انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
اس قدر گہری تحقیق کے بعد اتنی کارآمد تحریر لکھنے والے کو میرا سیلوٹ ھے ۔

⏰ گدھے کا گوشت کھلانے کی خبر چلانے کے پیچھے کیا ھے..؟؟؟ ⏰
یہ کاروائیاں کون کرتا ھے...؟؟؟؟


مجھے یہ بتائیں، کہ کھلا دودھ اگر چودہ درھم کا بک رہا ھے تو کیا ضرورت ھے پیکنگ کر کے تین درہم کا بیچنے کی؟؟
*رائٹر کا نام معلوم نہیں ھے

انکشاف: جن ممالک میں کرونا کیوجہ سے زیادہ اموات ھوئی انکا طرز خوراک کیا تھا؟؟؟؟؟

چند سال پہلے کی بات ھے میں دوبئی میں ہنگری (یورپ) کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا ، اُس کے ساتھ میری کافی گپ شپ تھی ،
ایک دن ھم لوگ پیکٹ والی لسی پی رھے تھے ، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں ،
میں نے اسے بتایا کہ یہ لسی ھم گھر میں بناتے ھیں ، وہ بڑا حیران ھوا، بولا کیسے ،
میں نے اسے کہا کہ ھم لوگ دھی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں ، وہ اور بھی حیران ہو گیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ھے ، میں نے بولا ھم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دھی بناتے ہیں ۔

پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں ، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں ،
وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کر رھا ھوں کہنے لگا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں ۔

کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک یعنی قدرتی چیزوں سے محروم ھونے والے ھو ، میں بولا وہ کیسے ،

اس نے بتایا کہ ھنگری میں بھی ایسے ھوا کرتا تھا ، پھر ساری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی ،

انتظامی معاملات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئے ،

انہوں نے کوالٹی اور صحت کے حوالے سے میڈیا پر اشتہاری مہم چلائی اور جتنی بھی آرگینک (قدرتی) چیزیں تھیں ان کو صحت کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے دیا.... جیسے کھلا دودھ ، کھلی روٹی ، گوشت ، ہوٹل ، فروٹ ، وغیرہ وغیرہ ۔

پھر کیا ھوا ؟ برانڈ متعارف ھو گئے ، جو انٹرنیشنل لیول کے میعار کے مطابق تھے ۔
گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیاں مارکیٹ میں آ گئیں ، ان کا گوشت ڈبوں میں اچھی اور خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ملنے لگا.

اور جو عام بیچنے والے تھے ان پر اداروں کے چھاپے پڑنے شروع ھو گئے.

میڈیا پر انہیں بدنام کیا جانے لگا ، نتیجہ کیا نکلا ، گوشت کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جو تھوڑے سرمایہ دار تھے ، گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے انکو اپنی فرنچائزز دے دیں ، اب وہ کمپنیوں کا گوشت فروخت کرنے لگے.

عام قصائی گوشت والا جانور لے کر ذبح کر کے گوشت صاف کر کے بیچتا ، بڑی بےایمانی کرتا تو ، گوشت کو پانی لگا لیتا ، اور کمپنیاں کیا کرتیں ، وہ کسی کو نہیں پتہ، پورا جانور مشین میں ڈالتے ، اس کا قیمہ قیمہ کرتے گوبر اور آنتوں سمیت !! پھر اس میں کیمیکل ڈال کر صاف کرتے ، اس کو طویل عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے مزید کیمیکل ڈالتے ، پھر اسکے مختلف سائز کے پیس بنا کر پیک کر کے مارکیٹ میں ڈال دیتے
اور
لوگ برانڈ کے نام پر خریدتے ، باھر رہنے والوں کو گوشت کمپنیوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گا !!

اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے کیلئے مقامی قصائیوں کو بدنام کرنا ضروری تھا ۔

اس کیلئے گدھے کے گوشت کا ڈرامہ رچایا گیا........
یہ ڈرامہ میڈیا نے کسی کے کہنے پر کھیلا ۔۔۔۔ تاکہ لوگ بڑا گوشت نہ کھائیں اور مرغی کی طرف واپس آئیں ۔۔۔۔ کیا اب ملک میں گدھے ختم ھو گئے ہیں ؟
نہیں !!! بلکہ سیلز ٹارگٹ حاصل ھو رھے ہیں ۔۔۔۔
بھینسوں کو شہروں سے کیوں نکالا گیا؟
تاکہ خالص ، تازہ اور سستے دودھ کی جگہ ڈبہ والا دودھ فروخت کیا جا سکے ۔۔۔۔
جب
مطلوبہ ٹاگٹ پورے نہیں ھوئے تو کھلے دودھ کے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔۔
اسی طرح مقامی گوالوں کے ساتھ بھی کیا ؛ پہلے تو میڈیا پر مہم چلا کر ان کو مارکیٹ میں بدنام کیا پھر ان کو اپنی فرنچائز دے دیں اور اپنا ھی دودھ بیچنا شروع کر دیا ۔

اب مجھے یہ بتائیں کہ جو دودھ عام اور چھوٹے فارمز سے آتا ھے یعنی مقامی گوالوں کا کھلا دودھ
مقامی گوالا
اس کیلئے کسی قسم کا کیمیکل نا تو جانور کو کھلاتا ھے اور نہ دودھ میں ڈالتا ھے ، زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا ، پانی ڈال لے گا زیادہ ڈالے گا تو وہ بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا ،،،

