انٹر نیٹ سے چنیدہ

محمداحمد

لائبریرین
ہمارا سلام ہے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔۔ہم پڑھتے ہیں تو حالت غیر ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لہوِ مبارک گرا اور غشی طاری ہونے لگی السلام علیك یا رسول الله‘
دل میں محمد مصطفیٰ صلے علیٰ کا نام ہے
اس نام کی حرمت سے اپنا ہر جواں کٹ جائیگا
اسلام غالب آئیگا۔۔۔۔۔
ان شاء اللّہ ضرور

ان شاء اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
عید الفطر.... انعامِ الہٰی کا دن
یومِ عید ،ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ’’ عید کا لفظ ”عود“ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ”لَوٹنا“ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ اور ”فطر“ کے معنیٰ ”روزہ توڑنے یا ختم کرنے“ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، تو اِسی مناسبت سے اسے ”عید الفطر“ قرار دیا گیا۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اُن سے دریافت فرمایا’’ یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سُن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں،یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘( ابو داؤد)نبی کریمﷺ نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی۔ نیز، ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔احادیثِ مبارکہؐ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اُسے آسمانوں پر’’ لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی’’ انعام کی رات‘‘ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے اور جب صبحِ عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جسے جنّات اور انسانوں کے سِوا ہر مخلوق سُنتی ہے، پکارتے ہیں کہ’’ اے اُمّتِ محمّدیہﷺ اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ ربّ العزّت فرشتوں سے فرماتا ہے’’ اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کرچُکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں’’ اے ہمارے معبود! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کردی جائے‘‘، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے فرشتو! تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے اُنہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرمادی‘‘ اور پھر بندوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ’’ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم! آج کے دن آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میرے عزّوجلال کی قسم! مَیں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رُسوا نہ کروں گا۔ مَیں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘(الترغیب والترہیب)

کس کی عید…؟؟

بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔پورے ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔تاہم، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا قول ہے کہ’’ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اُس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرایش و زیبایش کے ساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔‘‘حضرت علی علیہ السلام نے عید کی مبارک باد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا’’’’ عید تو اُن کی ہے، جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پاچُکے ہیں۔‘‘اِسی طرح ایک دفعہ حضرت عُمر ؓبن خطاب کے دَورِ خلافت میں لوگ عید کے روز آپؓ کے پاس آئے، تو دیکھا کہ وہ گھر کا دروازہ بند کیے زارو قطار رورہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا’’ امیرالمومنین! آج تو عید کا دن ہے اور آپؓ رو رہے ہیں؟ حضرت عُمرؓ نے جواب دیا’’لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کے نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہوگئیں، بلاشبہ اُس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، اُس کے لیے وعید کا دن۔ مَیں اِس خوف سے رو رہا ہوں کہ نہیں معلوم میری عبادات قبول ہوئیں یا اُنہیں رَد کردیا گیا۔‘‘

چاند رات

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں’’ چاند رات‘‘ کو ایک لحاظ سے شرعی پابندیوں سے فرار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، حالاں کہ چاند رات کو حدیث شریف میں ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی’’ انعام والی رات‘‘ کہا گیا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’رمضان المبارک کی آخری رات میں اُمّتِ محمّدﷺکی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! کیا وہ شبِ قدر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا’’ نہیں۔ کام کرنے والے کو مزدوری اُس وقت دی جاتی ہے، جب وہ کام پورا کرلیتا ہے اور وہ آخری شب میں پورا ہوتا ہے، لہٰذا بخشش ہوجاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد) جو لوگ پورے ماہِ مقدّس میں تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر کاربند رہے، اُن میں سے بھی بہت سے اس رات لہو ولعب میں مشغول ہوکر اپنی ساری محنت اکارت کر بیٹھتے ہیں۔دراصل، شیطان آزاد ہوتے ہی خلقِ خدا کو تقویٰ و پرہیزگاری کے راستے سے ہٹا کر فسق وفجور کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ اُس کے پُرفریب جال میں پھنس جاتے ہیں۔نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’ جب یومِ عید آتا ہے، تو شیطان چِلَّا چِلَّا کر روتا ہے،اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ’’ تجھے کس چیز نے غم ناک اور اُداس کردیا؟‘‘شیطان کہتا ہے کہ’’ہائےافسوس!اللہ تعالیٰ نے آج کے دن اُمّتِ محمّدیہﷺکی بخشش فرمادی ہے،لہٰذا تم اُنہیں پھر سے لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کردو۔‘‘ ہم چاند رات بازاروں اور غل غپاڑے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ احادیثِ مبارکہؐ میں اس رات میں عبادت کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیّت سے قیام کرتا ہے، اُس کا دِل اُس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دِل فوت ہو جائیں گے۔‘‘( ابنِ ماجہ) مولانا محمّد زکریا کاندھلویؒ فرماتے ہیں کہ’’دِل کے مردہ ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ فتنہ و فساد کے وقت جب لوگوں کے قلوب پر مردنی چھاتی ہے، اِ س کا دِل زندہ رہے گا ۔( اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ) ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کا دن (اِس سے) مراد ہو کہ اِس کی رُوح بے ہوش نہ ہوگی۔ ‘‘ (فضائلِ رمضان)۔اسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے۔وہ راتیں یہ ہیں، ذوالحجہ کی10,9,8ویں رات،شبِ برات،اور عید الفطر کی رات۔‘‘(الترغیب والترہیب)لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اس رات بے مقصد گھومنے پِھرنے اور گناہ کے کاموں میں گزارنے کی بجائے نوافل، نمازِ تہجّد، تلاوتِ قرآن اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں تاکہ اس کی برکات حاصل کر سکیں۔

