انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
لکھنؤ کی اردو کا لطف لیجئے، رتن ناتھ سرشار رقم طراز ہیں..!!!

ایک صاحب غلام نے اپنے غلام کو جو کہ صاحبِ طبعِ لطیف و بذلہ سنج تھا، حکم دیا، کہ بازار جائے اور تاک لگائے، انگور ہاتھ آئے تو فوراََ خرید لائے۔ غلام نے ایک دلبر میوہ فروش ستمگار و ستم کوش کی دکان سے کئی خوشے خریدے اور مٹرگشتی کرتا ہوا خراماں خِراماں آقا کے پاس لے گیا۔ وہ نہایت ہی بد دماغ ہوئے فرمایا کہ ذرا سا کام اور اتنی تاخیر ! اتنی دیر میں تو میں لندن سے ہو آتا، ایسا کاہل دیکھا نہ سنا, خبردار ! اگر آج سے ایک کام کو بھیجوں تو ہاتھوں ہاتھ چار کام انجام دے لانا۔ غلام نے دست بستہ عرض کیا کہ پیر و مرشد اس مرتبہ معاف فرمائیں ان شاء اللہ آئندہ سے ارشادِ واجب الانقیاد کی لفظ بلفظ تعمیل ہوگی۔ دوسرے دن خواجہ صاحب کسی زباں دراز گستاخ کنیز کی عشوہ پردازی پر ایسے گرمائے کہ تپ چڑھ آئی غلام کو حکم دیا کہ کسی طبیب لبیب کو بلاؤ، وہ فورا گیا اور طبیب کے علاوہ چند آدمیوں کو بھی ساتھ لایا۔ خواجہ نے پوچھا یہ جماعت کیسی ہے ہم نے تو حکم دیا تھا کسی طبیب کو بلا لاؤ تم اتنے آدمیوں کو کیوں ساتھ لے آئے ؟ غلام نے بصد احترام عرض کیا حضور تو بھول بھول جاتے ہیں ابھی کل ہی تو تاکید کی تھی اگر ایک کام کا ارشاد کروں تو کئی کام بعجلتِ تمام سر انجام دے لانا۔ الامر فوق الادب. لیجئے آج دم کی دم میں میں نے اتنے کام کئے کہ قدر دانی شرط ہے. حکیم جی کو حسب الحکم حضور بلا لایا کہ تشخیص مرض کرکے معالجہ کریں اور ادھر ہی سے لپکا ہوا گیا اور مطرب خوش الحان کو ساتھ لایا کہ اگر خداوند! عروسِ صحت سے ھم آغوش ہوں تو قوال کی خوش آوازی اور ناخن بازی سے بزم طرب آراستہ ہو، غسّال کو بھی ساتھ لایا کہ زندگی کا کیا بھروسہ کہ اگر پیک اجل حضور کو خلد علّیین کی سیر کرائے تو غسّال جھٹ پٹ غسل دے دے، ادھر سےایک شاعرِ جادو بیاں اور طلیق اللساں کو ہمراہ کیا کہ مرثیہ موزوں کرے اب باقی رہا گور کن تو وہ بھی دم کی دم میں موجود ہوگا مطمئن رہیئے. اب انصاف میرے آقائے نامدار کے ہاتھ ہے، غلام نے انعام ہی کا کام کیا ہے آئندہ اختیار بدست مختار۔
فسانہ آزاد
 

سید عمران

محفلین
لکھنؤ کی اردو کا لطف لیجئے، رتن ناتھ سرشار رقم طراز ہیں..!!!

ایک صاحب غلام نے اپنے غلام کو جو کہ صاحبِ طبعِ لطیف و بذلہ سنج تھا، حکم دیا، کہ بازار جائے اور تاک لگائے، انگور ہاتھ آئے تو فوراََ خرید لائے۔ غلام نے ایک دلبر میوہ فروش ستمگار و ستم کوش کی دکان سے کئی خوشے خریدے اور مٹرگشتی کرتا ہوا خراماں خِراماں آقا کے پاس لے گیا۔ وہ نہایت ہی بد دماغ ہوئے فرمایا کہ ذرا سا کام اور اتنی تاخیر ! اتنی دیر میں تو میں لندن سے ہو آتا، ایسا کاہل دیکھا نہ سنا, خبردار ! اگر آج سے ایک کام کو بھیجوں تو ہاتھوں ہاتھ چار کام انجام دے لانا۔ غلام نے دست بستہ عرض کیا کہ پیر و مرشد اس مرتبہ معاف فرمائیں ان شاء اللہ آئندہ سے ارشادِ واجب الانقیاد کی لفظ بلفظ تعمیل ہوگی۔ دوسرے دن خواجہ صاحب کسی زباں دراز گستاخ کنیز کی عشوہ پردازی پر ایسے گرمائے کہ تپ چڑھ آئی غلام کو حکم دیا کہ کسی طبیب لبیب کو بلاؤ، وہ فورا گیا اور طبیب کے علاوہ چند آدمیوں کو بھی ساتھ لایا۔ خواجہ نے پوچھا یہ جماعت کیسی ہے ہم نے تو حکم دیا تھا کسی طبیب کو بلا لاؤ تم اتنے آدمیوں کو کیوں ساتھ لے آئے ؟ غلام نے بصد احترام عرض کیا حضور تو بھول بھول جاتے ہیں ابھی کل ہی تو تاکید کی تھی اگر ایک کام کا ارشاد کروں تو کئی کام بعجلتِ تمام سر انجام دے لانا۔ الامر فوق الادب. لیجئے آج دم کی دم میں میں نے اتنے کام کئے کہ قدر دانی شرط ہے. حکیم جی کو حسب الحکم حضور بلا لایا کہ تشخیص مرض کرکے معالجہ کریں اور ادھر ہی سے لپکا ہوا گیا اور مطرب خوش الحان کو ساتھ لایا کہ اگر خداوند! عروسِ صحت سے ھم آغوش ہوں تو قوال کی خوش آوازی اور ناخن بازی سے بزم طرب آراستہ ہو، غسّال کو بھی ساتھ لایا کہ زندگی کا کیا بھروسہ کہ اگر پیک اجل حضور کو خلد علّیین کی سیر کرائے تو غسّال جھٹ پٹ غسل دے دے، ادھر سےایک شاعرِ جادو بیاں اور طلیق اللساں کو ہمراہ کیا کہ مرثیہ موزوں کرے اب باقی رہا گور کن تو وہ بھی دم کی دم میں موجود ہوگا مطمئن رہیئے. اب انصاف میرے آقائے نامدار کے ہاتھ ہے، غلام نے انعام ہی کا کام کیا ہے آئندہ اختیار بدست مختار۔
فسانہ آزاد
اس سبق سے ہمیں یہ سبق ملا کہ اب کے آپ کے معصوم بھیا ہم سے کوئی کام کہیں گے تو ہم بھی تعمیل میں پوری بارات لے جائیں گے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
میری یادیں !!!!!
آج میں آپ کو اپنے ماں باپ کا تعارف کراؤں گی،🤗
سب کے والدین انکے لئیے دنیا کی سب سے انمول چیز ھوتے ھیں،👌💕میرے والدین مگر کچھ مختلف تھے۔اسکی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ماں کیونکہ لکھنؤ کی نہایت تہزیب یافتہ با ادب اور نفیس خاندان سے تھیں،💞میرے نانا لکھنؤ کے نامی گرامی بیرسٹر تھے۔۔اس لئیے گھر کا ماحول بھی بڑا پڑھا لکھا علمی اور ادبی ذوق رکھنے والا تھا۔جس کے سارے رنگ ماں میں تھے ۔۔شعرو شاعری ھر شاعر کے بارے میں وسیع معلومات تھیں۔خود بھی شاعری کرتیں تھیں۔نہایت بازوق خاتون تھیں۔اور نہایت پیار کرنے والی ماں،❣️مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کبھی اونچی آواز میں ھمیں ڈانٹا ھوگا۔۔۔یہ سارا کچھ ابا نے جو کرنا تھا،😀
چلیں اب والد صاحب کا بتائیں وہ کانپور کے ایک جاگیر دارفیملی سے تھے۔۔نہایت خوبصورت پرسنالٹی والے بڑے رعب و دبدبے والے۔۔۔کیوں کے صرف دو ھی بھائ اوپر سے یہ چھوٹے ھونے کی وجہ سے لاڈوپیار سے بھی مالا مال رہے ،👌💞اس لئیے مزاج بھی آپ سمجھ جائیں کیسا ھوگا،🤣اب میرے ماں باپ کے فرق کو واضح طور پر سمجھ جائیں،🤗بس اللہ نے میرے ماں باپ کی جوڑی بنا دی ۔اسمیں بھی اللہ کی کوئ حکمت ھی ھوگی،😂والد صاحب امی سے عشق کی حد تک محبت کرتے تھے۔ھم بہن بھائ تو پریشان ھوجاتے تھے کیونکہ والد صاحب امی کو صرف بچوں کے علاؤہ کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتے تھے امی اپنے بہن بھائیوں کے گھر جانے ان کے گھر رہنے کے لئیے بے چین رہتیں تھیں۔بہرحال ھم سب بہن بھائ امی کی ڈھال بن جاتے تھے اور کسی نا کسی طرح والد صاحب کو منا لیتے تھے،🙏جب تک والد صاحب حیات رہے سب بہن بھائیوں کی شادیاں ھوگئیں نانا دادا بن گئے والد صاحب۔۔۔مگر عاشقی میں کمی نہیں آئ۔۔۔۔۔
شاید امی کو اتنی محبتوں والی پابندیاں بہت پریشان کرتیں تھیں۔والد صاحب کی خدمت انکی عزت میں کبھی کمی نہیں آنے دی،🙏 اب آپ بتائیں کیا تھا یہ سب یہ کیسی محبت تھی مجھے تو سمجھ نہیں آئ آج تک،🙏🤔🤔🤔🤔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک دن یکایک ہماری کلاس یعنی ایم اے فائنل کے لڑکوں میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ ہمارے ایک منحنی سے ہم جماعت مولوی عبدالرحمن کو ایف اے کی طالبہ کی ٹیوشن مل گئی ہے۔ چرچا ٹیوشن کی وجہ سے نہ تھا بلکہ لڑکی کی وجہ سے کیوں کہ افواہ کی رو سے لڑکی حسین ہی نہ تھی ، فطین بھی تھی ۔
لڑکی کے کوائف سن کر مولوی عبدالرحمن کے ہم جماعت رشک اور حسد سے حسب توفیق لال پیلے اور نیلے ہونے لگے ۔ کئی ایک نے مولوی صاحب کی داڑھی کے متعلق ناروا سی باتیں بھی کیں اور درمیان میں ان جانوروں کا ذکر لے آئے جن کی تھوڑی کے نیچے بال ہوتے ہیں ۔
قسمت سے اصل شکایت تو یہ تھی کہ اس ٹیوشن کے لئے ہم کیوں نہ چنے گئے ۔ یعنی ہم کہ سرخ و سپید ، بانکے ، بے فکرے چھ فٹ قد کے جوان رعنا تھے ۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ قسمت قد ناپ کر نعمتیں تقسیم نہیں کرتی ۔ ہاں کبھی کبھی بے اے کے نمبر دیکھ لیتی ہے اور اس میں مولوی صاحب ہمیں کوئی دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے تھے ۔