اور جو نیسلے، ملک پیک اور دوسرے ٹیٹرا پیک والے ہیں وہ دودھ کو لمبے عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا کیمیکل ڈالتے ہیں اور فارموں میں جانوروں کو ناجانے کیا کچھ کھلاتے ہیں ،،

یہودیوں کا دودھ صحیح ھے یا کسان والا مقامی کھلا دودھ ؟؟

دبئی میں دودھ کی ایکسپائری ڈیٹ جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ کیمیکل ھوگا اور اتنی قیمت کم ھو گی ۔

ایک ھی کمپنی کا دودھ اگر ٹیٹرا پیک میں خریدیں گے تو تین درھم فی لیٹر قیمت ھے ،
اسی کمپنی کی بوتل فریش والی خریدیں گے تو چھ درہم لیٹر اور آج کل آرگینک دودھ بھی مارکیٹ میں آ گیا ھے جو چودہ درھم فی لیٹر ھے ۔

مجھے یہ بتائیں ، کہ کھلا دودھ نکال کر چودہ درھم کا بک رہا ھے تو کیا ضرورت ھے ، پیکنگ کر کے تین درھم کا بیچنے کی ،، ؟؟

لوگ اب آرگینک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہم بدقسمت برانڈ کے پیچھے پڑ گئے ہیں ،

اب پاکستان میں بھی بڑے بڑے ڈیری فارم بن رھے ہیں ، اور ھر دوسرے روز حکومت دودھ والوں پر چھاپے مار رھی ھوتی ھے اور میڈیا پر دکھا رھی ھوتی ھے کہ دودھ میں یہ ملایا، وہ ملایا ،، اسٹرنگ آپریشن کیے جا رھے ھوتے ھیں ،،

او بھائی ، اگر کاروائی کرنی ھے تو میڈیا پر شور مچانے کی کیا ضرورت ھے؟ کیوں لوگوں کا اعتبار اٹھانے کیلئے ذھن تبدیل کر رھے ھیں ۔

اب آپ کے ذھن میں یہ سوال لازمی آئے گا کہ دنیا کی ھر تباھی کو یہودیوں سے کیوں جوڑا جاتا ھے؟؟؟ ؟

تو میرے بھائیو آپ نے صرف یہ کرنا ھے کہ دنیا کے سب بڑے برانڈڈ پیک فوڈ کمپنیوں کے مالک کی لسٹ نکال لیں اور بہت آسانی سے ان کے نام کی پروفائل واٹس ایپ ، انسٹاگرام ، فیس بک پر چیک کر لیں یا پھر ان ناموں کو گوگل پر سرچ کر لیں تو ان کی پروفائل پر آپ کو ان کا مذھب یہودی ھی ملے گا. دنیا کے زیادہ تر کاروبار کے مالک یہی یہودی ھی ہیں کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی کنٹرول میں کئے ھوئے ہیں اور جب چاھیں عوام میں پروپیگنڈا پھیلا دیتے ھیں ۔

بہرحال اس تحریر کا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنی قدرتی خوراک کو اپنائیں اور شارٹ کٹ سے بنی ھوئی ھر اس خوراک سے خود بھی بچیں اور خاص طور پر اپنی اولاد کو ان سے بچائیں مثلاً پیپسی ، کوک جیسی ڈرنک ، پیک جوسز ، پیک چپس ، مختلف اسنیکس ، برگر ، پیزا کیوں کہ ان میں بھی پیک فروزن چکن اور پیک لوازمات استعمال کئیے جاتے ہیں ۔
یاد رھے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک جہاں کرونا اموات سب سے زیادہ ھوئی ھیں وہاں کی زیادہ تر آبادی کی خوراک یہی برگر ، پیزا اور پیک فوڈز پر مشتمل ھوتی ھے

لہذا فیصلہ ھم نے خود کرنا ھے ۔
 

سید عمران

محفلین
ڈاکٹر صاحب مجھے اب غصہ بہت زیادہ آنے لگا ہے.... اتنی شدت سے آتا ہے کہ پورا وجود متاثر ہوتا ہے..... میں اس کیفیت سے پریشان ہوں... حل بتائیے....؟ڈاکٹر صاحب کہنے لگے جتنی شدت سے غصہ آئے اتنی شدت سے نکال دیں.... غصے کو نہ روکیں بالکل.....
میں نے حیرت سے سوال کیا ڈاکٹر صاحب کیسے؟؟؟
کہنے لگے سر پھاڑ دیں... تہس نہس کر دیں.... گلا دبا دیں.... آگ لگا دیں.....
میں نے حیرت اور ناسمجھی سے والد صاحب کی طرف دیکھا..... تو وہ کہنے لگے خیالات کو....؟
ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا.... نہیں نہیں.... غصہ اسی پر نکالیں... جو غصہ دلائے....!!!پھر کہنے لگے:
اور غصہ ہمیشہ شیطان دلاتا ہے.... آپکو جب بھی غصہ آئے آپ دو نفل پڑھیں.... اسے تکلیف پہنچے گی.... پھر آئے پھر چار نفل پڑھیں.... اسے آگ لگے گی..... جتنا غصہ آتا جائے آپ نفل پڑھتی جائیں..... اسکا سر پھٹے گا، اسے چوٹ پڑے گی، وہ کٹے گا، جلے گا، مرے گا..... آپ انجوائے کریں.....
بھلا یہ کونسا انصاف ہے کہ غصہ دلائے شیطان اور آپ نکالیں بہن پر، بھائی پر، والدین پر، احباب پر......؟؟
یقین کریں ڈاکٹر صاحب کا یہ جواب سن کر دل کو ایک دم اتنا سکون ملا اور بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ ہم اپنی قوتوں کو کہاں ضائع کر رہے ہیں آخر؟؟تو چلیں اب آپ لوگ بھی اپنے دشمن کو پہچانیں اور اس پر غصہ نکالیں.... 🥰🥰🥰

اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطاء فرمائیں 🤲🤲 آمیین ثم آمیییین
پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک مریض یہی شکایت لے کر آیا کہ غصہ بہت آتا ہے.....
تو ہم تو غصے سے کبھی روکتے ہی نہیں..... سو انہیں بھی یہی مشورہ دیا.....
کہتے ہیں کچھ عرصے بعد وہ بندہ پھر آیا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ایک مرتبہ غصہ اتارنے کے چکر میں، میں نے 100 نفل پڑھ لئیے......
بس پھر اسکے بعد مجھے کبھی غصہ نہیں آیا......

چلیں جی....! اب آپ لوگ بھی ٹرائی کریں
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے اس کا یہ جواب عجیب لگا اور میں آگے بڑھ گیا۔
لیکن یہ سوال آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ کیا میں کوئی لٹیرا ہوں؟
یہ کون سا اخلاق ہے؟
دراصل یہ ہمارا اخلاق ہونا چاہیے تھا۔
یہ ہمارے دین کا اخلاق ہے ۔
یہ وہ اخلاق ہے جو ہمارے نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا تھا، لیکن؟
ایمانداری سے بتائیں کیا ہم لٹیرے نہیں ہیں ؟
بہت عمدہ
جیتے رہیے !بہت ڈھیر ساری دعائیں 🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
 

سیما علی

لائبریرین
کہتے ہیں کچھ عرصے بعد وہ بندہ پھر آیا اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ایک مرتبہ غصہ اتارنے کے چکر میں، میں نے 100 نفل پڑھ لئیے......
بس پھر اسکے بعد مجھے کبھی غصہ نہیں آیا......
بہترین حل بس تھوڑی سی کوشش 🌷🌷🌷🌷🌷
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اس قدر گہری تحقیق کے بعد اتنی کارآمد تحریر لکھنے والے کو میرا سیلوٹ ھے ۔

⏰ گدھے کا گوشت کھلانے کی خبر چلانے کے پیچھے کیا ھے..؟؟؟ ⏰
یہ کاروائیاں کون کرتا ھے...؟؟؟؟


مجھے یہ بتائیں، کہ کھلا دودھ اگر چودہ درھم کا بک رہا ھے تو کیا ضرورت ھے پیکنگ کر کے تین درہم کا بیچنے کی؟؟
*رائٹر کا نام معلوم نہیں ھے

انکشاف: جن ممالک میں کرونا کیوجہ سے زیادہ اموات ھوئی انکا طرز خوراک کیا تھا؟؟؟؟؟

چند سال پہلے کی بات ھے میں دوبئی میں ہنگری (یورپ) کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ، وہاں میرے ساتھ ہنگری کا ایک انجنئیر میرا کولیگ تھا ، اُس کے ساتھ میری کافی گپ شپ تھی ،
ایک دن ھم لوگ پیکٹ والی لسی پی رھے تھے ، جسے وہاں مقامی زبان میں لبن بولتے ہیں ،
میں نے اسے بتایا کہ یہ لسی ھم گھر میں بناتے ھیں ، وہ بڑا حیران ھوا، بولا کیسے ،
میں نے اسے کہا کہ ھم لوگ دھی سے لسی اور مکھن نکالتے ہیں ، وہ اور بھی حیران ہو گیا ، کہنے لگا یہ کیسے ممکن ھے ، میں نے بولا ھم گائے کا دودھ نکال کر اسکا دھی بناتے ہیں ۔

پھر صبح مشین میں ڈال کر مکھن اور لسی الگ الگ کر لیتے ہیں ، یہ ہاتھ سے بھی بنا سکتے ہیں ،
وہ اتنا حیران ہوا جیسے میں کسی تیسری دنیا کی بات کر رھا ھوں کہنے لگا یہ باتیں میری دادی سنایا کرتی تھیں ۔

کہنے لگا میری بات لکھ لو تم لوگ بھی کچھ سالوں تک آرگینک یعنی قدرتی چیزوں سے محروم ھونے والے ھو ، میں بولا وہ کیسے ،

اس نے بتایا کہ ھنگری میں بھی ایسے ھوا کرتا تھا ، پھر ساری معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئی ،

انتظامی معاملات بھی یہودیوں کے ہاتھ میں آ گئے ،

انہوں نے کوالٹی اور صحت کے حوالے سے میڈیا پر اشتہاری مہم چلائی اور جتنی بھی آرگینک (قدرتی) چیزیں تھیں ان کو صحت کے حوالے سے نقصان دہ قرار دے دیا.... جیسے کھلا دودھ ، کھلی روٹی ، گوشت ، ہوٹل ، فروٹ ، وغیرہ وغیرہ ۔

پھر کیا ھوا ؟ برانڈ متعارف ھو گئے ، جو انٹرنیشنل لیول کے میعار کے مطابق تھے ۔
گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیاں مارکیٹ میں آ گئیں ، ان کا گوشت ڈبوں میں اچھی اور خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ملنے لگا.