غریبوں کی مدد

عید کے اس پُرمسرّت موقعے پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا’’ آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سُن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘‘ روایت ہے کہ آقائے دوجہاںﷺنمازِ عید سے فارغ ہوکر واپس تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپؐ کی نظرایک بچّے پر پڑی، جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔ نبی کریمﷺ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، پھر پوچھا’’ کیوں رو رہے ہو؟ ‘‘بچّے نے کہا’’ میرا باپ مرچُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کرلی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے، نہ پہننے کو کپڑا۔‘‘یتیموں کے ملجاﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،فرمایا کہ’’ اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جائو گے؟‘‘ کہنے لگا’’ یارسول اللہﷺ! اس پر مَیں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘حضورِ اکرمﷺبچّے کو گھر لے گئے۔(بعض روایات میں یہ واقعہ کچھ اور الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے) حضرت معروف کرخیؒ اکابر صوفیاء میں شامل ہیں، ایک عید پر نخلستان میں گری کھجوریں چُن رہے تھے۔ایک شخص نے پوچھا ’’ایسا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ تو فرمایا’’مَیں نے ایک لڑکے کو روتے دیکھا، تو اُس سے پوچھا’’ تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘لڑکا بولا’’ مَیں یتیم ہوں۔ یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کراُن کے ساتھ کھیل سکوں۔‘‘ اس لیے مَیں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ اُنہیں فروخت کرکے اُس یتیم بچّے کو اخروٹ لے دوں۔‘‘(اِحیاء العلوم )

صدقۂ فطر

صدقۂ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے، اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ’’رسول اللہﷺ نے صدقۂ فطر واجب کیا تاکہ روزہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائے اور مساکین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقۂ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشیوں میں غریب مسلمان بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔اسی طرح ایک اور حدیث شریف ہے کہ’’ عید الفطر کے دن محتاجوں کو خوش حال بنا دو۔‘‘گو کہ صدقۂ فطر کبھی بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم عام طور پر ماہِ رمضان کے آخری دنوں میں ادا کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے لوگ نمازِ عید کے لیے جاتے ہوئے راہ میں بیٹھے بھکاریوں کو فطرانہ دیتے جاتے ہیں، جو کہ مناسب طریقہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ عید سے قبل ہی فطرانہ ادا کردیا جائے تاکہ ضرورت مند افراد بھی عید کی تیاری کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ عام طور پر گندم کی قیمت کے لحاظ سے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے، جو جائز ہے، تاہم امیروں کے لیے مستحب یہی ہے کہ وہ کھجور یا پھر کشمش وغیرہ کے حساب سے فطرانہ دیں تاکہ غریبوں کی اچھے طریقے سے مدد ہو سکے، اسی طرح صاحبِ حیثیت افراد کو فطرانے کے علاوہ بھی عید کے موقعے پر صدقہ خیرات کرنا چاہیے کہ اس سے غریبوں کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں گی اور ہوسکتا ہے کہ کسی کی دُعا آپ کی زندگی میں بھی مزید خوشیاں بھر دے۔

عید الفطر کی سُنتّیں

کُتبِ احادیث میں عید کے دِن کی متعدّد سنتیں مرکوز ہیں (1) صبح سویرے اُٹھنا:صحابہ کرام ؓ کا معمول تھا کہ وہ نمازِ فجر کے وقت ہی نمازِ عید کی تیاری کر لیتے تھے ۔ حضرت ابنِ عُمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مسجدِ نبویؐ میں فجر کی نماز پڑھتے اور پھر اسی حال میں عیدگاہ کی طرف نکل پڑتے۔(2)غسل کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اے مسلمانوں کی جماعت!اللہ تعالی نے اِس دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے، لہٰذا تم اِس دن غسل کرو۔‘‘(3) مسواک کرنا(4) نئے یا جو بہتر کپڑے موجود ہوں، پہننا:حضرت حسن ؓ فرماتے ہیں کہ’’ہمیں نبی کریمﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنیں۔‘‘(طبرانی)خود رسول اللہﷺ عید کے دن خُوب صورت اور عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے۔ کبھی سبز و سُرخ دھاری دار چادر اوڑھتے، جو یمن کی ہوتی جسے’’ بُرد یمانی‘‘ کہا جاتا ہے۔(مدارج النبوۃ)(5) خوش بُو لگانا(6) شریعت کے مطابق اپنی آرائش کرنا(7) عید گاہ جلد پہنچنا عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا(9) عید گاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا(10) عید کی نماز (مسجد کی بجائے) عید گاہ یا کُھلے میدان میں پڑھنا(11) ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے سے واپس آنا(12)’’ اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ آہستہ آہستہ کہتے ہوئے عید گاہ کی طرف جانا(13) نمازِ عید کے لیے پیدل جانا، تاہم اگر عیدگاہ زیادہ دُور ہو یا کم زوری کے باعث پیدل نہ جا سکتے ہوں، تو سواری پر بھی جانے میں مضائقہ نہیں۔

تفریح، مگر حدود کے اندر…

یومِ عید اپنی اصل میں ایک مذہبی تہوار ہے، اس لیے اِس روز ہونے والی تمام سرگرمیوں کو اسی تناظر میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔تاہم،یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے نزدیک تقویٰ وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور رُوکھا پن ہے۔البتہ، اسلام نے تہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود وقیود کا پابند ضرور بنایا ہے تاکہ بے لگام خواہشات اور نفس پرستی کی راہ روکی جا سکے۔عید کا آغاز، دو رکعت نماز سے ہوتا ہے، جو اس بات کا اظہار ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات میںاللہ تعالیٰ کی ہدایات سے لاپروا نہیں ہوسکتا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ عید کا دن تھا اور حضور نبی کریمﷺ کے حجرے کے سامنے حبشہ کے کچھ لوگ نیزوں اور ڈھالوں کے ساتھ کرتب دِکھا رہے تھے، آپﷺ دروازے میں سے اُنہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار فرما رہے تھے اور مَیں بھی حضورِ اقدسﷺ کی چادر مبارک کی پیچھے چُھپ کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔آپﷺ بہت دیر تک مجھے چادر کی اوٹ میں چھپائے اُن غلاموں کا کھیل دِکھاتے رہے۔جب میرا جی بھر گیا، تو آپﷺ نے فرمایا’’ بس!‘‘مَیں نے عرض کیا’’ جی ہاں،‘‘فرمایا’’ تو جائو۔‘‘( بخاری ومسلم )اسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر میں کچھ بچیاں جنگِ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گنگنا رہی تھیں، اسی دَوران حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے اور کہنے لگے’’ اللہ کے رسولﷺ کے گھر میں یہ ہے؟‘‘ آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجّہ ہوئے اور فرمایا’’اے ابوبکرؓ! انہیں رہنے دو، ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے، آج ہمارے لیے عید کا دن ہے۔‘‘ (بخاری)