ایک دن سامنے سے آتے ہوئے مولوی عبدالرحمن ملے تو انہیں مبارک باد پیش کردی ۔
مولوی صاحب نے حسد کے طوفان میں مبارک باد کی آواز سنی تو ہمیں سینے سے لگا لیا ۔۔۔بولے :
" ساری کلاس میں ایک تم شریف لڑکے ہو "
میں نے کہا :
" اور آپ شریف ہی نہیں ، قابل بھی ہیں ۔ یہ ٹیوشن آپ ہی کو ملنا چاہئے تھی ۔ "

ایک روز مولوی صاحب ذرا خلاف معمول پریشاں حال نظر آئے ۔ وجہ پوچھی تو بولے : گاؤں سے اطلاع آئی ہے کہ ماں بیمار ہے ۔ ماں کی عیادت بھی لازم ہے اور ٹیوشن میں ناغہ ہوا تو بیرسٹر صاحب کے ناراض ہونے کا بھی خوف ہے ۔ "
بیرسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر جانا لازمی ہے تو اپنی جگہ کوئی موزوں آدمی دے کر جاو ۔ اب میں موزوں آدمی کہاں سے لاؤں ؟ "
مولانا بولے " بس ایک ہی صورت ہے "
مثلاً ؟
" مثلاً یہ کہ اگر آپ زحمت نہ سمجھیں تو دو روز میری جگہ پڑھا آئیں ۔ "
یہ تو وہی بات ہوئی کہ دعا منہہ سے نکلی نہیں اور اجابت نے دروازہ آ کھٹکھٹایا ۔

" میں نے بیرسٹر صاحب سے آپ کا ذکر کیا تھا ۔ وہ آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آج شام میرے ساتھ چلئے گا ۔ "
شام بیرسٹر صاحب کے دولت کدے پر پہنچے ۔
بیرسٹر صاحب نے بظاہر تو مزاج پرسی کی ، لیکن حقیقت میں ہمارا معائنہ کرنے لگے جو طبی معائنے سے بہت کچھ ملتا جلتا تھا ۔
فرمایا : " لڑکا شریف ہی لگتا ہے ۔ "
پھر مولوی صاحب کو رخصت دے دی اور ہمیں رضیہ تک پہنچا آئے ۔
رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں ، کیا فتنہ گر قد و گیسو تھی !

فرمائیں آپ کا سبق کس غزل پر ہے ؟
جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرعے پر انگلی رکھ دی لیکن منہہ سے کچھ نہ بولی ۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی ۔
" یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا "
میں نے کہا :
یہ تو بڑی لا جواب غزل ہے ۔ ذرا پڑھئے تو ۔
رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے ۔
" یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل ۔۔۔۔۔"
میں نے ٹوک کر کہا :
" یہ وصل نہیں ، وصال ہے ۔ وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں ۔"

رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا ۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا :
" اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا "
میں نے رضیہ کی دلجوئی کے لئے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا :
" شاباش ، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے "
" اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی ۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنی بتا دیں ۔ "
ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئےکہا :
" مطلب صاف ہے ۔ غالب کہتا ہے ۔ قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا ۔ چناچہ اب موت قریب ہے ، مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی ۔ "
" توبہ اللہ ، اتنا Lack of confidence یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھے ۔ "

ہم دوسرے روز پڑھانے گئے ۔ سبق تو دوسرے شعر سے بہت آگے نہ بڑھا لیکن باہمی مفاہمت میں خاصی پیش رفت ہوئی ۔
تیسرے روز مولوی صاحب آ گئے اور ہمیں دوستوں نے آ گھیرا کہ دو روزہ ٹیوشن کی روداد سناو۔ ہم کہانی سنا چکے تو ہماری کلاس کے ذہین مسخرے ، لطیف نے باقی لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
" دوستو خاموش اور ذرا توجہ سے سنئے : "
ساری کلاس خاموش ہو گئی ۔ لطیف نے بولنا جاری رکھا :
" میرا ستاروں کا علم کہتا ہے کہ اگلے سال ہمارے اس خوش نصیب ہم جماعت کی شادی ہو جائے گی ۔ ذرا بتاو تو سہی اس کی دلہن کا کیا نام ہو گا ؟ "
ساری جماعت نے یک زبان ہو کر کہا :
" رضیہ ! "
اس پر بے پناہ تالیاں بجیں ۔ لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور اودھم مچایا ۔

قارئین۔ کیا آپ کو بھی میرے ہم جماعتوں سے اتفاق ہے ؟
سنئے اگلے سال رضیہ سچ مچ دلہن تو بنی ، لیکن ہماری نہیں ، مولوی عبدالرحمن کی !
حادثہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کے بعد مولوی عبدالرحمن اور ہم سی ایس پی کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور مولوی صاحب ہمیں یہاں بھی دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے ۔
اس کامیابی کے بعد ان کے لئے رضیہ سے شادی میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور مولانا نے یہ رکاوٹ برضا و رغبت ، پہلے نائی کے ہاتھوں دور کرا دی ۔ برضا و رغبت اس لئے کہ بقول مولوی صاحب ، ایک دن انہوں نے کانی آنکھ سے رضیہ کو دیکھ لیا تھا اور پھر دل میں عہد کر لیا تھا کہ داڑھی کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے ہیں ۔
ادھر بیرسٹر صاحب تو مولوی عبدالرحمن کے نام کے ساتھ سی ایس پی دیکھ کر داڑھی کی قربانی پر بھی مصر نہ تھے ۔

رہے ہم تو جونہی مولوی صاحب اپنی دلہن کو لے کر ہنی مون پر روانہ ہوئے ، ہم دیوان غالب کھول کر ایک لا جواب غزل الاپنے لگے :
" یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصال یار ہوتا "

بزم آرائیاں ۔۔۔۔۔۔کرنل محمد خان
 

سیما علی

لائبریرین
کیا زبردست تحریر ہے 😂😂

دیسی خواتین کو باورچی خانے کے ڈونگے اور ڈبے کس قدر عزیز ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لگاسکتے ہیں جن کے گھر ان ڈبوں میں کوئی چیز آتی ہے۔ تعلقات پر ہوسکتا ہے لیکن ڈبے پر نو کمپرومائز ۔۔ 🤕
فون پہ گفتگو کا محور و مرکز ہی پلاسٹک کے ڈبے ہوتے ہیں

_______________
اماں : صبح بھائی کے ہاتھ کریلے گوشت بھیج رہی ہوں ، جو پہلے دو ڈبے ہیں نیلے رنگ کے وہ بھی واپس کر دینا یاد سے ۔۔
* تو کیا وہ ڈونگے اور ڈبے لیکر بینک جائے گا ؟
اماں : ڈبے ہی ہیں بم نہیں ، تم بس دے دینا ۔۔
* جی اچھا !
________________
* کل ہم اسلام آباد جارہے ہیں اماں
اماں : سفر بخیر ، واپسی پہ انٹر چینج سے گزرتے ہوئے وہ ڈبے پکڑاتی جانا جن میں گجریلا اور اچار بھیجا تھا ۔
* لیکن موٹروے سے آپ کا گھر ستر کلومیٹر دور ہے ۔۔
اماں: تو کیا ہوا ؟ چل کے تھوڑی آنا ہے ۔
* جتنے کا فیول لگے گا اس میں دس نئے ڈبے آجائیں گے 🤕
اماں : ٹھیک ہے ، نئے ہی لیتی آنا

_______________
اماں فلاں جگہ فوتگی ہوگئی ہے، آپ جائیں گی یا ابا ؟
اماں : تمارے ابا ہی جائیں گے ، تم وہ شیشے کا ڈبا لیتی آنا جس میں مربہ بھیجا تھا ۔
* میں تو نہیں آ رہی ، آپ کے داماد ہی آئیں گے ۔
اماں : اچھا تو اس کے ہاتھ بھیج دینا ، کپڑے میں لپیٹ کے شاپر میں ڈالنا ، ٹھیس نہ لگے ۔
* وہ دیں گے کس کو ؟
اماں: تمہارے ابا جنازہ گاہ میں ہونگے، ان کو ۔۔۔
______________

* یہ لیں اس بار میں خود ہی لے آئی آپ کے دونوں ڈبے !
اماں : اچھا کیا، لیکن اس کا توڈھکن نیلے رنگ کا تھا ، بدل لائی ہو تم ؟
* کوئی بات نہیں ، ڈھکن لگا تو ہوا ہے نا ۔
اماں: نہیں تم ڈھکن لیتی جاو ، اور وہی نیلا ڈھکن بھیجنا میرا پورا سیٹ خراب ہوتا ہے ۔
_______________
اماں : آم کا مربہ بنایا تھا ، کل تمہارے بھائی کا شاید چکر لگے میں بھیج دوں گی ۔
* شاپر ڈبل کر دیجے گا ، ڈبے سے شیرہ نہ گرجائے گاڑی میں۔
اماں: میں اس بار شاپر میں ڈال کے ہی بھیج رہی ہوں ، اپنے ڈبے میں ڈال لینا۔ واپس تو تم کرتی نہیں ہو۔

 

