انٹر نیٹ سے چنیدہ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہاہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟
میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازار عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا اب آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کون سی روز پہنی ہے جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔
میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہوچکا ہے، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے اسے رونے نہیں دیگا۔

بانو قدسیہ
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔
اس میں بال برابر شک نہیں ۔ہمارا سلام ہے ایسے تمام حضرات کو سلامت رہیں ۔۔۔ہماری اماّں کہا کرتیں تھیں مرد کی دروازے پر رکھی جوتی بھی بھاری ہوتی ہے کوئی ٹیڑھی نظر کی جرُات نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کو پاکستان پہاڑی علاقوں میں سڑک بنانے کا ٹھیکہ مل گیا ... انھوں نے نقشے بنانے شروع کئے ۔
سروے کہ دوران ایک غیر ملکی ٹھیکیدار کو یہ سب سمجھ نہ آیا۔ اعتراض اٹھانے پر انھوں نے پوچھا کہ آپ لوگ پہاڑی علاقے میں سڑک کا نقشہ کیسے ترتیب دیتے ھیں ؟
اس پر پاکستانی ٹھیکیدار نے کہا کہ ھم کھوتے پہ چونے کی بوری سوراخ کر کے لاد دیتے ھیں اور کھوتے کو پہاڑ پہ چھوڑ دیتے ھیں ، کھوتا جس راستے سے اوپر نیچے جاتا ھے وھاں چونے کہ نشان سے ھمیں پتہ چل جاتا ھے کہ یہ بہتر راستہ ہے، اور پھر وہیں پر سڑک بنانا شروع کردیتے ہیں۔
وہ غیر ملکی بڑا پریشان ھوا اور پوچھا کہ “آپ کہ ھاں سڑکیں سول انجینئرز نہیں بناتے ؟”... تو ٹھیکیدار نے ہنس کر کہا “جہاں کھوتا میسر نہ ھو وھاں انجینئرز ھی بناتے ھیں 😂🙏🏻😂😂😂
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
والدین کی عاجزانہ خواہشات:
* ہم چلنا بھول گئے ہیں ہمیں چلنا سکھائیں ،
* ہم کھانا بھول گئے ہیں ہمیں کھانا کھلائیں ،
* ہم جینا بھول گئے ہیں ہمیں جینا سکھائیں ،
* ہم ہنسنا بھول گئے ہیں ہمیں ہنسنا سکھائیں ،
بہت اچھے انداز میں والدین کی عاجزانہ خواہشات کا بیان۔۔۔
اللہ پاک سب کو اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے کہ ان سے بڑھ کر کوئی مخلص اور بے لوث رشتہ اس کرہء ارض پر نہیں۔
اور جن کے والدین نہیں ، انھیں اپنے والدین کے لئے صدقہ ء جاریہ بنتے ہوئے دوسروں کے لئے مددگار بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ ثم آمین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وہ بھی کیا دور تھا ۔سب بہن بھائی چولہے کے ارد گرد بیٹھ جاتے۔والدہ روٹیاں پکاتی جاتیں۔اور اگر کوئی روٹی پھول جاتی تو ضد کی جاتی کہ یہ روٹی میں نے کھانی ھے کیونکہ مجھے زیادہ بھوک لگی ہے ۔
بہت زبردست روؤف بھائی۔۔۔۔۔ بظاہر ایک ذرا سی بات۔ مگر یہی ذرا ذرا سی باتیں ہی زندگی کا اصل حسن ہیں۔
ابھی وہ وقت تو نہیں رہا مگر اس کی یاد میں کبھی کبھار ان یادوں کو تازہ کیا جا سکتا ہے خواہ بار بی کیو پارٹی کی صورت۔وہ سارا ماحول بنایا جا سکتا ہے۔ مقصد تو آئندہ نسل میں ان چیزوں کا احساس دلانا ہے۔ اصل میں یہ بار اب بہت نازک کاندھوں پر آ گیا ہے اور ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں ایک بھاگ دوڑ ہی لگی ہے۔
کیا مل کر ایک ایک پرچم بلند کریں؟
 

