انٹرنیٹ کے نشے کا علاج

ساقی۔

محفلین
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا جزو لازم بن گئی ہے جس سے کٹ کر جینے کا تصور بھی اب محال ہے۔

اعتدال کی حد میں رہتے ہوئے کسی بھی شے کا استعمال اسے مفید بناتا ہے، اور اگر اس حد کو عبور کرلیا جائے تو پھر یہی شے نقصان دہ ٹھہرتی ہے۔ دنیا بھر میں بالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو ہمہ وقت انٹرنیٹ کی دنیا میں کھوئی رہتی ہے۔ نوجوانوں میں انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے جنون کو ماہرین صحت نشے سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ چین وہ پہلا ملک ہے جہاں انٹرنیٹ کے نشے کو طبی بگاڑ (clinical disorder) قرار دیا گیا ہے۔ چینی نوجوانوں کی نمایاں تعداد انٹرنیٹ کے جنون میں مبتلا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نوجوان اس جادوئی دنیا میں اس قدر کھوئے رہتے ہیں کہ ورچوئل ورلڈ اور حقیقی دنیا کے مابین فرق بھول گئے ہیں۔

کئی چینی نوجوان گھنٹوں تک انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو مسلسل کئی روز تک آن لائن گیمز کھیلتے رہنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ انٹرنیٹ کے نشے میں کنوارے ہی نہیں شادہ شدہ جوڑے بھی مبتلا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کوریا میں ایک جوڑا اتنی دیر تک انٹرنیٹ کیفے میں بیٹھا رہا کہ ان کا تین ماہ کا بچہ بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیا جسے وہ گھر پر چھوڑ آئے تھے۔

انٹرنیٹ کے نشے میں مبتلا نوجوانوں کے علاج کے لیے چین میں فوجی طرز کے کیمپ بنائے گئے ہیں، جہاں ان ’نشئیوں‘ کو سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے اور ان کی نگرانی پر باقاعدہ سپاہی مامور ہیں۔

یہ انکشاف Web Junkies نامی ایک دستاویزی فلم میں کیا گیا ہے۔ شوش شالم اور ہِلا میڈیلیا نے یہ دستاویزی فلم بیجنگ میں قائم Daxong Camp میں بنائی ہے۔ ڈوکومینٹری میں کیمپ میں علاج کے لیے لائے گئے نوجوانوں کی گفتگو اور پیش کی گئی ہے اور ان کا طریقۂ علاج دکھایا گیا ہے۔ علاج کا دورانیہ تین سے چار ماہ ہوتا ہے جس میں فوجیوں کی طرح جسمانی تربیت، ادویہ، تھراپی سیشن اور مخصوص غذائوں کا استعمال شامل ہے۔

کیمپ میں موجود بیشتر’ مریضوں‘ کو ان کے والدین جبراً لائے ہیں۔ یہاں انھیں حوالات نما کمروں میں رکھا جاتا ہے، جہاں الیکٹرونک آلات کا کوئی گزر نہیں۔ الیکٹرونک آلات سے وہ اسی وقت رابطے میں آتے ہیں جب ماہرنفسیات ان کے دماغ کی سرگرمی معلوم کرنے کے لیے انھیں متعدد تاروں کے ذریعے کمپیوٹر سے منسلک کنٹوپ پہناتے ہیں۔

کیمپ میں زیرعلاج ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ World of Warcraft نامی کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے 300 گھنٹے گزار چکا تھا۔ اسی طرح ایک اور نوجوان کا کہنا تھا کہ اس کے شب و روز بھی آن لائن گیمز کھیتے ہوئے گزرتے تھے۔ امریکا میں جاری سنڈینس فلم فیسٹیول کے دوران دکھائی جانے والی یہ دستاویزی فلم نہ صرف انٹرنیٹ کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ کیا والدین اس ’’بگاڑ‘‘ کو تمام سماجی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ سمجھنے لگے ہیں۔


مضمون کا لنک
 
Top