انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
دوسرا الزامی جواب یہ تھا کہ جب بغداد میں علم و ہنر کا دور دورہ تھا اس وقت یورپ کیا کررہا تھا؟؟؟
مغرب کے خداوند درخشندہ فِلِزّات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گِرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ عِلم، یہ حِکمت، یہ تدبُّر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عُریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
 

جاسمن

لائبریرین
کیا آپ بھی بنی اسرائیل ہیں ؟

کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟" میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے تک اسے حیرت سے دیکھتا چلا گیا۔ وہ دانت نکال رہا تھا اور بار بار اپنی داڑھی کھجا رہا تھا۔ پارک میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ہلکی ہلکی جاگنگ بھی کر رہے تھے۔ دوپہر مایوس ہو کر رخصت ہو رہی تھی اور شام دھیرے دھیرے مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے سرک رہی تھی۔ گرم دوپہر کے بعد اسلام آباد کی شام کی اپنی ہی خوب صورتی ، اپنا ہی سکھ ہوتا ہے۔

میری بچپن کی عادت ہے میں پریشانی یا ٹینشن میں کسی پارک میں چلا جاتا ہوں۔ ایک دو چکر لگاتا ہوں اور پھر کسی بینچ پر چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بینچ میری ساری ٹینشن، میری ساری پریشانی چوس لیتا ہے اور میں ایک بار پھر تازہ دم ہو کر گھر واپس آ جاتا ہوں۔ میں اس دن بھی شدید ٹینشن میں تھا۔ میں نے پارک کا چکر لگایا اور سر جھکا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ایک نیم خواندہ پشتون کسی سائیڈ سے آیا اور بینچ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے شاید بڑبڑانے کی عادت تھی یا پھر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا چناں چہ اس نے مجھے بار بار انگیج کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی آٹے کی مہنگائی کا ذکر کرتا تھا، کبھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا رونا روتا تھا اور کبھی لوگوں کے غیر اسلامی لباس پر تبصرے کرتا تھا۔ میں تھوڑی دیر اس کی لغویات سنتا رہا لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو میں نے جیب سے تھوڑے سے روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔

وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے نوٹوں کو دیکھتا رہا، پھر اس نے قہقہہ لگایا۔ نوٹ واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور بولا۔ "آپ لوگوں کا بڑا المیہ ہے (وہ المیہ کو لمیا کہہ رہا تھا) آپ دوسروں کو بھکاری سمجھتے ہیں۔ آپ کا خیال ہوتا ہے آپ کے ساتھ اگر کوئی غریب شخص بات کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ آپ سے بھیک لینا چاہتا ہے۔ بابو صاحب ! مجھ پر ﷲ کا بڑا کرم ہے۔ چوکی داری کرتا ہوں، روٹی مالک عزوجل دے دیتا ہے اور خرچے کے پیسے مالک عزوجل کے بندے سے مل جاتے ہیں۔ میں بس آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ میرا والد کہتا تھا پریشان آدمی کو حوصلہ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے۔ چناں چہ میں جہاں کسی کو پریشان دیکھتا ہوں میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں مگر آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا۔"

میری حیرت شرمندگی میں بدل گئی اور میں اس سے معافی مانگنے لگا۔ وہ ہنسا اور داڑھی کھجاتے کھجاتے مجھ سے پوچھا۔ "کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟"

میں نے چند لمحوں تک اس سوال پر غور کیا اور پھر جواب دیا۔ "ہاں تین چار ہیں۔" وہ بولا۔ "تم کو پتا ہے آج کل پٹرول کی کیا قیمت ہے؟" میں نے ہنس کر جواب دیا۔ "مجھے نہیں پتا، ڈرائیور پٹرول ڈلواتا ہے۔" اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "اور تم پھر بھی پریشان بیٹھے ہو؟"

میں نے حیرت سے جواب دیا۔ "گاڑی کا پریشانی کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے خان؟" وہ سنجیدہ ہو کر بولا۔ "بڑا گہرا تعلق ہے۔ کیا مکان تمہارا اپنا ہے۔؟" میں نے جواب دیا۔ "ہاں میرا اپنا ہے بلکہ تین چار ہیں۔" وہ مسکرایا اور پوچھا "کیا بیوی بچے بھی ہیں؟" میں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔ اس نے پوچھا۔ "بچہ لوگ کیا کرتے ہیں؟" میں نے جواب دیا "بیٹے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔" اس نے پوچھا " اور کیا تمہاری بیگم صاحبہ کی صحت ٹھیک ہے؟"میں نے فوراً جواب دیا "ہاں الحمد للہ۔ ہم دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ہمیں اللہ نے مہلک بیماریوں سے بچا رکھا ہے۔" وہ بولا "اور کیا خرچہ پورا ہو جاتا ہے؟" میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور جواب دیا "الحمد للہ۔ خرچے کی کبھی تنگی نہیں ہوئی۔"

اس نے قہقہہ لگایا اور میرے بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھ کر بولا۔ "اور بابو صاحب آپ اس کے بعد بھی پریشان ہے؟ آپ نے پھر بھی منہ بنا رکھا ہے۔ آپ کو پتا ہے آپ بنی اسرائیل ہو چکے ہیں۔"

میں بے اختیار ہنس پڑا اور پہلی مرتبہ اس کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ "میں بنی اسرائیل کیسے ہوگیا اور بنی اسرائیل کیا ہوتا ہے؟"

وہ سنجیدگی سے بولا۔ "آپ اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالیٰ بار بار بنی اسرائیل سے کہتا ہے میں نے تمہیں یہ بھی دیا، وہ بھی دیا، ملک بھی دیا، کھیت بھی دیے، دشمنوں سے بھی بچایا، تمہارے لیے آسمان سے کھانا بھی اتارا، باغ اور مکان بھی دیے، عورتیں اور بچے بھی دیے اور غلام اور کنیزیں بھی دیں مگر تم اس کے باوجود ناشکرے ہو گئے۔ تم نے اس کے باوجود میرا احسان نہیں مانا۔ ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں ساری نعمتوں کے بعد بھی جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اس کے احسان یاد نہیں کرتا تو وہ بنی اسرائیل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرح ذلیل کرتا ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون اور امن سے محروم ہو جاتا ہے اور آپ بھی مجھے بنی اسرائیل محسوس ہو رہے ہیں۔ آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ان کے باوجود بینچ پر اداس بیٹھے ہیں۔ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے۔"

اب مجھے جھٹکا سا لگا اور میں شرمندگی اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا اورتجربہ کار سمجھتا تھا۔ بچپن سے اسلامی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور عالموں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں لیکن آپ یقین کریں بنی اسرائیل کی یہ تھیوری میرے لیے بالکل نئی تھی۔ میں نے قرآن مجید میں جب بھی بنی اسرائیل کے الفاظ پڑھے مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ ناشکرے اور نافرمان یہودیوں سے مخاطب ہے۔ یہ انھیں اپنے احسانات یاد کرا رہا ہے لیکن کیا ﷲ تعالیٰ کی نظر میں ہر احسان فراموش بنی اسرائیل ہو سکتا ہے اور کیا قدرت اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ وادی سینا اور اسرائیل میں کیا تھا۔؟

یہ بات میرے لیے نئی تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا، اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔

میں سارا راستہ ﷲ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا، اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا مگر میں اس کے بعد بھی پریشان اور مایوس رہتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ بنی اسرائیل کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔!!!
 

