انٹر نیٹ سے چنیدہ

عیدالاضحی ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 4 ﮐﮭﺮﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﮐﺎ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻫﻮتا ہے, ﺗﻘﺮﯾﺒﺄ 23 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻗصائی ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻤﺎتے ہیں۔

3 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﭼﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ والے ﮐﻤﺎتے ہیں۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﻫﻮتا ہے.

ﻧﺘﯿﺠﻪ : ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ملتی ہے ﮐﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﻩ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتا ہے.

ﺩیہاﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ملتی ہے۔
اربوں روپے ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻻﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍلے کماتے ہیں۔

ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ لیے مہنگا ﮔﻮﺷﺖ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ملتا ہے ,ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتی ﻫﯿﮟ ,ﭼﻤﮍﮮ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺎﻡ ملتا ہے,ﯾﻪ ﺳﺐ ﭘﯿﺴﻪ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﻫﮯ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺧﺮﭺ ﮐﺮتے ہیں ﺗﻮ نا ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﮭﺮﺏ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﻫﻮتا ہے۔

ﯾﻪ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮔﻮﺷﺖ نہیں ﮐﮭﻼﺗﯽ , ﺑﻠﮑﻪ ﺁﺋﻨﺪﻩ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮٸی ﻣﻠﮏ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭘﯿﺴﻪ ﻏریبوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻧﻬﯿﮟ ﻫﻮﻧﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ۔

ﺍﮐﻨﺎﻣﮑﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﻮﻟﯿﺸﻦ ﺁﻑ ﻭﯾﻠﺘﮫ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﮑﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﻩ ﺟﺎﺗﯽ ﻫﮯ۔

ماشاءالله ماشاءالله ❤ فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ❤
بہت ہی مفید معلومات ہے
اللہ تعالی کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے چاہے ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے ہمیں بِلا چُو چَرا کئے اللہ کی مان لینی چاھئیے اُس ہی عمل میں ہمارے لئے بھلائی ہوتی ہے
 

سیما علی

لائبریرین
عشق الٰہی اور حضرت رابعہ بصریؒ

حضرت رابعہ بصریؒ اور حضرت حسن بصریؓ ہم عصر تھے مگر آپ دونوں کے طریقے میں فرق تھا۔ حضرت حسن بصریؒ خوف خدا جبکہ حضرت رابعہ بصریؒ عشق الٰہی کی قائل تھیں۔ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں میں ایک ہاتھ میں مشعل اوردوسرے ہاتھ میں پانی لے کر جارہی ہیں ،جب لوگوں نے پوچھاکہ یہ آپ کیاکرنے جارہی ہیں تو رابعہ بصری نے جواب دیاکہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اوراس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں تاکہ لوگ اُس معبودِ حقیقی کی عبادت جنت کی لالچ یادوزخ کے خوف
سے نہ کریں بلکہ لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے۔ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھاگیاکہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟ رابعہ بصری نے جواب دیاکہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ بھی نہیں چھوڑی کہ اس میں کسی اورکی نفرت یامحبت سماسکے۔رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88 سال کی عمر پائی لیکن آخری سانس تک آپ نے عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپناشعاربنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کادم بھرتی رہیں ۔ آخری وقت آپ نے اپنے ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے۔۔۔۔۔
http://javedch.com/islam/2017/06/10/285138
 

سیما علی

لائبریرین
سب ہمارے رب کی طرف سے ہے
(آیت 7 سورة آل عمران)

اللہ اگر بارش نہ برسائیں زمین نہ بنائیں، دھوپ نہ نکالیں، چاند نہ نکالیں زمین میں پانی پیدا نہ کریں تو زمین میں کوئی چیز اگ ہی نہیں سکتی آپ زمین نہیں بنا سکتے پانی نہیں بنا سکتے بیج نہیں بنا سکتے اگر گیہوں کا بتج زمین سے ناپید ہوجائے تو بتائیں کون سی ایسی سائنس ہے جوبیج بنادے گی آپ جو بھی چیز استعمال کرتے ہیں وہ بہرحال قدرت کی پیدا کردہ ہے ہم زمین کی پیداوار بڑھانے کے لئے کھاد استعمال کرتے ہیں اگر قدرت زمین میں وہ چیز یں پیدا نہ کرے جن سے کھادبنتی ہے تو کھاد کیسے بنے گی آپ اپنی مرضی سے پیدا بھی نہیں ہوسکتے اگر اللہ نہ چاہیں کون آدمی پیدا ہوسکتا ہے اللہ پیدائشی پاگل کر دیں کون سا ایسا علاج ہے جو پاگل پن کو صحیح کردے پاگل پن کا کوئی علاج نہیں نئی نئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلا کینسر کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا بڑے بڑے سائنٹسٹ کہتے ہیں ہم چاند پر چلے گئے ہیں خلاء میں چہل قدمی کر آئے ہیں وہ بڑے سائنٹسٹ سارے

مرگئے وہ سائنسی ایجادات سے موت کے ہاتھ میں کیوں پنجہ نہ ڈال سکے کیوں موت کونہیں روک سکے؟

جب ہم غور کرتے ہیں اپنی زندگی پر زمین کی زندگی پرمستقبل کے اوپر ماضی کے اوپر تو اس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ جو کچھ ہورہا ہے الله تعالی کےحکم سے ہورہا ہے اور الله تعالی کررہے ہیں مثلا جب بچہ پیدا ہوتا ہے الله تعالی ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتے ہیں اگر ماں باپ کے دل میں محبت نہ ڈالیں تو بچہ کی پرورش ہی نہیں ہوسکتی۔