سیما علی

لائبریرین
’’میرا پہلا روزہ اور عید کا چاند‘‘
مستنصر حسین تارڑ۔

میری عمر کے باباجات کے ساتھ صحت کے کچھ مسائل کے علاوہ ایک اور ٹریجڈی یہ ہوتی ہے کہ لوگ ہمیں پتھر کے زمانے کا سمجھتے ہیں کہ اچھا آپ کے زمانے میں ہوائی جہاز ایجاد ہو گیا تھا۔ اچھا اگر آپ کے بچپن میں برگر اور پیزا نہیں ہوتا تھا تو آپ کھاتے کیا تھے۔ علاوہ ازیں ہر ایک آپ کی صحت کے بارے تشویش کا اظہار کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ یعنی آپ کسی پارک میں ذرا دھیرے دھیرے احتیاط سے سیر کر رہے ہیں تو ایک نوجوان آپ کو پہچان کر سلام دعا سے فارغ ہو کر پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ تارڑ صاحب آپ کی صحت کیسی ہے، ٹھیک تو ہیں ناں؟ اس پر میں نہایت تحمل سے جواب دیتا ہوں کہ جی اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے، شکر ہے اس ذات کا کہ ماشاء اللہ روزانہ تین چار کلو میٹر پیدل چل لیتا ہوں۔ بے شک آہستہ آہستہ لیکن چل لیتا ہوں۔ اس پر وہ نوجوان جو کہ خود بھی پچاس کے پیٹے میں ہے کہتا ہے کہ…آپ کو شوگر کا عارضہ تو نہیں، تو میں جواب دیتا ہوں کہ ابھی تک تو نہیں، بعد ازاں بلڈ پریشر، گھٹنوں کے درد اور عارضہ قلب کے بارے میں تشویش ظاہر کی جاتی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ جی وہ بلڈ پریشر کے لیے چند گولیاں پھانک لیتا ہوں، ابھی تک تو قابو میں ہے، گھٹنے کبھی کبھار اٹھتے ہوئے کچھ کڑ کڑاتے ہیں ورنہ شکر ہے اور کوئی ایسا عارضہ لاحق نہیں جس کی تفصیل بیان کی جا سکے۔ وہ نوجوان بے حد مایوس ہوتے ہیں بلکہ رنجیدہ اور خفا سے لگتے ہیں اور رخصت ہوتے ہوئے کہتے ہیں، ویسے اس عمر میں اپنا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ شاید ہماری نفسیات میں شامل ہے کہ ہم ادھیڑ عمر حضرات سے توقع رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہو…اگر دل کا عارضہ ہو تو سن کرکھل اٹھتے ہیں اور فوری طور پر امراض قلب کے چند ماہرین کے پاس فوری طور چیک اپ کے لیے جانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ میرے والد صاحب بھی ان کے زیر علاج تھے، ابھی پچھلے برس ہی ان کا انتقال ہوا ہے۔ لیکن اس رمضان میں سب سے دلچسپ سوال ایک بچے نے کیا کہ انکل کیا آپ کے زمانے میں بھی عید ہوا کرتی تھی تو میں نے مسکراتے ہوئے اپنے بچپن کی عیدوں کا کچھ تذکرہ کیا لیکن بچے نے ایک اور عجیب سوال داغ دیا، تو انکل آپ کے زمانے میں بھی رویت ہلال کمیٹی ہوا کرتی تھی تو میں نے ذرا گڑ بڑا کر کہا کہ نہیں وہ تو نہیں ہوتی تھی تو بچہ ذرا پریشان ہو کر بولا، تو پھر آپ کو کیسے پتہ چلتا تھا کہ عید کب ہو گی۔ ایسے تمام پریشان بچوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارے زمانے میں کسی بھی نوعیت کی کمیٹی وغیرہ نہ ہونے کے باوجود عید ہو جاتی تھی اور ظاہر ہے رمضان کے چاند کے بارے میں بھی ہمیں خبر ہو جاتی تھی۔ ہے ناں حیرت انگیز بات۔ ان دنوں بھی دو عیدیں اکثر ہو جاتی ہیں اور ان دنوں بھی دو سے زیادہ عیدیں تو ہرگز نہ ہوتی تھیں حالانکہ ہمیں رویت ہلال کمیٹی کی سہولت بھی ہرگز حاصل نہ ہوتی تھی۔ مجھے اپنا آخری روزہ یاد ہو کہ نہ یاد ہو، پہلا روزہ خوب یاد ہے جیسے کل کی بات ہو…اور یہ پوری پون صدی پیشتر کا قصہ ہے۔ میں ننھیال میں ہوں اور منع کرنے کے باوجود روزہ رکھنے کا شوق ہے، سحری کے وقت نانی جان اپنے ہاتھوں سے مکھن کا پراٹھا تیار کر کے اس کے اوپر بھی چاٹی کے مکھن کا ایک پیڑہ رکھ کر جس پر چینی چھڑکی گئی ہے مجھے کھلاتی ہیں۔ لسی پلاتی ہیں اور جونہی مقامی مسجد سے اذان بلند ہوتی ہے، وہ دودھ کا ایک کٹورہ مجھے تقریباً زبردستی پلا دیتی ہیں۔ اگلے روز جو مجھ پر گزری وہ میں جانتا ہوں۔ شدید گرمیوں کے زمانے تھے، دس بجے تک پیاس سے برا حال ہو گیا، مجھے متعدد بار ہینڈ پمپ کے نیچے بٹھا کر نہلایا گیا اور جب اس سے بھی افاقہ نہ ہوا تو امی جان نے سمجھایا کہ بچوں کے لیے گنجائش ہے وہ بارہ بجے روزہ کھول سکتے ہیں لیکن میں اتنا نادان بھی نہ تھا کہ ’’چڑی روزے‘‘ پر اکتفا کر جاتا، ڈٹا رہا… پھر نانی جان نے میری حالت دیکھ کر بتایا کہ صرف پانی پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، تب بھی میں نہ مانا کہ میں خوب جانتا تھا کہ گھر والے شام تک بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے ہیں، پانی نہیں پیتے۔ ہمارے صحن میں دھریک کا ایک گھنا درخت تھا، نانی جان جنہیں میں بے بے جی کہتا تھا انہوں نے میرا دھیان لگانے کی خاطر کہا کہ دیکھو اس دھریک کا ابھی کوئی سایہ نہیں، تھوڑی دیر بعد دوپہر ہو گی۔ سورج ڈھلنے لگے گا تو اس کا سایہ نمودار ہو گا۔ پہلے صحن میں پھیلے گا اور پھر گھر کی دیوار پر چڑھنے لگے گا۔ جب یہ سایہ دیوار کے نصف حصے پر چھا جائے گا تو روزہ کھولنے کی تیاری شروع ہو جائے گی۔ اب میں کبھی نیم اندھیارے پسار میں بچھے ہوئے پلنگ پر جا لیٹتا۔ کچھ دیر ناتوانی سے اونگھتا اور پھر اٹھ کر صحن میں جا کر دھریک کے سائے کا بغور جائزہ لیتا۔ مجھے لگتا کہ سایہ دیوار کی دوسری اینٹ سے اوپر جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جان بوجھ کر ٹھہر گیا ہے۔ اس دوران بے بے جی نے رات کے پانی میں بھگوئے ہوئے باداموں کا کٹورہ میرے سامنے رکھ دیا کہ ایک ایک کر کے ان کے چھلکے اتارو، جب آخری بادام کا چھلکا اتار لو گے تو بس یوں سمجھو کہ افطاری کا وقت قریب آ گیا ہے اور اس ناتوانی اور پیاس میں باداموں کے چھلکے اتارنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اب میں ایک بادام کاچھلکا بمشکل اتارتا اور پھر دیوار پر دھریک کے سائے کو ایک نظر دیکھتا۔ نہ بادام کم ہوتے اور نہ سایہ دیوار پر ذرہ بھر حرکت کرتا۔ اس دوران مجھے ایک بار پھر قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ صرف شربت کے دو گھونٹ پینے سے تو روزہ ہرگز نہیں ٹوٹتا اور شربت پھتوشیخ کی اماں کا بنایا ہوا جس کا نام شاید بزوری تھا۔ ویسے اب مجھ میں اتنی سکت بھی نہ رہی تھی کہ شربت کا گلاس تھام سکتا۔ قصہ مختصر بالآخر میں نے سارے باداموں کے چھلکے اتار دیئے اور وہ کٹورے میں سفید موتیوں کی مانند دمکنے لگے۔ بے بے جی نے ان باداموں کو کونڈی میں ڈال کر خوب گھوٹا اور پھر دودھ ملا کر خوب پھینٹا۔ اُدھر دیوار بھی آخر کار پورے سائے میں چلی گئی۔ مولوی صاحب نے اذان شروع کی تو وہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت اور مترنم آواز تھی۔ باداموں والے دودھ کے دو تین کٹورے پینے کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو بے بے جی اور امی جان نے مجھے خوب خوب پیار کیا اور ایک ایک روپے کے دو سکے مجھ پر نچھاور کیے۔ اس رمضان کی انتیسویں کی شب روزہ کھولنے کے بعد، اور ہاں میرے لیے وہ ایک روزہ ہی کافی تھا۔ محلے کی چھتیں لوگوں سے بھر گئیں۔ کوئی میلے کا سا سماں تھا۔ سب لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور سب کی نظریں آسمان پر تھیں کہ دیکھیں آج چاند نظر آتا ہے کہ نہیں۔ بچے خاص طور پر یکدم غل مچا دیتے کہ وہ مسجد کے مینار کے اوپر ابھی ابھی دکھائی دیا تھا۔ جانے کہاں چلا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب شام کی تاریکی کچھ بڑھ گئی اور چاند نظر نہ آیا تو بیشتر لوگ اگلے روزے کی تیاری کے لیے چھتوں سے اتر گئے۔ کچھ دیربعد پھر شور اٹھا کہ چاند نظر آ گیا ہے اور پھر بھگدڑ مچ گئی اور سب لوگ واپس اپنی اپنی چھتوں پر۔ اس دوران مسجد کے صحن میں رکھی نوبت کی آواز آنے لگی جو اگلے روز عید ہو جانے کی نوید تھی۔ چھتوں پر لڑکیاں بالیاں چڑیوں کی مانند چہکنے لگیں۔ چوڑیاں کھنکنے لگیں، مہندی گھولی جانے لگی، گائوں کے واحد حلوائی نے کڑھائی چڑھا کر جب جلیبیاں تلنی شروع کیں تو ان کی گرم میٹھی خوشبو ہر گھر کے اندر داخل ہو کر گویا عید مبارک کہنے لگی۔ امی جان دہکے ہوئے کوئلوں کی بھاری استری سے میرا عید کا نیا جوڑا استری کرنے لگیں اور وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں مجھے یاد ہے ذرا ذرا…اور بے بے جی نے لالٹین کے شیشے لشکا کر اسے روشن کیا اور اب اندھیرے میں اترتی صحن کی دیوار پر رکھ دیا…پون صدی پہلے کی عید مبارک!!!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
🌹"محبت کی خوشبو ، تہوار کے رنگ"🌹
___________________________
ہم جہاں پلے بڑھے ہیں، وہاں ہم محبتوں کے بڑے عجیب روپ سے مانوس ہیں. یہاں کسی کا نام سن کر کانوں کی لویں سرخ ہو جاتی تھیں اور بندھن بندھ جانے پر زندگی اس کے ہوتے ہی نہیں، اس کے نہ ہونے پر بھی اسی کے نام گزاری جاتی تھی۔ دل جس کے نام پر دھڑکتا تھا اس کے بعد کسی کا سوچنا بھی گناہ عظیم لگتا تھا اور اس کے نام کی حرمت اپنی جان سے بھی بڑھ جاتی ہے.

جس محبت سے ہم آشنا ہیں، وہ مسجد کے طاق میں جلتی شمع کی دھیمی دھیمی خوشبودار لو کی طرح مقدس ہے. وہ روح کو منور تو کر دیتی ہے لیکن کسی کو جلا کر راکھ کر دینے کا سوچتی بھی نہیں.

یہ محبت وفاشعاری، قربانی اور وقار کے ساتھ کسی کے ساتھ جینے کا ہی نہیں کسی کے نام پر زندگی بتا دینے کا نام ہے. ہمارے شاعر اور ادیب ہمیں بتاتے رہے کہ عشق کی دنیا میں ہجروفراق خود شناسی کے سفر کا وہ دروازہ ہے جو معرفت حقیقی تک لے جاتا ہے.اور خواہشات نفس کی بندگی، ہوس پرستی کا دوسرا نام ہے.