سیما علی

لائبریرین
ایک طالب علم کو استاد نے امتحان میں فیل کردیا . طالب علم شکایت لے کر پرنسپل کے پاس چلا گیا کہ مجھے غلط فیل کیا گیا ہے🧍‍♂️

پرنسپل نے استاد اور طالب علم دونوں کو بلا لیا اور استاد سے فیل کرنے کی وجہ پوچھی استاد صاحب نے بتایا کہ اس لڑکے کو فیل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ موضوع سے باہر نکل جاتا ہے

جس موضوع پر اسے مضمون لکھنے کو دیا جائے اسے چھوڑ کر اپنی پسند کے مضمون پر چلا جاتا ہے .
پرنسپل نے کوئی مثال پوچھی تو استاد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے اسے بہار پر مضمون لکھنے کو کہا تو وہ اس نے کچھ اس طرح لکھا 🌱
موسم بہار ایک بہت ہی بہترین موسم ہوتا ہے اور اس کے مناظر بہت ہی دلنشین ہوتے ہیں۔ اس موسم میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے

اور سبزے کی بہتات ہو جاتی ہے ، اس موسم کو اونٹ بہت پسند کرتے ہیں اور اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے🐫🐪

اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
پرنسپل صاحب نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مناسبت کی وجہ سے بہار کی بجائے اونٹ پر لکھ بیٹھا ہو آپ اسے کوئی اور موضوع دے کر دیکھتے

استاد صاحب نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تم اس طرح کرو کہ جاپان میں گاڑیوں کی فیکٹری پر مضمون لکھو۔ اس طالب علم نے جو مضمون لکھا وہ کچھ اس طرح تھا

جاپان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور گاڑیوں کی صنعت میں اس کو منفرد و اعلی مقام حاصل ہے۔ جاپان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے گاڑیاں برآمد کرنے میں۔ ہمارے ملک میں بھی زیادہ تر گاڑیاں جاپان کی استعمال ہوتی ہیں🈵️

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پیٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کریں اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے 🐪🐫

اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنسپل بہت حیران ہوا اس نے کہا کہ شاید سواری کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے ، آپ بالکل ہی کوئ الگ موضوع دے کے دیکھتے ۔

استاد صاحب نے کہا جی ایک دفعہ میں نے بالکل ہی الگ موضوع دیا جس میں اونٹ کا ذکر آنا ہی ناممکن تھا میں نے اسے کمپیوٹر پر مضمون لکھنے کو کہا لیکن اس نے جو مضمون لکھا وہ کچھ اس طرح تھا 💻

کمپیوٹر💻 ایک نہایت ہی حیران کن ایجاد ہے۔ جو کام پہلے سالوں میں نہیں ہوتے تھے وہ آج سکینڈوں میں ہوتے ہیں ۔کمپیوٹر کا انسانی زندگی پر بہت بڑا احسان ہے۔ آج کل کی نئی نسل کمپیوٹر کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔اس کا استعمال زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں

جو تعلیم یافتہ ہوں۔ لیکن جہاں تک غیر تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق ہے تو وہ کمپیوٹر پر توجہ نہیں دیتے کیوں کہ وہ اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ بالخصوص صحراوں میں جو بدھوں رہتے ہیں

ان کو تو کمپیوٹر کی الف ب کا پتا نہیں۔ لہذا ہمارے علاقے میں یہ لوگ زیادہ تر وقت اونٹ کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے🐫🐪

۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنسپل نے یہ سنکر کہا کہ پھر تو آپ نے ٹھیک فیل کیا ، پھر طالب علم سے کہا کہ میں آپ کو ایک موقع دیتا ہوں آپ بہیں بیٹھ کر ایک مضمون لکھو جو موضوع سے ادھر ادھر نہ ہٹے ،
طالب علم مان گیا اور پرنسپل نے اسے ایک روڈ ایکسیڈنٹ پر مضمون لکھنے کو کہتا ہے تو طالب علم یوں مضمون لکھتاہے
ایک دفعہ میں ریاض سے مکہ جا رہا تھا۔ میرے پاس ٹویوٹا کرسیڈا گاڑی تھی جو بڑی مست تھی۔ میں جناب ہائی وے ہے پر بہت ہی تیز رفتاری کے ساتھ جا رہا تھا🚘

