انسان اور جانور میں کیا فرق ہے

خرم

محفلین
بات تو فاروقی بھائی نے واضح کردی تھی۔ اللہ تعالٰی جب قرآن میں انسان کی فضیلت کا بیان فرماتے ہیں تو اس کی دلیل میں فرماتے ہیں کہ "علم آدم الاسماء" کہ "ہم نے آدم کو علوم عطا کئے" اور پھر ان علوم کی بنا پر ہی آدم علیہ السلام کی فرشتوں کی فضیلت کا اظہار فرمایا گیا۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں رب کریم فرماتا ہے "علمھم الکتاب ولحکمۃ" یعنی "انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم فرماتے ہیں"۔ سو علم ہی وہ کسوٹی ہے جس سے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی یہ یاد رہے کہ زور علم پر ہے جو باعمل ہو، ڈگریوں پر نہیں کہ اگر کسی کے پاس علم ہے اور وہ باعمل نہیں تو وہ تو مصداق اس گدھے کے ہے جس پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔
 

فاروقی

معطل
انسان عقل و خرد کی بدولت شعور کی دولت کا تن تنہا مالک قرار دیئے جانے کے بعد اشرف المخلوقات کہلوایا گیا اور یوں اچھے اور برے میں تمیز کی خوبی سے مالا مال کر کے قدرت نے اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ہنر سکھایا۔ چنانچہ دہر میں کارفرما مختلف نظام ہائے مملکت اسی شعور کی دَین کہلائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں انسانوں نے قدرت کے اس خصوصی شرف کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا تو اپنے اس امتیازی وصف کو بروئے کار لاتے ہوئے اس نے چاند و سورج کو بھی مسخر کر لیا جیسا کہ قرآن مجید کا مدعا ہے۔ اب جو انسان قدرت کے عطا کردہ عقل و شعور کو تمغہٴ امتیاز تصور کرتے ہوئے اس کو محض فخر انسانیت گردانتا ہے اور اس کے غرض و غائیت سے منہ موڑ لیتا ہے تو پھر وہ انسان گوبر کا وہ کیڑا بن کر رہ جاتا ہے جس کی کُل کائنات ایک محدود دائرے میں مقید صبح شام کرنا ہوتا ہے۔ یہ شعور ہی تھا جس نے اسلام کو قند اور زمانہ جاہلیت کے رسوم کو زہر ہلاہل ثابت کیا اور یوں باشعور انسانوں کو باور کرایا کہ قدرت کی ارضی و سماوی نعمتیں کسی فرد واحد، کسی طاقتور گروہ یا جماعت کی جاگیر نہیں بلکہ یہ کل انسانوں کی ملکیت ہے۔ برصغیر کے لوگوں نے فرنگی استعمار کے خلاف جنگ بھی اسی شعوری منطق کی بنیاد پر لڑی تاہم اگر ہمارے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ترقی کی دوڑ میں ہمیں کوسوں میل پیچھے چھوڑ گئے ہیں تو اس کی وجہ محض یہی ہے کہ وہاں کے عوام نے اپنے آپ اور اپنے لیڈروں کو پہچان لیا ہے۔ اگر وہ اپنے حقوق محسوس نہ کرتے تو پھر اشرف المخلوقات کا فلسفہ بے رنگ ہی نظر آتا اور ان کی زندگی دیگر مخلوقات کی طرح ایک دائرے کے زیر اثر رہتی۔

، انسانیت کس چیز کا نام ہے ۔ ؟ دراصل انسانیت حفظِ مراتب کا ہی نام ہے ۔ ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے کا نام ہے ۔


درویش اور کُتا ایک کہانی

ایک درویش کو ایک کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد کے مارے درویش کے آنسو نکل آئے ۔ اس کی ننھی بیٹی پوچھنے لگی “بابا ۔ روتا کیوں ہے ؟” وہ بولا “کُتے نے کاٹا ہے”۔ بیٹی بولی “کُتا آپ سے بڑا تھا؟” درویش بولا “نہیں ۔ بیٹی”۔ پھر بیٹی بولی” تو آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔ درویش بولا”بیٹی ۔ میں انسان ہوں اسلئے کُتے کو نہیں کاٹ سکتا”۔

