئے ہیں

گیا وہ دورِ کہن کہ جس میں ہم ایک مرشد کو ڈھونڈتے تھے
کہ عہدِ حاضر میں ہر قدم پر بہت سے رہبر پڑے ہوئے ہیں

زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں

قرونِ فردا کو جان لینا کسی قیامت سے کم نہیں ہے
کہ چاروں جانب ہیں صرف لاشیں ،کٹے ہوئے سر پڑے ہوئے ہیں
۔۔۔ ابھی تک ، اس غزل کی یہی صورت سمجھ پایا ہوں ۔۔۔پہلا اور آخری شعر مزید توجہ چاہتا ہے ۔۔۔ کچھ سوچنا پڑے گا۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد صاحب - ابھی نہ آپ کو میں جانتا ہوں نہ آ پ مجھ کو - لہٰذا یہی مناسب لگا کہ کم ہی لکھوں - وہ بھی اس لیئے لکھا کہ آپ کے ہاں شعریت واضح نظر آئی - بس مجھے آپکے ہاں الفاظ کے استعما ل میں مسئلہ نظر آیا جسے میں لفظوں کی حرمت کہتا ہوں -
اب اس پر میں مزید کیا لکھوں اعجاز عبید صاحب لکھ ہی چکے ہیں ہر شعر کی بارے میں-

میری رائے میں آپ نے جسے حرمتِ الفاظ کہا، وہ شاید روزمرہ و محاورہ ہو۔۔۔ لیکن آپ کی رائے میں حرمتِ الفاظ کیا ہے؟ اس کا پاس کیسے رکھا جائے؟
 
زمانے والوں کو کیا بتاؤں، میں کیسی دنیا میں آگیا ہوں
یہاں حقیقت ہے خواب جیسی، نظر میں منظر پڑے ہوئے ہیں
ویسے تو استادِ محترم نے مندرجہ بالا شعر دُرست قرار دیا ہے
تو جیسے بات سے بات نکلتی ہے ایسے ہی خیال سے خیال
سوجھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے والوں، تمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں حقیقت ہے خواب جیسی سمجھ پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ویسے تو استادِ محترم نے مندرجہ بالا شعر دُرست قرار دیا ہے
تو جیسے بات سے بات نکلتی ہے ایسے ہی خیال سے خیال
سوجھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
زمانے والوں، تمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں حقیقت ہے خواب جیسی سمجھ پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
خیال تو اچھا ہے۔۔۔ شاعری کے روزمرہ و محاورہ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
زمانے والو! تمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں حقیقت ہے خواب جیسی سمجھ پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
۔۔۔
سمجھ پہ پتھر تو چلیے درست ہوا۔ زمانے والوں! کی جگہ میں نے زمانے والو ہی پڑھا ہے ۔۔ کیا یہ مکتبۂ فکر کا فرق ہے؟
 
سمجھ پہ پتھر تو چلیے درست ہوا۔ زمانے والوں! کی جگہ میں نے زمانے والو ہی پڑھا ہے ۔۔ کیا یہ مکتبۂ فکر کا فرق ہے؟
محترمی!
آپ کی بات بالکل دُرست ہےزمانے والوں کو خطاب میں زمانے والو ہی کہا جائےگا نون غنہ ہٹاکر
تو نون غنہ جو مجھ سے لگا تو یہ میری غلطی تھی۔۔۔۔۔۔۔
زمانے والوتمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(شعر بحر میں رہا اور موزونیت میں کوئی فرق نہیں آیا)
سچ پوچھیں تو سیکھنے سکھانے کے عمل میں ہم سب برابر یعنی ایک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آپ نے تو یقیناً ٹائپنگ کی ہی غلطی کی ہے ۔۔۔ سو وہ کوئی غلطی نہیں ہے۔۔ بہت سے لوگ اس بات پر باضابطہ بحث کرتے ہیں کہ اے زمانے والوں، اے ساتھیوں، اے دوستوں، یہ سب ٹھیک ہے۔ تاحال اس کی کوئی منطق تلاش کرنے سے قاصر ہوں ۔
زمانے والو! تمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں حقیقت ہے خواب جیسی سمجھ پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
۔۔۔ اس میں سوائے ضعفِ اظہار کے ، شاید کوئی اور غلطی نہ نکالی جائے ۔۔۔ میری نظر میں تو کوئی خامی نہیں ۔۔۔
 
زمانے والو! تمھیں بتادوں ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں
جہاں حقیقت ہے خواب جیسی سمجھ پہ پتھر پڑے ہوئے ہیں
۔۔۔
سمجھ پہ پتھر تو چلیے درست ہوا۔ زمانے والوں! کی جگہ میں نے زمانے والو ہی پڑھا ہے ۔۔ کیا یہ مکتبۂ فکر کا فرق ہے؟
جمع ندائی میں ن غنہ نہیں ہوتا ... آپ کی بات درست ہے، یہاں زمانے والو ہی کہا جائے گا
 
عقل پر پتھر پڑنا
سمجھ پر پتھر پڑنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں محاورے دُرست ہیں ازروے فرہنگِ آصفیہ
فرہنگ آصفیہ کا سن تالیف بھی تو دیکھیں ... میرے خیال میں تو فی زمانہ کوئی بھی سمجھ پر پتھر پڑنا نہیں استعمال کرتا ... سو اگر یہ متروک نہ بھی ہو تو غریب ضرور لگتا ہے.
 
Top