میں ایسے علاقے سے گزر رہا تھا جہاں پر اونٹ روڈ کراس کرتے ہیں۔ اور اونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ ہی گاڑی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی دور ہٹتا ہے۔ اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔🐫🐪

اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب پرنسپل صاحب نے یہ مضمون پڑا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ تمہارا کوئی علاج نہیں اور اس کو فیل کردیا۔ اب جناب اس شاگرد کا شک یقین میں بدل گیا کہ اس کے ساتھ ضرور بالضرور ظلم ہوا ہے اور اس نے محکمہ تعلیم کو ایک درخواست لکھی

جناب عالی
میں اپنی کلاس کا ایک نہایت ہی ذہین طالب علم ہوں👨‍🎓 اور مجھے سالانہ امتحان میں جان بوجھ کر فیل کر دیا گیا ہے ، میرے استاد نے میری قابلیت کی وجہ سے مجھے فیل کیا ہے ،

جناب میں نے اپنے استاد کے ناقابل برداشت رویہ پر ایسے ہی صبر کیا جیسے اونٹ اپنے مالک کے ستانے پر صبر کرتا ہے۔ مالک اونٹ سے اپنے کام بھی نکلواتا ہے اور اس کو ستاتا بھی ہے۔
اور ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے

اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کے کام بھی آتا ہے🐫🐪🙄
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری عورتوں کو سردیاں کیوں پسند ہیں ۔۔۔؟
(1) خاوند کی پوری قمیض استری کرنے کی بجائے ، صرف کالر ہی استری کرنا پڑتا ہے ۔
(2) فریج میں جگہ بنانے اور دودھ سالن آٹا ، اس میں سنبھالنے کی اذیت سے بچ جاتی ہیں ۔
(3) گھر آئے 35 مہمانوں کو 12x12 کے کمرے میں ، آرام سے سلا سکتی ہیں ۔
(4) مونگ پھلی کھا کر اس کے چھلکے کمرے میں بکھیرنے کی پاداش میں ، اپنے خاوند کی سرزنش کر سکتی ہیں ۔
(5) خاوند کو اپنی ناراضگی دکھانے کے لئے ، موٹے کھیس سے اپنا منہ ڈھانپ کر بیٹھ سکتی ہیں ۔
(6) سارا دن جرابیں پہن کر ، اپنی پھٹی ایڑیاں ، پڑوسنوں سے چھپا سکتی ہیں ۔
(7) کھانا بناتے وقت اپنے گٹے گوڈوں کی ٹکور مفت ہی میں کر سکتی ہیں ۔
(😎 اپنے خاوندوں کو تیرہ چودہ دنوں تک ، ایک ہی جوڑے میں آفس بھیج سکتی ہیں ۔
(9) گھر میں تین کی بجائے ، صرف دو ٹائم کھانا بنا کر اپنی تھکاوٹ کم کر سکتی ہیں ۔
(10) ایک دن ساگ بنا کر ، آٹھ دن کے لئے کوئی اور سالن بنانے کے جھنجٹ سے آزاد ہو سکتی ہیں ۔
(11) دھوپ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی جوئیں نکالتے وقت ، انہیں اپنا شکار آسانی سے نظر آ جاتا ہے ۔
(12) کپڑے سکھانے کے بہانے ، چھت پہ جا کر تین تین گھنٹے تک اپنے خاوند ، نندوں ، ساس ، یا بہو ، کی برائیاں کر سکتی ہیں ۔ سامنے والی پڑوسن کی غیبت کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے ۔😝😝😝😂🤣
 