سیما علی

لائبریرین
یہ بات میرے لیے نئی تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا، اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔

میں سارا راستہ ﷲ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا، اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا مگر میں اس کے بعد بھی پریشان اور مایوس رہتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ بنی اسرائیل کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔
بہت خوبصورت بات جو آج کے انسان پر صادق آتی ہے ۔ہم بیحد ناشکرے اور ناصبرے ہوگئے۔۔۔صبر و شکر دونوں ہماری زندگیوں سے کہیں دور جا چکا ہے ۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا آپ بھی بنی اسرائیل ہیں ؟

کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟" میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے تک اسے حیرت سے دیکھتا چلا گیا۔ وہ دانت نکال رہا تھا اور بار بار اپنی داڑھی کھجا رہا تھا۔ پارک میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ہلکی ہلکی جاگنگ بھی کر رہے تھے۔ دوپہر مایوس ہو کر رخصت ہو رہی تھی اور شام دھیرے دھیرے مارگلہ کی پہاڑیوں سے نیچے سرک رہی تھی۔ گرم دوپہر کے بعد اسلام آباد کی شام کی اپنی ہی خوب صورتی ، اپنا ہی سکھ ہوتا ہے۔

میری بچپن کی عادت ہے میں پریشانی یا ٹینشن میں کسی پارک میں چلا جاتا ہوں۔ ایک دو چکر لگاتا ہوں اور پھر کسی بینچ پر چپ چاپ بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بینچ میری ساری ٹینشن، میری ساری پریشانی چوس لیتا ہے اور میں ایک بار پھر تازہ دم ہو کر گھر واپس آ جاتا ہوں۔ میں اس دن بھی شدید ٹینشن میں تھا۔ میں نے پارک کا چکر لگایا اور سر جھکا کر بینچ پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ایک نیم خواندہ پشتون کسی سائیڈ سے آیا اور بینچ پر میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے شاید بڑبڑانے کی عادت تھی یا پھر وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا چناں چہ اس نے مجھے بار بار انگیج کرنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی آٹے کی مہنگائی کا ذکر کرتا تھا، کبھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا رونا روتا تھا اور کبھی لوگوں کے غیر اسلامی لباس پر تبصرے کرتا تھا۔ میں تھوڑی دیر اس کی لغویات سنتا رہا لیکن جب بات حد سے نکل گئی تو میں نے جیب سے تھوڑے سے روپے نکالے اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔

وہ تھوڑی دیر تک حیرت سے نوٹوں کو دیکھتا رہا، پھر اس نے قہقہہ لگایا۔ نوٹ واپس میرے ہاتھ پر رکھے اور بولا۔ "آپ لوگوں کا بڑا المیہ ہے (وہ المیہ کو لمیا کہہ رہا تھا) آپ دوسروں کو بھکاری سمجھتے ہیں۔ آپ کا خیال ہوتا ہے آپ کے ساتھ اگر کوئی غریب شخص بات کر رہا ہے تو اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ آپ سے بھیک لینا چاہتا ہے۔ بابو صاحب ! مجھ پر ﷲ کا بڑا کرم ہے۔ چوکی داری کرتا ہوں، روٹی مالک عزوجل دے دیتا ہے اور خرچے کے پیسے مالک عزوجل کے بندے سے مل جاتے ہیں۔ میں بس آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ میرا والد کہتا تھا پریشان آدمی کو حوصلہ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے۔ چناں چہ میں جہاں کسی کو پریشان دیکھتا ہوں میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں مگر آپ نے مجھے بھکاری سمجھ لیا۔"

میری حیرت شرمندگی میں بدل گئی اور میں اس سے معافی مانگنے لگا۔ وہ ہنسا اور داڑھی کھجاتے کھجاتے مجھ سے پوچھا۔ "کیا تمہارے پاس گاڑی ہے؟"

میں نے چند لمحوں تک اس سوال پر غور کیا اور پھر جواب دیا۔ "ہاں تین چار ہیں۔" وہ بولا۔ "تم کو پتا ہے آج کل پٹرول کی کیا قیمت ہے؟" میں نے ہنس کر جواب دیا۔ "مجھے نہیں پتا، ڈرائیور پٹرول ڈلواتا ہے۔" اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ "اور تم پھر بھی پریشان بیٹھے ہو؟"

میں نے حیرت سے جواب دیا۔ "گاڑی کا پریشانی کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے خان؟" وہ سنجیدہ ہو کر بولا۔ "بڑا گہرا تعلق ہے۔ کیا مکان تمہارا اپنا ہے۔؟" میں نے جواب دیا۔ "ہاں میرا اپنا ہے بلکہ تین چار ہیں۔" وہ مسکرایا اور پوچھا "کیا بیوی بچے بھی ہیں؟" میں نے فوراً ہاں میں جواب دیا۔ اس نے پوچھا۔ "بچہ لوگ کیا کرتے ہیں؟" میں نے جواب دیا "بیٹے اپنا کاروبار کرتے ہیں اور بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔" اس نے پوچھا " اور کیا تمہاری بیگم صاحبہ کی صحت ٹھیک ہے؟"میں نے فوراً جواب دیا "ہاں الحمد للہ۔ ہم دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ہمیں اللہ نے مہلک بیماریوں سے بچا رکھا ہے۔" وہ بولا "اور کیا خرچہ پورا ہو جاتا ہے؟" میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور جواب دیا "الحمد للہ۔ خرچے کی کبھی تنگی نہیں ہوئی۔"

اس نے قہقہہ لگایا اور میرے بازو پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھ کر بولا۔ "اور بابو صاحب آپ اس کے بعد بھی پریشان ہے؟ آپ نے پھر بھی منہ بنا رکھا ہے۔ آپ کو پتا ہے آپ بنی اسرائیل ہو چکے ہیں۔"