ہم اپنے اماں ابا کے بیچ بڑا عجیب رشتہ دیکھتے ہیں. جذباتی سی اماں جو ابا کا نام نہیں لیتیں اور ابا جو اماں کے لئے پھول اور کارڈ نہیں لاتے. مگر کچھ ایسا ہے کہ شام کے سمے اماں گھر سے باہر کہیں بھی ہوں، گھر جانے کے لئے بے چین ہونے لگتی ہیں کہ ابا کے آنے کا وقت ہے انھیں کھانا دینا ہے. آپ چڑ کر کہیں "ارے بھئی! ایسی بھی کیا وحشت. سب بنا کر تو آئی ہیں، کھا لیں گے خود".تو وہ برا مان کر کہتی ہیں، "یہ اچھی کہی. ایک بے چارہ آدمی، سارے دن کا تھکا ہارا، گھر پہنچے تو کوئی حال پوچھنے والا، دسترخوان سجا کر کھانا دینے والا بھی نہ ہو. ایسا ہی ہے تو کوئی ہوٹل سے کھانا نہ کھالے، گھر کیوں آئے ؟ " اور خاموش سے ابا، جو گھر آنے پر اماں کو لمحے بھر کو بھی سامنے نہ پائیں تو ہرکمرے میں جھانک کر پوچھنے لگتے ہیں "بھئی!! تمہاری امی کہاں ہیں؟" ہماری خالائیں بڑی خاموشی سے خالوؤں کی پیالی میں چپکے سے چائے بنا کر پی لیا کرتیں اور ان کی پلیٹ میں وہیں سے کھانا کھاتیں جہاں خالو نے چھوڑا ہو. ہمارے چچا اور پھوپھا وغیرہ کچھ عرصہ گزر جانے پر ساری گرہستی اپنی زوجہ کے ذمہ لگا کر بے فکرے ہو جاتے اور ہر بات پہ کہتے ہیں کہ اپنی پھپھو / چچی سے پوچھو بھئی، ہمیں کیا خبر.
ہماری عم زاد اور چچازاد جو شادی کے سپنے دیکھتے دیکھتے جب پیا دیس سدھارتیں تو ویسے تو اپنے شوہروں سے خوب خوب جھگڑتی اور خفا ہوتی ہیں، مگر جو کہیں کسی اور کے میاں سے تقابل کاموقع آئے تو اپنے مجازی خداؤں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر ثابت کرنے لگتی ہیں کہ ان کے میاں سے زیادہ اچھا تو اور کوئی ہے ہی نہیں . اور ہماری سہیلیاں ہزار جتنوں سے چوری چھپے اپنے شوہروں کے ساتھ بازار جاکر چاند رات کو مہندی لگوانے اور کھسے خریدنے کے مزیدار قصے سنا کر ہمارا دل جلاتی ہیں.
ہم خود جو سب لڑکیوں کی طرح خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے، اپنے شوہرنامدار کی انتہائی غیر رومانوی اور غیرشاعرانہ (بلکہ اینٹی شاعرانہ) طبیعت پر روہانسو ہو جاتے تو ہماری امی سمجھاتیں، "محبتوں کے رنگ ایک سے تو نہیں ہوتے، سب کا انداز جدا ہوتا ہے. تم اپنی خواہش کو نہ دیکھو ، اس کی محبت کے رنگ کو سمجھنے کی کوشش کرو". یہ وہی امی ہیں جن کی ہمارے صاحب سےخوب گاڑھی چھنتی ہے، وہ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور ہماری شکایتیں کرتے ہیں اور یہ ہنس ہنس کر سنتی جاتی ہیں. بس کبھی کبھی مسکرا کر کہتی ہیں، "کبھی کبھی آپ کوئی جتن نہ کیا کریں، بس انہیں ایک گلاب کا پھول یا موتیے کا گجرا لادیا کریں پھر دیکھیں.."

پھر وقت کے ساتھ ہم نے بھی جاناکہ اگر ہم کبھی جھگڑنے کے بعد بھوکا سونے کی کوشش کریں تو ہمارے صاحب کو جو اتنا شدید غصہ اتا ہے، اسی میں دراصل کچھ گڑبڑ ہے. ہماری ہر مشکل میں وہ ہمیشہ کبھی ڈھال بن کر اور کبھی پشت بن کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس کی کمی کیا کسی رومانوی شعر سے پوری ہو سکتی تھی.

یہ جو آج ہم جینز پہن کرفری وے پراپنی ساس کو لیے گاڑی دوڑاتے پھرتے ہیں، بغیر پوچھے بڑے مان سے دوسرے شہروں میں ہونے والے کتب میلوں میں جانے پر حامی بھر لیتے ہیں، سائیڈ مررکے ٹوٹ جانے پر بگڑ کر ان سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ٹوٹا ہے، آپ کیوں کہتے ہیں کہ گاڑی بالکل دیوار سے لگا کر کھڑی کرو. اپنی کسی ناکامی پر ان کے سامنے منہ بسورتے ہیں تو وہ مسکرا کر ہمارا حوصلہ بڑھا تے ہیں.. کیا یہ محبت نہیں ہے؟ تسلیم کہ کئی لمحے آتے ہیں جب ایک دوسرے سے شدید خفگی ہو جاتی ہے.. لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کو چھوڑنے کے خیال سے ہی سانس سینے میں اٹکنے لگتا ہے.

ہماری یادوں میں وہ بے حد خوبصورت مگر عمر رسیدہ جوڑا بسا ہے جو ہماری دادی اماں کی گلی میں برسوں سے رہا کرتا تھا. دادی بتاتی تھیں کہ طوطے والی خالہ بیاہ کر اس گھر میں آئی تھیں. اس بے اولاد جوڑے کے گھر میں ہمارے لئے کشش ان کی ایک چھوٹی سی کتابوں کی دکان تھی، جہاں ہم دوڑ دوڑ کر نئی کہانیاں خریدنے جاتے، اور خالہ خالو کی ادب آداب سے سجی میٹھی میٹھی خوشبو دار باتوں سے خوش ہو کر لوٹتے.

وقت ہمیشہ کی طرح نئے موسموں کے ساتھ ایک بار پھر ہمارے گھروں پر دستک دے رہا ہے. تبدیلی کو کون روک سکاہے . لوگ نئی روایتوں اور نئے طریقوں کی رنگینیوں اور نشوں سے مدہوش ہو رہے ہیں. میں اپنی مانوس خوشبوؤں اور خوشیوں کی اسیر کسی کو نئے رنگ اوڑھنے سے کیسے روک سکتی ہوں. مذہب تو ویسے بھی ایک غیر حقیقی نہیں تو کم از کم "متنازعہ معاملہ " ضرور ٹھہرا کہ اس کا حوالہ اب معتبر ہی کہاں. مشرق کی روایات بھی فرسودہ اور مختلف فیه گردانی جاننے لگیں. سائنس اور آزادئ اظہار کی راہ میں رکاوٹ جو ہیں. مگر دانشوران دہر سے ایک گزارش ضرور ہے. خدارا یہ تو نہ کہیں کہ میری مانوس روایات محبت آشنا ہی نہیں رہیں، انہیں محبت کا سلیقہ ہی نہیں آیا.

آپ کہیے کہ ہمیں محبت کے اس ڈھکے چھپے، تہذیب کے رنگوں سے سجے، مذہب کی ہدایات میں ڈھلے طریقوں کی فرسودگی سے گھٹن محسوس ہوتی ہے، آپ کہہ دیجیے کہ آپ کو کچھ اور رنگ پسند ہیں، اظہار اور تعلق کے کچھ اور انداز بھاتے ہیں، آپ یہ سب کہیے اور ہم تسلیم کریں گے مگر خدارا یہ تو نہ کہیے کہ میری تہذیب رنگوں اور خوشبوؤں کو نہیں جانتی تھی.
وہ تہذیب جس میں نکاح محبت کا تہوار ٹھہرا ہے. اورکئی کئی روز تک منایا جاتا ہے. روایات اور تہذیب سےسجا یہ تہوار ایسی قوس و قزح ہے کہ صرف دلہن کے جوڑوں کے رنگ اور سجاوٹ دیکھ کر اجنبیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں. اس تہوار میں محبت حنا بن کر ہاتھوں میں سجتی ہے، ابٹن بن کر سانسوں کو مہکاتی ہے، سکھیوں، سہیلیوں، دور پار کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں تک کو شامل کرتی ہے. آپ یہ تو نہ کہیے کہ ہمیں رنگوں، خوشیوں، اورخوشبوؤں سے آشنائی نہیں رہی.اس لئے ہم باہر سے مانگ کر لائے ہیں.
اس نئے نویلے تہوار کے جلووں کو دیکھ کردھڑکتا ہوا دل صرف یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا محبت کا نام اب عبادت کا سا مقدس نہیں رہے گا؟ کیا یہ بازار میں رلتے اس کھلونے کی طرح رسوا ہو گا جسے کبھی ایک بچہ کچھ دیر کھیل کر دیکھتا ہے ، خوش ہو کرسب کو دکھاتا ہے اورپھر دل بھر جانے پر پھینک دیتا ہے؟ کیا محبت وفا شعاری ، قربانی اور اپنی جان کی حرمت سے زیادہ ہو جانے والی قدر نہیں رہے گی؟

دیکھئے ! ہم مذہب کے نام پر آپ کے ساتھ اگر روک ٹوک نہیں کرتے تو آپ بھی بھولا سمجھ کر ہمیں نہ بہلائیے

آپ اپنا تہوار منائیے .. ہم پاکستان میں اپنی عم زاد کی شادی کےہنگاموں کا تہوار منائیں گے اور زور و شور سے منائیں گے۔ آپ اس اظہار وطریق محبت کے رنگوں سے لطف اندوز ہوں جن کے زخموں پر مرہم رکھنے کا فن ہم یہاں سیکھنے آئے ہیں. یہ تذکرہ صرف اسلیے کہ کوئی میری روایات کے کچھ کسیلے پھلوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نہ بھول جائے کہ کڑوے پھلوں اور کانٹوں کی فصل اس دوسرے طریق کو بھی کاٹنی پڑتی ہی ہے.!!!
 