سیما علی

لائبریرین
رات کو میں بغیر دعوت نامہ کے ایک شادی میں پہنچ گیا۔
کھانے کی ٹیبل کے پاس جا کر کھڑا ھی ھؤا تھا کہ
لڑکی والوں کی طرف سے کسی نے پوچھا کہ کس کی طرف سے آئے ہو؟
اُسی وقت لڑکے والے بھی آئے اور پوچھنے لگے، کس کی طرف سے ہو؟
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چُپ چاپ شادی میں آئے لوگوں کی گنتی کرنے لگا۔1️⃣2️⃣3️⃣4️⃣5️⃣6️⃣7️⃣....
پھر بولا، مجھے پولیس اسٹیشن سے بھیجاگیا ہے کہ گنتی کرکے آؤ کہ شادی میں کتنے لوگ ہیں اور ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھا جا رہا ھے یا نہیں؟🤨😏😟😫😠
یہ سُن کر لڑکی اور لڑکے والوں نے مل کر مجھے 😎 VIPکی طرح کرسی پر بٹھایا👨🏽‍🦼، سب طرح کاکھانا کھلایا،🍇🫐🍔🥙🥘🌭 میٹھا کھلایا۔🥮🥮🍦🍧
اور جیب میں 10000 روپے کالفافہ رکھا اور ریکوئسٹ کی کہ بس سنبھال لینا۔
😂😂😂🤣😂
 

سیما علی

لائبریرین
ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو
یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا۔

میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت ہیں‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے ہیں تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا
یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انھیں دنوں ’’ایکس چینج” کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی ۔
ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے.

ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے۔
میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے۔

میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ ۔
میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں.
میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘
میرے والد نے فرمایا ’’بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین
😍""پسندیدہ کتاب""😍
لائبریری میں سکوت اور خاموشی کی برف جمی ہوئی تھی۔کتاب اُٹھاتے وقت بھی دل چاہتا تھا ہاتھوں پہ روئ لپیٹی جائے۔پاس بیٹھے شخص کی سانسیں اس قدر آن لائن اور لائیو سنائ دے رہی تھیں کہ نتھنوں سے نکلنے والے مالیکیولز اگر سُنی آواز سے گِننا چاہو تو قدرے محال نا ہو۔اسی اثنا میں شاید ہم سے پرانی عداوت و بغاوت کا انتقام لینے کے واسطے کسی نے سٹیل کا ایک چمچ ہماری پسندیدہ کتاب کے ساتھ نمودار دراڑ میں رکھ دیا۔ہم آگے بڑھے ،لپکے،اور اپنی پسندیدہ کتاب کے رخساروں کو کچھ یوں ہتھیلیوں میں دبوچا کہ گویا برسوں کے بچھڑے دو محبوب۔۔لیکن اس رومینٹک سین کا مَرڈر دراڑ میں رکھے اُس چمچ نے کیا جو کتاب سے قبل ہی فراٹے بھرتا فرش پہ جا گِرا ۔۔۔بس پھر کیا تھا ،،چمچ اس درد ناک چوٹ کی تاب نا لاتے ہوئے زور و شور سے چیخنے چلانے لگا اور اس دوران اُس نے وہ وہ نغمات کہہ سنائے کہ جن کے سرور و لے کو بیان کرنے کے واسطے الفاظ بھی سوری بول کر پتلی گلی نکل گئے ۔۔
لائبریری میں موجود پوری امتِ مسلمہ جو شدت سے غریقِ بحرِ بُک تھی چونک اُٹھی ،کئیوں کے ہاتھوں سے تو کتابیں چھلانگیں لگاتے لگاتے بچیں۔لائبریری ہیڈ صاحبہ بھی ناک کے کندھوں پہ چشمہ رکھے کسی کنوارے مصنف کی کتاب "شادی موجبِ آبادی" پڑھ رہی تھیں کہ یہ پُر ترنم دھماکا سنتے ہی اُن کے چشمے نے ٹیبل پر چھلانگ لگا دی۔لفظ بینی صفحہ بینی میں بدلی۔غصے کی ایک پھوار صاحبہ کے سرخ رخساروں سے نکلتی ہوئی ہم پر آ پڑی ۔ہم نے بنا جنبشِ لب پاؤں اُٹھایا اور چمچ کی گردن پر رکھ دیا اور اس تپش سے رکھا کہ گردن اُدھر،،دھڑ ادھر۔۔
پھر ہم کرسی کی تلاش میں لائبریری کے اندر الیکٹران کی طرح گھومنے لگے ۔چلتے چلتے ایک پراگندہ حال اور قریب المرگ کرسی مل ہی گئ۔آگے بڑھے اور کرسی کی طلب و محبت نے ہمیں بھلا ہی دیا کہ ہم لائبریری یعنی کمرۂِ خاموشاں میں ہیں۔کرسی کو بازو سے پکڑا اور ایک زور دار جھٹکے سے اُسے اپنی طرف ایسے کھینچا جیسے انڈین فلموں میں ہیرو ،ہیروَن کو کھینچتا ہے۔۔۔چرچراہٹ کی ایک خوفناک آواز پیدا ہوئی ۔ہمارے گاؤں میں اکابرین کی ایک بس ہوا کرتی تھی جب اُسے کَس کے بریک لگائی جاتی تو ایسی ہی آواز آیا کرتی تھی۔۔بس پھر کیا تھا لائبریری کی اس قوم کے جزبات پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ایک مرتبہ پھر سب نے اپنی نگاہوں اور تیوریوں کے نشتر ہم پر آزمائے۔لیکن ہم نے اپنے معصومانہ انداز سے سب کو سوری کا ڈوز دے کر شانت کر دیا۔۔۔پھر ہم دنیا سے روگردانی کر کے ورق گردانی کرنے لگے ۔اور ایک مرتبہ پھر لائبریری مردہ خانے کا منظر پیش کرنے لگی۔مردے یہاں بھی تھے اور وہاں بھی فرق صرف یہ تھا کہ وہاں سانسیں نہیں چلتیں،،یہاں وہ چل رہی تھیں لیکن خاموشی قدرے مشترک تھی۔
اب کی بار خاموشی کے اس بُت کو ایٹم بم ہمارے ایک قہقہے نے مارا تھا۔یہ قہقہہ فلک شگاف تو نہیں تھا ہاں چھت شگاف ضرور تھا۔۔ہمارے اس قہقہے نے سکوت کا جنازہ نکالا تو ارداگرد بیٹھے لوگوں کی بے اختیار ہنسی نے اسکی فاتحہ خوانی کی ۔۔ہمارا اب تیسرا اٹیک تھا اور تیسرا اٹیک صحت مند،،تگڑے بندے کو بھی آ جائے تو دھڑکنیں بند کر کے اُسے اگلے جہان ٹی۔سی۔ایس کر دیتا ہے۔۔😄😄😅😅😅😅😅
غرض ہماری شکم دراڑ ہنسی اب بےاختیار تھی۔ لائبریرئن صاحبہ نے بھی اپنی نظریں اب برسوں پڑے،دھول سے اَٹے ڈنڈے پر گاڑ دی تھیں۔اس سے قبل کے ڈنڈوں،جوتوں کی بارش کا آغاز ہوتا ہم گرج چمک دیکھتے ہی کتاب کھلی چھوڑے دروازے کی طرف بھاگے۔بھاگتے بھاگتے ہم نے شیشے کے بند دروازے کو کھُلا سمجھ کر ایک زور دار ٹکر اُسے رسید کی پھر ہینڈل کھینچتے،،گرتے، پڑتے،،دریائے ہنسی کے آگے بند باندھتے باہر نکل گئے ۔اب پوری لائبریری قہقہہ گاہ بن چکی تھی۔اور زندہ دلانِ شہر ہنسی سے لُوٹ پُوٹ ہو رہے تھے کہ اتنے میں ایک صاحب آگے بڑھے اور ہماری پسندیدہ کتاب کو اُلٹ کر نام پڑھنے لگے۔۔کتاب کا نام تھا
""پطرس کے مضامین""
اور " کتے" والا باب اوپن تھا😅😅😄😄😃😃
تب جا کر سب کو ہماری بے قراری اور اَن لمیٹیڈ قہقہوں کی وجہ سمجھ میں آئی۔۔۔

اب لائبریرئن ڈنڈا بجا کر خاموشی کی چادر دوبارہ بچھا چکی تھی اور ایک بار پھر سب اپنی اپنی کتابوں میں درگور ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**شاھین**
طفلِ مکتب=محمد ہارون عثمانی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ریسرچر.... !

