فارسی شاعری انتخاب فارسی کلامِ غالب مع منظوم تراجم

شعرِ غالب

ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی

میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم

میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم

دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ

نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ

منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی

تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا

انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل

You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come Seek no excuses; arm yourself for battle and then come
شعرِ غالب

بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شود خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا

یزدانی

میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔

باجوہ

ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ

عدنی

جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا

رسل

These meager modes of cruelty bring me no joy. By God Bring all the age's armoury to use on me, and come

شعرِ غالب

بہانہ جوست در الزامِ مدعی شوقت
یکے برغم دلِ نا امیدوار بیا

یزدانی

ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔

باجوہ

تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہے عذر
کبھی برغمِ دلِ نا امیدوار آؤ

شعرِ غالب

ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا

یزدانی

تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔

باجوہ

ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ

عدنی


ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا

رسل

Why seek to slay your lovers by your awesome majesty
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come​

شعرِ غالب

ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا

یزدانی

تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔

باجوہ

جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ

عدنی

جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا

رسل

You broke with me, and now you pledge yourself to other men
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come​

شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا

یزدانی

فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔

تبسم پنجابی

بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا

تبسم اردو

وداع و وصل میں ہیں لذتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا

باجوہ

جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ

عدنی

وداع و وصل ہیں دونوں کی لذتیں اپنی
ہزار بار جدا ہوکے لاکھ بار آجا

رسل

Parting and meeting - each of them has its distinctive joy
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come
شعرِ غالب

تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا

یزدانی

تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔

تبسم پنجابی

تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا

تبسم اردو

تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا

باجوہ

ہو تم سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ

شعرِ غالب

فریب خوردۂ نازم، چہا نمی خواہم
یکے بہ پرسش جانِ امیدوار بیا

یزدانی

میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔

باجوہ

فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ

شعرِ غالب

ز خوئے تست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دلم می رود ز کار بیا

یزدانی

تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

باجوہ

تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ

شعرِ غالب

رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مرو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا

یزدانی

خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔

تبسم پنجابی

ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا

تبسم اردو

رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا

باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ

عدنی

رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا

رسل

The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come

شعر غالب

حصار عافیتے گر ہوس کنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا

یزدانی

اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔

تبسم پنجابی

سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا

تبسم اردو

حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقہ رندانِ خاکسار آ جا

باجوہ

حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ

عدنی

حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا

رسل

If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come

رباعی غالب

غالب آزادۂ موحد کیشم
بر پاکی خویشتن گواہِ خویشم
گفتی بہ سخن برفتگان کس نرسد
از باز پسین نکتہ گزاران پیشم

ترجمہ
اے غالب، میں ایک آزاد منش اور موحد کیش انسان ہوں، اپنی پاک فطرتی پر خود ہی اپنا گواہ ہوں۔ تو نے کہا کہ کوئی بھی (آج کا شاعر) شاعری میں گذشتہ دور کے شعرا تک نہیں پہنچتا، میں‌ بہرحال آخر میں آنے والے نکتہ آفرینوں سے آگے ہوں۔


منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی

غالب آزاد ہوں، موحد ہوں میں
ہاں پاک دلی کا اپنی شاہد ہوں میں
کہتے ہیں کہ سب کہہ گئے پچھلے شعرا
اب طرزِ سخن کا اپنی موجد ہوں میں

رباعی غالب

غالب بہ گہر ز دودۂ زاد شمم
زان رو بہ صفائے دمِ تیغست دمم
چوں رفت سپہبدی زدم چنگ بہ شعر
شد تیر شکستہ نیا کان قلمم

ترجمہ
غالب، میں نسل کے لحاظ سے ایک اچھے اور صاف خاندان کا فرد ہوں، اسی لئے میرا دم تلوار کے دم کی طرح صاف ہے۔ جب خاندان سے سپہ گری ختم ہوگئی تو میں نے ہاتھ میں‌ قلم پکڑ لیا، چنانچہ میرے اسلاف کا ٹوٹا ہوا تیر میرا قلم بن گیا۔

ترجمہ صبااکبر آبادی

غالب ہے نسب نامہ مرا تیغِ دو دم
تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
اب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
ٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جناب ضرور کریں
ہم بھی کچھ گجراتی سیکھ لیں :)
ارے قبلہ یہ کیا فرما دیا آپ نے! ہم نے تو اردو محفل میں باقاعدہ آئیے گجراتی سیکھیں نامی دھاگہ شروع کیا تھا ۔ پانچ سات اسباق بھی ہم نے پیش کیے۔ لیکن افسوس محفلین نے توجہ نہیں فرمائی۔ اور وہ دھاگہ کچھ محفلین کی سرد مہری اور کچھ ہماری کاہلی کا شکار ہو گیا۔
 