سیما علی

لائبریرین
اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مرادآبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔ دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند علماء حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود علماء حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔ اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔ سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ،اگر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے،

شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شاید خدا کو مجھ پر ترس آجائے ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر شریف پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے؎
کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔ سٹیج سے آواز ابھری’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی!‘‘ ۔۔۔۔۔۔اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا… اور محبت بھرے لہجے میں گویاں ہوئے۔۔
’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔
شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی.نعت یه تھی..
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ

دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ

اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ

اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ

اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ

کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ

ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ

اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ

کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ

(جگر مراد آبادی)
 

سید عمران

محفلین
جگرؔ مراد آبادی آل انڈیا شاعر تھے، کانپور کے ایک مشاعرہ میں جگر صاحب اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت محبوب خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک ساتھ جمع ہوگئے۔ اس مشاعرہ میں جگر صاحب کو بھی اپناکلام پڑھنا تھا اور حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنی نعتیہ غزل پڑھنی تھی۔ خواجہ صاحب نے جگرؔ صاحب سے کہا کہ پہلے آپ پڑھیے، انہوں نے کہا کہ نہیں پہلے آپ پڑھیے۔ خواجہ صاحب نے اپنی نعتیہ غزل پڑھی، ابھی ایک ہی شعر پڑھا تھا کہ جگر صاحب نے جو شاہِ غزل یعنی غزل کا بادشاہ کہلاتا تھا اپنی غزل جیب میں ڈال لی اور کہا کہ اب میں کچھ نہیں پڑھوں گا۔میں آپ کو وہ شعر بھی سنا دیتا ہوں جو خواجہ صاحب نے پڑھا تھا ؎
گھٹا اٹھی ہے تو بھی کھول زلفِ عنبریں ساقی
ترے ہوتے فلک سے کیوں ہو شرمندہ زمیں ساقی
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، اے ساقی! یعنی اے مدینہ والے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی زمین پر اپنی زلفِ عنبریں کھول دیں تاکہ آپ کے ہوتے ہوئے زمین آسمان سے شرمندہ نہ ہو، آسمان کی کالی گھٹائیں آپ کی زلفِ عنبریں کے آگے کیا بیچتی ہیں۔
جب خواجہ مجذوب صاحب نے نعت کا یہ شعر پڑھا تو جگر صاحب کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی برکت سے بہت سے فاسق، فاجر، نافرمان، سرکش اور خدا سے دور بندے اللہ والے بن رہے ہیں تو کیا میرے لیے بھی کوئی گنجائش ہے کہ میں بھی تھانہ بھون حکیم الامت کی خدمت میں جاکراللہ والا ہو سکتا ہوں؟ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ کیوں نہیں ہوسکتے، وہاں جاکر کتنے فاسق اور فاجر ولی اللہ ہوگئے۔ جگر صاحب کہنے لگے کہ میں تو شراب پیتا ہوں۔ اور جگرؔ صاحب کتنی پیتے تھے، خود اپنے دیوان میں لکھتے ہیں؎
پینے کو تو بے حساب پی لی
اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا
تو جگرؔ صاحب نے پوچھا کہ کیا حضرت تھانوی مجھے خانقاہ میں پینے دیں گے؟ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو تردُّد ہوا، خاموش ہوگئے کہ حضرت سے بات کرکے جواب دوں گا۔
خواجہ صاحب حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے، عرض کیا کہ حضرت! آل انڈیا شاعر جگر مراد آبادی کہہ رہے تھے کہ میں اپنی اصلاح کے لیے تھانہ بھون آنا چاہتا ہوں لیکن میرے اندر ایک بری عادت ہے، اس کے بغیر زندگی مشکل ہے، کیا وہاں پینے کی اجازت مل جائے گی؟ حضرت نے پوچھا کہ خواجہ صاحب! آپ نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگے کہ میں نے یہ جواب دیا کہ خانقاہ میں ایسی اجازت نہیں مل سکتی۔ فرمایا کہ خواجہ صاحب! آپ نے صحیح جواب نہیں دیا، آپ جاکر جگر صاحب کو یہ جواب دیں کہ خانقاہ تو اللہ کے لیے وقف جگہ ہے،ا س پر میرا اختیار نہیں ہے لیکن اشرف علی جگر صاحب کو اپنے گھر مہمان بنائے گا، میرے گھر میں وہ جیسے چاہیں رہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر کو اپنے گھر مہمان بنا سکتے ہیں تو اشرف علی بھی ایک گناہ گار مسلمان کو جبکہ وہ علاج کے لیے آرہا ہے اجازت دیتا ہے کہ وہ میرے گھر پر آئے اور میرا مہمان بنے۔ اب جگرصاحب تھانہ بھون پہنچ گئے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جگر صاحب! آپ میرے گھر ٹھہرئیے، یہاں آپ کو آزادی ہے جیسے چاہیں رہیں۔ بس چند مجالس کے بعد ان کی حالت بدل گئی؎
جی اٹھے مردے تری آواز سے
ہاں ذرا مُطرِب اسی انداز سے
اللہ والوں کی آواز سے مردہ روحیں زندہ ہوجاتی ہیں۔ بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو میری تھوڑی سی محنت سے اللہ والا بن جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ مجھ پر فدا ہو میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہی اس پر قربان ہوجاؤں۔ معلوم ہوا کہ اللہ والے اس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں کوئی ان کی صحبت سے نیک اور صالح بن جائے۔
جگر صاحب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور درخواست کی کہ حضرت آپ سے چار دعا ؤں کی درخواست کرتا ہوں، نمبر ایک جگر کو حج نصیب ہوجائے، نمبر دو شراب چھوٹ جائے، نمبرتین جگر داڑھی رکھ لے اور نمبر چار جگر کی میدانِ قیامت میں مغفرت ہوجائے۔ جگر صاحب کی درخواست پر حضرت تھانوی کے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھ گئے۔ جب کسی اللہ والے کے ہاتھ اٹھتے ہیں تو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎
نے دعائے شیخ چوں ہر دعا است
اللہ والوں کی دعاؤں کو ہر ایک کی دعا کے برابر وزن مت کرو۔ جو اپنی ساری زندگی خدا پر فدا کرتا ہے، اللہ بھی اس کے ناز اُٹھاتا ہے۔
جب جگر صاحب تھانہ بھون سے واپس آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شراب چھوڑد ی اور بیمار پڑگئے۔ یوپی کے ماہرین ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا، بڑے بڑے ڈاکٹر پہنچ گئے کیوں کہ جگر بہت ہی مقبول آل انڈیا شاعر تھے، ڈاکٹروں کے بورڈ نے فیصلہ کیا کہ جگر صاحب دوبارہ شراب شروع کردیجیے، اگر دوبارہ شراب نہیں پئیں گے تو آپ دنیا سے جلد رخصت ہوجائیں گے، آپ کی جان بہت قیمتی ہے کیوں کہ آپ سلطانِ غزل ہیں، غزل کے بادشاہ ہیں۔ جگر صاحب نے کہا کہ اگر میں شراب شروع کردوں گا تو کتنے دن زندہ رہوں گا، ڈاکٹر کہنے لگے کہ پانچ دس سال اور چلو گے ، کہا کہ پھر موت آئے گی؟ کہا: ہاں موت تو ضرور آئے گی، ہمارے پاس ایسی کوئی دوا نہیں جو موت سے بچالے۔ تو جگر صاحب رونے لگے اور کہنے لگے کہ اگر میں پانچ دس سال زندہ رہا اور شراب پیتا رہا تو شراب پینے کی حالت میں پانچ دس سال زندہ رہ کر خدا کے غضب کو میدانِ محشر میں لے کر جاؤں گا، اس سے بہتر ہے کہ جگر کو شراب چھوڑنے کی وجہ سے ابھی موت آجائے ؎
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
شیطان کہتا ہے کہ اگر یہ گناہ نہیں کرو گے تو تمہاری جان نکل جائے گی، تو شیطان کو جواب دے دو؎
تو مکن تہدیدم از کشتن کہ من
تشنۂ زارم بخونِ خویشتن
اے ظالم! دین کے دشمن! تم ہمیں قتل ہونے سے، ہلاک ہونے سے اور موت سے مت ڈراؤ۔ ہم خدا کی راہ میں اپنے خون کے خود پیاسے ہیں، ہم اپنا خون خود اللہ کو دینا چاہتے ہیں۔
خیر جگر صاحب نے شراب چھوڑ دی، پھر حج کرنے چلے گئے اور وہاں پر داڑھی بھی رکھ لی۔ اس کے بعد جگر صاحب میرٹھ میں ایک تانگے پر جارہے تھے کہ تانگے والے نے ان کا بیس سال پرانا ایک شعر پڑھا جو انہوں نے بمبئی میں کہا تھا۔ وہ شعر یہ تھا؎
چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوگا
جگر صاحب نے بیس سال پہلے خود ہی یہ شعر کہا تھا یعنی دل میں یہ بات پہلے ہی سے تھی کہ مجھے داڑھی رکھنی ہے، اللہ والا بننا ہے اور شراب چھوڑ نی ہے کیوں کہ اللہ کے پاس جانا ہے۔ دیکھو آفتاب بعد میں نکلتا ہے مگر افق پر سرخی پہلے بکھیر دیتا ہے۔ جو ولی اللہ ہونے والا ہوتا ہے اس کے دل میں اللہ کی محبت کے آثار اور سورج کی شعاعیں موجود ہوتی ہیں۔ جگر صاحب کا یہ پرانا شعر تانگے والا پڑھ رہا ہے اور جگر پیچھے بیٹھے ہیں، اس ظالم تانگے والے کو خبر نہیں کہ جگر میرے تانگے میں تشریف فرماہیں۔
جگر صاحب کے حق میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین دعائیں قبول ہوگئیں، شراب بھی چھوٹ گئی، حج بھی نصیب ہوگیا، داڑھی بھی رکھ لی اور چوتھی دعا کے لیے فرمایا کہ جب تین دعائیں قبول ہوگئیں تو میں اللہ سے چوتھی دعا کی قبولیت کی بھی امید رکھتا ہوں۔ (آثارِ محبتِ الہیہ، وعظ مولانا حکیم اختر صاحبؒ)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جگر صاحب کے حق میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین دعائیں قبول ہوگئیں، شراب بھی چھوٹ گئی، حج بھی نصیب ہوگیا، داڑھی بھی رکھ لی اور چوتھی دعا کے لیے فرمایا کہ جب تین دعائیں قبول ہوگئیں تو میں اللہ سے چوتھی دعا کی قبولیت کی بھی امید رکھتا ہوں۔ (آثارِ محبتِ الہیہ، وعظ مولانا حکیم اختر صاحبؒ)
سبحان اللہ !
سبحان اللہ !!!
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں تھیں !شرف ِقبولیت سے نوازی گئیں !حضرت والا رحمۃاللہ علیہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے !آمین
 

