انصار عباسی کی امریکی انڈر سیکرٹری سے ملاقات تلخی کا شکار

فخرنوید

محفلین
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار ایک طرف جہاں پاکستان اور افغانستان کیلئے خصوصی امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک پاکستان کی نمایاں شخصیات سے بات چیت میں مصروف تھے، تو دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی انڈر سیکرٹری دودتھ اے میک ہیل 17 پاکستانی صحافیوں، این جی اوز کے 8 اہلکاروں اور متعدد سیاسی جماعتوں کے ارکان کیساتھ ملاقاتیں کر رہی تھیں۔ وہ یہ پیغام پہنچانا چاہتی تھیں کہ امریکہ کو پاکستان کا خیال ہے اس سلسلے میں انہوں نے پیر کو اسلام آباد میں ایک ہوٹل کے کانفرنس روم میں معروف صحافی انصار عباسی کے ساتھ بھی ملاقات کی مس میک ہیل کو پہلے ہی سے توقع تھی کہ ملاقات میں خاصی تلخی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن یہ تلخی ان کے توقع سے بھی بڑھ کر ثابت ہوئی۔ مس میک ہیل امریکی محکمہ خارجہ میں پبلک ڈپلومیسی اور پبلک افیئرز کی انڈر سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے ملاقات کی ابتداء میں انصار عباسی کو امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان خلیج کو کم کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا اور انصار عباسی نے بھی نرم لہجے میں ملاقات کرنے پر میک ہیل کا شکریہ ادا کیا اور پھر کہا کہ میں آپ سے نفرت کرتا ہوں۔ مس میک ہیل کے مطابق انصار عباسی نے انھیں کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تمام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں ہم روح کی گہرائیوں سے آپ لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ امریکہ خطے میں فوجی کارروائیوں کے علاوہ انفراسٹرکچر، تجارت، توانائی، تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع کی بہتری کیلئے بھی کوششوں کو یقینی بنائے لیکن میک ہیل اور دوسرے امریکی حکام کے رواں ہفتے کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔رچرڈ ہالبروک نے نمایاں سیاسی، کاروباری و دیگر شخصیات سے ملاقات کے علاوہ کراچی میں ایک قصبے میں سکول میں جا کر بچوں سے ملاقات کی اور پھر ایک مقامی رہائشی کے گھر بھی گئے تاکہ وہ کراچی کے باسیوں کے طرز زندگی کا اندازہ کر سکیں۔ انہوں نے تقاریب میں ٹریڈ بل کا بھی بارہا ذکر کیا جو ایوان نمائندگان سے منظور ہو چکا ہے اور اب سینٹ سے منظوری کیلئے پیش کیا جا چکا ہے۔ تاہم مس میک ہیل نے اعتراف کیا ہے کہ انصار عباسی کا رد عمل 25 فیصد پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوریاں ختم کرنے کا عمل کتنا مشکل ہے ۔ میک ہیل نے انصار عباسی کیساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عباسی نے مجھے بتایا کہ آپ (امریکی) دوسرے انسانوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے آپ انسان نہیں رہے انہوں نے اچھی انگریزی بولتے ہوئے کہا کہ چونکہ آپ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا ہزاروں بے گناہ افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ میک ہیل نے اس ناقدانہ بیان کے بعد ہالبروک کی تقلید کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہالبروک نے بھی لیاقت بلوچ کی تنقید کے جواب میں اپنے نقطہ نظر پر بحث اور وضاحت کی کوشش کی تھی لیکن انصار عباسی کے معاملے میں یہ طریقہ بھی ناکام ہو گیا۔ میک ہیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ انہیں علم ہے کہ وہ انصار عباسی کے خیالات کو بدلنے میں ناکام رہیں تاہم یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ کیا سوچتے ہیں ا ور پاکستان میں ا مریکہ مخالف جذبات کا منبع کیا چیزہے؟ ادھر دوسری جانب ہالبروک نے بھی اعتراف کیا کہ کراچی کے ٹیکنوکریٹس کی جانب سے پیش کئے جانے والے والے بعض پراجیکٹس شاید کانگریس سے کبھی منظور نہ ہو پائیں۔ فری ٹریڈ ریپلیکنز سے منظوری کے بغیر ٹریڈبل کا بھی سینٹ سے منظور ہونا مشکل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بل میں پاکستان سے کاٹن کی شرٹس اور پینٹس درآمد کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی حالانکہ ان اشیاء کی پاکستان میں کثرت ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
HTML:
تاہم مس میک ہیل نے اعتراف کیا ہے کہ انصار عباسی کا رد عمل 25 فیصد پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے
باقی تسی تے سمجھ ہی گئے او
 