اور جو عام بیچنے والے تھے ان پر اداروں کے چھاپے پڑنے شروع ھو گئے.

میڈیا پر انہیں بدنام کیا جانے لگا ، نتیجہ کیا نکلا ، گوشت کا کام کرنے والے چھوٹے کاروباری لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جو تھوڑے سرمایہ دار تھے ، گوشت سپلائی کرنے والی کمپنیوں نے انکو اپنی فرنچائزز دے دیں ، اب وہ کمپنیوں کا گوشت فروخت کرنے لگے.

عام قصائی گوشت والا جانور لے کر ذبح کر کے گوشت صاف کر کے بیچتا ، بڑی بےایمانی کرتا تو ، گوشت کو پانی لگا لیتا ، اور کمپنیاں کیا کرتیں ، وہ کسی کو نہیں پتہ، پورا جانور مشین میں ڈالتے ، اس کا قیمہ قیمہ کرتے گوبر اور آنتوں سمیت !! پھر اس میں کیمیکل ڈال کر صاف کرتے ، اس کو طویل عرصہ تک محفوظ کرنے کے لیے مزید کیمیکل ڈالتے ، پھر اسکے مختلف سائز کے پیس بنا کر پیک کر کے مارکیٹ میں ڈال دیتے
اور
لوگ برانڈ کے نام پر خریدتے ، باھر رہنے والوں کو گوشت کمپنیوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو گا !!

اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے کیلئے مقامی قصائیوں کو بدنام کرنا ضروری تھا ۔

اس کیلئے گدھے کے گوشت کا ڈرامہ رچایا گیا........
یہ ڈرامہ میڈیا نے کسی کے کہنے پر کھیلا ۔۔۔۔ تاکہ لوگ بڑا گوشت نہ کھائیں اور مرغی کی طرف واپس آئیں ۔۔۔۔ کیا اب ملک میں گدھے ختم ھو گئے ہیں ؟
نہیں !!! بلکہ سیلز ٹارگٹ حاصل ھو رھے ہیں ۔۔۔۔
بھینسوں کو شہروں سے کیوں نکالا گیا؟
تاکہ خالص ، تازہ اور سستے دودھ کی جگہ ڈبہ والا دودھ فروخت کیا جا سکے ۔۔۔۔
جب
مطلوبہ ٹاگٹ پورے نہیں ھوئے تو کھلے دودھ کے پیچھے پڑ گئے ۔۔۔۔
اسی طرح مقامی گوالوں کے ساتھ بھی کیا ؛ پہلے تو میڈیا پر مہم چلا کر ان کو مارکیٹ میں بدنام کیا پھر ان کو اپنی فرنچائز دے دیں اور اپنا ھی دودھ بیچنا شروع کر دیا ۔

اب مجھے یہ بتائیں کہ جو دودھ عام اور چھوٹے فارمز سے آتا ھے یعنی مقامی گوالوں کا کھلا دودھ
مقامی گوالا
اس کیلئے کسی قسم کا کیمیکل نا تو جانور کو کھلاتا ھے اور نہ دودھ میں ڈالتا ھے ، زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا ، پانی ڈال لے گا زیادہ ڈالے گا تو وہ بھی لوگوں کو پتہ چل جائے گا ،،،

اور جو نیسلے، ملک پیک اور دوسرے ٹیٹرا پیک والے ہیں وہ دودھ کو لمبے عرصہ محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا کیمیکل ڈالتے ہیں اور فارموں میں جانوروں کو ناجانے کیا کچھ کھلاتے ہیں ،،

یہودیوں کا دودھ صحیح ھے یا کسان والا مقامی کھلا دودھ ؟؟

دبئی میں دودھ کی ایکسپائری ڈیٹ جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ کیمیکل ھوگا اور اتنی قیمت کم ھو گی ۔

ایک ھی کمپنی کا دودھ اگر ٹیٹرا پیک میں خریدیں گے تو تین درھم فی لیٹر قیمت ھے ،
اسی کمپنی کی بوتل فریش والی خریدیں گے تو چھ درہم لیٹر اور آج کل آرگینک دودھ بھی مارکیٹ میں آ گیا ھے جو چودہ درھم فی لیٹر ھے ۔

مجھے یہ بتائیں ، کہ کھلا دودھ نکال کر چودہ درھم کا بک رہا ھے تو کیا ضرورت ھے ، پیکنگ کر کے تین درھم کا بیچنے کی ،، ؟؟

لوگ اب آرگینک کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہم بدقسمت برانڈ کے پیچھے پڑ گئے ہیں ،

اب پاکستان میں بھی بڑے بڑے ڈیری فارم بن رھے ہیں ، اور ھر دوسرے روز حکومت دودھ والوں پر چھاپے مار رھی ھوتی ھے اور میڈیا پر دکھا رھی ھوتی ھے کہ دودھ میں یہ ملایا، وہ ملایا ،، اسٹرنگ آپریشن کیے جا رھے ھوتے ھیں ،،