سیما علی

لائبریرین
*. حرام کوچھوڑنے کانتیجہ*
دمشق میں ایک بہت بڑی مسجد ہے کہ جو *"مسجد جامع توبہ"* کے نام سے مشہور ہے-
" اس میں ایک طالب علم کہ جو بہت زیادہ غریب, اور عزت نفس میں مشہور تها وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں ساکن تها-
دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تهی اور نہ کوئی پیسہ اس کے پاس تھا ...
تیسرے روز بھوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے!
سوچنے لگا کہ اب میں اس حالت میں ہوں کہ شرعا حتی کہ مردار اور یا ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے.
اسی بنا پر چوری کا راستہ بہترین راه تھی
⚪ [شیخ طنطاوی کہتے ہیں:
یہ سچا واقعہ ہے اور میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اس واقعہ کی تفصیل سے اگاہ ہوں۔
یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چھتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے-
🌼یہ جوان مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کی طرف چل دیا پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جھکا کر وہاں سے چلاگیا-
بعد والے گھر پہنچا تو دیکها گھر خالی ہے لیکن اس یہاں سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے-
بھوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو بھوکے کی مانند اس کو اپنی طرف کھینچ لیا. یہ مکان ایک منزل تها-
فورا باورچی خانے میں پہنچا - دیگچی کا ڈهکن اٹھایا تو اس میں بهرے ہوئے بینگن کا سالن تھا !!!!!
ایک بینگن اٹھایا بھوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی-
بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا-
اپنے آپ سے کہنے لگا:
خدا کی پناہ!
میں طالب علم ہوں
لوگوں کے گھر میں چوری کروں؟؟
اپنے اس فعل پر شرم آگئ ,پشیمان ہوا اور استغفار کیا اور پهر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا .اور جیسے آیا تها ویسے ہی واپس لوٹ گیا- اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ درس میں حاضر ہوا-
بھوک کی شدت سے سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟
جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بهی متفرق ہوگئے، تو
ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی -
شیخ سے کچھ گفتگو کی اور وہ طالب علم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا ..
شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ کی تو اس طالب علم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا… پهر
اس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو ؟
جوان نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
جوان خاموش رہ گیا…
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس جوان نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں...
میں کس طرح شادی کروں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے...
اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لیکر آئی ہے .. ..اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہے ...اور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گهر اور مال ورثہ میں ملا ہے...
اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعا اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو- تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے.
کیا تم اس سے شادی کروگے ؟
جوان نے کہا: ہاں🌹
اور پھر اس خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
اس نے بھی مثبت جواب دیا...
شیخ نے اس خاتون کے چچا اور دو گواہوں کو بلاکر ان دونوں کا نکاح پڑھ دیا اور اس طالب علم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پهر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو.
اس نے ہاتھ تھام لیا اور اپنے گھر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی ..
جب گھر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیا...
وہ جوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے حیران ہوگیا!
اور جب اس گھر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ داخل ہوا تھا .... زوجہ نے شوہر سے پوچھا کہ تمہارے کهانے کے لئےکچھ لے آوں ؟
کہا: ہاں..
اس نے دیگچی کا ڈهکن اٹهایا اور بینگن کو دیکها اور بولی: عجیب ہے گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے ..؟! وہ جوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنادیا...
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری امانت داری اور تقوی کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کهانے سے اجتناب کیا تو الله نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دیدیا..!.
*بہت خوبصورت اور قابل غور۔
.سبحان_الله!
جو کوئی الله کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقوی اختیار کرے تو
الله اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ہے۔

سبحان اللہ سبحان اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
گہری خاموشی کا وقفہ کے بعد اُس نے بیٹھے بیٹھے اچانک کہا' اصل میں معراج دو تھیں !!!
میں چونکا ! اور اسکی طرف گھُور کر دیکھا !!
وہ مُسکرایا اور کہا، پہلے میری بات پوری سُن لو !!
میں نے کہا' تم نے پھر کوئی نئی تھیوری پیش کرنی ہوگی۔۔ وہ ہنسنے لگا۔۔ کہا' یار تم لوگ بس میری مخالفت ہی کرتے رہتے ہو۔۔ کم از کم سوچا تو کرو میری بات میں کچھ نہ کچھ تو سچائی ہو سکتی ہے ۔۔
میں نے کہا' اچھا اب کہو بھی کیا کہنا چاہتے ہو !!
وہ تھوڑا سا آگے ہوا اور فلسفیانہ انداز میں بولا۔۔ ہم لوگ واقعہ معراج کا صرف ایک رُخ دیکھتے ہیں۔۔ جو کہ خالصتاً روحانی ہے۔۔ اللہ پاک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روح و جسم سمیت آسمانوں پر بلایا، سیر کرائی، اپنی قدرت کے کرشمے دکھائے، انہیں سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بُلایا۔۔ ایسی جگہ جہاں خالق اور محبوبِ خالق کے سوا کوئی نہ تھا۔۔ راز و نیاز ہوئے۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 5 عدد نمازوں کا تحفہ لے کر واپس آگئے۔۔ یہ تو تھا واقعہ معراج کا خُلاصہ جسے ہم بچپن سے پڑھتے سُنتے آئے ہیں۔۔ میں نے کہا' یہاں تک تو کوئی اعتراض نہیں مجھے۔۔
اس نے کہا' یہ تو تھی پہلی معراج ۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری معراج اس واقعہ معراج کے بعد ہوئی۔۔۔ اور وہ انسانیت کی معراج تھی۔۔۔۔۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کر کے دنیا میں واپس تشریف لائے۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا شرف ہے۔۔ کیا عظمت ہے۔۔ کیا خصوصیت ہے۔۔ ذرا سوچو تو !! بندہ لکھنا چاہے تو الفاظ ساتھ چھوڑ دیں۔۔ لکھنا تو دور، بندہ سوچے کی کوشش بھی کرے تو ذہن جواب دے جاتا ہے۔۔ مگر ایسا درجہ پا لینے کے بعد واپس آ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟؟ "میں تو تمہارے جیسا ہی انسان ہوں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے جیسے؟؟ انسان؟؟؟
یہاں لوگ کچھ نہ کر کے بھی دو دو لائن کے نام بنا لیتے ہیں۔۔ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد بھی کہتے ہیں کہ "میں ایک انسان ہوں تمہارے جیسا"۔۔ !!
معراج ہے یہ عاجزی کی۔۔ یہ اصل معراج ہے جس میں انسان اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔۔ کسی قسم کے تفاخر کا شائبہ بھی نہیں۔۔ لوگ 5 سالہ ڈاکٹری کا کورس کرکے فرشتوں اور انسانوں کے درمیان والی کسی جگہ جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔ یہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک سے ملاقات کرکے بھی کہتے ہیں کہ "میں تو انسان ہوں" یہ بھی تو واقعہ معراج کا ہی سبق ہے۔۔ کہ انسان بہرحال انسان ہی ہے۔۔ اور انسان ہی رہے گا۔۔۔۔
وہ رُکا۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ معراج دراصل دو تھیں۔۔ ایک روحانی۔۔ جس میں رسولؐ پاک کے درجات کو فرشتوں کی پہنچ سے بھی اوپر لے جایا گیا۔۔ اور دوسری انسانیت کی معراج۔۔ جب اتنی بلندی پر پہنچ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزی کی حد کر دی۔۔ وہ عاجزی جو اللہ پاک کو بے حد پسند ہے !!!
وہ خاموش ہو گیا۔۔۔ اور میں چپ چاپ بیٹھا اُسکا منہ تکتا رہا۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے محمدؐ، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے-اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے (سورۃ کہف- 109, 110)
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بہترین تحریر

جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے پورے خرچ ہو جاتے تب امّاں ہمارا پسندیدہ پکوان تیار کرتیں۔ ترکیب یہ تھی کہ سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے کپڑے کے پرانے تھیلے میں جمع ہوتے رہتے اور مہینے کے آخری دنوں میں ان ٹکڑوں کی قسمت کھلتی۔ پانی میں بھگو کر نرم کر کے ان کے ساتھ ایک دو مٹھی بچی ہوئی دالیں سل بٹے پر پسے مصالحے کے ساتھ دیگچی میں ڈال کر پکنے چھوڑ دیا جاتا۔ حتیٰ کہ مزے دار حلیم سا بن جاتا اور ہم سب بچے وہ حلیم انگلیاں چاٹ کر ختم کر جاتے۔ امّاں کے لیے صرف دیگچی کی تہہ میں لگے کچھ ٹکڑے ہی بچتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو۔
اور امّاں ایسی سگھڑ تھیں کہ ایک دن گوبھی پکتی اور اگلے دن اسی گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی بنتی اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا کہ گوبھی زیادہ مزے کی تھی یا اس کے ڈنٹھلوں کی سبزی۔
امّاں جب بھی بازار جاتیں تو غفور درزی کی دکان کے کونے میں پڑی کترنوں کی پوٹلی بنا کے لے آتیں۔ کچھ عرصے بعد یہ کترنیں تکئے کے نئے غلافوں میں بھر دی جاتیں۔ کیونکہ امّاں کے بقول ایک تو مہنگی روئی خریدو اور پھر روئی کے تکیوں میں جراثیم بسیرا کر لیتے ہیں۔ اور پھر کترنوں سے بھرے تکیوں پر امّاں رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں۔ کبھی لاڈ آجاتا تو ہنستے ہوئے کہتیں ’تم شہزادے شہزادیوں کے تو نخرے ہی نہیں سماتے جی، سوتے بھی شاعری پر سر رکھ کے ہو۔‘
عید کے موقع پر محلے بھر کے بچے غفور درزی سے کپڑے سلواتے۔ ہم ضد کرتے تو امّاں کہتیں وہ تو مجبوری میں سلواتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں کسی کو سینا پرونا نہیں آتا۔ میں تو اپنے شہزادے شہزادیوں کے لیے ہاتھ سے کپڑے سیئوں گی۔ جمعۃ الوداع کے مبارک دن ابّا لٹھے اور پھول دار چھینٹ کے دو آدھے آدھے تھان جانے کہاں سے خرید کر گھر لاتے۔ لٹھے کے تھان میں سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے اور چھینٹ کے تھان میں سے دونوں لڑکیوں اور امّاں کے جوڑے کٹتے اور پھر امّاں ہم سب کو سلانے کے بعد سہری تک آپا نصیبن کے دیوار ملے کوارٹر سے لائی گئی سلائی مشین پر سب کے جوڑے سیتیں۔
آپا نصیبن سال کے سال اس شرط پر مشین دیتیں کہ ان کا اور ان کے میاں کا جوڑا بھی امّاں سی کے دیں گی۔ ہم بہن بھائی جب ذرا ذرا سیانے ہوئے تو ہمیں عجیب سا لگنے لگا کہ محلے کے باقی بچے بچیاں تو نئے نئے رنگوں کے الگ الگ چمکیلے سے کپڑے پہنتے ہیں مگر ہمارے گھر میں سب ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے ہیں۔ مگر امّاں کے اس جواب سے ہم مطمئن ہوجاتے کہ ایک سے کپڑے پہننے سے کنبے میں محبت قائم رہتی ہے۔ اور پھر ایسے چٹک مٹک کپڑے بنانے کا آخر کیا فائدہ جنھیں تم عید کے بعد استعمال ہی نہ کر سکو۔
چھوٹی عید یوں بھی واحد تہوار تھا جس پر سب بچوں کو ابّا ایک ایک روپے کا چاند تارے والا بڑا سکہ دیتے تھے۔ اس کے انتظار اور خرچ کرنے کی منصوبہ بندی میں چاند رات آنکھوں میں ہی کٹ جاتی۔ صبح صبح نماز کے بعد ہم بچوں کی شاپنگ شروع ہوجاتی۔ سب سے پہلے ہر بہن بھائی کوڈو کے ٹھیلے سے ایک ایک پنی والی گول عینک خریدتا جسے پہن کر چال میں اتراہٹ سی آجاتی۔ پھر سب کے سب چاندی کے ورق لگی میٹھی املی اس لالچ میں خریدتے کہ رفیق افیمچی ہر ایک کو املی دیتے ہوئے تیلی جلا کر املی میں سے شعلہ نکالے گا۔
پھر خانہ بدوشوں کے خوانچے میں بھرے مٹی کے کھلونوں اور رنگین کاغذ اور بانس کی لچکدار تیلیوں سے بنے گھگو گھوڑے کی باری آتی۔ آخر میں بس اتنے پیسے بچتے کہ سوڈے کی بوتل آ سکے۔ چنانچہ ایک بوتل خرید کر ہم پانچوں بہن بھائی اس میں سے باری باری ایک ایک گھونٹ لیتے اور نظریں گاڑے رہتے کہ کہیں کوئی بڑا گھونٹ نہ بھر جائے۔
پیسے ختم ہونے کے بعد ہم دوسرے بچوں کو پٹھان کی چھرے والی بندوق سے رنگین اور مہین کاغذ سے منڈھے چوبی کھانچے پر لگے غبارے پھوڑتے بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ بندر یا ریچھ کا تماشا بھی اکثر مفت ہاتھ آ جاتا اور اوپر نیچے جانے والے گول چوبی جھولے میں بیٹھنے سے تو ہم سب بہن بھائی ڈرتے تھے اور اس کا ٹکٹ بھی مہنگا تھا۔
بقر عید پر سب کے ہاں قربانی ہوتی سوائے ہمارے۔ مگر یہاں بھی امّاں کی منطق دل کو لگتی کہ جو لوگ کسی وجہ سے دنیا میں قربانی نہیں کر سکتے ان کے بکرے اللہ میاں اوپر جمع کرتا رہتا ہے۔ جب ہم اوپر جائیں گے تو ایک ساتھ سب جانور قربان کریں گے، انشااللہ!
ایک دفعہ گڑیا نے پوچھا کہ امّاں کیا ہم جلدی اوپر نہیں جاسکتے؟ ہر سوال پر مطمئن کر دینے والی امّاں چپ سی ہوگئیں اور ہمیں صحن میں چھوڑ کر اکلوتے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم بچوں نے پہلی بار کمرے سے سسکیوں کی آوازیں آتی سنیں مگر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر گڑیا کی بات پر رونے کی کیا بات تھی۔
کوئی چھ سات ماہ بعد ایک دن امّاں باورچی خانے میں کام کرتے کرتے گر پڑیں۔ ابّا نوکری پر تھے اور ہم سب سکول میں۔گھر آ کر پتہ چلا کہ آپا نصیبن امّاں کی چیخ سن کر دوڑی دوڑی آئیں
اور پھر گلی کے نکڑ پر بیٹھنے والے ڈاکٹر محسن کو بلا لائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ امّاں کا دل اچانک ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
تدفین کے بعد ایک روز گڑیا نے میرا بازو زور سے پکڑ لیا اور یہ کہتے ہوئے پھوٹ پڑی کہ خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر اکیلے اکیلے بکرے کاٹیں گی اور ہمیں یہیں چھوڑ گئیں۔
***** ***** *****
❄️❄️❄️❄️❄️❄️❄️
💕💕💕❤️❤️
 