شوال کے چھے روزے

رمضان المبارک کے بعد ماہِ شوال میں چھے روزے رکھنا مستحب ہیں اور احادیثِ مبارکہؐ میں ان کی بہت فضیلت اور ترغیب آئی ہے۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے’’ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اُس کے بعد ماہِ شوال میں چھے نفلی روزے رکھے، تو اُس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا۔‘‘حضرت ابو ایّوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے، تو یہ ایسا ہے ،جیسے پورے سال کے روزے ہوں۔‘‘( صحیح مسلم)یہ روزے مسلسل بھی رکھے جا سکتے ہیں اور وقفہ دے کر بھی، یعنی اپنی سہولت کے مطابق شیڈول ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں’’ چاند رات‘‘ کو ایک لحاظ سے شرعی پابندیوں سے فرار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، حالاں کہ چاند رات کو حدیث شریف میں ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی’’ انعام والی رات‘‘ کہا گیا ہے
واقعی یہ انتہائی پریشانی اور افسوس کی بات ہے کہ اس رات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہمارا کیا کسی میں شمار ہونا حتیٰ کہ عبادت گزار لوگ بھی اس رات کے متعلق انتہائی غفلت کا شکار ہیں
حضرت عُمرؓ نے جواب دیا’’لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور وعید کا بھی۔ آج جس کے نماز، روزے اور دیگر عبادات قبول ہوگئیں، بلاشبہ اُس کی آج عید ہے اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں، اُس کے لیے وعید کا دن۔
اللہ پاک ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات قبول فرمائے
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانۂ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرمارہے ہیں۔ کسی نے کہا’’ آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سُن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا’’ جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘
سبحان اللہ، اگر اس سوچ اس فکر کا ذرا برابر بھی ہمیں نصیب ہو جائے تو دنیا میں کوئی پریشان حال نہ رہے
یتیموں کے ملجاﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،فرمایا کہ’’ اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جائو گے؟‘‘ کہنے لگا’’ یارسول اللہﷺ! اس پر مَیں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘حضورِ اکرمﷺبچّے کو گھر لے گئے
ایسی یتیمی کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت بھی ہیچ کہ جس کے بدلے ایسے عظیم الشان رشتے مقدر ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
رازق، رازق، تو ہی رازق

مئی ۱۹۸۶ء تک کا زمانہ مسقط (عمان) کی فوج میں بطور ایک اکائونٹنٹ گزرا، وہاں ہمارے ساتھ ایک رشید صاحب بھی ہوا کرتے تھے، وہ حافظ آباد کے قریب واقع کسی گائوں کے رہنے والے تھے، وہ وقتاً فوقتاً گائوں کا چکر لگاتے رہتے تھے، وہ اکثر ایک حکیم صاحب کا ذکر کرتے، ان حکیم صاحب کی باتیں کچھ عجیب سی تھیں۔ مجھے بھی آج تک یاد ہیں۔ حکیم صاحب کا گائوں گکھڑ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔
حکیم صاحب کا بچپن اپنے دادا کی گود میں گزرا تھا، ان کے والد اُن کی پیدائش سے قبل انتقال فرما گئے تھے، دادا نے بچپن ہی سے عبدالحکیم کو یہ سبق پڑھانا شروع کر دیا کہ اللہ کہتا ہے میں نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں سے صرف وہ وقت اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا جو اس کے دیے ہوئے رزق کی تلاش کرنے میں لگے گا اور جو وقت انسان کے بس سے باہر ہے جیسے سونا، آرام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
گائوں میں گھر کا کافی بڑا صحن تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ گھر کے گرد کوئی چار دیواری بھی نہ تھی۔ گھر میں ایک طرف بڑے بڑے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ صبح شام دنیا جہان کی چڑیاں وہاں آ کر جمع ہوجاتیں اور چیں چیں کرکے آسمان سر پر اُٹھا لیتیں۔ صبح فجر ادا کرکے آپ ننھے حکیم کو گود میں لٹا کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتے اور چڑیوں کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کرتے۔ کہا کرتے یہ کہہ رہی ہیں ’’رازق، رازق، تو ہی رازق۔‘‘ گھر میں اکثر کہا کرتے کہ یہ اپنے دل میں دعا مانگ سکتی تھیں جیسے دنیا کے باقی سیکڑوں ہزاروں جانور مانگتے ہیں۔ لیکن انسان کو احساس دلانے کے لیے اللہ نے ان کو بآواز بلند روز کا رزق روز صبح مانگنے کا حکم دیا۔
عبدالحکیم کو سمجھاتے رہتے کہ ہمارے بزرگوں نے اور ہم نے تو خدا سے چڑیوں کی طرح رزق مانگ کر زندگی گزار لی اور بڑے سکھی رہے۔ تم بھی یہ راہ اختیار کرو گے تو زندگی بڑے سکون سے گزر جائے گی۔
شام کو داداجان عصر کی نماز کے بعد پھر چڑیوں کے ساتھی بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے۔ وہ کہا کرتے غور کرو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ کہہ رہی ہوں ’’شکر شکر مولا تیرا شکر‘‘ یعنی تو نے ہماری صبح کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا اور ہمیں اتنا رزق دیا کہ ہم کھا بھی نہ سکے۔
عبدالحکیم صاحب کا گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ گرمیوں میں ۸ بجے اور سردیوں میں ۹ بجے دکان لازماً کھل جاتی تھی لیکن دکان بند ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ کہا کرتے تھے جب کھاتہ مکمل ہوگیا، دنیاداری کا وقت ختم ہوگیا۔
رشید بتاتا کہ کھاتے کا بھی بڑا دلچسپ چکر تھا۔ حکیم صاحب صبح بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔
ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھر باقی چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔

میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔
اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ انارکلی میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے میوہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔
حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر۔‘‘

 

سیما علی

لائبریرین
تندرستی ہزار نعمت ہے

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا

’’ یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگےتو کیا مانگے؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’صحت‘‘۔

میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گیا‘

صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت اور منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی-

ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔

ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں‘ مگر ہماری قوت مدافعت‘ ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں‘

مثلاً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارےدل کو کمزور کر دیتے ہیں مگر ہم جب تیز چلتے ہیں‘ جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے‘ ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے‘

مثلاً دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں‘ کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی‘ یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا‘

مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے‘

ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑےہوتے ہیں- یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نه اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نه نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں-

سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے‘

مثلاً ہمارا جگرجسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری انگلی کٹ جائے‘ بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے‘

سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے‘ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے‘ آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں‘ یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں

جب کہ ہمارے بدن میں ایسےہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔

ہم روزانہ سوتے ہیں‘ ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے‘ انسان کی اونگھ‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں‘ ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے‘ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا‘

صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی‘

ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کاتخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے‘

ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں‘

دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیےتیار ہیں‘

ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسوکے برابر مائع ہوتا ہے‘ یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے‘ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں‘ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے‘ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ‘

دنیا کے سیکڑوں‘ ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں‘

لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں‘

آنکھوں کاقرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے‘

دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے‘

آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘

دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے‘

قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے‘

دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے‘

آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے‘

شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں

اور آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگرآپ کو شفا نہیں ملے گی‘

منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں‘

ہم اس عظیم مہربانی پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے‘ ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں‘ ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے‘ ہم سیدھا چل سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ جھک سکتے ہیں اور ہمارا دل‘ دماغ‘ جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں‘ ہم آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے چھو‘ ناک سے سونگھ اور منہ سے چکھ سکتے ہیں

تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل‘ اس کے کرم کے قرض دار ہیں اور ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے‘

ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
اسی لئیے ربِ کریم قرآن میں کہتے ہے………


اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالی کی آزمائش

بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ، ایک کوڑھی ، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا ، الله تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے-”
چنانچہ الله تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے ؟
"اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اوراچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں ۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی ۔ ”
فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے ؟
"اس نے کہا کہ اونٹ ! یا اس نے گائے کہی ، اسحاق بن عبد الله کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی ۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ الله تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا…..”
پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟
"اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں ۔”
"بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے ۔ فرشتے نے پوچھا ، کس طرح کا مال پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ گائے ! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ الله تعالیٰ اس میں برکت دے گا ۔”
پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے ؟
"اس نے کہا کہ الله تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں ۔”
بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور الله تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی ۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے ؟ اس نے کہا کہ بکریاں ! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی ۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے ، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی ، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی …..”
پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ …!
"میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں ، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور الله تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں ، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا ، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں ۔ ”
"اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں ۔”
فرشتہ نے کہا :”غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں ، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے ۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے ۔ پھر تمہیں الله تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں ؟”
"اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے”
"فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو الله تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے……..”
پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا ……
"فرشتے نے کہا: کہ اگر تم جھوٹے ہو تو الله تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے…..”
اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا ، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ….!
” میں ایک مسکین آدمی ہوں ، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا الله تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں ۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے ، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں ۔”
"اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور الله تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور الله تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا ۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو -”
الله کی قسم ! "جب تم نے الله کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا ۔”
فرشتے نے کہا: کہ…….” تم اپنا مال اپنے پاس رکھو ، یہ تو صرف امتحان تھا اور الله تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے ۔”
———–]رواہ: ابو ھرہرہ رضی اللہ عنہ[ ———–
صحیح البخاری- )حديث نمبر- 3464( جلد-4
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالے کیونکہ ہم بہت ہی زیادہ کمزور ہیں اور اگر اُس کی رضا کا تقاضا ہو تو پھر ہمیں ہر امتحان میں اپنی رحمت سے سرخرو فرما دے آمین۔ یارب العالمین
 

سیما علی

لائبریرین
تنخواہ(پیسوں)کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ

یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے،یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها،اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی،شادی شدہ ہونے کیوجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے،مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها ،اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی، باوجودیکہ اس کی بیوی اسکے مادی حالت کا خیال کرتی ،لیکن قرضوں کے بوجه میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے

.
ایک دن وہ اپنے دوستوں میں مجلس میں گیا ،وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها،کہنے لگا میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشاکل اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو، اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں؟


خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہو سکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے

.
کہتا ہے میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا.اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا
.
سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں میری تو حالت ہی بدل گئی، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ،قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں
پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی ہوئی تهی.میں حساب لگا لیا اور مجهے اندازہ ہو گیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجه سے میری جان چهوٹ جائی گی


پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساته اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لا کردیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا

الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا .
میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا.


اللہ کی قسم صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو.
صدقہ کرو، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے.


نوٹ :
1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنےکاکہیں گے اور وہ اس پر عمل کرےگا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجرملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی،


سوچیے !!!
آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپکے سبب آپکے پیچهے کوئی صدقہ کررہاہو گا


  1. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیاآپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجرہے
  2. .
    میرے عزیز!!!
    اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپکو لگا بندها وظیفہ ملتاہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتناہوجائے کچه رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں.
اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجه لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاته میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاته میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی.

کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں؟
خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گآ


سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!


1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے

2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے.

3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا

4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے

5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں

6. صدقہ مصفی ہے، نفس کی پاکی کا ذریعہ اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے

7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے

8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا.

9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سئیات کا کفارہ ہے.

10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی ، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے

11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو.

12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے

13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کے مخلوق محبت کرتی ہے.

14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے

15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے

16. صدقہ بلاء )مصیبت( کو دور کرتا ہے ، اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے

17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے.کام یابی اور رزق کا سبب ہے.

18. صدقہ علاج بهی ہے دواء بهی اور شفاء بهی…

19. صدقہ آگ سے جلنے، غرق ہونے ، چوری اور بری موت کو روکتا ہے

20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں ناہو..
 