او بھائی ، اگر کاروائی کرنی ھے تو میڈیا پر شور مچانے کی کیا ضرورت ھے؟ کیوں لوگوں کا اعتبار اٹھانے کیلئے ذھن تبدیل کر رھے ھیں ۔

اب آپ کے ذھن میں یہ سوال لازمی آئے گا کہ دنیا کی ھر تباھی کو یہودیوں سے کیوں جوڑا جاتا ھے؟؟؟ ؟

تو میرے بھائیو آپ نے صرف یہ کرنا ھے کہ دنیا کے سب بڑے برانڈڈ پیک فوڈ کمپنیوں کے مالک کی لسٹ نکال لیں اور بہت آسانی سے ان کے نام کی پروفائل واٹس ایپ ، انسٹاگرام ، فیس بک پر چیک کر لیں یا پھر ان ناموں کو گوگل پر سرچ کر لیں تو ان کی پروفائل پر آپ کو ان کا مذھب یہودی ھی ملے گا. دنیا کے زیادہ تر کاروبار کے مالک یہی یہودی ھی ہیں کاروبار کے ساتھ ساتھ یہ لوگ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی کنٹرول میں کئے ھوئے ہیں اور جب چاھیں عوام میں پروپیگنڈا پھیلا دیتے ھیں ۔

بہرحال اس تحریر کا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنی قدرتی خوراک کو اپنائیں اور شارٹ کٹ سے بنی ھوئی ھر اس خوراک سے خود بھی بچیں اور خاص طور پر اپنی اولاد کو ان سے بچائیں مثلاً پیپسی ، کوک جیسی ڈرنک ، پیک جوسز ، پیک چپس ، مختلف اسنیکس ، برگر ، پیزا کیوں کہ ان میں بھی پیک فروزن چکن اور پیک لوازمات استعمال کئیے جاتے ہیں ۔
یاد رھے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک جہاں کرونا اموات سب سے زیادہ ھوئی ھیں وہاں کی زیادہ تر آبادی کی خوراک یہی برگر ، پیزا اور پیک فوڈز پر مشتمل ھوتی ھے

لہذا فیصلہ ھم نے خود کرنا ھے ۔

یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے حوالے سے آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ ان پر سے دن بدن اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے اور ہم لوگ آہستہ آہستہ بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے ایک تو یہ ہوتا ہے کہ مقامی صنعتیں اور کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسرے یہ بین الاقوامی کمپنیاں ہمارا سارا زرِ مبادلہ بیرون ملک پہنچا دیتی ہیں اور نتیجتاً ہماری کرنسی مستقل دباؤ کا شکار ہے۔

سمجھ نہیں آتا کہ اس سب کا کیا حل ہے؟
 

سید عمران

محفلین
یہ واقعی بہت اہم مسئلہ ہے۔ چھوٹے کاروباروں کے حوالے سے آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ ان پر سے دن بدن اعتبار اُٹھتا جا رہا ہے اور ہم لوگ آہستہ آہستہ بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے ایک تو یہ ہوتا ہے کہ مقامی صنعتیں اور کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسرے یہ بین الاقوامی کمپنیاں ہمارا سارا زرِ مبادلہ بیرون ملک پہنچا دیتی ہیں اور نتیجتاً ہماری کرنسی مستقل دباؤ کا شکار ہے۔

سمجھ نہیں آتا کہ اس سب کا کیا حل ہے؟

ہر مسئلہ کا حل ہمارے پاس نہیں ہوسکتا۔۔۔
کچھ کام ریاست نرینہ کو بھی کرنے پڑتے ہیں۔۔۔
مگر ہمارے سیاست دان نر نہیں غلامِ زر ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
"کسی بھی شخص یا جماعت کی حمایت و مخالفت کی حدود"

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ کی سوانح "میرے والد میرے شیخ " میں لکھتے ہیں:

‏"کسی شخص یا جماعت کی حمایت و مخالفت میں جب نفسانیت شامل ہو جاتی ہے تو نہ حمایت اپنی حدود پر قائم رہتی ہے نہ مخالفت، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جس شخص کی حمایت کرنی ہو اسے سراپا بے داغ اور جس کی مخالفت کرنی ہو اسے سراپا سیاہ ثابت کرنے سے کم پر بات نہیں ہوتی. آج کل حمایت و مخالفت میں اس قسم کے مظاہرے عام ہو چکے ہیں، بلکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جس زمانے میں منظور نظر ہوا تو اس کی ساری غلطیوں پر پردہ ڈال کر اسے تعریف و توصیف کے بانس پر چڑھا دیا گیا، اور جب وہی شخص کسی وجہ سے زیر عتاب آ گیا تو اس کی ساری خوبیاں ملیامیٹ ہو گئیں اور اس میں نا قابل اصلاح کیڑے پڑ گئے.
حضرت والد صاحب اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اول تو یہ طریقہ حق و انصاف کے خلاف ہے. اس کے علاوہ اس حد سے گزری ہوئی حمایت و مخالفت کے نتیجے میں بسا اوقات انسان کو دنیا ہی میں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے. . . . [حضرت والد صاحب کی نگاہ ] دشمنوں اور مخالفین میں بھی اچھائیوں کو تلاش کر لیتی تھی اور ان کی خوبیوں کے برملا اظہار میں بھی آپ کو کبھی باک نہیں ہوا. ‏
بعض اوقات جب عام فضا کسی شخص یا جماعت کے خلاف ہو جاتی ہے تو اس کے بارے میں الزام تراشی اور افواہ طرازی کو عموما عیب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے عیوب کی خبریں لانے میں لطف محسوس کیا جاتا ہے اور اس میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی. حضرت والد صاحب ایسے مواقع پر اپنے متعلقین کو اس طرز عمل سے سختی کے ساتھ روکتے اور فرماتے کہ اگر ایک شخص کسی جہت سے برا ہے تو اس کا یہ مطلب ‏‎ ‎کہاں سے نکل آیا کہ اس کی تمام جہات لازما ہی بری ہوں گی اور اب اس کی بے ضرورت غیبت اور اس کے خلاف بہتان تراشی جائز ہو گئی ہے.
اس ذیل میں حضرت والد صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے ایک صحابی (غالبا حضرت عبداللہ بن عمر ) کے سامنے حجاج بن یوسف پر کوئی الزام لگایا. اس پر انھوں نے فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اس کی آبرو تمہارے لیے حلال ہو گئی ہے. یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالی حشر کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے مظالم کا حساب لے گا تو تم سے اس ناجائز بہتان کا بھی حساب لے گا جو تم نے اس کے خلاف لگایا.
‏(میرے والد میرے شیخ : 147-149 )
 

سیما علی

لائبریرین
انقلاب فرانس کے بعد ایک لیڈر نے کہا ، میرے پاس آج جو کچھ ہے ، وہ سب آپ غریبوں کی وجہ سے ہے ۔
مجمع میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا :
" آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں نے اپنی کچھ چیزیں پہچان بھی لی ہیں "

ہمارے ایک دوست نے کہا ۔
" یار مجھے سمجھ نہیں آتی ، گوجرانوالہ میں اتنے بٹ کیوں ہوتے ہیں ؟ "
پھر ایک دن خود ہی کہنے لگا ، مجھے پتہ چل گیا ہے اور اس نے ہمیں گوجرانوالہ کے قریب فیکٹری کا بورڈ دکھایا جس پر لکھا تھا ۔
" بٹ مینوفیکچرنگ انڈسٹری "

ایک تقریب میں ایک طالبہ کی اپنے ایک پسندیدہ سیاستدان سے ملاقات ہوئی تو اس نے ازراہ عقیدت بڑے جوش و خروش سے کہا :
" آپ سے ملنے کی بڑی خواہش تھی ۔ میں نے آپ کے بارے میں لوگوں سے اتنا کچھ سنا ہے ۔ "
سیاستدان ے بات کاٹتے ہوئے کہا :
" لیکن وہ ثابت نہیں کر سکتے "

آج کل ایڈورٹایزمنٹ کا فوری نتیجہ نکلتا ہے ۔ ہمارے دوست نے کل چوکیدار کے لئیے اشتہار دیا اور آج اس کے ہاں چوری ہو گئی ۔
شادی کے بعد بندہ عقلمند ہو جاتا ہے مگر بعد میں کیا فائدہ ؟

کلاہ بازیاں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد یونس بٹ
 

سیما علی

لائبریرین
✍️✍️✍️✍️✍️
جن گھروں میں چھوٹے بچے ہوتے ہیں وہاں ایک واقعہ اکثر پیش آتا ہے ۔ وہ یہ کہ رات کے کسی پہر میں جب دنیا نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے ، سوتا ہوا بچہ اپنی ماں کو پکارتا ہوا بیدار ہوجاتا ہے ۔ اس کی آواز سن کر اس کی ماں بھی فوراً بیدار ہوجاتی ہے ۔ بچہ بھوکا ہوتا ہے تو اسے دودھ دیتی ہے ، بستر گیلا کر دیتا ہے تو کپڑ ے بدلتی ہے ۔ غرض بچے کو جو بھی تکلیف ہوتی ہے ، ماں اپنی نیند اور آرام بھول کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ماں کی یہی محبت اسے ماں بناتی ہے ۔

لوگ ماں کو جانتے ہیں ، اللہ کو نہیں جانتے ۔ لوگوں کو یہ بات نہیں معلوم کہ جب اللہ کو پکارا جاتا ہے تو وہ ایک ماں سے زیادہ تیزی سے اپنے بندے کی طرف لپکتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ بندے کی دعا معرفت کی دعا ہو، وہ مفاد کی دعا نہ ہو۔ مفاد کی دعا وہ ہوتی ہے جس میں انسان اللہ کو مسئلہ حل کرنے کی مشین سمجھ کر پکارتا ہے ۔ جب دعا قبول ہوجاتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے ۔ اس کے پیش نظر صرف اپنی ذات ہوتی ہے ۔ اللہ کی عنایت، مہربانی، صفات عالیہ اور شکر گزاری کا کوئی احساس اس کے دل میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بہت کریم ہیں ۔ وہ ایسی دعاؤں کا جواب بھی دیا کرتے ہیں ۔ مگر اس میں وہ انسانوں کی حکمت و مصلحت کی رعایت ضرور کرتے ہیں ۔