میں بے اختیار ہنس پڑا اور پہلی مرتبہ اس کی گفتگو میں دلچسپی لینے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ "میں بنی اسرائیل کیسے ہوگیا اور بنی اسرائیل کیا ہوتا ہے؟"

وہ سنجیدگی سے بولا۔ "آپ اگر قرآن مجید پڑھیں تو اللہ تعالیٰ بار بار بنی اسرائیل سے کہتا ہے میں نے تمہیں یہ بھی دیا، وہ بھی دیا، ملک بھی دیا، کھیت بھی دیے، دشمنوں سے بھی بچایا، تمہارے لیے آسمان سے کھانا بھی اتارا، باغ اور مکان بھی دیے، عورتیں اور بچے بھی دیے اور غلام اور کنیزیں بھی دیں مگر تم اس کے باوجود ناشکرے ہو گئے۔ تم نے اس کے باوجود میرا احسان نہیں مانا۔ ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں ساری نعمتوں کے بعد بھی جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اس کے احسان یاد نہیں کرتا تو وہ بنی اسرائیل ہو جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے بنی اسرائیل کی طرح ذلیل کرتا ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سکون اور امن سے محروم ہو جاتا ہے اور آپ بھی مجھے بنی اسرائیل محسوس ہو رہے ہیں۔ آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتیں موجود ہیں مگر آپ ان کے باوجود بینچ پر اداس بیٹھے ہیں۔ مجھے آپ پر ترس آ رہا ہے۔"

اب مجھے جھٹکا سا لگا اور میں شرمندگی اور خوف سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میں اپنے آپ کو پڑھا لکھا اورتجربہ کار سمجھتا تھا۔ بچپن سے اسلامی کتابیں بھی پڑھ رہا ہوں اور عالموں کی صحبت سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں لیکن آپ یقین کریں بنی اسرائیل کی یہ تھیوری میرے لیے بالکل نئی تھی۔ میں نے قرآن مجید میں جب بھی بنی اسرائیل کے الفاظ پڑھے مجھے محسوس ہوا اللہ تعالیٰ ناشکرے اور نافرمان یہودیوں سے مخاطب ہے۔ یہ انھیں اپنے احسانات یاد کرا رہا ہے لیکن کیا ﷲ تعالیٰ کی نظر میں ہر احسان فراموش بنی اسرائیل ہو سکتا ہے اور کیا قدرت اس کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ وادی سینا اور اسرائیل میں کیا تھا۔؟

یہ بات میرے لیے نئی تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا، اس ان پڑھ پشتون کے ہاتھ کو بوسا دیا اور پارک سے چپ چاپ باہر آ گیا۔

میں سارا راستہ ﷲ کی ایک ایک نعمت یاد کرتا رہا، اس کا شکر ادا کرتا رہا اور اپنی آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا رہا۔ میں کیا تھا اور میرے رب نے مجھے کیا بنا دیا مگر میں اس کے بعد بھی پریشان اور مایوس رہتا ہوں۔ مجھ سے زیادہ بنی اسرائیل کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔!!!

جاوید چوہدری اچھا لکھنا جانتے ہیں۔

لیکن مجھے ان کے حالیہ رویٌے پر افسوس ہوتا ہے۔ ان کی اپنی کوئی ذاتی رائے نہیں ہے۔ یہ کبھی اس طرف جھک جاتےہیں اور کبھی اُس طرف۔ اور گمان ہوتا ہے کہ یہ حسبِ فرمائش یا ضرورت لکھنے پر قادر ہیں۔

تاہم پڑھنے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اچھا لکھنے والوں کی سب باتیں قبول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ انسان کو چاہیے کہ کسی بھی نئی سوچ کو اپنے ذہن و دل میں جگہ دینے سے پہلے اُسے اچھی طرح چھان پھٹک ضرور کر لے۔

نوٹ: میرا یہ تبصرہ زیرِ بحث مضمون کے بارے میں نہیں ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین

آٹا مہنگا خودی سستی

مجھے بچپن سے اتنی بار جھوٹ کہا گیا کہ میں اس پر یقین کرنے لگا۔ یعنی پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ ملک زرخیز ہے، اور باشندے اتنے قریب ہیں کہ ان کے پاس جو بھی اناج ہے وہ بانٹ دیا جاتا ہے۔