درویش اور کُتا دوسری کہانی

درویش اور کُتا ۔ دوسری کہانی
ایک درویش نے ایک کُتا پال رکھا تھا ۔ بادشاہ کا وہاں سے گذر ہوا تو از راہِ مذاق درویش سے پوچھا “تم اچھے ہو یا تمہارا کُتا ؟” درویش نے کہا “یہ کُتا میرا بڑا وفادار ہے ۔ اگر میں بھی اپنے مالک کا وفادار رہوں تو میں اس کُتے سے بہتر ہوں کہ میں انسان ہوں ورنہ یہ کُتا مجھ سے بہتر ہے”۔


دوسری بات یہ ھے کہ حیوانی علم محدود ھے یعنی جتنا اسے واھب العطا یا کی طرف سے مل گیا بس اتنا ھی ھے۔ شھد کی مکھی بس مسدس خانے بنانا جانتی ھے اور وہ بھترین بناتی ھے کوئی مھندس بغیر پرکار کی مدد کے اتنے متوازن خانے نھیں بناتا لیکن جو شکل اس کی فطرت میں داخل ھے بس وھی بنا سکتی ھے۔ مربع و مثلث وغیرہ نھیں بنا سکتی اسی طرح تارِ عنکبوت بے نظیر صنعت ھے مگر اس کی شکل بدلنا اس کے امکان میں نھیں ھے لیکن انسانی علم؟ اس کا کام ھے معلومات سے مجھولات کا پتا لگانا۔ یہ اپنے علم میں برابر ترقی کرتا رھتا ھے۔

پھر آخر وہ علم اور عمل جو انسان سے مخصوص ھے کیا ھے۔؟

ھم جھاں تک سمجھ سکے ھیں علم کے شعبہ میں انسان کا امتیاز خصوصی دو باتوں سے ھے۔ ایک یہ کہ حیوان کا علم محسوسات کے دائرہ میں اسیر ھے پھلے جو میں نے کھا کہ وہ اپنے غذا دینے والے کو پھچانتا ھے یہ پورے طور پر درست نھیں ھے حقیقت میں وہ پھچانتا ھے جس کے ھاتہ سے غذا پاتا ھے جو اصل غذا کا دینے والا ھے اگر اس کے سامنے نھیں آتا اور انپے ھاتہ سے غذا نھیں دیتا تو وہ اسے نھیں پھچانے گا۔ اب اگر انسان کا علم بھی ایسا ھو کہ جس رئیس سے ملا اسی کو ولی نعمت جان لیا۔ جس نے تنخواہ دی اسی کو خدا سمجھ لیا تو پھر حیوان اور انسان میں کوئی فرق نھیں۔


عمل کی منزل میں انسان کی خاص صفت یہ ھے کہ حیوان کے افعال بتقاضائے طبیعت ھوتے ھیں۔ اس سے بحث نھیں کہ بامحل ھیں یا بے محل۔ مگر انسان میں سوجہ بوجھ۔ حق اور ناحق کا امتیاز اور صحیح و غلط میں امتیاز کی قوت ھے اور اسی اعتبار سے مختلف افراد کی انسانیت کے مدارج قائم ھوتے ھیں۔
 

خرم

محفلین
صرف ایک تصحیح کہ حیوان اپنے خالق و رب کو پہچانتا ہے اور صرف اس کی حمد و ثنا کرتا ہے "یسبح للہ مافی السموات و ما فی الارض" جبکہ انسان ہی وہ ناشکر ہے کہ مالک کی سب سے زیادہ عنایات بھی اسی پر ہیں‌اور وہی اس سے دور بھی ہوتا ہے۔
 
Top