اس کے برعکس معرفت کی دعا اس دل سے نکلتی ہے جو اللہ کو اس کی عنایات اور صفات کے حوالے سے جانتا ہے ۔ ایسا دل بچے کی طرح ہی اپنی تکلیف پر تڑ پ کر اپنے رب کو پکارتا ہے ۔ مگر اس کا پکارنا محض پکارنا نہیں ہوتا وہ اللہ کی صفات کا اعلیٰ ترین بیان بھی ہوتا ہے ۔ وہ کسی بچے کی آواز پر ماں کو اٹھتے دیکھتا ہے تو کہتا ہے : ’’ اے رب یہ سوئی ماں روتے ہوئے بچے کے لیے اٹھ گئی۔ میں کیسے مان لوں کہ وہ رب جسے نیند آتی ہے نہ اونگھ اپنے بندے کی آہ پر اس کے دکھ دور کرنے نہ اٹھے گا‘‘۔ یہی وہ دعا ہے جس کے بعد ہر ناممکن ممکن ہوجاتا ہے ۔ آسمان و زمین کا مالک ماں سے زیادہ تیزی سے لپک کر اپنے غلام کی دستگیری کرتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے آج کثرت دعا کے اس دور میں یہی معرفت بھری دعا بہت کم ہے !!!!!!!🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻
 

سیما علی

لائبریرین
بہرحال اس تحریر کا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنی قدرتی خوراک کو اپنائیں اور شارٹ کٹ سے بنی ھوئی ھر اس خوراک سے خود بھی بچیں اور خاص طور پر اپنی اولاد کو ان سے بچائیں مثلاً پیپسی ، کوک جیسی ڈرنک ، پیک جوسز ، پیک چپس ، مختلف اسنیکس ، برگر ، پیزا کیوں کہ ان میں بھی پیک فروزن چکن اور پیک لوازمات استعمال کئیے جاتے ہیں ۔
یاد رھے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ممالک جہاں کرونا اموات سب سے زیادہ ھوئی ھیں وہاں کی زیادہ تر آبادی کی خوراک یہی برگر ، پیزا اور پیک فوڈز پر مشتمل ھوتی ھے
اب تنگ آ کر آرگینک اور نان آرگینک خوراک کی غذائیت کی ہر کوئی بھی باقاعدہ فرق بتا رہا ہے اور آرگینک کا بخار ہم سے زیادہ امریکہ اور یورپ کو ہے !!!!!!
 

سید عمران

محفلین
اب تنگ آ کر آرگینک اور نان آرگینک خوراک کی غذائیت کی ہر کوئی بھی باقاعدہ فرق بتا رہا ہے اور آرگینک کا بخار ہم سے زیادہ امریکہ اور یورپ کو ہے !!!!!!
نان آرگینک کھا کھا کر وہ بیماریوں میں بھی تو بہت مبتلا ہیں!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کل دن میں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی.......
فون اُٹھایا اور کہا...!!!
جی جناب ____
دوسری طرف سے کوئی خاتون تھیں،،،،، بولی : جی کے بچے...!!! صبح ناشتہ کیے بغیر کیوں چلے گئے آفس؟؟ 🤔 کتنی بار کہا ہے رات کی لڑائی کو صبح بھول جایا کرو لیکن تمہیں سمجھ نہیں آتی.....
آج تم آؤ تو سہی گھر،،،، تمہاری طبیعت صاف کرتی ہوں تیرے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو کب کی تمہیں دفع دور کر چکی ہوتی.....!!!
وہ خاتون نان سٹاپ بولے جا رہی تھیں اور مَیں ہکا بکا سوچ رہا تھا کہ یہ کون معصوم عورت ہے جو مجھے اپنا میاں سمجھ کر کلاس لے رہی ہے.....
ادھر تو منگنی کا بھی دور دور تک کوئی سین نظر نہیں آتا.....
وہ ذرا رُکی تو مَیں نے کہا :: محترمہ آپ نے شاید رونگ نمبر پہ کلاس لے لی ہے لیکن مَیں آپ کا شکر گزار ہوں دو منٹ ہی سہی مجھے شادی شدہ والی فیلنگز آ گئیں آپ کی کلاس سے......
کہنے لگی :: مَیں بھی کوئی شادی شدہ نہیں ہوں
بس دل کی تسلی کے لیے رونگ نمبر پر مرد کی آواز سُن کر کلاس لے لیتی ہوں تو عجیب سی تسکین حاصل ہوتی ہے........ 😜
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
کل دن میں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی.......
فون اُٹھایا اور کہا...!!!
جی جناب ____
دوسری طرف سے کوئی خاتون تھیں،،،،، بولی : جی کے بچے...!!! صبح ناشتہ کیے بغیر کیوں چلے گئے آفس؟؟ 🤔 کتنی بار کہا ہے رات کی لڑائی کو صبح بھول جایا کرو لیکن تمہیں سمجھ نہیں آتی.....
آج تم آؤ تو سہی گھر،،،، تمہاری طبیعت صاف کرتی ہوں تیرے بچوں کا خیال نہ ہوتا تو کب کی تمہیں دفع دور کر چکی ہوتی.....!!!
وہ خاتون نان سٹاپ بولے جا رہی تھیں اور مَیں ہکا بکا سوچ رہا تھا کہ یہ کون معصوم عورت ہے جو مجھے اپنا میاں سمجھ کر کلاس لے رہی ہے.....
ادھر تو منگنی کا بھی دور دور تک کوئی سین نظر نہیں آتا.....
وہ ذرا رُکی تو مَیں نے کہا :: محترمہ آپ نے شاید رونگ نمبر پہ کلاس لے لی ہے لیکن مَیں آپ کا شکر گزار ہوں دو منٹ ہی سہی مجھے شادی شدہ والی فیلنگز آ گئیں آپ کی کلاس سے......
کہنے لگی :: مَیں بھی کوئی شادی شدہ نہیں ہوں
بس دل کی تسلی کے لیے رونگ نمبر پر مرد کی آواز سُن کر کلاس لے لیتی ہوں تو عجیب سی تسکین حاصل ہوتی ہے........ 😜

