انسان کے دکھوں کا مداوا کہیں نہیں ٭ راحیلؔ فاروق

انسان کے دکھوں کا مداوا کہیں نہیں
دنیا تو ہے مگر مری دنیا کہیں نہیں

ہوتے ہیں جس کے تذکرے ہوتا کہیں نہیں
ہو آدمی نہ آدمی ایسا کہیں نہیں

ہر جا تماش بین ہیں بینا کہیں نہیں
اندھوں نے طے کیا ہے تماشا کہیں نہیں

اچھوں کو یہ خیال کہ ہم سا کہیں نہیں
اندیشہ یہ بروں کو کہ اچھا کہیں نہیں

انسان کا کمال بھی اس کا خیال تھا
تھا جا بجا گمان مگر تھا کہیں نہیں

انسان جیسی جنس بھی ارزاں کہیں نہ ہو
بازار میں خریدنے والا کہیں نہیں

جس کا ہو دل پہ نقش وہی بادشاہ ہے
سکہ خدا کے نام کا چلتا کہیں نہیں

مسجد میں کیا کسی کو کوئی بت کدے سے لائے
تُو تو کہیں نہیں ہے خدایا کہیں نہیں

راحیلؔ تم تو بکتے ہو ہذیان روز و شب
ہر چیز ہر جگہ ہے بھلا کیا کہیں نہیں

راحیلؔ فاروق
 
Top