ارے قبلہ یہ کیا فرما دیا آپ نے! ہم نے تو اردو محفل میں باقاعدہ آئیے گجراتی سیکھیں نامی دھاگہ شروع کیا تھا ۔ پانچ سات اسباق بھی ہم نے پیش کیے۔ لیکن افسوس محفلین نے توجہ نہیں فرمائی۔ اور وہ دھاگہ کچھ محفلین کی سرد مہری اور کچھ ہماری کاہلی کا شکار ہو گیا۔
ربط تو دیں جناب
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شعرِ غالب

ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا

اردو ترجمہ خواجہ حمید یزدانی

میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔

منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم

میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا

منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم

دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا

منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ

نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ

منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی

تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا

انگلش ترجمہ پروفیسر رالف رسل
You cannot think my life is spent in waiting? Well then, come Seek no excuses; arm yourself for battle and​
then come​
ગુજરાતી ભાષાંતર ઃ​
હું તારી વાટ જોઈ રહ્યો છું જો તને વિશ્વાસ ન હોય તો આ અને જોઈ લે۔​
આ સંદર્ભમાં બહાના ન કાઢ، ભલેને તુ લડવા માટે તૈયાર થઈને આવ۔​
شعرِ غالب

بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شود خرسند
بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا

یزدانی

میرا دل تیرے دو ایک اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا، تجھے میری موت کی قسم تو اس سلسلے میں زمانے بھر کا سامان لے کر آ۔
ગુજરાતી ભાષાંતરઃ
મારું મન તારા એક-બે પ્રકારના જુલમથી ખુશ થતું નથી۔
તને મારા મોતના સોગંદ તું આ બાબતે આખી દુનિયાનો સરસામાન લઈ આવ۔
باجوہ

ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ

عدنی

جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا

رسل

These meager modes of cruelty bring me no joy. By God Bring all the age's armoury to use on me, and come

شعرِ غالب

بہانہ جوست در الزامِ مدعی شوقت
یکے برغم دلِ نا امیدوار بیا

یزدانی

ہمارا دل تیرے عشق میں رقیب پر الزام دھرنے کے بہانے سوچتا رہتا ہے یعنی یہ کہ رقیب تجھے ہماری طرف نہیں آنے دیتا، تو کبھی یا ذرا ہمارے اس نا امید دل کی اس سوچ کے برعکس آ۔
ગુજરાતી ભાષાંતરઃ અમારું હૃદય તારા પ્રેમમાં દુશ્મન પર આરોપો મૂકવાના બહાના વિચારતો રહે છે۔
એટલે કે દુશ્મન તને અમારી તરફ આવવા જ નથી દેતો، તો ક્યારેક તો અમારા નિરાશ હૃદયના વિચારથી પ્રતિકૂળ આવ۔
باجوہ

تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہے عذر
کبھی برغمِ دلِ نا امیدوار آؤ

شعرِ غالب

ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا

یزدانی

تو اپنے مستوں یعنی عاشقوں کیلیے یہ مت چاہ یا پسند کر کے وہ تیرے شیوہء تمکیں (دبدبہء غرورِ حسن) کے نتیجے میں‌ ہلاک ہو جائیں، تو نو بہار کی ہوا سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ۔
ગુજરાતી ભાષાંતરઃ
તુ પોતાના મસ્તો એટલે કે પ્રેમીઓ માટે એવું ઇચ્છતો નહિ કે તેઓ તારા સૌંદર્યના ઘમંડના પરિણામે મૃત્યુ પામે
તુ નવી વસંત ઋતુના પવન કરતાં પણ વધુ ઝડપે આવ۔
باجوہ

ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ

عدنی

ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا

رسل
Why seek to slay your lovers by your awesome majesty​
Be even more unbridled than the breeze of spring, and come​

شعرِ غالب

ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا

یزدانی

تو نے ہم سے تو پیمانِ وفا توڑ لیا اور دوسروں یعنی رقیبوں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا۔ آ، تو ہماری طرف آ کیونکہ عہدِ وفا کوئی محکم عہد نہیں‌ ہے۔
ગુજરાતી ભાષાંતરઃ
તેં અમારી સાથે વફાદારીનો કરારભંગ કર્યો અને પારકાં એટલે કે દુશ્મનોની સાથે આ કરાર કરી લીધો۔
આવ، તુ અમારી તરફ આવ، કારણ કે વફાદારીનો કરાર એ કંઈ દૃઢ કે મજબૂત કરાર નથી۔
باجوہ

جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ

عدنی

جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا

رسل
You broke with me, and now you pledge yourself to other men​
But come, the pledge of loyalty is never kept. So come​

شعرِ غالب
وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارد
ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا

یزدانی

فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔

تبسم پنجابی

بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا

تبسم اردو

وداع و وصل میں ہیں لذتیں جداگانہ
ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا

باجوہ

جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذت
ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ

عدنی

وداع و وصل ہیں دونوں کی لذتیں اپنی
ہزار بار جدا ہوکے لاکھ بار آجا

رسل
Parting and meeting - each of them has its distinctive joy​
Leave me a hundred times; turn back a thousand times, and come​
شعرِ غالب

تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا

یزدانی

تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔

تبسم پنجابی

تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا

تبسم اردو

تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا

باجوہ

ہو تم سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ

شعرِ غالب

فریب خوردۂ نازم، چہا نمی خواہم
یکے بہ پرسش جانِ امیدوار بیا

یزدانی

میں ناز و ادا کا فریب خوردہ یعنی مارا ہوا ہوں، میں‌ کیا کیا نہیں چاہتا، یعنی میری بہت سی آرزوئیں ہیں، تو ہماری امیدوار جان کا حال احوال تو پوچھنے آ۔

باجوہ

فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ

شعرِ غالب

ز خوئے تست نہادِ شکیب نازک تر
بیا کہ دست و دلم می رود ز کار بیا

یزدانی

تیری نزاکت طبع کے ہاتھوں ہمارے صبر کی بنیاد بہت ہی نازک ہوگئی ہے، تو آ کہ تیرے اس رویے کے باعث میرا دست و دل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

باجوہ

تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ

شعرِ غالب

رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مرو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا

یزدانی

خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔

تبسم پنجابی

ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا

تبسم اردو

رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا

باجوہ
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ

عدنی

رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا

رسل

The mosque is all awareness. Mind you never go that way
The tavern is all ecstasy. So be aware, and come

شعر غالب

حصار عافیتے گر ہوس کنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا

یزدانی

اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا۔

تبسم پنجابی

سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا

تبسم اردو

حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
درونِ حلقہ رندانِ خاکسار آ جا

باجوہ

حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ

عدنی

حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا

رسل

If you desire a refuge, Ghalib, there to dwell secure
Find it within the circle of us reckless ones, and come

رباعی غالب

غالب آزادۂ موحد کیشم
بر پاکی خویشتن گواہِ خویشم
گفتی بہ سخن برفتگان کس نرسد
از باز پسین نکتہ گزاران پیشم

ترجمہ
اے غالب، میں ایک آزاد منش اور موحد کیش انسان ہوں، اپنی پاک فطرتی پر خود ہی اپنا گواہ ہوں۔ تو نے کہا کہ کوئی بھی (آج کا شاعر) شاعری میں گذشتہ دور کے شعرا تک نہیں پہنچتا، میں‌ بہرحال آخر میں آنے والے نکتہ آفرینوں سے آگے ہوں۔


منظوم ترجمہ صبا اکبر آبادی

غالب آزاد ہوں، موحد ہوں میں
ہاں پاک دلی کا اپنی شاہد ہوں میں
کہتے ہیں کہ سب کہہ گئے پچھلے شعرا
اب طرزِ سخن کا اپنی موجد ہوں میں

رباعی غالب

غالب بہ گہر ز دودۂ زاد شمم
زان رو بہ صفائے دمِ تیغست دمم
چوں رفت سپہبدی زدم چنگ بہ شعر
شد تیر شکستہ نیا کان قلمم

ترجمہ
غالب، میں نسل کے لحاظ سے ایک اچھے اور صاف خاندان کا فرد ہوں، اسی لئے میرا دم تلوار کے دم کی طرح صاف ہے۔ جب خاندان سے سپہ گری ختم ہوگئی تو میں نے ہاتھ میں‌ قلم پکڑ لیا، چنانچہ میرے اسلاف کا ٹوٹا ہوا تیر میرا قلم بن گیا۔

ترجمہ صبااکبر آبادی

غالب ہے نسب نامہ مرا تیغِ دو دم
تلوار کی دھار ہے نفس سے مرے کم
اب شاعری ہے سپہ گری کے بدلے
ٹوٹے ہوئے نیزوں کو بنایا ہے قلم
 

mohsin ali razvi

محفلین
۱
گر نباشد اعتبار در عشق انتظار به چه کار
ستیزه جوئی کنی و عشق عامل طلبی
۲
در ره عشق چو افتاده زه راهت منم
عامل عشق منم فاعل بی گانه توئی
فعل عشق است مرا خانه خرابات شدی
باده و ساغر وپیمانه شکستی وزاهد گشتی
دره عشق تو همچون مجنون
سینه را چاک وگیسو آغشته به خاک
سر راهت چو بید مجنون انتظار رخ زیبای تو باد
۳
گر تو را نیست یقین منتظریم ای مه ما
جنگ جویانه و حراب بیا در بر ما
عامل دیوانه زه عشقت مجنون
منتظر است که خواهی آمد در بر ما
 
Top