سیما علی

لائبریرین
شیخ جنید بغدادی
کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟”

لوگوں نے کہا: ” حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟”

شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔

مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟

میں ہوں جنید بغدادی۔
تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟


جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔
اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟”


کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔”

پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔”
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔”


یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔”

"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔”

بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔”


بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟”

شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔”
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟


"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔” اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔” پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟


بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔” اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟


جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔


یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔”

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔”

شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔” (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔”


پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔

بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ٹائم زون

٭ کینیا کا وقت نائیجیریا سے 2 گھنٹے آگے ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نائیجیریا ‘سست رفتار‘ ہے اور کینیا ‘تیز رفتار‘۔۔ دونوں ممالک اپنے اپنے ٹائم زون کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔

٭ کوئی شخص بڑی عمرتک غیر شادی شدہ ہے اور کسی نے شادی کرلی اور دس سال تک صاحب اولاد ہونے کا منتظر رہا، اور دوسری طرف کوئی شخص شادی کے ایک سال بعد ہی اولاد کا حامل بن گیا۔۔

٭ کسی نے بائیس سال کی عمر میں گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں لگا دیے، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں گرھویشن کیا اور فوری طور پر اسے ایک اچھا ملازمت بھی مل گئی۔


٭ کوئی پچیس سال کی عمر میں ایک کمپنی کا CEO بن گیا اور پچاس سال کی عمر میں وفات پا گیا اور دوسری طرف دوسرا شخص پچاس سال کی عمر میں اس عہدے پر پہنچا اور نوے سال عمر پائی۔
ہم میں سے ہر شخص اپنے ٹائم زون کے حساب سے کام کرتا ہے ۔ ہر کام کے تکمیل کی اپنی رفتار ہوتی ہے ۔۔۔ اپنے ٹائم زون کے مطابق
آپ کے ساتھی، دوست یا آپ سے عمر میں چھوٹے لوگ بظاہر آپ سے آگے ہو سکتے ہیں،
ان سے بدگمان نہ ہوں، وہ ان کا ‘ٹائم زون’ ہے اور آپ اپنے ‘ٹائم زون’ میں ہیں،
ڈٹے رہیں، ثابت قدم رہیں اور خود سے مخلص رہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر آپ کی بہتری میں معاون ثابت ہونگی۔
آپ ‘لیٹ‘ نہیں ہیں ۔۔ آپ بالکل وقت پر ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (سورہ الشعراء)

یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے. اس میں ایک باریک نکتہ یہ ہےکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ جب وہ مجھے بیماری دیتا ہےتو وہی شفا دیتا ہے. بلکہ یہ کہا کہ جب “میں “بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے. یعنی بیماری کے عمل کو اپنی جانب منسوب کیا اور شفا کو خدا سے منسوب کیا. یہی پیغمبروں کی خدا سے محبت اور ادب ہے جسے ہمیں ماننا ضروری ہے.

بیماری کا اذن یعنی اجازت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن بیماری کا سبب یا تو ہماری اپنی کوئی کوتاہی ہوتی یا خدا کی جانب سے آزمائش یا دونوں۔ جیسے سگریٹ پینے پر ہارٹ اٹیک کا ہونا ہماری اپنی کوتاہی ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کا بیماری میں مبتلا ہونا آزمائش ہے وغیرہ۔ چونکہ ہم متعین طور پر نہیں جانتے کہ بیماری ہماری کسی کوتاہی کی بنا پر ہے یا خدا کی جانب سے ، اس لیے اس کی نسبت اپنی ہی جانب کرکے اپنی کوتاہی تلاش کرنا اور اس کی اصلاح کرنا ہی درست رویہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ضرورت ایجاد کی ماں کہلاتی ہے
مگر جب یہی ضرورت جو کہ سہولت کے لئے ایجاد کی گئی ہو اتنی ضروری ہو جائے کہ انسان حد سے گزر جائے تو اس سے بڑا وبال بھی کوئی نہیں ہوتا۔

اور ویسے بھی ہر چیز توازن میں ہو تو اس کی افادیت زیادہ ہوتی ہے جہاں توازن بگڑے مسلئے شروع ہو جاتے ہیں جیسے کہ آج کل ہم ہر طرف موبائل فون کا رونا سنتے رہتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
گاؤں کا نمبر دار اور ہمارے خان صاحب

گاؤں کا مالدار نمبردار مسجد میں جھاڑو لگا رہا تھا۔
اتنی دیر میں مسجد کے امام صاحب بھی تشریف لے آئے اور حیرانگی سے کہا:
نمبردار صاحب یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟؟؟
نمبردار نے کہا:
امام صاحب آپ نے ہی بتایا تھا کہ مسجد کی صفائی کا بڑا ثواب ہے تو میں نے سوچا کہ میں کیوں اس اجر عظیم سے محروم رہوں؟
امام صاحب آگے بڑھے نمبردار کے ہاتھ سے جھاڑو لے لیا اور کہا:
یہ ثواب کسی غریب کے لیے چھوڑ دیں۔ اللہ نےآپ کو ڈھیروں مال دولت دیا ہے آپ کا کام مسجد کی صفائی نہیں بلکہ کسی نئی مسجد کی تعمیر ہے۔اگر آپ جیسے مالدار بھی مسجدوں کی صفائی کر کے ثواب کمانے پہ لگ جائیں گے تو مسجدوں کی تعمیر کون کرے گا؟
اخبارات و نیوز چینلز سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم صاحب نے "فلسطین پہ جاری بدترین ظلم کی مذمت" کی ہے، تو ہم بھی یہ کہیں گے کہ خان صاحب یہ مذمت والے ثواب ہم غریبوں کے لیے چھوڑ دیں، یہ آپ کا کام نہیں۔آپ کو اللہ نے کرسی، اقتدار فورس، دنیا کی بہترین ایجنسی دی ہے۔ آپ کا کام مرمت کا ہے مذمت کا نہیں۔
بسم اللہ کیجیے اور اپنے حصے کا کام کیجیے۔ مولا خوش رکھے۔
اک میزائیل بھری دھمکی ہی لگا دیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
خان صاحب یہ مذمت والے ثواب ہم غریبوں کے لیے چھوڑ دیں، یہ آپ کا کام نہیں۔آپ کو اللہ نے کرسی، اقتدار فورس، دنیا کی بہترین ایجنسی دی ہے۔ آپ کا کام مرمت کا ہے مذمت کا نہیں۔
بالکل بجا فرمایا یہ کام ہم غریبوں کے لئیے چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔
 

شرمین ناز

محفلین
بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ حسبِ معمول غریبوں کے لیے آٹا، دال، مٹی کا تیل اور چینی سستی ہونے کی خبر سنائی جائے گی اور انشااللہ ایک ماہ بعد نہ تو بجٹ کسی کو یاد رہے گا اور نہ ہی قیمتوں میں کمی بیشی پر کسی کا دھیان ہوگا۔

مجھے کوئی ایسا بجٹ یاد نہیں جس میں وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔ بس اتنا ہوتا ہے کہ کسی برس صنعت کاروں، تاجروں اور زمینداروں کو دی جانے والی رعائیتیں بیس ہو جاتی ہیں تو کسی برس انیس۔