ماں چاہے بلی ہو بکری ہو بھینس ہو یا انسان کی ماں ہو جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پرورش کے لئے اس کی نشوونما کے لئے اللہ تعالی ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتے ہیں اگر اللہ تعالی ماں باپ کے دل سے محبت نکال لیں تو کوئی بچہ پرورش نہیں پاسکتا۔ پیدائش سے پہلے اللہ ماں کے سینے کو دود ھ سے بھر دینے ہیں دودھ بنانے میں ماں کون سا کردار ادا کرتی ہے آپ جتنا بھی گہرائی میں تفکر کریں آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ انسان کچھ نہیں کر رہا ہے سب کچھ الله کررہے ہیں یہ انسان کی نادانی ہے کہ انسان سمجھ رہا ہے کہ سب کچھ میں کر رہا ہوں اچھا اگر آپ سب کچھ کر رہے ہیں تو کاروبار میں نقصان کیوں ہوتا ہے آپ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا آپ نے الله تعالی کو کیسے پہچانا؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ارادوں کی ناکامی ہے جو میں نہیں چاہتا وہ ہوتا ہے اور جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
 
سب ہمارے رب کی طرف سے ہے
(آیت 7 سورة آل عمران)

اللہ اگر بارش نہ برسائیں زمین نہ بنائیں، دھوپ نہ نکالیں، چاند نہ نکالیں زمین میں پانی پیدا نہ کریں تو زمین میں کوئی چیز اگ ہی نہیں سکتی آپ زمین نہیں بنا سکتے پانی نہیں بنا سکتے بیج نہیں بنا سکتے اگر گیہوں کا بتج زمین سے ناپید ہوجائے تو بتائیں کون سی ایسی سائنس ہے جوبیج بنادے گی آپ جو بھی چیز استعمال کرتے ہیں وہ بہرحال قدرت کی پیدا کردہ ہے ہم زمین کی پیداوار بڑھانے کے لئے کھاد استعمال کرتے ہیں اگر قدرت زمین میں وہ چیز یں پیدا نہ کرے جن سے کھادبنتی ہے تو کھاد کیسے بنے گی آپ اپنی مرضی سے پیدا بھی نہیں ہوسکتے اگر اللہ نہ چاہیں کون آدمی پیدا ہوسکتا ہے اللہ پیدائشی پاگل کر دیں کون سا ایسا علاج ہے جو پاگل پن کو صحیح کردے پاگل پن کا کوئی علاج نہیں نئی نئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلا کینسر کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا بڑے بڑے سائنٹسٹ کہتے ہیں ہم چاند پر چلے گئے ہیں خلاء میں چہل قدمی کر آئے ہیں وہ بڑے سائنٹسٹ سارے

مرگئے وہ سائنسی ایجادات سے موت کے ہاتھ میں کیوں پنجہ نہ ڈال سکے کیوں موت کونہیں روک سکے؟

جب ہم غور کرتے ہیں اپنی زندگی پر زمین کی زندگی پرمستقبل کے اوپر ماضی کے اوپر تو اس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ جو کچھ ہورہا ہے الله تعالی کےحکم سے ہورہا ہے اور الله تعالی کررہے ہیں مثلا جب بچہ پیدا ہوتا ہے الله تعالی ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتے ہیں اگر ماں باپ کے دل میں محبت نہ ڈالیں تو بچہ کی پرورش ہی نہیں ہوسکتی۔

ماں چاہے بلی ہو بکری ہو بھینس ہو یا انسان کی ماں ہو جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پرورش کے لئے اس کی نشوونما کے لئے اللہ تعالی ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتے ہیں اگر اللہ تعالی ماں باپ کے دل سے محبت نکال لیں تو کوئی بچہ پرورش نہیں پاسکتا۔ پیدائش سے پہلے اللہ ماں کے سینے کو دود ھ سے بھر دینے ہیں دودھ بنانے میں ماں کون سا کردار ادا کرتی ہے آپ جتنا بھی گہرائی میں تفکر کریں آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ انسان کچھ نہیں کر رہا ہے سب کچھ الله کررہے ہیں یہ انسان کی نادانی ہے کہ انسان سمجھ رہا ہے کہ سب کچھ میں کر رہا ہوں اچھا اگر آپ سب کچھ کر رہے ہیں تو کاروبار میں نقصان کیوں ہوتا ہے آپ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا آپ نے الله تعالی کو کیسے پہچانا؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ارادوں کی ناکامی ہے جو میں نہیں چاہتا وہ ہوتا ہے اور جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
بہت ہی خوب تحریر لکھی ہے اللہ پاک جزائے خیر دے سیما بہن آپ کو اور ہمیں شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے بے شک جتنے بھی کام ہیں سب اللہ ہی کی مرضی سے ہوتے ہیں لیکن انسان کے ہاتھ میں دعا ہے اور اللہ پاک دعاوں سے انسان کی تقدیر تک بدل دیتے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
#ٹی وی پر ڈرامہ چل رہا ہوتا ھے
ہیرو دکھ میں سگریٹ پی رہا ھے۔
پٹی چلتی ھے، سگریٹ پینا صحت کے لئے نقصان دہ ھے۔
#ولن شراب پی رہا ہوتا ھے، نیچے پٹی چل رہی ھے کہ "شراب پینا حرام ھے"
#ڈرامہ آگے چلتا ھے۔
ایک عورت / مرد اپنے شوھر / بیوی سے چھپ کر کسی غیر محرم سے افئیر چلا رہی / رہا ھے،
پٹی نہیں چلتی کہ خاوند/بیوی کو دھوکہ دینا گناہ ھے
#ایک مرد / عورت دوسرے کی بیوی / شوہر سے تنہائی میں ملتا / ملتی ھے،ناجائز تعلقات میں۔
پٹی نہیں چلتی کہ دوسرے مسلمان کی عزت تم پر حرام ھے۔
#ڈرامے میں کردار جھوٹ بولتے ہیں،
پٹی نہیں چلتی کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ھے۔
#شادی میں مرد و عورت لپٹ کر ناچ رہے ہیں
پٹی خاموش ھے
1.کیا ہمارے معاشرے کو صرف سگریٹ سے شراب نوشی سے ہی خطرہ ھے ؟؟؟
2.کیا سگریٹ شراب ہی ناجائز ہے۔باقی سب جائز ھے ؟
3.یہ پٹی پک اینڈ چوز کیوں کرتی ہے؟
اطمینان بخش جواب بتائیں تاکہ سٹوڈنٹ کو مطمئن کیا جا سکے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
#ٹی وی پر ڈرامہ چل رہا ہوتا ھے
ہیرو دکھ میں سگریٹ پی رہا ھے۔
پٹی چلتی ھے، سگریٹ پینا صحت کے لئے نقصان دہ ھے۔
#ولن شراب پی رہا ہوتا ھے، نیچے پٹی چل رہی ھے کہ "شراب پینا حرام ھے"
#ڈرامہ آگے چلتا ھے۔
ایک عورت / مرد اپنے شوھر / بیوی سے چھپ کر کسی غیر محرم سے افئیر چلا رہی / رہا ھے،
پٹی نہیں چلتی کہ خاوند/بیوی کو دھوکہ دینا گناہ ھے
#ایک مرد / عورت دوسرے کی بیوی / شوہر سے تنہائی میں ملتا / ملتی ھے،ناجائز تعلقات میں۔
پٹی نہیں چلتی کہ دوسرے مسلمان کی عزت تم پر حرام ھے۔
#ڈرامے میں کردار جھوٹ بولتے ہیں،
پٹی نہیں چلتی کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ھے۔
#شادی میں مرد و عورت لپٹ کر ناچ رہے ہیں
پٹی خاموش ھے
1.کیا ہمارے معاشرے کو صرف سگریٹ سے شراب نوشی سے ہی خطرہ ھے ؟؟؟
2.کیا سگریٹ شراب ہی ناجائز ہے۔باقی سب جائز ھے ؟
3.یہ پٹی پک اینڈ چوز کیوں کرتی ہے؟
اطمینان بخش جواب بتائیں تاکہ سٹوڈنٹ کو مطمئن کیا جا سکے
کڑوا سچ۔۔۔
یہاں پر طالب علموں کے دلوں کو "مطمئن" کرنے کی نہیں بلکہ "مضطرب" کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ علامہ نے اپنی نظم "طالب علم" میں فرمایا

