انور مقصود کی خوش کلامیاں

ادارۂ فروغِ قومی زبان کے زیرِاہتمام ایک تقریب ہوئی جس میں پاکستان کے صفِ اوّل کے طنّاز اور طبّاع انور مقصود نے اپنے سامعین کو کچھ اس طرح سے مسحور کیا کہ سامعین بے اختیار کبھی ہنستے، کبھی ان کی آنکھیں نم آلود ہوتیں اور کبھی بے اختیار تالیاں بجاتے۔ انور مقصود نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہسپتال کے دونوں نوتعمیر شدہ بلاک کی بنیاد میں ان کے خاندان والوں کا خون ِدل شامل ہے ،جنھیں بار بار اس ہسپتال میں انجیوگرافی کرانی پڑی۔ انور مقصود نے بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ اس سلسلے میں ہسپتال میں داخل ہوئے تھے تو ان سے کہا گیاتھا کہ وہ اپنے ہمراہ لائقِ رفو دل کے ساتھ ڈیڑھ لاکھ روپے بھی لے کر آئیں اور تب انھوں نے سوچا تھا کہ انھیں اپنے کامیڈی شو ، لوزٹاک کی چھ قسطیں لکھ کر ہسپتال کا یہ تقاضا پورا کرنا ہوگا پر جب وہ ہسپتال میں داخل ہوئے تو ان پر مصحفی کے اس شعر کی حقیقت کھلی:
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
انور مقصود نے بتایا کہ وہ اور ان کے خاندان کے تین سے چار سو کے قریب افراد محمد علی جناح کی وفات کے ایک ماہ بعد پاکستان میں ہجرت کر کے آئے تھے اور وہ سیدھے اس قبرستان میں پہنچے جہاں بانی پاکستان کی قبر تھی اور جب وہ فاتحہ ادا کر رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں ماتم گساروں میں تھرپارکر ، راولپنڈی اور چٹاگانگ سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے تب انھوں نے اپنی ماں سے پوچھا تھا کہ ان لوگوں کو دیکھ کر انھیں کیا لگتا ہے کہ پاکستان کتنا بڑا ہے تو ماں نے دونوں بازو پھیلا کر کہا تھااتنا بڑا۔ انور مقصود نے اپنے سامعین سے کہا کہ اب جب ان کے نواسے نے پوچھا کہ پاکستان کتنا بڑا ہے تو وہ صرف ایک بازو ہی پھیلا کر ہی رہ گئے۔ انھوں نے ضیاء الحق دور کے ایک شو کا ذکر کیا جس میں ضیا ء الحق بھی اپنے سینئر آرمی افسروں کے ساتھ موجود تھے اور جس میں انور مقصود نے ضیا ء الحق کے گیارہ جونئیر افسروں کو پھلانگ کر ترقی پانے کا ذکر کیا اور ساتھ ہی بحریہ کے جہازوں کے نام مغل بادشاہوں کے نام پر رکھنے کے سبب کا شگفتہ انداز میں ذکر کیا کہ ان کی کہنگی اور بوسیدگی بتاتی ہے کہ یہ جہاز مغل بادشاہوں سے ہی خریدے گئے ہوں گے، تب صبح ساڑھے تین بجے ڈکٹیٹر نے انہیں بلوایا یہاں سینئر افسر بھی موجود تھے۔ ایک بریگیڈیر نے انور مقصود کو کالر سے پکڑ کر جھنجوڑا اور کہا کہ کل رات تم نے بارڈر کراس کیا ہے۔ اس پر انور مقصود نے کہا کہ جب آپ بارڈر کراس نہیں کر سکتے ہیں جس کے لیے قوم اتنی قیمت برداشت کرتی ہے تو پھر کسی نہ کسی کو تو بارڈر کراس کرنا ہوگا۔ یہاں انور مقصود نے پی ٹی وی ایوارڈ کی اس تقریب کا ذکر نہیں کیا جس میں انور مقصود نے کہا تھا کہ پہلے اس تقریب کو شاہی قلعہ لاہور سے لائیو( براہ راست) نشر ہونا تھا مگر پھر منتظمین کو خیال آیا کہ آج تک شاہی قلعہ لاہور سے کوئی چیز لائیو تو جا نہیں سکی تو یہ پروگرام کیسے نشر ہوسکتا ہے،اس وقت ڈکٹیٹر کے ساتھی اور وزیراطلاعات جنرل مجیب الرحمن سٹیج پر آگئے تھے اور انور مقصود کو کالر سے پکڑ لیا تھا۔ (غالباً تب سے انور مقصود نے بغیر کالر کے کُرتے پہننا شروع کیے) کراچی کی اسی تقریب میں انور مقصود نے اپنی تنقیدی بصیرت کا اظہار بھی کیا اور خود کشی کرنے والے جواں مرگ منفرد شاعر شکیب جلالی کو یاد کیا اور کہا کہ افتخارعارف، عبیداﷲ علیم، جمال احسانی اور پروین شاکر کی شاعری کو ایک رُخ دینے میں شکیب جلالی کا اثر ہے۔ اس موقع پر انھوں نے شکیب کے اشعار بھی سنائے اور خاص طور پر یہ شعر پڑھا:
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
اسی موقع پر کسی نے ان سے آغا خان یونیورسٹی کے نرسنگ سٹاف کے بارے میں پوچھا تو انور مقصود نے مسکراتے ہوئے اعتراف کیا کہ اُن کے اس ہسپتال میں آتے رہنے کا نوّے فی صد سبب یہاں کی نرسیں ہیں۔ واضح رہے کہ انور مقصود پاکستان کے ایک بہت بڑے ڈراما نگار خواجہ معین الدین کے شاگرد تھے جنھوں نے 'تعلیم بالغاں'، 'مرزا غالب بندر روڈ پر' ، 'لال قلعے سے لالو کھیت تک' جیسے لازوال ڈرامے لکھے۔ (اخذ و ترجمہ: انوار احمد)
بشکریہ: پیرزادہ سلمان -- روزنامہ 'ڈان ' ۳۱۔ اگست ۲۰۱۲ء
 
Top