سیما علی

لائبریرین
🌟🌟🌟🌟🌟اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلایا جبکہ باقی تمام انبیاء علیہم السلام کو اُن کے نام لے کر بلایا!
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔
اے آدم!
تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو( سورت الاعراف9)
اے نوح!
اب(کشتی سے) اتر جاؤ ہماری طرف سے وہ سلامتی اور برکتیں لے کر(سورت ھود 4
اے ابراھیم!
تم نے خواب سچ کر دکھایا(سورت الصفات 104/105)
اے موسیٰ!
ڈرو نہیں( سورت النمل10)
اے یحییٰ!
کتاب کو مضبوطی سے تھام لو (سورت مریم10)
اے زکریا!
ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا(سورت مریم7)
لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
يٰۤ۔اَيُّهَا النَّبِىُّ! اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آپ کا رب بلا رہا ہے
رب العالمین۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو نام محمد لے کر نہیں بلاتے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم سورہ فاتحہ سے لے کر والناس تک پورے قرآن میں
اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو، اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مانو(سورت الاحزاب)
اے چادر میں لپیٹنے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم(سورت مزمل 1/2)
اے کپڑے میں لپیٹنے والے، اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو (سورت المدثر 1/2)
اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلاتے سوائے اس کے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت اور ختم نبوت سے جوڑنا ہو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
اے محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ایک رسول ہی تو ہیں(سورت آل عمران 144)
محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں (سورت احزاب 40)
رسالت اور نبوت کے ساتھ نام محمد لیا گیا ہے(صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم)۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی کے لیے یہ محبت ہے❤️❤️❤️❤️❤️
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔
تمام بچے کھڑے ہوگئے۔

ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:

”جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔“

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔“

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“

”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جائے اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لئے عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے.....میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"....😪🥲🥲🥲🥲
 

سیما علی

لائبریرین
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان چین کی پہلی کھڑکی تھا‘ چین کے لوگوں نے پاکستان کے ذریعے دنیا کو دیکھنا شروع کیا ‘ پی آئی اے پہلی انٹرنیشنل ائیر لائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا‘ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا ‘

پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے ‘ ان میں سے ایک جہاز ماﺅزے تنگ استعمال کرتے تھے‘ اس جہاز پر آج بھی ”کرٹسی بائی پاکستان“ لکھا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی اور ہم ایک طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے‘

پاکستان نے چین کے مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت بھی دی ‘ چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے اور پاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ کبھی چین کے لوگوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن آج وہ چین دنیا میں ترقی کی انتہا کو چھو رہا ہے‘ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں‘

چین آگے نکل گیا جبکہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن کر رہ گئے‘ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا‘ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین چین ہو گیا‘ جن کے باعث چین نے چاند تک ”میڈ اِن چائنا“ کی مہر پہنچا دی‘ جن کے ذریعے چین نے نا صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار‘ صحت‘ تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ماں بھی بن گیا۔

ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو پورے یورپ میں ایسے 39شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ چین نے پچھلے تیس برسوں میں 160ایسے نئے شہر آباد کئے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں‘

آج مرسیڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے ۔

آج یورپ‘ امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا سٹیکر لگا ہوتا ہے اور

آج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کئے‘

ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔

مخلص لیڈر شپ‘

ان تھک محنت‘

اپنی ذات پر انحصار

اور خودداری۔

چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا ‘ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا‘ یہ لوگ پندرہ‘ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن‘ من اور دھن قوم پر وار دیا ‘

ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا ‘

ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں‘

ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے‘ ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں‘

ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں

چنانچہ ہم آج افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں‘ ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں ‘ ہمیںروٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔
کاش ہم چین کے صدر شی چن پنگ سے عرض کرتے جناب آپ ہمیں 46 ارب ڈالر کے منصوبے نہ دیں‘ آپ ہمیں عزت کی روٹی کھانے اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دے دیں‘ آپ ہمیں مچھلی نہ دیں آپ ہمیں مچھلی پکڑے کا طریقہ سکھا دیں۔

کاش ہم چین کے لیڈر سے پاکستان کو چین بنانے کا گر سیکھ لیتے کیونکہ قوموں کو امداد اور سمجھوتے نہیں چاہئے ہوتے‘ انہیں عزت اور غیرت کی گھٹی درکار ہوتی ہے اور ہم نے آج تک کسی سے یہ دولت نہیں لی۔

ہم نے آج تک کسی قوم‘ کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی‘ آپ یقین کیجئے ہم 74 سال سے مردار خور اور بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں‘

ہم کبھی افغانستان میں امریکا اور روس کی پھینکی ہڈیاں چوستے ہیں‘

کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں اور

کبھی سعودی عرب یمن جنگ سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بناتے ہیں‘ دنیا جب ان تمام بحرانوں سے نکل جاتی ہے‘

یہ اپنے معاملات‘ اپنے مسائل حل کر لیتی ہے تو ہم کشکول بن کر دوستوں سے دوستی کی خیرات کی اپیل کرنے لگتے ہیں‘

ہم نے آج تک خود کو قوم سمجھا اور نہ ہی قوم کی طرح اپنی نسلوں کی پرورش کی‘ ہم 24 کروڑ بھکاری ہیں اور ہم ہر سال ان بھکاریوں میں پانچ دس لاکھ نئے بھکاریوں کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ بھکاری بھی بڑے ہو کر اپنے بزرگوں کی طرح دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘

کاش ہم آج ہی جاگ جائیں‘ ہم آج ان 46 ارب ڈالروں کو آخری امداد‘ آخری سرمایہ کاری سمجھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں‘

ہم یہ اعلان کر دیں‘ ہم دنیا کےلئے اگلا چین ثابت ہوں گے‘ ہم بیس تیس سال بعد وہاں ہوں گے جہاں دنیا ہمارے صدر کو وہ مقام دے گی جو ہم نے آج شی چن پنگ کو دیا‘ کاش ہم اپنے نیچے والے ہاتھ کو اوپر والا ہاتھ بنا لیں‘ کاش ہم پاکستان زندہ باد بن جائے ۔۔۔۔۔😢😢😢😢😢
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بار سابق بھارتی الیکشن کمشنر شری ٹی این سیشان، اتر پردیش کے دورے پر روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ بھی تھیں۔

راستے میں، وہ ایک باغ کے قریب رک گیئے۔ باغ کے درختوں پر پرندوں کے بیشمار گھونسلے تھے۔ ان کی اہلیہ نے خواہش ظاہر کی کہ باغ کے کسی درخت سے کوئ گھونسلا لیتے چلیں، تاکہ میں انہیں گھر میں سجاؤں.

سیشان جی نے اپنے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں سے کوئ گھونسلہ اٹھا کر لانے کو کہا۔

پولیس والوں نے ایک لڑکے سے جو قریب ہی ایک گائے چرا رہا تھا، دس روپے دیتے ہوئے کوئ ایک گھونسلہ درخت پر سے لانے کے کو کہا ، لیکن وہ لڑکا گھونسلہ لانے کے لیئے تیار نہیں یوا۔

ٹی این سیشان نے پولیس والوں سے اس لڑکے کو دس کے بجائے پچاس روپے دینے کو کہا، پھر بھی لڑکا تیار نہیں ہوا۔

لڑکے نے سیشان سے کہا: "جناب! گھونسلے میں پرندوں کے بچے ہیں، جب پرندے شام کو کھانا لیکر لوٹیں گے تو ، انھیں اپنے بچوں کو نہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا.

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ مجھے اس کام کے لیے کتنا معاوضہ دیتے ہیں. میں کسی گھونسلے کو توڑ کر نہیں لا سکتا۔"

اس واقعے کا ٹی این سیشان کو زندگی بھر افسوس رہا کہ ایک چرواہا بچہ ایسی سوچ کا حامل بھی ہو سکتا ہے اور اپنے اندر بڑی حساسیت رکھتا ہے جبکہ میں اتنا تعلیم یافتہ اور آئی اے ایس ہونے کے بعد بھی اس بچے جیسی سوچ اور احساس اپنے اندر پیدا نہیں کرسکا.