طالب علم

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
 
#ٹی وی پر ڈرامہ چل رہا ہوتا ھے
ہیرو دکھ میں سگریٹ پی رہا ھے۔
پٹی چلتی ھے، سگریٹ پینا صحت کے لئے نقصان دہ ھے۔
#ولن شراب پی رہا ہوتا ھے، نیچے پٹی چل رہی ھے کہ "شراب پینا حرام ھے"
#ڈرامہ آگے چلتا ھے۔
ایک عورت / مرد اپنے شوھر / بیوی سے چھپ کر کسی غیر محرم سے افئیر چلا رہی / رہا ھے،
پٹی نہیں چلتی کہ خاوند/بیوی کو دھوکہ دینا گناہ ھے
#ایک مرد / عورت دوسرے کی بیوی / شوہر سے تنہائی میں ملتا / ملتی ھے،ناجائز تعلقات میں۔
پٹی نہیں چلتی کہ دوسرے مسلمان کی عزت تم پر حرام ھے۔
#ڈرامے میں کردار جھوٹ بولتے ہیں،
پٹی نہیں چلتی کہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ھے۔
#شادی میں مرد و عورت لپٹ کر ناچ رہے ہیں
پٹی خاموش ھے
1.کیا ہمارے معاشرے کو صرف سگریٹ سے شراب نوشی سے ہی خطرہ ھے ؟؟؟
2.کیا سگریٹ شراب ہی ناجائز ہے۔باقی سب جائز ھے ؟
3.یہ پٹی پک اینڈ چوز کیوں کرتی ہے؟
اطمینان بخش جواب بتائیں تاکہ سٹوڈنٹ کو مطمئن کیا جا سکے
یہ حکومت کی طرف سے ہدایات ہیں ورنہ تو وہ یہ پٹی بھی نہ چلائیں
 

سیما علی

لائبریرین
کیا ہمارے معاشرے کو صرف سگریٹ سے شراب نوشی سے ہی خطرہ ھے ؟؟؟
2.کیا سگریٹ شراب ہی ناجائز ہے۔باقی سب جائز ھے ؟
3.یہ پٹی پک اینڈ چوز کیوں کرتی ہے؟
اطمینان بخش جواب بتائیں تاکہ سٹوڈنٹ کو مطمئن کیا جا سکے
بٹیا یہ معاشرے کا المیہ بن چکا ہے کہ ہمیں ظاہری نظر آنے والی چیزیں تو بُرائی لگتی پر چھپ کے کچھ بھی کیا جائے اُسکا Tolerance level بڑھتا ہی جارہا ے اور سب سے افسوسناک تو یہ ہے کہ بُرائی کو بُرائی سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔۔۔کسی بھی معاشرے کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔۔۔۔سچ کہا آپ نے یہ پٹی ہک اینڈ چوز کیوں !!!!!!!!اپنے بچوں اور سٹوڈنٹ کی خاص طور پر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے ۔۔کیونکہ یہ وصف اخلاقی تعلیم و تربیت ہی سے حاصل ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
استاد کا انفرادی طرز عمل، کردار اور رویہ ہزاروں لیکچرز پر حاوی ہے ۔۔۔
کردار سازی بچوں کی مسلسل جدوجہد ہے ۔۔۔
اور والدین، اساتذہ کرام اور عزیز و اقارب نے ان کی اخلاقی تربیت میں نمایاں کردار ادا کر نا ہے ۔۔۔
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی تربیت کے حوالے سے ہمیں غور و خوض کی ضرورت ہے اور سنجیدہ طریقے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
ان برائیوں کے علاج کی ضرورت ہے کہ جو ہمارے معاشرے میں اور ہماری اولاد میں پھیل رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری اولاد کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں۔
صرف پیار محبت سے ہی نہیں تھوڑی سرزنش کی بھی جہاں ضرورت ہے وہاں ضرور کرنا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
کریلے اور نوکری...

