Umair Maqsood

محفلین
ماہنامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انارکلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔ اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں دیتے۔ راستہ بہر صورت ندیم صاحب ہی کے کمرے میں سے جاتا تھا۔ لوگ پہلے آکر انہی کے پاس بیٹھتے۔ وقفے وقفے سے ندیم صاحب اعلان کر دیتے کہ جو حضرات کھانسی زکام وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہیں' دوسرے کمرے میں تشریف لے جائیں۔ ان کے پاس فقط ادب کے مریض رہ جاتے۔ ایک روز کی بات ہے کہ بہت سے لوگ تو یہ اعلان سن کر اندر چلے گئے۔ ایک صاحب اجنبی صورت بیٹھے رہ گئے۔ قاسمی صاحب نے فرمایا، آپ شاید کوئی غزل یا نظم لے کر آئے ہیں۔ اس پرچے میں تو گنجائش نہیں، اگلے پرچے کے لیے غور کریں گے۔ اگر آپ کاتب ہیں تو نمونہ چھوڑ جائیے اور اگر ایجنٹ ہیں تو بتائیےآپ کے شہر میں کتنے فنون کی کھپت ہوسکتی ہے اور اگر آپ مالک مکان کی طرف سے کرایہ وصول کرنے آئے ہیں تو ایک مہینے کی مہلت اور دیجیے۔ قاسمی صاحب نے اپنی دانست میں اس شخص کی منطقی ناقہ بندی کردی تھی۔ لیکن وہ مرد شریف سنی ان سنی کر کےان کے کان کے پاس منہ لا کر بولا، حکیم صاحب دو روز سے دست آرہے ہیں۔ ان کے بند کرنے کی کوئی ترکیب کیجیے۔

اُدھر حکیم اشعر صاحب کو شکایت ہے کہ ندیم صاحب اپنے مریضوں کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا زبان دکھائیے۔ اس نے کہا جناب میری زبان پر آپ حرف نہیں رکھ سکتے' میرے گھرانے کی زبان سے ایک دنیا سند لیتی ہے۔ یہ غزل میں لایا ہوں آپ خود ہی اندازہ کر لیں گے۔

حکیم صاحب نے کہا، غزل کی تو مجھے معلوم نہیں لیکن آپ کو قبض معلوم ہوتی ہے۔ یہ نسخہ لے جائیے۔ نہار منہ طباشیر کے ساتھ استعمال کیجیے۔ انشاء اللہ صحت ہوگی۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اس مریض کو واقع ہی صحت ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے کوئی غزل نہیں لکھی۔

ابنِ انشا
آپ سے کیا پردہ
 
Top