۔۔ایک شکاری نے کنڈی میں گوشت کی بوٹی لگا کر دریا میں پھینکی ۔
ایک مچھلی اسے کھانے کے لیے دوڑی ۔
وہیں ایک بڑی مچھلی نے اسے روکا کہ اسے منھ نہ لگانا ، اس کے اندر ایک چھپا ہو کانٹا ہے جو تجھے نظر نہیں آ رہا۔ بوٹی کھاتے ہی وہ کانٹا تیرے حلق میں چبھ جائے گا ، جو ہزار کوششوں کے بعد بھی نہیں نکلے گا ۔

تیرے تڑپنے سے باہر بیٹھے شکاری کو اس باریک ڈوری کے ہلنے سے خبر ہو جائے گی۔
تو تڑپے گی وہ خوش ہو گا، اس باریک ڈور کے ذریعے تجھے باہر نکالے گا،
چھری سے تیرے ٹکڑے کرے گا، مرچ مصالحہ لگا کر آگ پر ابلتے تیل میں تجھے پکائے گا،

10 ، 10 انگلیوں والا انسان 32 ، 32 دانتوں سے چبا چبا کر تجھے کھائے گا ۔
یہ تیرا انجام ہو گا۔

بڑی مچھلی یہ کہہ کر چلی گئی۔

چھوٹی مچھلی نے دریا میں بڑی مچھلی کی بتائی ہوئی باتوں پر ریسرچ شروع کر دی ،
نہ شکاری ، نہ آگ ، نہ کھولتا تیل ، نہ مرچ مصالحہ ، نہ دس دس انگلیوں اور بتیس بتیس دانتوں والے انسان ، کچھ بھی نہیں تھا ۔

چھوٹی مچھلی کہنے لگی یہ بڑی مچھلی ان پڑھ جاہل ، پتھر کے زمانے کی باتیں کرنے والی ، کوئی حقیقت نہیں اس کی باتوں میں ۔ میں نے خود ریسرچ کی ہے ،
اس کی بتائی ہوئی کسی بات میں بھی سچائی نہیں ، میرا ذاتی مشاہدہ ہے ،
وہ ایسے ہی سنی سنائی نام نہاد غیب کی باتوں پر یقین کیے بیٹھی ہے ،
اس ماڈرن سائنسی دور میں بھی پرانے فرسودہ نظریات لیے ہوئے ہے۔

چنانچہ اس نے اپنی ذاتی ریسرچ اور ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر بوٹی کو منھ ڈالا ، کانٹا چبھا ، مچھلی تڑپی ، شکاری نے ڈور کھینچ کر باہر نکالا ، آگے بڑی مچھلی کے بتائے ہوئے سارے حالات سامنے آ گئے۔

انبیاء علیھم السلام نے انسانوں کو موت کا کانٹا چبھنے کے بعد پیش آنے والے غیب کے سارے حالات و واقعات تفصیل سے بتا دیے۔

بڑی مچھلی کی طرح کے عقلمند انسانوں نے انبیاء کی باتوں کو مان کر زندگی گزارنی شروع کر دی اور دنیا و آخرت میں فلاح پا گئے ۔

چھوٹی مچھلی والے نظریات رکھنے والے انبیاء کا راستہ چھوڑ کر اپنی ظاہری ریسرچ کے رستے پر چل رہے ہیں ۔

موت کا کانٹا چبھنے کے بعد سارے حالات سامنے آ جائیں گے۔

مچھلی پانی سے نکلی تو واپس نہیں آئی
انسان اس دنیا سے گیا تو کبھی واپس نہیں آیا
 
Top