کرنل صاحب نے یونٹ کی وزٹ کے دوران صوبیدار میجر صاحب کو لے کر میس کا وزٹ کیا اور پوچھا
"کہ اج میس میں کیا پکا ہے "

صوبیدار میجر صاحب بولے۔"سر آج کریلے پکے ہیں"کرنل صاحب" بولے وااہ اج بہت اچھی سبزی پکی ہے "مجھے بہت پسند ہے "

صوبیدار میجر صاحب کہنے لگے "سر مجھے بھی بہت پسند ہے جس دن یہ سبزی پکے میں صرف کریلے ہی کھاتا ہوں ساتھ روٹی نہیں کھاتا"

کرنل صاحب گھر گئے تو وہاں بھی کریلے پکے تھےالغرض کرنل صاحب کو دو دن لگاتار کریلے کھانے پڑے تو چڑ گئے۔

اگلے وزٹ پر جب کرنل صاحب میس گئے تو پوچھا کیا پکایا ہے تو صوبیدار میجر صاحب جوش سے بولے سر کریلے پکے ہیں۔

کرنل صاحب کو غصہ آگیا کہنے لگے یہ واہیات سبزی اج پھر پکاٸی ہوئی ہے

صوبیدار میجر صاحب بولے "سر الله سمجھائے ان میس والوں کو مجھے ذرا بھی اچھی نہیں لگتی"

کرنل صاحب حیران ہوکر بولے
" اس دن تو اپ کہہ رہے تھے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں"

تو صوبیدار نے باس کو کس کر سلیوٹ کیا اور بولے"سر ہم نے نوکری اپ کے ساتھ کرنی ہے کریلوں کے ساتھ نہیں"
#ا__________
 

سیما علی

لائبریرین
اشفاق احمد صاحب سے ایک واقعہ سُنا تھا جسے آج تک فراموش نہیں کر سکا ۔کچھ فرصت کے لمحات میسر آئے تو سُوچا کہ آپ کے ساتھ اسے شئیر کر دوں
اشفاق مرحوم فرماتے ہیں میں اپنے مُرشد کے حکم سے چلہ کشی کرتا ہوں عبادت کی چاشنی کے لیے
لیکن اس کے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ھے ۔تو میں جنگلوں کا رُخ نہیں کرتا کیونکہ جنگل صوفیاء اور ولی پیدا کرتے ہیں ۔میں صحراوں کا رُخ کرتا ہوں کیونکہ صحراوں نے نبی پیدا کیے ۔تو میں انبیاء کی سنت میں صحرا میں عبادت کے مزے لیتا ہوں
وہ فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا لیکن بستیوں کے قریب تھا
ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے
اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک نّنی بچی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی
میں پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا
ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات بتاو صبح تم جب جاتے ہو تو تماری بہن تمارے پیچھے جب واپس آتے ہو تب بھی یہ تمارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمارے آگے تماری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی
اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ جگر چھلنی کر گیا
کہنے لگا جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے ۔جب میں سر پر ٹوکرا رکھ کر چلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بہت بڑا بنتا ھے ۔میں چاہتا ہوں کہ ۔میری بہن ۔میری بن ماں باپ کے یہ بہن ۔میرے سایے میں رہے ۔ میرے سائے میں چلے ۔اور دھوپ سے بچی رہے
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو روکے نہ رکتے تھے۔ ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں ۔اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن کر ۔بس اس ان پڑھ نو عمر بچے نے عبادت کے ڈھنگ ۔بہنوں کے حقوق۔ اور چھوٹوں پر شفقت ۔اور یتیم کی رکھوالی ۔اور انسانیت ۔سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھا دیا ۔یہ ہوتا ھے پریکٹیکل ۔اور یہ ہوتا ھے عمل ۔اور ایسے لوگ صحرا ہی پیدا کر سکتا ھے ۔اب آپ سے اجازت چاہوں گا ۔ کیونکہ میرے آنسو مزید کچھ لکھنے نہیں دے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
 

یاسر شاہ

محفلین
کریلے اور نوکری...

کرنل صاحب نے یونٹ کی وزٹ کے دوران صوبیدار میجر صاحب کو لے کر میس کا وزٹ کیا اور پوچھا
"کہ اج میس میں کیا پکا ہے "

صوبیدار میجر صاحب بولے۔"سر آج کریلے پکے ہیں"کرنل صاحب" بولے وااہ اج بہت اچھی سبزی پکی ہے "مجھے بہت پسند ہے "

صوبیدار میجر صاحب کہنے لگے "سر مجھے بھی بہت پسند ہے جس دن یہ سبزی پکے میں صرف کریلے ہی کھاتا ہوں ساتھ روٹی نہیں کھاتا"

کرنل صاحب گھر گئے تو وہاں بھی کریلے پکے تھےالغرض کرنل صاحب کو دو دن لگاتار کریلے کھانے پڑے تو چڑ گئے۔

اگلے وزٹ پر جب کرنل صاحب میس گئے تو پوچھا کیا پکایا ہے تو صوبیدار میجر صاحب جوش سے بولے سر کریلے پکے ہیں۔

کرنل صاحب کو غصہ آگیا کہنے لگے یہ واہیات سبزی اج پھر پکاٸی ہوئی ہے

صوبیدار میجر صاحب بولے "سر الله سمجھائے ان میس والوں کو مجھے ذرا بھی اچھی نہیں لگتی"

کرنل صاحب حیران ہوکر بولے
" اس دن تو اپ کہہ رہے تھے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں"

تو صوبیدار نے باس کو کس کر سلیوٹ کیا اور بولے"سر ہم نے نوکری اپ کے ساتھ کرنی ہے کریلوں کے ساتھ نہیں"
#ا__________