ایک بزرگ نے ایک بار کہا تھا کہ علامہ اقبال کے بارے میں غریب اور ناخواندہ نے کبھی نہیں سنا ہوگا، لیکن لالچ کے نظریے نے شراب پی رکھی ہے۔ نتیجتاً اگر کوئی بھوکا سو جائے تو بھی وہ کسی کو مطلع نہیں کرے گا۔ وہ اگلی صبح اٹھے گا اور کھانے کی تلاش میں نکلے گا۔ لہٰذا یہ ملک ہمارے اشرافیہ کی سخاوت کے بجائے غریبوں کی انا سے چلتا ہے۔
اس نے زمین کی زرخیزی کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ دو ایکڑ زمین لیز پر کاشت کرنے والوں کو چوہدری بھی کہا جاتا تھا۔
میں نے عورتوں کو بھینس کا دودھ بیچ کر اپنی بیٹیوں کی شادی کرتے دیکھا ہے۔ جب گندم کی کٹائی کا موسم آتا تو غریب ترین خاندان بھی سال بھر کا غلہ جمع کرتا۔
سبزی لگانے والے بھی اس وقت خاموش ہو گئے جب کوئی راہگیر دو آلو یا شلجم اٹھا لے۔ دیہاریدار کو بچپن سے ہی پیاز اور مرچ کے ساتھ دو روٹیاں کھاتے دیکھا گیا ہے۔ لیکن اب ان دو روٹیوں کا ایک نام ہے۔ لوگ پیاز اور مرچوں کو بھی بھول چکے ہیں۔
ایک مالیاتی ماہر سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا ہوش میں آنے کے بعد، اس نے ملک میں ایک کے بعد دوسری معاشی تباہی کے بارے میں ہی سنا ہے۔ تو، اس ملک کی معیشت کیسے کام کرتی ہے؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا، جیسا کہ بہترین اساتذہ کرتے ہیں، کہ جب گندم کی فصل اچھی ہوتی ہے اور فصل کی کٹائی کا موسم آتا ہے، تو ملک کی زمینی معیشت کھلیان کے ساتھ آباد ہو جاتی ہے۔
گندم کی کٹائی اور اس سے اناج نکالنے کے پورے عمل کے دوران ایک ایک دانہ اپنے گہوارے میں جمع کیا جاتا تھا۔ لوگ چند ہفتوں میں کئی مہینوں کی روٹی کا منصوبہ بنائیں گے۔ گاؤں کے روایتی پیشوں میں کام کرنے والے کاریگر بھی سال کے اناج کی کٹائی کرتے ہیں۔ باقی سال زندگی کے سو مسائل ہوں گے لیکن روٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
ایسی تصاویر دیکھ کر، کھاد کے تاجروں کے اشتہارات میں یہ بیان کیا گیا کہ ہماری مٹی سونا پیدا کرتی ہے، حد سے زیادہ مبالغہ آرائی نہیں ہوئی۔
خدا نہ کرے کہ آج کا کوئی ستایا ہوا شاعر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے کہ ہمارا سیارہ اب سونے کی بجائے بھوک اگل رہا ہے۔
ماہرین اقتصادیات یوکرین میں جنگ، منصوبہ بندی میں ہمارے متمول آباؤ اجداد کی حماقت، زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور جدید زراعت کو نہ اپنانے میں ہمارے کسانوں کی بدقسمتی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی سیٹھ بھائیوں کے دل بھی سخت ہو چکے ہیں۔
’’وہ لینڈ کروزر چلاتا ہے،‘‘ ایک بوڑھے ڈرائیور نے اپنے بھائی سے کہا، ’’لیکن سیٹھ جو کہ حاجی صاحب بھی ہیں، نے اپنے باورچی کو حکم دیا ہے کہ اگر یہ ڈرائیور دو کے بعد تیسری روٹی مانگے تو وہ تندور سے اپنی لے آئے۔ ” بھوک برقرار رہتی ہے، اور حقارت بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن، اگر میں استعفیٰ دیتا ہوں، تو ان حالات میں کون مجھے ملازمت پر رکھے گا؟’
ہماری حکمران اشرافیہ نے عوام کو ایسی ذلت اور فاقوں کا نشانہ بنایا ہے کہ ہر کوئی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر روٹی کی تلاش میں نکل پڑا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر قدرتی آفات، جیسے زلزلے اور سیلاب کے بعد، امداد کرنے والوں نے بین الاقوامی تنظیموں یا مصیبت زدہ رہائشیوں تک پہنچنے کے لیے راشن ٹرکوں کا استعمال کیا۔ ہمارے کچھ فوٹوگرافر ان راشن ٹرکوں پر چڑھ کر مجبور لوگوں کی تصویریں کھینچتے تھے، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کی سوگوار نگاہوں کو ہاتھ پھیلائے ہوئے تھے۔
ہمارے کچھ سینئر صحافیوں نے بھی پرجوش انداز میں مخالفت کی، یہ دعویٰ کیا کہ یہ یا تو لوگوں کی مدد کر رہا ہے یا ان کے بچوں کی خام انا کو ٹھیس پہنچا رہا ہے۔
ہمارے ملک نے بہت سی قدرتی آفات کو برداشت کیا ہے، لیکن اصل قدرتی آفت حکمران طبقہ اور اس کے دوست ہیں، اور ہمیں اس جاری قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی طریقہ نہیں مل سکا۔🥲🥲🥲🥲🥲
محمد حنیف کا کالم
 

م حمزہ

محفلین
شاعری کررہے تھے دوسروں کو تباہ و برباد تو نہیں کررہے تھے...
دوسرا الزامی جواب یہ تھا کہ جب بغداد میں علم و ہنر کا دور دورہ تھا اس وقت یورپ کیا کررہا تھا؟؟؟
بیکار کی بحث کا کوئی فائدہ نہیں. ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ انسانیت کی ماں کا سینہ اسی وقت پیٹا جاتا ہے جب خود ان کے سروں پہ عذاب برستا ہے...
مسلمانوں پر مظالم کے وقت سب بلوں میں گھسے ہوتے ہیں!!!
سو فیصد درست. آجکل یورپ اور چند مسلمان اسی طرح چِلا رہے ہیں.
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وہ ابتدا میں چار تھے۔ دار ارقم میں 45 ہوگئے۔ شعب ابی طالب میں 82 ہوگئے۔ ہجرت کے وقت وہ 115 ہوگئے تو غزوہ بدر میں 313 تھے۔ پھر رفته رفته بڑھتے چلے گئے۔ صلح حدیبیہ میں تعداد 1400 ہوئی۔ تو فتح مکه پر 10 ہزار تھے۔ پھر غزوہ حنین میں 12 ہزار ہوگئے۔ غزوہ تبوک میں 40 ہزار تھے۔ خطبه حجتہ الوداع میں ان کی تعداد سوا لاکھ تھی۔ عرصه 23 سال میں اس قدر افرادی قوت کسی اور مذہب کا اعزاز نہیں۔ یه امتیاز صرف اسلام کو ہی حاصل ہے۔ وہ لوگ اسلام میں اس قدر گُھل مِل گئے تھے کہ وہ خود اسلام نظر آتے تھے۔ مٹی کے بنے ہوئے مگر.... پرواز آسمان سے اوپر تھی۔ وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے....... بلکہ موت ان سے ڈرتی تھی۔ زمانه انھیں نہیں...... بلکہ وہ زمانے کو مسخر کرتے تھے۔ صحابہ وہ، جن کا رب اللّٰہ، صحابہ وہ جن کا مدرسہ بیت اللّٰہ، جن کے استاد رسول صلى اللّٰہ عليه وآلہ وسلم ، جن کا نصاب کتاب اللّٰہ، جن کا امتحان لینے والا خود اللّٰہ۔
نتیجه: رضى اللّٰہ عنه ، صحابه خود، حزب اللّٰہ
اللّٰہ ہمیں بھی صحابہ رضی اللّٰہ عنہ جیسا ایمان اور جذبہ عطا فرمائے،
آمين يارب العالمين۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
وہ ابتدا میں چار تھے۔ دار ارقم میں 45 ہوگئے۔ شعب ابی طالب میں 82 ہوگئے۔ ہجرت کے وقت وہ 115 ہوگئے تو غزوہ بدر میں 313 تھے۔ پھر رفته رفته بڑھتے چلے گئے۔ صلح حدیبیہ میں تعداد 1400 ہوئی۔ تو فتح مکه پر 10 ہزار تھے۔ پھر غزوہ حنین میں 12 ہزار ہوگئے۔ غزوہ تبوک میں 40 ہزار تھے۔ خطبه حجتہ الوداع میں ان کی تعداد سوا لاکھ تھی۔ عرصه 23 سال میں اس قدر افرادی قوت کسی اور مذہب کا اعزاز نہیں۔ یه امتیاز صرف اسلام کو ہی حاصل ہے۔ وہ لوگ اسلام میں اس قدر گُھل مِل گئے تھے کہ وہ خود اسلام نظر آتے تھے۔ مٹی کے بنے ہوئے مگر.... پرواز آسمان سے اوپر تھی۔ وہ موت سے نہیں ڈرتے تھے....... بلکہ موت ان سے ڈرتی تھی۔ زمانه انھیں نہیں...... بلکہ وہ زمانے کو مسخر کرتے تھے۔ صحابہ وہ، جن کا رب اللّٰہ، صحابہ وہ جن کا مدرسہ بیت اللّٰہ، جن کے استاد رسول صلى اللّٰہ عليه وآلہ وسلم ، جن کا نصاب کتاب اللّٰہ، جن کا امتحان لینے والا خود اللّٰہ۔
نتیجه: رضى اللّٰہ عنه ، صحابه خود، حزب اللّٰہ
اللّٰہ ہمیں بھی صحابہ رضی اللّٰہ عنہ جیسا ایمان اور جذبہ عطا فرمائے،
آمين يارب العالمين۔۔۔
آمین!
ثم آمین!
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