عام آدمی کے لیے بجٹ زندگی پلٹ دستاویز نہیں ہوتی بلکہ مزار پر بٹنے والی وہ دیگ ہوتی ہے جسے حکمران سال میں ایک دفعہ گناہوں کے کفارے کے لیے دان دیتے ہیں۔ دیگ کے چاول ختم تو رش بھی ختم۔ بس عوام کو بجٹ میں دی جانے والی رعایتوں سے اتنا ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
میں نے کوئی ایسا بجٹ نہیں دیکھا جس سے عوام کے سب طبقات مطمئن ہو سکیں۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے اگر بجٹ سنگدل ٹیکنو کریٹس اور بیورو کریٹس کی بجائے گھر کا خرچہ چلانے والی کسی ماں سے بنوایا جائے۔

ماں کو چاہے آپ پانچ ہزار روپے ماہانہ دے دیں یا پچاس ہزار۔ وہ ایسا بجٹ بناتی ہے کہ گھر کا کوئی فرد ناخوش نہیں ہوتا۔ یہ گھریلو عورت جو نہ تو اخبار پڑھتی ہے اور نہ ہی اس نے کبھی سٹینفورڈ یا ہارورڈ کا نام سنا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ایم بی اے کا مطلب بتا سکتی ہے۔ آخر کیسے سال میں بارہ بجٹ بنا لیتی ہے اور شادی غمی کے لیےکچھ نہ کچھ بچا بھی لیتی ہے۔

وجہ صرف ایک ہے، ماں کی نیئت میں فتور نہیں ہوتا

وسعت اللہ خان (بی بی سی اردو بلاگ)
 

سیما علی

لائبریرین
"سر درد سر درد سر درد"

فون کی بیل بجی تو سکرین پر زوجہ محترمہ کا نام دیکھ کر فورا سے کال اٹھائی کہ اگر ذرا سی بھی دیر کی تو کہیں ناراض نا ہو جائے۔

السلام علیکم!! جان کیسی ہو؟؟

وعلیکم السلام!! میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟؟

"بالکل ٹھیک، کیسے یاد آگئی میری؟؟" میں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا

"وہ میں عید کی شاپنگ کے لئے بازار آئی تھی تو سوچا آپ سے پوچھ لوں کہ اس دفعہ کس کلر کا سوٹ خریدوں" بیوی صاحبہ نے پرجوش ہو کر پوچھا

اب مجھ نالائق انسان کو رنگوں کی کیا سوجھ بوجھ، خیر دماغ پر زور دیتے ہی کچھ رنگوں کے نام یاد کیے اور جھٹ سے بولا

"پرپل!!! پرپل کلر تم پر بہت سوٹ کرے گا" میں نے پرجوش انداز میں جواب دیا۔

"پرپل ابھی پچھلے ہفتے تو لیا تھا کوئی اور بتائیں" جواب آیا

"پھر ایسا کرو اورینج کلر کا لے لو " تجویز پیش کی گئی

"اورنج بہت شوخ کلر ہے کوئی ڈیسنٹ سا کلر بتائیں نا" جواب آیا

میں:پھر بلیک کلر کیسا رہے گا؟؟ پھر تجویز پیش کی گئی

بیوی : اتنی گرمی ہے!! عید پر سارا دن کچن میں گزر جاتا ہے اور بلیک کلر تو گرمی جذب کرتا ہے میں نے مرنا نہیں ہے"

بیوی کا لاجک تو جاندار تھا!!!

میں : ہاں بھئی یہ بھی درست ہے!! پھر گرین کلر ٹھیک رہے گا، گرین تو گرمی جذب نہیں کرتا نا؟؟

زوجہ:گرین کلر کیوں؟؟ میں نے عید پر کسی دربار پر دھمال ڈالنی ہے کیا!!

میں: اچھا سوری جان!! "پھر تم ریڈ خرید لو بہت ٹرینڈ ہے آجکل"

زوجہ:ریڈ کلر تو مجھے بھی بہت پسند ہے!!

بیوی کی بات سن کر میں نے سکھ کا سانس لیا کہ آخر کار جان چھوٹ گئی لیکن!!

زوجہ: "لیکن !!
بات سنیں!!! ریڈ امی کو نہیں پسند"

اب ہماری حالت غیر ہو رہی تھی، میں نے دل میں سوچا کہ عمر میاں کونسی مصیبت آن پڑی تھی جو اپنی پسند بتانے بیٹھ گئے، آئے بڑے مجنوں کہیں کے

میں:"اچھا پھر جو تمہیں پسند ہے وہ خرید لو" آخری حربہ استعمال کیا گیا

زوجہ:"آپ بتائیں نا مجھے آپکی پسند کا سوٹ لینا ہے "

" نہیں جان !!
تم میری پسند ہو، جو تمہیں پسند وہ مجھے پسند" میں نے دانت پیستے ہوئے کہا

بیوی:سو سویٹ!! چلیں ایسا کرتی ہوں کہ "ایکوا کلر ود ایش گرے یا زنک کلر ود آشن بلو" لے لیتی ہوں!!

مجھے ایسا لگا کہ کسی کیمائی تخریب کار مادے کا نام لیا گیا ہو....

"ہاں بہت پیارا کلر ہے جلدی سے لے لو،اچھا اللہ حافظ " میں نے جلدی سے کال بند کرتے ہوئے کہا پتا نہیں آشن بلو اور ایش گرے کس چڑیا کا نام ہے۔۔۔۔۔!!!