:D:LOL:
ایسے لوگ دنیا میں کامیاب ہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
اشفاق احمد صاحب سے ایک واقعہ سُنا تھا جسے آج تک فراموش نہیں کر سکا ۔کچھ فرصت کے لمحات میسر آئے تو سُوچا کہ آپ کے ساتھ اسے شئیر کر دوں
اشفاق مرحوم فرماتے ہیں میں اپنے مُرشد کے حکم سے چلہ کشی کرتا ہوں عبادت کی چاشنی کے لیے
لیکن اس کے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ھے ۔تو میں جنگلوں کا رُخ نہیں کرتا کیونکہ جنگل صوفیاء اور ولی پیدا کرتے ہیں ۔میں صحراوں کا رُخ کرتا ہوں کیونکہ صحراوں نے نبی پیدا کیے ۔تو میں انبیاء کی سنت میں صحرا میں عبادت کے مزے لیتا ہوں
وہ فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا لیکن بستیوں کے قریب تھا
ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے
اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک نّنی بچی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی
میں پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا
ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات بتاو صبح تم جب جاتے ہو تو تماری بہن تمارے پیچھے جب واپس آتے ہو تب بھی یہ تمارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمارے آگے تماری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی
اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ جگر چھلنی کر گیا
کہنے لگا جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے ۔جب میں سر پر ٹوکرا رکھ کر چلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بہت بڑا بنتا ھے ۔میں چاہتا ہوں کہ ۔میری بہن ۔میری بن ماں باپ کے یہ بہن ۔میرے سایے میں رہے ۔ میرے سائے میں چلے ۔اور دھوپ سے بچی رہے
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو روکے نہ رکتے تھے۔ ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں ۔اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن کر ۔بس اس ان پڑھ نو عمر بچے نے عبادت کے ڈھنگ ۔بہنوں کے حقوق۔ اور چھوٹوں پر شفقت ۔اور یتیم کی رکھوالی ۔اور انسانیت ۔سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھا دیا ۔یہ ہوتا ھے پریکٹیکل ۔اور یہ ہوتا ھے عمل ۔اور ایسے لوگ صحرا ہی پیدا کر سکتا ھے ۔اب آپ سے اجازت چاہوں گا ۔ کیونکہ میرے آنسو مزید کچھ لکھنے نہیں دے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
بہت خوب۔سبق آموز۔
 
اشفاق احمد صاحب سے ایک واقعہ سُنا تھا جسے آج تک فراموش نہیں کر سکا ۔کچھ فرصت کے لمحات میسر آئے تو سُوچا کہ آپ کے ساتھ اسے شئیر کر دوں
اشفاق مرحوم فرماتے ہیں میں اپنے مُرشد کے حکم سے چلہ کشی کرتا ہوں عبادت کی چاشنی کے لیے
لیکن اس کے لیے تنہائی چاہیے ہوتی ھے ۔تو میں جنگلوں کا رُخ نہیں کرتا کیونکہ جنگل صوفیاء اور ولی پیدا کرتے ہیں ۔میں صحراوں کا رُخ کرتا ہوں کیونکہ صحراوں نے نبی پیدا کیے ۔تو میں انبیاء کی سنت میں صحرا میں عبادت کے مزے لیتا ہوں
وہ فرماتے ہیں کہ سندھ میں صحرائے تھر میں کسی مقام پر ڈیرا لگا رکھا تھا لیکن بستیوں کے قریب تھا
ایک بستی سے بہت سے لوگ نکلتے بکریاں جانور چرانے جاتے کچھ شہر کو جاتے کچھ مختلف اجناس بیچنے جاتے
اُن ہی لوگوں میں ایک نو عمر لڑکا پندرہ سولہ سال کا سر پر تربوز کا ٹوکرہ رکھ کر نکلتا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک نّنی بچی جس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی وہ چلتی
میں پوچھا تو پتہ چلا کہ ماں باپ مرچکے ہیں اس لیے یہ لڑکا تربوز اور کبھی خربوزے دوسری بستیوں میں جا کر بیچتا ھے اور بہن کو بھی ساتھ رکھتا ھے گھر اکیلے نہیں چھوڑتا
ایک دن صبح اشفاق صاحب نے اسے بُلایا اور پوچھا کہ ایک بات بتاو صبح تم جب جاتے ہو تو تماری بہن تمارے پیچھے جب واپس آتے ہو تب بھی یہ تمارے پیچھے چلتی ھے حالانکہ اسے تمارے آگے تماری آنکھوں کے سامنے چلنا چاہیے اس طرح یہ تمارے دھیان میں رہے گی
اس پر اُس لڑکے نے جو جواب دیا وہ جگر چھلنی کر گیا
کہنے لگا جناب آپکو پتا ھے گرمی سخت ھے اور سورج آگ برساتا ھے ۔جب میں سر پر ٹوکرا رکھ کر چلتا ہوں تو ٹوکرے سمیت میرا سایہ بہت بڑا بنتا ھے ۔میں چاہتا ہوں کہ ۔میری بہن ۔میری بن ماں باپ کے یہ بہن ۔میرے سایے میں رہے ۔ میرے سائے میں چلے ۔اور دھوپ سے بچی رہے
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ آنسو تو روکے نہ رکتے تھے۔ ساتھ آہیں بھی نکل پڑیں ۔اُس صحرائی بچے کے یہ جملے سن کر ۔بس اس ان پڑھ نو عمر بچے نے عبادت کے ڈھنگ ۔بہنوں کے حقوق۔ اور چھوٹوں پر شفقت ۔اور یتیم کی رکھوالی ۔اور انسانیت ۔سب کچھ ان دو جملوں میں سمجھا دیا ۔یہ ہوتا ھے پریکٹیکل ۔اور یہ ہوتا ھے عمل ۔اور ایسے لوگ صحرا ہی پیدا کر سکتا ھے ۔اب آپ سے اجازت چاہوں گا ۔ کیونکہ میرے آنسو مزید کچھ لکھنے نہیں دے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
بہت ہی خوب تحریر ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ہمیں زندگی کی ہر سہولت فوراً چاہیے، بھلے ہم اس کے لائق ہوں یا نہ ہوں۔ انفرادی ترقی سے لے کر ملک کی اجتماعی ترقی ہمیں فوراً چاہیے۔ چاہے ہم اس کے لیے اپنا اپنا فرض ادا کریں یا نہ کریں ہم بطور شہری اپنا کوئی فریضہ انجام نہیں دیتے لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام فرائض ٹھیک سے انجام دیں۔ انکم ٹیکس فائل نہیں کرتے لیکن یورپی ممالک جیسے سوشل بینیفٹس چاہتے ہیں۔ ہم میں سے جس کا جہاں بس چلتا ہے اپنے بھائی یا رشتہ دار کو جاب دلوا دیتے ہیں، لیکن حکمرانوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کا بھرپور خیال کریں گے۔