یاسر شاہ

محفلین
اے اہل فلسطین آپکا شکریہ

اے اہل غزہ آپکا شکریہ

بائیکاٹ کے بعد پتہ چلا ہم تو اس سرمایہ دارانہ نظام کے غلام ہیں ۔پرچون کی دکان سے آتا ہوا سودا سلف کب سپر اسٹور کی بڑی بڑی ٹرالیوں میں تبدیل ہوا پتہ ہی نہیں لگا ۔

ضروری اشیاء کی فہرست میں کب غیر ضروری سامان کا اضافہ ہوا ہمیں معلوم نہ ہوسکا ۔


کب ہماری الماریاں ،ہمارے فریج گروسری کے نام پہ بیماریوں سے بھرے سامان سے بھرتے چلے گئے کب ہم اسٹیٹس کے نام پہ ،بچوں کی خواہشات کے آگے ان کے لنچ بکس کی فرمائشوں کے آگے دھڑا دھڑ بھرتے چلے گئے ،

کب ہم instant food ،فروزن فوڈ کے نام پہ مہینے کے سامان کی فہرست طویل کرتے چلے گئے ہمیں واقعی میں علم نہ ہوا۔

یہ غیر ضروری سامان کب ہمارے کچن سے ہمارے دسترخوان سے ہمارے فریج سے کب لذت لے گئے ،

کب اچانک مہمان کے لیے جھٹ پٹ تیار کیا گیا کھانا بنانے کا ہنر لے گئے ،کب ہمارا سگھڑاپا لے گئے ہم لا علم رہے ۔۔۔

چند برس پہلے ہی کی تو بات ہے ادھر مہمان آیے ہم نے اپنی امی کو دیکھاایک طرف سالن چڑھایا دوسرے چولہے پہ مٹر پلاؤ کی تیاری ہے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی کے لیے لہسن چھیل رہے ہیں ادھر دسترخوان لگایا ادھر امی نے سویاں بھوننی شروع کردیں ۔دعوت کا کیا خوب اہتمام ہوتا وہ بھی اچانک آئے مہمان کے لیے ۔۔۔


اب جو اچانک کہیں پہنچ جائیں تو لاڈلی بیٹی نگٹس تل کے لے آئے گی یا بہو بیگم آن لائن کھانا آرڈر کردیں گی ۔۔۔۔


چائے بنانا مشکل لگتا ہے اس لیے Tang اور کولڈڈرنک کا بائیکاٹ بھی مشکل ہے کے اب تواضع کس سے کریں ۔

بچے نے سبزی کھانے سے انکار کیا مما نے جھٹ سے نوڈلز تیار کردئیے اب نوڈلز کا بائیکاٹ بھی مشکل لگتا ہے ۔۔۔

کیا ہی اچھا ہوتا سبزی کے ساتھ پاکستانی اسٹائل میں پوری یا پراٹھہ پکا کے کھلادیتیں ۔


دیکھئیے جب ہم کہتے ہیں کوئ بھی نظام پوری تہذیب کو بدل ڈالتا ہے تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں یہ میکڈونلڈز یہ کے ایف سی صرف فوڈ چین کا نام نہیں ہے یہ فاسٹ فوڈ کی تہذیب ہے اس نے نئ نسل سے شوربے والے سالن کی وہ افادیت چھین لی جس کا تذکرہ سیرت میں ملتا ہے ۔یہ محض برگر تو نہیں ہے اس کے پیچھے processed food کی پوری مارکیٹ ہے جس نے صحت کے نظام کو بگاڑ ڈالا ۔مائیں بہت فخر سے بتاتی ہیں ہمارے بچے سالن روٹی کھاتے ہی نہیں ہیں ۔
وہ آنٹی کل بتارہی تھیں گھر میں جس دن سبزی بنتی ہے بہو باہر سے کھانا آرڈر کردیتی ہے ۔اب ایک ہی بچے کے بعد اگر بیگم صاحبہ دس برس بڑی لگنے لگیں تو قصور کس کا ہے ؟ ۔پھر ساتھ کولڈڈرنک اور چپس کے لوازمات ۔۔۔۔

ایک دوسرا سوال جو بڑی شدت سے پوچھا گیا وہ Tea whitener Every day کا متبادل ۔حیرت ہے کہ یہ دودھ کب ہے یہ تو سفید پاؤڈر ہے جسے دودھ کے متبادل کے طور پہ چائے میں ڈالا جاتا ہے ۔مٹھاس سے بھرا پاؤڈر جو صرف وزن میں اضافہ کرتا ہے فایدہ کوئ نہیں دیتا ۔۔۔لیکن ہم اس کے بھی عادی ہیں ۔
خوبصورت پیکنگ میں بھرے سامان جن میں آرٹیفیشل فلیورز کی بہتات ہے ،preservatives سے بھری رنگ برنگی اشیاء ،ااور ان سب کے ساتھ ٹھنڈی بوتل کا مزہ ہماری زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے ۔آپ لاکھ کہیں یہ نقصان دہ ہیں ہم پیتے ہیں، پلاتے ہیں وہ تو شکر کریں اہل غزہ کا ان کے ساتھ یکجہتی کرنے کھڑے ہوئے تو ہمیں علم ہوا ہم تو چیزوں کے غلام ہیں ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔جب لوگ Pakola کو متبادل بتاتے ہیں تو ہنسی آتی ہے یہ تو خود شدید میٹھا زہر ہے ۔کچھ پینا ہے تو لیموں کا شربت بنالیجئے ،لسی بنالیں یا سادہ پانی ہی بہترین ہے ۔مسئلہ تو یہ ہے ہم پانی بھی برینڈڈ پیتے ہیں گویا دنیا کی لذتوں کے آگے مجبور ہیں اب جو رسی ڈھیلی کرنا شروع کی ہے تو حیران ہیں خود سے سوال کرتے ہیں کیا ہم واقعی اس قدر بے بس ہیں ۔
صرف Nestle کی پراڈکٹس پہ غور کریں 90 فیصد غیر ضروری اشیاء جنہیں ہم نے لازم و ملزوم ٹہرایا پھر ہم شکایت کرتے ہیں بچوں کے قد نہیں بڑھ رہے ،موٹاپا ہے نوجوان جلدی تھک جاتے ہیں ۔یہ سب کیا ہے ۔یہ اسی عالمی معاشی نظام کی جکڑ بندیاں ہیں جس میں ہم برسوں سے جکڑے ہوئے تھے جس نے ہمارے خاندان ہمارے،ہماری روایات کو بدل ڈالا ، ہمارے پروان چڑھتے نوجوان سب کو اثر انداز کیا ہے۔۔۔۔آپ غور کریں مہینے کا لاکھ روپے کمانے والا بھی روتا ہے وجہ کیا ہے غیر ضروری اشیاء کا ہماری زندگی میں ضروری بن جانا ۔
آپ نے اسرائیلی و مغربی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا آپ کو مبارک ہو کچھ عرصہ بعد آپ محسوس کریں گے یہ تو وہ چیزیں تھیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی اور ہم نے بلاوجہ ضروری سمجھا تھا ۔سادگی و کفایت شعاری کا سبق ملے گا ،تازہ کھانے ملیں گے صحتیں اچھی ہوں گی تو انشاء اللہ آپ کے گھر میں برکتوں کا نزول ہوگا زندگی خود بخود سہل اور ہلکی پھلکی لگنے لگے گی۔ ۔۔۔