آپ بیتی کی لڑی الگ سے ہونی چاہیے۔ :) :)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت سلیمان عليه السلام کسی نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک آپ کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لیے نہر کی طرف جارہی تھی حضرت سلیما ن عليه السلام اس چیونٹی کو بہت غور سے دیکھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔جب چیونٹی پانی کے قریب پہنچی تو اچانک ایک مینڈ ک آیا اُس نے اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا منہ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانے کے ساتھ اُس کے منہ میں چلی گئی مینڈک پانی میں داخل ہو گیا اور بہت دیر تک پانی ہی میں رہا۔۔۔۔۔۔۔حضرت سلیمان عليه السلام اُس مینڈک کو بہت غور سے دیکھتے رہے تھوڑی دیر میں مینڈک پانی سے نکلا اور اپنا منہ کھولا تو وہ چیونٹی باہر نکلی لیکن اس کے ساتھ وہ دانہ نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔حضرت سلیمان عليه السلام نے اُس چیونٹی کو بلا کر پوچھا یہ سارا ماجرہ کیا ہے اور تم کہاں گئی تھی اُس چیونٹی نے بتایا کہ اے *اللّٰہ* کے نبی آپ جو وہ نہر کی تہہ میں ایک بڑا کھوکھلا پتھر دیکھ رہے ہو اس کے اندر بہت سے اندھے کیڑے مکوڑے ہے۔۔۔۔۔۔۔ *اللّٰہ تعالی* نے ان کو وہاں پر پیدا کیا ہے وہ وہاں سے روزی تلاش کرنے کے لیے نہیں نکل سکتے *اللّٰہ تعالی* نے مجھے اُن سب کی روزی کا وکیل بنایا ہے میں اُن سب کی روزی کو اٹھا کر لے جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اور *اللّٰہ* نے اِس مینڈک کو میرے لیے مسخر کیا ہے تاکہ وہ مجھے با آسانی وہاں تک لے کر جائے جب میں اس کے منہ میں ہوتی ہوں تو اِس نہر کے پانی سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔۔۔۔۔۔۔ یہ مینڈک اپنا منھ اُس بند پتھر کے سوراخ کے سامنے کھول دیتا ہے اور پھر میں اِس میں داخل ہو جاتی ہوں اور پھر جب میں اُن سب کی روزی اُن تک پہنچا کر واپس یہاں آتی ہوں تو مینڈک مجھے اپنے منہ سے باہر نکال دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔حضرت سلیما ن عليه السلام نے کہا کیا تو نے کبھی وہاں اُن کیڑوں کی کسی تسبیح کو سنا ہے؟ چیونٹی نے بتایا ہاں! اکثر وہ سب ایک جُٹ ہو کر کہتے ہے *اے اِس کائنات کے مالک شُکر ہے تیرا جو تو اِس گہرے پانی کے اندر بھی ہم سب کو رزق دینا نہیں بھولتا*۔
( قصص_الانبیاء )
 

سیما علی

لائبریرین
دو سروں کی غلطیاں جانچنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھنا بہتر ہے اس سے تمام تر برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔۔۔

باشعور افراد ہی بہترین قوم بنتے ہیں ۔ عقل کے بغیر کبھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ اندھی تقلید ہر حال میں ناقابل قبول ہے اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ بھی ۔۔۔۔
کسی کے لیے بُرا سوچنا یا بُرا چاہنا خود کو برباد کرنے کے مترادف ہے اس سے تعمیر کا نہیں تخریب کا امکان زیادہ ہے۔
اتحاد اور تنظیم بنیادی اصول ہیں زندگی کے بھی اور کسی جماعت یا گروہ کے بھی ، اس کے بغیر بقا کی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ ہمیشہ سوچ کر زبان کھولنا بہتر ہے کیونکہ جو گُفتگو کا فن نہیں جانتے باعث فساد بنتے ہیں ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مہمان کے لیے ڈنڈا( احمد حاطب صدیقی صاحب کی تحریر '' جمعہ مبارک اور مہمان کے لیے ڈنڈا'' سے ماخوذ

کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘۔
میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘۔
میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ’’اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے‘‘۔
مہمان نے دل میں سوچا: ’’بے خطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے‘‘۔
پھر اس نے اعلان کردیا: ’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا‘‘۔
اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے:
’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا؟ اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے‘‘۔
ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکا ر تھا۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا۔ اور انہوں نے بھی اعتراض کیا:
’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے‘‘۔
مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔ گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔ مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے‘‘۔
زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے!!!!!

مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے.۔۔۔۔
 
Top