کاروبار کرتے وقت اپنے فائدے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع کہ وہ کوئی کرپشن نہیں کریں گے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر خوب دُہائیاں دیتے ہیں لیکن میٹر ریڈر کے ساتھ مل کر جس حد تک ممکن ہو خوب بجلی چوری کرتے ہیں۔ منافع خوری کرتے ہیں لیکن دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ منافع خوری نہیں کریں گے۔

نجی محفلوں سے لے کر میڈیا تک یورپ اور امریکہ کو جی بھر کے کوستے ہیں اور انہیں اپنی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہر صبح قطاریں بنا کر انہی ممالک کے سفارت خانوں کے آگے پورا پورا دن ویزے کی درخواستیں دینے کے لیے قطاروں میں نظر آتے ہیں۔ اقلیتوں کو خود کوئی حقوق نہیں دیتے لیکن باہر کے ممالک جاتے ہی اپنے لیے سارے حقوق مانگتے ہیں۔ سیاست دانوں کو جی بھر کے برا بھلا کہتے ہیں لیکن جونہی موقع ملے تو ان کے ساتھ صرف ایک تصویر بنوا کر یا مصافحہ کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔

مکان کی تعمیر میں سریے سے لے کر بجری تک سستی سے سستی ڈلواتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوگا۔ سیمنٹ اور بجری ملاوٹ والی استعمال کر کے عمارت پر لگا دیتے ہیں اور پھر ماشااللہ کا بورڈ لگا کر سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں خدا بچائے گا۔ روئے زمین پر بسنے والی تمام دوسرے مذاہب کی قوموں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن امید کرتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں پیار محبت اور برابری کی بنیاد پر دیکھے۔ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر گھنٹوں ملکی مسائل کا رونا رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی گلی یا محلے کا بھی کوئی کام کرنے ہرگز آگے نہیں آتے۔

پٹواری سے لے کر پولیس تک کوئی کام پڑے تو اپنا اثرو رسوخ اور پیسہ استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔ دوسری قوموں کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسری قوموں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر جنسی سرچ کے حوالے سے آگے آگے ہیں لیکن امریکہ و یورپ کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں۔ ٹریفک کی لال بتی کو توڑ کر سینہ پھلاتے ہیں لیکن حکمرانوں اور دوسروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کی پوری پابندی کریں گے۔ کاروکاری، وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر خواتین کا قتل جیسی روایات پر عمل کرتے ہیں اور یورپ امریکہ کو خواتین کی عزت و احترام کا لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔

اگر ہم اچھی باتیں اپنائیں گے تو تصویر خوبصورت نظر آئے گی اور اگر بری باتیں نمایاں ہوں تو معاشرہ بدنما نظر آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ ہمارا معاشرہ سنور سکے۔ جس دن میں اور آپ ان منافقانہ رویوں سے نجات پالیں گے ہمارا معاشرہ اسی دن ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ہمیں زندگی کی ہر سہولت فوراً چاہیے، بھلے ہم اس کے لائق ہوں یا نہ ہوں۔ انفرادی ترقی سے لے کر ملک کی اجتماعی ترقی ہمیں فوراً چاہیے۔ چاہے ہم اس کے لیے اپنا اپنا فرض ادا کریں یا نہ کریں ہم بطور شہری اپنا کوئی فریضہ انجام نہیں دیتے لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تمام فرائض ٹھیک سے انجام دیں۔ انکم ٹیکس فائل نہیں کرتے لیکن یورپی ممالک جیسے سوشل بینیفٹس چاہتے ہیں۔ ہم میں سے جس کا جہاں بس چلتا ہے اپنے بھائی یا رشتہ دار کو جاب دلوا دیتے ہیں، لیکن حکمرانوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کا بھرپور خیال کریں گے۔

کاروبار کرتے وقت اپنے فائدے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع کہ وہ کوئی کرپشن نہیں کریں گے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر خوب دُہائیاں دیتے ہیں لیکن میٹر ریڈر کے ساتھ مل کر جس حد تک ممکن ہو خوب بجلی چوری کرتے ہیں۔ منافع خوری کرتے ہیں لیکن دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ منافع خوری نہیں کریں گے۔

نجی محفلوں سے لے کر میڈیا تک یورپ اور امریکہ کو جی بھر کے کوستے ہیں اور انہیں اپنی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہر صبح قطاریں بنا کر انہی ممالک کے سفارت خانوں کے آگے پورا پورا دن ویزے کی درخواستیں دینے کے لیے قطاروں میں نظر آتے ہیں۔ اقلیتوں کو خود کوئی حقوق نہیں دیتے لیکن باہر کے ممالک جاتے ہی اپنے لیے سارے حقوق مانگتے ہیں۔ سیاست دانوں کو جی بھر کے برا بھلا کہتے ہیں لیکن جونہی موقع ملے تو ان کے ساتھ صرف ایک تصویر بنوا کر یا مصافحہ کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔

مکان کی تعمیر میں سریے سے لے کر بجری تک سستی سے سستی ڈلواتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوگا۔ سیمنٹ اور بجری ملاوٹ والی استعمال کر کے عمارت پر لگا دیتے ہیں اور پھر ماشااللہ کا بورڈ لگا کر سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں خدا بچائے گا۔ روئے زمین پر بسنے والی تمام دوسرے مذاہب کی قوموں سے نفرت کرتے ہیں، لیکن امید کرتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں پیار محبت اور برابری کی بنیاد پر دیکھے۔ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر گھنٹوں ملکی مسائل کا رونا رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اپنی گلی یا محلے کا بھی کوئی کام کرنے ہرگز آگے نہیں آتے۔

پٹواری سے لے کر پولیس تک کوئی کام پڑے تو اپنا اثرو رسوخ اور پیسہ استعمال کرتے ہیں لیکن حکمرانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے۔ دوسری قوموں کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسری قوموں سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر جنسی سرچ کے حوالے سے آگے آگے ہیں لیکن امریکہ و یورپ کو بے حیائی اور عریانی کا منبع قرار دیتے ہیں۔ ٹریفک کی لال بتی کو توڑ کر سینہ پھلاتے ہیں لیکن حکمرانوں اور دوسروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قانون کی پوری پابندی کریں گے۔ کاروکاری، وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر خواتین کا قتل جیسی روایات پر عمل کرتے ہیں اور یورپ امریکہ کو خواتین کی عزت و احترام کا لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔

اگر ہم اچھی باتیں اپنائیں گے تو تصویر خوبصورت نظر آئے گی اور اگر بری باتیں نمایاں ہوں تو معاشرہ بدنما نظر آئے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ ہمارا معاشرہ سنور سکے۔ جس دن میں اور آپ ان منافقانہ رویوں سے نجات پالیں گے ہمارا معاشرہ اسی دن ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی خوب تحریر ہے
 

سیما علی

لائبریرین

معاشرے کا اخلاقی بگاڑ​

معاشرے کے ماحول اور فضا کو خوب صورت اور باہمی محبت اور رواداری سے بہترین بنانے میں فرد بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اگر معاشرے کے افراد کے مابین ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام، دکھ سکھ بانٹنے اور مصیبت میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ بیدار رہے تو معاشرے کی خوب صورت تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
قرآن بھی ایک عام فرد سے اسی اخلاقی کردار کے مظاہرے کا تقاضا کرتا ہے جس کے مطابق سب انسان ایک دوسرے کو نیک عمل کی تلقین کرتے رہیں اور صبر و حکمت سے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ انسان کی ہدایت اور راہ نمائی کے لیے ہر دور میں انبیائے کرامؑ بھیجے جاتے رہے۔ رسول کریمؐ نے حسن اخلاق کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : ’’میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ ابن خلدون نے کہا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جب کہ بُرے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔
افسوس کہ آج مسلمان مذہب سے دوری کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں۔ بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے حیائی، جھوٹ، چغل خوری، مکر و فریب، غرور و تکبر سرایت کرگئے ہیں۔ اخلاقی، سماجی اور ذہنی پس ماندگی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ جس ملک میں سبیل کی ٹینکی کے ساتھ رکھے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے، یہی لوگوں کی سوچ اور رویے کا عکاس ہے۔ ہمارے معاشرے میں تشدد اور عدم رواداری بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم خود ماحول کو خراب کر رہے ہیں، گندی پھیلا رہے ہیں، درختوں کو کاٹ رہے ہیں، ایک دوسرے کی عزت نفس مجروح کر رہے ہیں۔
افسوس! ہم انتہائی تنگ نظر بن گئے ہیں۔ ہم غلط چیزوں یا عمل کی اصلاح کرنے کے بہ جائے زبانی جمع خرچ کر لیتے ہیں۔ ہمارا اصلاح کا درس اپنے گھر سے شروع نہیں ہوتا، بل کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی تاک میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ معاشرے کی حالت زار پر صرف رسماً کُڑھتے اور عمل میں صفر ہیں۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ باقی لوگ بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم بے ایمانی کرتے ہیں کیوں کہ ایمان دار کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ہم ناجائز طریقوں سے پیسہ اس لیے کما رہے ہیں کیوں کہ معاشرے میں صرف پیسے والے کی عزت ہے۔ ہر برائی کا جواز تلاش کرنا ہماری زندگی کا غالب حصہ ہے۔ ہم برائی کو بھی فیشن سمجھتے ہوئے اس لیے اپناتے ہیں کہ معاشرے کے بیشتر لوگ یہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم تعلیم شعور حاصل کرنے کے لیے نہیں بل کہ پیسہ کمانے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔

معاشرہ اکائی سے بنتا ہے۔ ہر شخص معاشرے کا حصہ ہے۔ ہم خود کو نہیں، معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہر برائی اور خرابی دوسروں میں ہے۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں میں خرابیاں اور برائیاں دیکھنے لگتا ہے۔ ہم اپنی ذمے داریوں سے صرف نظر اور اپنی برائیوں کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ عام فرد نے دیکھا کہ حکم ران اور مقتدر طبقہ کرپشن میں ملوث ہیں تو انہیں بھی جہاں موقع ملا بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے۔ جنہیں کہیں انصاف نہیں ملتا، وہ دوسروں پر ظلم کرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ تیز رفتار گاڑی چلا کر لوگوں کو مار ڈالنے والے ڈرائیورز، کھلے عام رشوت لینے والا اہل کار، بدعنوان سرکاری افسران، بددیانت تاجر، ان جیسے بے شمار لوگ اپنے دائرۂ اختیار میں سب سے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔

ہم سب ذاتی مفادات پر مبنی زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے سامنے کوئی بڑا اجتماعی مقصد نہیں ہے۔ دوسری اقوام حب الوطنی کے جذبے سے، یک جہتی اور انفرادی و اجتماعی شناخت کے بھرپور احساس سے اپنی بقاء و تحفظ اور فروغ کے لیے قربانی دیتی ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک نظریۂ حیات تخلیق کیا ہے، جو اسلام کی صورت میں ہمیں پہلے سے حاصل تھا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ نعروں کے بہ جائے، تعلیم کے ذریعے اسلامی تصورات کو ذہنوں میں زندہ کیا جاتا۔ معاشرے میں اسلام کے فروغ کو ہدف بنایا جاتا۔ اسلام اور شریعت کی درست تصویر سامنے لائی جاتی۔ افسوس! ہم خود کو دائرۂ اسلام کا مکیں بتاتے ہیں، مگر عملی طور ہمارا ہر دائرہ صوبائی سرحدوں اور لسانیت تک محدود ہے۔ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر اصرار ہے مگر اس کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ شناخت پر بھی فخر ہے۔

اصل بات یہ ہے ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے مقصد اور نصب العین کو بھلا چکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ایک قوم بننے کی واحد امید اسلام ہے، کیوں کہ یہی وہ واحد پہلو ہے جو ہمیں متحد کرسکتا ہے۔ دین کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کیے بغیر رب کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اپنے اخلاق و کردار کو بہترین بنانے کی بھرپور سعی نہیں کرتے اور دوسروں تک حق بات پہنچانے میں دل چسپی رکھتے ہے۔ ہمیں دوسروں کو ان کے فرائض یاد دلانے کے ساتھ اپنی ذمے داریاں بھی یاد رکھنا چاہییں۔

دین کا ظاہری ڈھانچا بھی فکری اور عملی سطح پر انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں مددگار ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا کو معبود اور سب سے بڑا ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں گے سب انسان برابر ہیں۔ اچھے عمل کے سوا کسی کو فضیلت نہیں۔ نماز، بُرائیوں سے روکتی ہے۔ روزہ، خدا کی نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس دلاتا اور حدود کی پابندی کی تربیت دیتا ہے۔ زکواۃ خدا کی محبت کے ساتھ مال و دنیا سے بے رغبتی اور فقراء کی مدد کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ حج اور عمرہ ناصرف خدا کے نزدیک لاتا ہے بل کہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دیگر افراد کے ساتھ رواداری اور اچھا سلوک کرنے کا درس بھی دیتا ہے۔
ہم لوگ کثرت سے اپنے معاشرے کے اخلاقی بگاڑ پر گفت گُو کرتے اور اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ہم بھی اس قوم اور معاشرے کے فرد ہیں۔ اس صورت حال میں صرف افسوس کرکے ہم اپنی جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ ہماری مذہبی، قومی، اخلاقی ذمے داری ہے کہ اپنی حد تک غلط رویوں کے خلاف جدوجہد کریں۔ اپنی ذمے داری پوری کریں۔ جو لوگ اپنی قوم اور معاشرے کو بھول کر اپنی ذات تک محدود ہوجاتے ہیں، صرف باتوں اور تبصروں پر گزارا کرتے ہیں، تاریخ بتاتی ہے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ آج ہم بھی اسی خسارے کا شکار ہیں۔ ہمارے معاشرے، خاندان اور قومی اداروں میں اس خسارے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرہ کس تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو ہم اپنی شناخت کھو دیں گے اور یہ بدترین خسارہ ہوگا۔۔۔۔۔۔😢😢😢😢😢
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ دن قبل میں اپنے دوست کے پاس اُس کے نجی دفتر میں بیٹھا تھا۔ یہاں میں اُس کی معاونت کے لئے کبھی کبھار فارغ اوقات میں آتا رہتا ہوں۔ دوست حسب معمول اپنے کام میں مصروف تھا۔۔۔اور میری آمد کے بعد ذرا جلدی جلدی کام نبٹا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر کی سکرین پر موجود گرافوں سے متعلق مجھ سے رہنمائی لے رہا تھا۔ آج مجھے یہ دفتر کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دے رہا تھا لیکن حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہاں ہر شے اپنی جگہ پر موجود تھی۔ میں نے پوچھتے ہوئے کہا۔ ’’ کیا یہ میرا وہم ہے یا آپ کے دفتر میں واقعی تبدیلی آئی ہے ‘‘۔ وہ میری بات کو سمجھتے اور تجسس کو بھا نپتے ہوئے بولا کہ دراصل آج میری میز فائلوں کے بوجھ سے آزاد ہے۔ اس لئے آپ کو تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ ’’ اس کا مطلب ہے کہ آپ آج کل فارغ ہیں ‘‘۔ میں نے وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ کیوں کہ فائلیں جو نہیں ہیں ‘‘۔ ’’ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور کام ختم ہونے کا نام کہاں لیتے ہیں ‘‘۔ دوست نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’جب میز پر فائلیں پڑی ہوتی تھیں تو مینجر کہا کرتے تھے کہ آپ کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ فائلوں کا انبار لگایا ہوا ہے اس لئے میں نے میز خالی کردی اور ایک ایک فائل الماری سے نکال کر اس پر کام کرتا ہوں‘‘۔ میں نے اُس کی تائید میں کہا۔ ’’ یعنی آپ نے صرف طریقہ کار تبدیل کردیا ہے‘‘۔ دوست نے افسردہ لہجے میں کہا ۔ ’’ اس حال میں بھی مینجر خوش نہیں ہے۔ آج صبح میز کو خالی دیکھ کر کہنے لگا کہ لگتا ہے آپ کا کوئی کام نہیں ہے‘‘۔ میں نے مسکرا کر کہا ۔ ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ‘‘۔ دوست نے کہا کہ اس کو تو اَب یوں کہنا چاہیے کہ انسان کو کسی حال میں کام کے لئے نہیں چھوڑا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top