arifkarim

معطل
لعنت ملامت سے نہ پہلے کچھ ہوا تھا اور نہ اب کچھ ہوگا، جب تک عملی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جاتا!
 

dxbgraphics

محفلین
عملی طور پر کرنے والوں کو آپ طالبان اور دہشت گرد کہتے ہیں اور جب کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے چاہے وہ زنا بالجبر یا کریڈٹ کارڈ چوری جیسے جرائم میں بھی ملوث ہوں ان کا حکومت بال بھی باکا نہیں کر سکتی ۔ عجیب بات ہے:idontknow:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

لعنت ہو صیہونیوں اور یہودیوں پر ۔ آمین


ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ ميں حکومتی سطح پر فيصلہ سازی کے عمل کا اختيار مسلمانوں، عيسائيوں، يہوديوں يا کسی اور عقيدے يا سوچ سے وابستہ کسی مخوص گروہ کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔ يہ تمام فيصلے امريکی شہری اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظر بحثيت مجموعی امريکی قوم کے مفادات کے تحفظ کے ليے اپنی مخصوص حيثيت ميں سرانجام ديتے ہيں۔

اس وقت امريکی کانگريس، اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ، امريکی فوج، نيوی، وائٹ ہاؤس اور فيصلہ سازی کے حوالے سے تمام فورمز پر مسلمان موجود ہيں۔ ليکن بحثيت مسلمان ان کی موجودگی نہ ہی انھيں کوئ فائدہ ديتی ہے اور نہ ہی ان کے فرائض کی ادائيگی ميں ان کے راستے ميں کسی رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ امريکہ ميں جو بھی پاليسياں تشکيل پاتی ہيں، ان کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں ہوتيں۔

مستقبل ميں مختلف عالمی ايشوز کے حوالے سے صدر اوبامہ کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ، ايک بات واضح ہے کہ ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے بھی اپنے ابتدائ خطاب ميں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ "ہم عيسائ، ہندو، يہود، مسلم اور کسی مذہب پر يقين نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ايک قوم ہیں۔ بحثيت قوم ہم کرہ ارض کے ہر کونے سے آنے والے افراد، زبان اور ثقافت پر مشتمل ہيں"۔ اس حقیقت کے پيش نظر امريکہ اپنی پاليسيوں کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں بلکہ صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق "مشترکہ انسانی قدروں" کی بنياد پر استوار کرے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
بلکل اتفاق نہیں کرتا۔ امریکہ عراق و افغانستان سے مکمل انخلاء کر لے کیسے امن نہیں آتا۔
آپ کی اطلاع کے لئے عرض سے کہ آپ کی امریکی سینٹ اور حکومت بگ برادرز کے اشاروں پر چلتی ہے
 

arifkarim

معطل
dxbgraphics: شاید آپ یہ بھول رہے ہیں کہ طالبان اور سیاست دان ایک ہی پاؤں کی دو جوتیاں ہیں :grin:
 

گرائیں

محفلین
جمہوریت ہے نا ، مذہبی فاشزم تھوڑی ہے جس میں لوگوں کو عقیدے کی بنا پر غیر مسلم قرار دیا جاتا ہو؟
 
Top