شکریہ اہل غزہ آپ نے ہمیں ایک نئے رخ پہ سوچنے کا موقع دیا۔۔۔۔

___________
واٹس ایپ سے اخذکردہ
 

سیما علی

لائبریرین
مہینے کا لاکھ روپے کمانے والا بھی روتا ہے وجہ کیا ہے غیر ضروری اشیاء کا ہماری زندگی میں ضروری بن جانا ۔
آپ نے اسرائیلی و مغربی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا آپ کو مبارک ہو کچھ عرصہ بعد آپ محسوس کریں گے یہ تو وہ چیزیں تھیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں تھی اور ہم نے بلاوجہ ضروری سمجھا تھا ۔سادگی و کفایت شعاری کا سبق ملے گا ،تازہ کھانے ملیں گے صحتیں اچھی ہوں گی تو انشاء اللہ آپ کے گھر میں برکتوں کا نزول ہوگا زندگی خود بخود سہل اور ہلکی پھلکی لگنے لگے گی۔ ۔۔۔
بالکل ایسا ہی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ارادوں میں کامیاب فرما۔آمین اور ہمارے فلسطینی مسلمانوں پر رحم فرما۔آمین
چند برس پہلے ہی کی تو بات ہے ادھر مہمان آیے ہم نے اپنی امی کو دیکھاایک طرف سالن چڑھایا دوسرے چولہے پہ مٹر پلاؤ کی تیاری ہے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی کے لیے لہسن چھیل رہے ہیں ادھر دسترخوان لگایا ادھر امی نے سویاں بھوننی شروع کردیں ۔دعوت کا کیا خوب اہتمام ہوتا وہ بھی اچانک آئے مہمان کے لیے ۔۔۔
یہی تھا ہماری زندگی کا خاصہ ۔۔۔اچانک اور بلائے مہمان میں کوئی فرق نہ تھا ۔۔۔۔مہمان جب تک رحمت سمجھے جاتے رہے گھروں کی برکتیں قائم رہیں ۔۔
 
آخری تدوین:

رباب واسطی

محفلین
ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمٰن قمر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا
ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں ان سے کہا کہ
مجھے اس کپڑے سے کوٹ سلوانا ہے تواباجی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا ان دنوں بڑا رواج تھا
وہ کوٹ پہن کر میں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فٹ پوچھا کہ
اوئے خیلے ایہہ کوٹ کتھوں لیا ای
میں نے کہا
میں نے سلوایا ہے
لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے قسمیں بھی کھائیں لیکن ان کو اعتبار نہ آیا
پھپھو اور خالہ کی طرف گیا تو وہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا
میں گھر آیا اور کوٹ اتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا
حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی اک میٹنگ میں اچھے ڈرائی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تومیرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے کہ
خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے، کیہڑا برانڈ اے تے کتھوں لیا جے، کلاتھ تے اسٹیچنگ وی کمال اے
میں نے بنا کوئی شرم محسوس کیئے کہا کہ
لنڈے چوں لیا اے
لیکن وہ نہ مانے، میں نے قسمیں بھی کھائیں پھر بھی انہیں اعتبار نہ آیا
اب کی بار میں رونے کہ بجائے ہنسنےلگ گیا تھا

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
یہ معاشرہ بڑا منافق ہے
غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا ہے
 

رباب واسطی

محفلین
معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکہ ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا تو موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی
"ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از آل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گو سکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی"
جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا تو خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہئں پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اور کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں
"سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویذ کرایا ہے"
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ ااقبالؒ اور جاپان۔۔۔۔۔