وہ ہمیشہ ہی رنجیدہ رہے کہ ان میں وہ حساس فطرت کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ تعلیم کس نے حاصل کی؟ میں نے یا اس بچے نے؟

انہیں شدت سے احساس رہا کہ اس چھوٹے لڑکے کے سامنے ان کا مؤقف اور آئی اے ایس ہونا بالکل ھیچ ہے۔

گویا ان کا قد اس بچے کے سامنے سرسوں کے دانے کی مانند گھٹ گیا ہے۔

تعلیم ، سماجی مقام اور معاشرتی حیثیت، انسانیت کا معیار نہیں ہے۔ محض بہت سی معلومات جمع کرنے کو علم نہیں کہا جاسکتا! زندگی تبھی خوشگوار ہے جب آپ کی تعلیم: انسانیت کے تئیں حکمت، شفقت اور ذہانت کا پتہ دیتی ہو !!

( مراٹھی سے اردو ترجمہ )
 

سیما علی

لائبریرین
👣1960 میں ترکی کے شہر میں واقع پاگل خانے سے چوکیداروں کی لاپرواہی کی بناء پر پاگل خانے کے کھلے ہوئے دروازے سے موقع پا کر 423 پاگل فرار ہو گئے۔

شہر کی سڑکوں پر پاگلوں نے اودھم مچا دیا، بد نظمی اور ہڑبونگ مچ گئی۔

ہسپتال کی طرف سے شہر کی انتظامیہ کو اطلاع ملی۔ ماہرین مسئلے کے حل کیلیئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ فوری طور پر ایک بڑے ماہر نفسیات کو بلوا لیا گیا۔

ماہر نفسیات نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً ایک سیٹی منگوائی۔ ہسپتال کے عملے اور انتظامیہ کے کچھ لوگوں کو چھکڑا بنا کر اپنے پیچھے لگایا گاڑی بنائی اور وسل بجاتے چھک چھک کرتے سڑک پر نکل آیا۔

ماہر نفسیات کا تجربہ کامیاب رہا۔ سڑک پر چلتے پھرتے مفرور پاگل ایک ایک کر کے گاڑی کا حصہ بنتے گئے۔

شام تک ماہر نفسیات ڈاکٹر صاحب سارے پاگلوں کی گاڑی بنا کر ہسپتال لے آئے۔ انتظامیہ نے پاگلوں کو واپس اُن کے وارڈز میں بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

مسئلہ شام کو اُس وقت بنا جب پاگلوں کی گنتی کی گئی تو 612 پاگل شمار ہوئے جبکہ ہسپتال سے صبح کے وقت صرف 423 پاگل فرار ہوئے تھے.
 

سیما علی

لائبریرین
" میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے "
ماں سے ملیں کیونکہ ماں دوبارہ نہیں ملے گے

تحریر : اظہر عزمی

ماں تو اول و آخر ماں یے ۔ اولاد کے لیے سعی ( کوشش ) اس کی سرشت میں ہے ۔ ماں جیسا کوئی ہے نہ ہو سکتا ہے ۔ پروردگار عالم نے اپنے کتنے ہی اوصاف ماں کو عطا کر دیئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ مخلوق سے اپنی محبت کا پیمانہ بھی ماں کو بنایا ہے ۔ پروردگار عالم ستر ماوں سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں ۔

انسان کے تمام اعمال کے نتیجے میں ملنے والے صلے " جنت " کو ماں کے پیروں تلے رکھ دیا ۔ وہ چاھتا تو پیروں کے اوہر رکھ دیتا ۔ ہاتھ یا ماتھے پر رکھ دیتا ۔ پرودگار نے اولاد کو ماں کا مقام بتا دیا ۔ وہ جنت جس کے لئے تم لاکھ جتن کرتے ہو ۔ وہ ماں کے پیروں کے نیچے ہے ۔ جنت حاصل کرنا کتنا مشکل تھا اگر ماں نہ ہوتی ۔

ماں پر بہت لکھا گیا ہے اور جتنا لکھا گیا ہے اتنا ہی کم لکھا گیا ہے ۔ ماں پر بڑھاپا آجائے تو اس کا مزاج بچوں جیسا ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک بات کو بار بار دھرانا ۔ کسی ایک بات ہر بتائے بغیر خفا ہوجانا ۔ ہر بات میں جلدی کرنا ۔ بیٹھے بیٹھے اداس یا خوش ہوجانا ، اپنی کہی بات کہہ کر بھول جانا اور اس ہر یہ کہنا کہ میں بھولتی کچھ نہیں ، ہزار بار کے سنائے قصے سنانا ۔ خاندان اور محلے میں کسی کا انتقال یو جائے تو اس غمگین کیفیت کے ساتھ بتانا جیسے اللہ نہ کرے گھر میں کچھ ہو گیا ہو ۔ بڑھاپا جسم و دماغ پر آتا مگر یہ بھی کتنی عجیب ہے اس کی محبت کا جذبہ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے ۔

ایک ماں کی باتیں

کبھی کہیں نہ جانے پر اصرار اور کبھی ایسا کہ کسی کے ہاں جانا ہو تو وقت سے پہلے تیار ۔ ایک دن ماں کے پاس نہ بیٹھو اور اگر دور رہتے ہو اور ان سے ملنے نہ جاو تو رقت آمیز گلے شکوے ۔

ماں : بیٹا تم تو ہمیں بھول ہی گئے ۔ کب سے شکل نہیں دکھائی ۔ میں نے عدیل ( چھوٹا بیٹا ) سے کہا تھا ذرا فون تو کرو ۔ وہ نہیں آتے نہ آئیں مگر ہم تو پوچھ لیں ۔۔۔ کیسے ہیں ؟

آپ : امی پرسوں رات ہی تو آیا تھا ۔

ماں : ہاں تم گئے ہو اور رات ایسی طبیعت خراب ہوئی ہے کہ پوچھو مت ۔ وہی ٹانگوں کا درد ۔ جب سے بستر پر پڑی ہوں اور اٹھی نہیں ۔

آپ : دوا تو کھا رہی ہیں آپ ؟

ماں : ارے یہ دوا شوا اب کسی کام کی نہیں ۔ بس تم آجایا کرو ۔ میں سمجھوں گی دوا کھا لی ۔

آپ : وہ اصل میں کل آجاتا ۔ شاہ زیب کو رات سے بہت تیز بخار ہے ۔ دفتر سے آٹے ہی اسے ڈاکٹر کے لے گیا تھا ۔

ماں : میرے شزو کو بخار یے اور مجھے پتہ ہی نہیں ۔ بہو نے بھی فون نہ کیا ۔ ذرا میری بات کراو ۔

آپ کال ملا کر دیتے ہیں ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میں بات کر رہی ہوں ۔ ہاں وہ شزو کیسا ہے ؟ بخار آ گیا ہے ۔ تم نے بتایا ہی نہیں ۔

بہو : وہ امی ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ بس گلا ٹھسا ہوا یے ۔ ہورے سینے میں جکڑن ہے اسی لیے بخار آگیا ۔ ڈاکٹر کو دکھا دیا ہے ۔

ماں : اچھا ذرا میری اس سے بات تو کراو ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میرے شزو کو بخار آگیا ۔

ہوتا : دددا ۔۔۔ امی مجھے ناں ۔ کھانا نہیں دے رہی ہیں ۔ آپ آجائیں ۔

ماں : بخار میں کھانا نہیں کھاتے ۔ جب بخار اترے گا تو جو کہے گا کھا لینا ۔ میں تجھے خود بنا کر دوں گی ۔

پوتا : نہیں ناں ۔ مجھے ابھی کھانا ہے ۔۔۔ زنگر برگر

ماں : یہ نگوڑ مارا زنگر ٹنگر نہ نکلے تیرے دماغ سے

پوتا : دددا آپ آجائیں ناں ۔

ماں : بس سمجھ میں ابھی آئی پر زنگر ٹنگر نہ دینے کی

موبائل بیٹے کو دیتے ہی دوسری بہو کو آواز دی جاتی ہے : ارے شہناز ذرا میری چادر تو لے آئے ۔

آپ : ( حیرت سے ) چادر کیوں ؟

ماں : تیرے ساتھ تیرے گھر جو چل رہی ہوں ۔

آپ : کیا ہو گیا ہے ؟ چلا آپ سے جا نہیں رہا ۔ دوسری منزل تک سیڑھیاں کیسے چڑھیں گی ۔

شہناز چادر لے آتی ہے ۔ بیٹھے بیٹھے چادر اوڑھتی ہیں ۔ شہناز بھی حیران ہے اور جیٹھ سے پوچھتی ہے : بھائی امی کہاں جارہی ہیں ۔ ان سے تو واش روم جانا دوبھر ہے ۔

آپ : ارے میں نے کب کہا ۔ بس انہوں نے شاہ زیب سے بات کی ہے ۔ ہلکا سا بخار ہے ۔ گھر جانے کا کہہ رہی ہیں ۔

ماں کا رعب سامنے آ گیا : ارے تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ اب تو مجھے بتائے گا کہ مجھے شزو کے پاس جانا ہے کہ نہیں ۔

آپ : امی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ آپ ۔۔۔ سمجھ نہیں رہی ہیں ۔

ماں : سب سمجھ رہی ہوں ۔ چڑھ جاوں گی تیری سیڑھیاں ۔ کیا پہلے نہیں چڑھی ۔۔۔ چل !

اور کسی ایک نہ چلی ۔ ماں چل دی ۔

ماں یونہی تو ماں نہیں ہوتی ۔ وہ اس عمر میں پوتے کی ایک آواز پر جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ کوئی معمولی سا کام پڑ جائے تو سوچتے ہیں ماں سے کل مل لیں گے ۔ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ وہ آپ کے آنے کے وقت سے بہت پہلے آپ کا انتظار شروع کر دیتی ہے ۔ آپ نہیں آتے تو اس پر کیا گزرتی ہے ۔ ماں کو اول رکھیں کیونکہ اس کے بغیر آپ نہ مکمل ہیں ۔

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی یے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی یے ( منور رانا)

اور جب ماں دنیا میں نہیں ہوتی یے تو آپ سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلے ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا اکیلا پن جس کو رات کی تنہا سسکیاں اور آنکھوں میں نوحہ کناں نمی محسوس کرتی ہے ۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے نظروں سے صدقے اتارتی اور زیر لب دعائیں کرتی ماں کا حصار نہ جانے دن بھر آپ کو کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچاتا ہے ۔

ماں تیرے بعد بتا ، کون لبوں سے اپنے
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا

حضرت موسی علیہ السلام کلیم اللہ تھے ۔ کوہ طور پر خدائے بزرگ و برتر سے ہم کلام یوتے تھے ۔ جب آپ والدہ کی رحلت کے بعد کوہ طور گئے تو غیب سے آواز آئی : اے موسی ( علیہ السلام ) ذرا سنبھل کر اب تمھارے لیے دعا کرنے والے لب خاموش ہوچکے ہیں ۔

" ماں سے ملیں کیونکہ ماں دوبارہ نہیں ملے گی "
 
Top