:hypnotized::hypnotized::hypnotized::hypnotized::hypnotized:
 

سید عمران

محفلین
یہ 2015 کی بات ہے جب سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کے تحت برونائی کا دورہ کرنے والے ایک جاپانی نوجوان کی زندگی ہی بدل گئی۔
کیجی واڈا کا کہنا ہے کہ اس تجربے سے انھیں حقیقت میں علم ہوا کہ مسلمان کیا ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے اسلام کے بارے میں جو کچھ سنا تھا وہ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی خبروں پر مبنی تھا جس میں خاص طور پر مشرقِ وسطی میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی کارروائیوں کی خبریں شامل تھیں۔
وہ سٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام کیجی واڈا کی مسلمانوں اور عالم اسلام سے پہلی ملاقات اور رابطہ تھا۔
اس پروگرام سے واپسی پر کیجی نے اپنے ملک میں مقیم مسلمانوں سے ملنا شروع کیا جس سے اسلام کے بارے میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان ملاقاتوں سے انھیں ایک خاص روحانی تجربہ ملا جس نے انھیں اپنی زندگی کے مقصد کی پہچان میں مدد دی اور پھر 2017 میں انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
بی بی سی انڈونیشیا کے صحافی اینڈانگ نوردین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ ایک جاپانی مسلمان کی حیثیت سے میرا چوتھا رمضان رہا۔ مجھے اپنے مذہب پر فخر ہے‘۔
کیجی نے کہا کہ ’عبادت کے ذریعے میری بطور ایک مسلمان شناخت مزید مضبوط ہوتی ہے۔‘
کیجی واڈا نے 2017 میں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا
اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میرا ذہن بدل گیا تھا۔ میں (جاپان) واپس آنے کے بعد اکثر ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملتا تھا۔ وہ پرسکون تھے، نرم مزاج تھے۔ میں اس تجربے سے متاثر ہوا تھا اور اسی وجہ سے میں اسلام میں دلچسپی رکھتا تھا اور اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔‘
کیجی کو اس سفر میں صرف اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی نہیں بلکہ اپنے اہلخانہ کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا رہا جو یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیجی کو مذہب کی ضرورت کیوں ہے۔
’میری والدہ کو صرف اسلام ہی نہیں بلکہ کوئی بھی مذہب پسند نہیں۔ میرے خیال میں اس لیے کہ انھیں مسلمانوں سے براہ راست بات چیت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور وہ ان کے بارے میں صرف میڈیا کے ذریعے جانتی ہیں جبکہ اگر آپ ان سے ملیں تو وہ خطرناک نہیں ہیں۔‘
کیجی نے برونائی سے واپسی پر اپنے ملک میں مقیم مسلمانوں سے ملنا شروع کیا جس سے اسلام کے بارے میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا
کیجی کا کہنا ہے کہ ’میری ماں تاحال وہ میرے مذہب سے راضی نہیں ہیں لیکن وہ میرے فیصلے کی حمایت کرتی ہیں ، کیونکہ میں ان کا بیٹا ہوں، الحمدللہ، وہ اکثر مجھے حلال کھانا بھی بھیجتی ہیں۔‘
واسیڈا یونیورسٹی کی تانڈا ہیروفوومی کے مطابق، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی تعداد ، اگرچہ کم ہے تاہم گذشتہ دس برس میں یہ تعداد دوگنا ہو چکی ہے۔ 2010 میں جاپان میں ایک لاکھ دس ہزار مسلمان تھے جبکہ 2019 کے آخر تک یہ تعداد دو لاکھ 30 ہزار ہو چکی تھی جن میں تقریباً 50 ہزار جاپانی بھی شامل ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
میناچی اخبار کے مطابق تانڈا کا کہنا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں میں اضافہ ملک میں طلبا اور کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے مطابقت رکھتا ہے۔
واسیڈا یونیورسٹی کی تانڈا ہیروفوومی کے مطابق، جاپان میں مقیم مسلمانوں کی تعداد گذشتہ دس برس میں دوگنی ہو چکی ہے
تانڈا کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق، جاپان میں اس وقت 100 کے قریب چھوٹی مساجد یا نماز کی ادائیگی کے مقامات ہیں۔
ٹوکیو میں نوکری کرنے والے کیجی کا کہنا ہے کہ ’نماز پڑھنے کے لیے جگہ ڈھونڈنا میرے لیے چیلنج ہے کیونکہ یہاں بہت کم مساجد ہیں اور یہی مسئلہ حلال کھانے کی تلاش کا بھی ہے۔‘
تاہم وہ ان مشکلات سے گھبرانے والے نہیں۔ ’میں ایک عام جاپانی ہوں جو سیکولر ہوا کرتا تھا جس کا کوئی مذہب نہیں تھا اور اب اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔‘
کائیجی نے کہا کہ انھوں نے جاپانی اساتذہ کے آن لائن لیکچرز کے ساتھ ساتھ جاپان میں انڈونیشیائی برادری اور مذہبی تقریبات میں شرکت کے ذریعے اسلام کی تعلیم حاصل کی۔
کیجی کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برس میں ان کی زندگی میں ٹھہراؤ آیا ہے اور وہ پرسکون ہو گئی ہے اور وہ 2017 سے پہلے کی زندگی سے بہت مختلف ہے جو ایسا وقت تھا جب وہ خود کو ایک بےمقصد زندگی جینے والے شخص کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’عام طور پر جاپانی معاشرے میں ایسے افراد اکثر گم ہوجاتے ہیں یا الجھن میں پڑ جاتے ہیں (اس بات کا تعین کرنے میں) کہ ان کی زندگی میں کیا اہم ہے ، کیا صحیح ہے اور کیا صحیح نہیں۔ لہٰذا وہ کام کرنے کے لیے جیتے ہیں اور پھر تھکن کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔‘
’اسلام قبول کرنے کے بعد میرے تمام اہداف اور سوالوں کے جواب قرآن میں موجود ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب میری زندگی کا مقصد واضح ہے، میں اپنی زندگی جینے کی ترغیب پاتا ہوں ۔‘
کیجی کو اس سفر میں صرف اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی نہیں بلکہ اپنے اہلخانہ کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا رہا
خیال رہے کہ جاپان میں خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ نوجوان جاپانیوں میں خودکشی کی شرح میں اضافے کے پیچھے موجود عناصر میں خاندانی مسائل، دادا گیری اور مستقبل کے بارے میں پریشانیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
کیجی کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اس روحانی تجربے کو بھلا نہیں پائیں گے جو انھیں خانۂ کعبہ کو دیکھ کر حاصل ہوا۔
وہ 2019 میں دیگر ممالک کے نومسلم افراد کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’جب میں نے کعبہ کو دیکھا تو سوچا کہ میں تو ایک عام جاپانی تھا جو سیکولر ہوا کرتا تھا، جس کا کوئی مذہب نہیں تھا اور جس کی زندگی اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور تھی۔‘
تانڈا کا کہنا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں میں اضافہ ملک میں طلبا اور کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے مطابقت رکھتا ہے
ان کے مطابق ’کون سوچ سکتا تھا کہ میرے جیسا شخص خدا کے گھر کے سامنے کھڑا ہو گا۔ ہر چیز کا کنٹرول اسی ذاتِ باری تعالیٰ کے پاس ہے یہ بات میں کبھی نہیں بھولوں گا۔‘
کیجی کا کہنا ہے کہ اپنے گھر میں اکیلے مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ عید جیسے تہواروں پر گھر نہیں جاتے بلکہ ’میں اپنی اہلیہ کے ساتھ عید مناتا ہوں۔ جن کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔‘
کیجی کے مطابق اس کے علاوہ وہ مسجد میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ تہوار مناتے ہیں مگر اس مرتبہ کووڈ کے تناظر میں عائد پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا۔
جاپان میں موجود دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں میں سے 50 ہزار جاپانی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے
کیجی کی اہلیہ یوسین پٹیلوکا کا کہنا ہے کہ ’کیجی ایک عبادت گزار شخص ہیں جو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔’
مستقبل کے ارادوں پر بات کرتے ہوئے کیجی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاپانی کمیونٹی میں اسلام کی نیکی کا پیغام پھیلائیں۔
جاپان کی 100 سے زائد مساجد اور نماز کی ادائیگی کے مقامات میں سے ، قدیم ترین مسجد 1935 میں ترکی اور ہندوستان سے آنے والے افراد نے تعمیر کروائی تھی۔
وسیدا یونیورسٹی کے پروفیسر تانڈا ہیروفیومی کی تحقیق کے مطابق 1980 کی دہائی کے آخر میں جاپان میں صرف تین مساجد تھیں۔
تاہم 1980 کی دہائی کے وسط کے بعد ایران، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ دیگر مسلمان آبادی والے ممالک کے بہت سے کارکن جاپان آئے۔
جاپان میں اس وقت مساجد کی تعداد 100 سے زیادہ ہے
ان میں سے بہت سے تعمیراتی شعبے اور دیگر شعبوں میں کام کرنے آئے تھے۔
اس کے علاوہ ، تانڈا کی تحقیق کے مطابق ، بہت سے افراد انڈونیشیا سے بھی مزدور کی حیثیت سے آئے تھے اور اس آمد کے ساتھ ہی، 1990 اور 2000 کی دہائی میں، مساجد کی تعداد مزید بڑھ گئی۔
اس سے پہلے ، جاپان میں مساجد ایسے علاقوں میں تھیں جہاں کارخانے واقع تھے جیسے کہ ٹوکیو میں اور اس کے آس پاس ، ناگویا کے آس پاس چوکیو کا علاقہ اس کے ساتھ ساتھ اوساکا اور کیوٹو بھی۔
شیبویا میں جاپان کی سب سے بڑی مسجد ، ٹوکیو کامی میں نماز جمعہ کے لیے لگ بھگ 700 افراد کی جگہ ہے اور یہاں آنے والے نمازی جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
پروفیسر تانڈا کے مطابق، حالیہ دنوں میں، بڑی تعداد میں مسلمان آبادی والے ممالک خاص طور پر بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ طلبا آئے ہیں اور یہی وہ جگہ ہے جہاں نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
پروفیسر تانڈا نے اندازہ لگایا ہے کہ جاپان میں موجود دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں میں سے 50 ہزار جاپانی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے جیون ساتھی کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس مذہب کا انتخاب کیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
پروفیسر تانڈا نے اندازہ لگایا ہے کہ جاپان میں موجود دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں میں سے 50 ہزار جاپانی ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے جیون ساتھی کے مسلمان ہونے کی وجہ سے اس مذہب کا انتخاب کیا۔
سبحان اللّہ سبحان اللّہ
 