پاکستان کا وجود علامہ اقبالؒ کی دور اندیشی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس فلسفی شاعر اور درویش سیاستدان کی مستقبل شناسی کا ایک دلچسپ حوالہ جاپان کے متعلق ہے۔ 1906ء میں تحریر کردہ اپنے مضمون ”قومی زندگی“ میں علامہ اقبال نے جاپان کو ایشیا کے ابھرتے ہوئے ستارے سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ جاپان کے تین بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں، ٹوکیو یونیورسٹی، اوساکا یونیورسٹی اور دائتو بنکا یونیورسٹی میں شعبہ اردو موجود ہے اور جاپانی طلباء کی اچھی خاصی تعداد اردو زبان کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ان تینوں یونیورسٹیوں میں اقبالیات پر بہت سارا کام ہو چکا ہے۔ تینوں یونیورسٹیوں میں شعبہ اردو کے انچارج اردو زبان پر مکمل دسترس رکھتے ہیں اور علامہ اقبالؒ کی تمام اردو شاعری کا جاپانی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں اور گاہے گاہے یہاں اقبال ڈے کا بھی اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ اردو زبان جاپان میں نہ تو اجنبی ہے اور نہ ہی نئی ہے، بلکہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مضمون ”جاپان میں اردو“ کے مطابق یہاں اردو کی تاریخ 1796ء میں اردو کی ایک لغت کی تیاری سے شروع ہوئی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری برس ہا برس اوساکا یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے رہے ہیں پھران کے بعد ڈاکٹر انوار احمدطویل عرصہ تک ان کی جگہ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے تھے پھر پاکستان واپس لوٹے اور وہاں مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین متعین ہو گئے تھے۔ جاپان میں اقبالیات کے حوالے سے ایک اہم نام کاگایا صاحب کا ہے جنہوں نے بارہا جاپان میں اقبال ڈے کا اہتمام کرنے کے علاوہ 1989ء میں سپین کے شہر قرطبہ میں منعقد ہونے والے اقبالیات کے جلسے میں شرکت کر کے ”علامہ اقبال کے افکار“ کے موضوع پر مضمون پڑھا۔اس جلسے کی تاریخی اہمیت علامہ اقبال کی اس شہر کے ساتھ وابستگی اور قرطبہ کی مسجد کے متعلق نظم کی وجہ سے بھی ہے۔ 1904ء میں شاعرِ مشرق نے جاپان کے متعلق ایک مضمون تحریر کیا جسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے بالکل تازہ ہے اور گمان بھی نہیں گزرتا کہ اسے ضبطِ تحریر میں آئے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مضمون کا ایک اقتباس پیش ِ خدمت ہے۔
”جاپانیوں کو دیکھو! کس حیرت انگیز سرعت سے ترقی کر رہے ہیں۔ ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریباً مردہ تھی۔ 36 سال کے قلیل عرصے میں مشرقِ اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے، جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی، دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کی اور ترقی کر کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے اورمحققین مغرب اس کی رفتارِ ترقی کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔ جاپانیوں کی باریک بین نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا اور وہ راہ اختیار کی جو ان کی قومی بقاء کے لئے ضروری تھی۔ افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اور تعلیم و اصلاحِ تمدّن نے پوری قوم کو، اور سے کچھ اور بنا دیا اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان نے رموزِ حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے، اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ اس قوم کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں۔“

علامہ اقبالؒ کے جاپان کے بارے میں تاثرات پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج کل کے حالات کے متعلق ہی بات کی جا رہی ہے،حالانکہ اس تحریر کے بعد جو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزرا ہے اس دوران جاپانی قوم نے نہ جانے کتنے انقلابات دیکھے ہیں۔ 1915ء میں روس کے ساتھ جنگ جس میں جاپان کو فتح حاصل ہوئی اور پھر دو عظیم جنگیں دوسری جنگ عظیم میں اسے امریکہ کے ہاتھوں شکست ہوئی، بلکہ ایٹمی بمباری کا سامنا بھی کرنا پڑا اورپھر بادشاہت کی جگہ برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام آگیا۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد ایک طویل عرصہ تعمیر نو کے عمل سے گزرنا پڑا، لیکن اس قوم نے اقبالؔ کے اس نظریے کو بھی سچ کر دکھایا کہ ”افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر“ میرے لئے ایک دلچسپ انکشاف حکیم الامتؒ کی شاعری میں جاپان کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ اشعار انہوں نے اس وقت کے مشترکہ ہندوستان کی صنعتی زبوں حالی کے تناظر میں کہے تھے، لیکن ہمارے موضوع سے مطابقت رکھتے ہیں۔
انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسّال کابل سے کفن جاپان سے

علامہ اقبالؒ کے انتقال کی خبر یہاں کے پہلے جاپانی اردو دان پروفیسر گاموؔ نے تحریر کی تھی جو کہ جاپان میں علامہ کی شخصیت کے متعلق پہلے نوٹ کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ اگست 1938ء میں یہاں ایک رسالے میں شائع ہونے والے اس تعزیتی نوٹ کی ایک تاریخی اہمیت ہے جس کے سبب میں اس کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ پروفیسر گامو نے اس تعزیتی نوٹ کا عنوان ”ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا انتقال“ تحریر کیا تھا جس کی تفصیل میں وہ لکھتے ہیں۔۔۔۔”ہندوستان کے مسلمانوں میں سب سے عظیم شخص، جو نہ صرف فلسفی کے طور پر مشہور ہے بلکہ شاعر کے طور پر بھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے گزشتہ 21اپریل کو صوبہ پنجاب کے لاہور شہر میں اپنی شاندار زندگی کو پورا کر لیا۔ ان کے انتقال کی خبر سے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ باشعور ہندوؤں کو بھی شدید دکھ ہوا تھا۔ محمد اقبال جرمنی اور انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے والے اور مشرق و مغرب کی روح کو اپنانے والے ایک عظیم پڑھے لکھے شخص تھے۔ وہ پین اسلام ازم کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک محب وطن شاعر بھی تھے اور ایرانی زبان میں سارے مسلمانوں کی روح کے ترجمان بن کر انہوں نے کئی تصانیف لکھی ہیں۔ انکی اہم تصانیف کے عنوانات یہ ہیں ”بانگِ درا“ ”اسرارِ خودی“ ”رموزِ بے خودی“ ”بال جبریل“ ”پیام مشرق۔“ "Six Lectures on the Reconstruction of Religious thought in Islam." وغیرہ شامل ہیں۔ اب ”پیام مشرق“ میں سے چند اشعار پیش کر کے ان کے انتقال کے موقع پر غم کا اظہار کرنا چاہتا ہوں
اس کے بعد اقبالؔ کے چند اشعار کا جاپانی زبان میں ترجمہ تحریر کیا گیا ہے۔ جاپان میں اردو کی آبیاری میں جن لوگوں نے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ہے ان میں پروفیسر گامو سرِ فہرست ہیں جو عمر کا بیشتر حصہ ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ”قصہ چہار درویش“ جیسی اردو کتابوں کے جاپانی زبان میں تراجم بھی کرتے رہے۔

مولانا عبد المجید سالک نے اپنی کتاب ”ذکرِ اقبال“ میں لکھا ہے کہ 1912ء کے لگ بھگ علامہ اقبال کا جاپان جانے کا منصوبہ بن رہا تھا، جس کی تجویز مولانا ظفر علی خان نے دی تھی۔ اقبالؔ کا جاپان کے دورے کا منصوبہ تو بوجوہ پایہئ تکمیل کو نہ پہنچ سکا، لیکن ان کا ذکر آج ایک صدی بعد بھی جاپان میں جاری ہے اورہمیشہ جاری رہے گا۔

منقول
 

محمداحمد

لائبریرین
"ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از آل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گو سکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی"
لطیفہ ہی ہے ورنہ یہ تو صاف صاف پڑھنے میں آ رہا ہے اردو جاننے والوں کو کیا مشکل ہے اسے پڑھنے میں۔

اصل مزہ تو تب ہو جب کسی انگریز کو یہ انگریزی دکھائی جائے۔
 

رباب واسطی

محفلین
صد فی صد درست بات ۔۔۔۔
پر بٹیا یہ حضرت ہمیں بالکل نہیں پسند ۔۔۔
بہتر ہے
آئندہ اس کا نام نہیں لکھوں گی
لیکن یاددہانی کے لیے حضرت علی علیہ السلام کا اک قول ضرور quote کروں گی
یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے
یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے
🙏🙏🙏
 

سیما علی

لائبریرین
*بغداد کے مشہور شراب خانے کے دروازے پر دستک ہوئی,*

*شراب خانے کے مالک نے نشے میں دُھت ننگے پاؤں لڑکھڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو اُس کے سامنے سادہ لباس میں ایک پر وقار شخص کھڑا تھا مالک نے اُکتائے لہجہ میں کہا*

*" معذرت چاہتا ہوں سب ملازم جا چکے ہیں یہ شراب خانہ بند کرنے کا وقت ہے آپ کل آئیے گا "*

*اس سے پہلے کہ مالک واپس پلٹتا, اجنبی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا*
*" مجھے بشر بن حارث سے ملنا ہے اُس کے نام بہت اہم پیغام ہے "*
*شراب خانے کے مالک نے چونک کر کہا*
*بولیے ! میرا نام ہی بشر بن حارث ہے*
*اجنبی نے بڑی حیرت سے سر سے لے کر پاؤں تک سامنے لڑکھڑاتے ہوئے شخص کو دیکھا اور بولا*
کیا آپ ہی بشر بن حارث ہیں ؟؟
مالک نے اُکتائے ہوئے لہجے میں کہا
کیوں کوئ شک ؟؟
اجنبی نے آگے بڑھ کر اُس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بولا
سُنو بشر بن حارث !
خالقِ ارضِ وسما نے مجھے کہا ہے کہ
میرے دوست بشر بن حارث کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا جو عزت تم نے میرے نام کو دی تھی وہی عزت رہتی دنیا تک تمہارے نام کو ملے گی "
اتنا سُننا تھا کہ بشر بن حارث کی نگاہوں میں وہ منظر گھوم گیا جب اک دن حسبِ معمول وہ نشے میں دُھت چلا جا رہا تھا کہ اُس کی نظر گندگی کے ڈھیر پر پڑے اک کاغذ پر پڑی جس پر اسم " اللہ " لکھا تھا, بشر نے کاغذ کو بڑے احترام سے چوما صاف کر کے خوشبو لگائی اور پاک جگہ رکھ دیا اور کہا
" اے مالکِ عرش العظیم یہ جگہ تو بشر کا مقام ہے تمہارا نہیں "
بس یہی ادا بشر بن حارث کو " بشر حافی رحمت اللہ علیہ" بنا گئی۔ جس وقت آپ کو یہ پیغام ملا آپ اس وقت ننگے پاؤں تھے اور پھر آپ نے ساری زندگی ننگے پاؤں گزار دی آپ جن گلیوں سے گزرتےتھے ان گلیوں میں چوپائے بھی پیشاب نہیں کر تے تھے کہ آپ کے پاؤں گندے نہ ہو ں۔
وہی بشر حافی رحمت اللہ علیہ جس کے متعلق اپنے وقت کے امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے
" لوگوں
جس اللہ کو احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ مانتا ہے
بشر حافی رحمت اللہ علیہ اُسے پہچانتا ہے۔"
_حوالہ کتب ( طبقات صُوفیہ, کشف المعجوب)
❤️❤️❤️❤️❤️
 

سیما علی

لائبریرین
کھانا پکانے کے وہ اصول جو ہماری ماؤں پھوپیوں نے ہماری گھٹی میں ڈال دیے۔ ایسے ازبر ہوئے کہ اب تو نا محسوس طریقے سے ہم یہی سب کچھ کرتے چلے جاتے ہیں۔

1. بال کھول کے اور ننگے سر کھانا نہیں پکانا، کھانا پکاتے اور کھاتے ہوئے بال سمیٹ کے اور سر ڈھک کے رکھنا ہے۔ خاص طور سے آٹا گوندھتے تو لازمی۔

2. کھانا پکاتے ہوئے مصالحے کو دیگچی کے کناروں سے ساتھ ساتھ صاف کرتے جانا ہے۔ ورنہ مصالحہ جل جل کے دیگچی کالی کرتا رہتا ھے اور بد نما الگ لگتا ھے۔

3. کھانا پکانے والے چمچ کو زور زور سے دیگچی پہ مار مار کے نہیں جھٹکنا بلکہ اپنے ہاتھ پہ مار کے مصالحہ جھٹکنا ھے تاکہ برتن کھڑکنے کی آواز نا آئے۔

4۔ برتن دھوتے ہوئے بھی برتنوں کو آپس میں نہیں بجانا اور اٹھا پٹخ نہیں کرنی۔
5. کھانا تیز آنچ پہ نہیں پکانا دھیمی آنچ اور کم سے کم پانی کا استعمال کرنا ھے خاص طور سے چکن میں میں آج بھی پانی نہیں ڈالتی بھون کے اسے چکن کے اپنے پانی میں دھیمی آنچ پہ پکاتی ھوں۔
6. کھانے پینے کی چیز اور دودھ کے ہمیشہ ڈھک کے رکھنا۔
7. بچوں اور بزرگوں کے لیے الگ سے کچھ بھی بنایا تو پہلے اس کو چکھ لینا ہے پھر انہیں دینا ھے۔ جیسے ساگو دانہ، دلیہ یخنی۔
8. کھانا پکاتے کے بعد دیگچی، فرائنگ پین کے ہینڈل کا رخ چولہے کے پچھلی طرف موڑ کے آنا۔
9. کھانا برتاتے ہوئے سب سے پہلے خیرات کرنا ھمارے یہاں کہتے ہیں اللہ نام کا کھانا اتارنا۔ اچھا ہے کہ اپنے ملازمین کو خیرات کریں اور سب سے پہلے اور کھانے کا بہترین حصہ انہیں دیں۔ پھر جو بندہ اس وقت گھر میں موجود نہیں ھے اس کے لیے کھانا اتار کے الگ رکھنا اور ایسے اتارنا کہ ایک دو بندوں کا اضافی کھانا ہو جائے تاکہ اگر کوئی مہمان آجائے تو وہ بھی با آسانی کھا سکے۔

10. کھانا پکاتے ہوئے اگر کچن سے دو منٹ کے لیے بھی نکلنا پڑا جائے تو چولہا بجھا کے نکلنا۔

اور یہ کہ گندے برتن جمع نہ کریں رات کو سونے سے پہلے کچن سمیٹ لیا کریں کوشش کریں کہ رزق ضائع نہ ہو یہ تین کام ایسے ہے کہ اگر خیال نہ کیا جائے تو رزق کی تنگی ھوتی ہے
منقول
 
Top