سیما علی

لائبریرین
نوشیروان عادل (ایران کا عظیم بادشاہ جس کی سخاوت اور عدل بہت مشہور ہے) ایک روز شکار کے لئے جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے باغ میں ایک پودا لگا رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا روک کر بوڑھے کو اپنے پاس بلایا اور اس سے سوال کیا۔
"بابا کیا تمہیں‌ یقین ہے کہ تم اس پودے کا پھل کھا سکو گے؟"
بوڑھے نے ادب سے جواب دیا
"عالم پناہ! ہم زندگی بھر دوسروں کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل کھاتے رہے ہیں۔ اب ہمارے لگائے ہوئے درختوں کے پھل دوسرے کھائیں گے"
بوڑھے کی حاضر جوابی سے بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اسے ایک سو دینار انعام میں دیئے۔
بوڑھے نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور کہا
"دیکھا عالی جاہ! میرا لگایا ہوا درخت تو میری زندگی میں ہی پھل لے آیا"
بوڑھے کی اس بات پر بادشاہ مزید مسرور ہوا اور مزید سو دینار بوڑھے کو دیئے۔
بوڑھے نے کہا
"دیکھئے حضور دوسروں کے لگائے ہوئے درخت تو سال میں صرف ایک بار پھل لاتے ہیں۔ لیکن میرا لگایا ہوا درخت ایک دن میں دو بار پھل لے آیا۔"
بادشاہ کو بوڑھے کی یہ بات بھی بہت پسند آئی۔ چنانچہ اس نے تیسری بار بھی سو دینار بوڑھے کو دیئے۔

اس طرح حاضر جواب بوڑھے نے فیاض بادشاہ سے تین سو دینار حاصل کر لئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
سکندر اعظم نے ایران کے بادشاہ دارا کو شکست دے کر اس کے وزراء اور خدمت گاروں کو قتل کروا دیا۔
سکندر کو بتایا گیا کہ دارا کی بیٹی نہایت حسین و جمیل ہے اور اس کے علاوہ اس کے شاہی حرم اور شاہی خاندان کی بے شمار دوشیزائیں حسن و جمال میں اپنی نظیر نہیں‌ رکھتیں۔ لہذا سکندر کو محل سرا کی سیر کرکے ان کی دید سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ خصوصا شہزادی کا حسن تو بے مثال ہے اور توجہ کے قابل ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سکندر شہزادی کو دیکھے گا تو عین ممکن ہے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے ملکہ بنا لے مگر سکندر نے جواب دیا
"ہم دارا کے شہہ زور مردوں کو شکست دے چکے ہیں۔ اب ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس کی کمزور عورتیں ہمیں زیر کر لیں"
سکندر حرم سرا نہیں گیا اور نہ اس نے اپنے وزراء کو جانے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top