انتخاب فارسی غزلیاتِ خسرو مع اردو تراجم

محمد وارث

لائبریرین
انتخاب فارسی غزلیاتِ امیر خسرو مع اردو تراجم

ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان جیسی نابغہِ روزگار، کثیر الجہتی، ہمہ گیر اور متنوع شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔

میں یہاں فارسی غزلیاتِ خسرو کا انتخاب، اردو نثری ترجمے اور اردو منظوم ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ منظوم ترجمہ جناب مسعود قریشی صاحب نے کیا ہے جو کہ کتاب خسرو شیریں بیاں مطبوعہ لوک ورثہ اشاعت گھر سے لیا گیا ہے۔

سب سے پہلے امیر خسرو کی ایک مشہور و معروف نعتیہ غزل پیشِ خدمت ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کے پانچوں دواوین میں نہیں ملتی لیکن یہ بات سب تذکرہ نگاروں میں متفق ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کی ہی ہے۔ اسے نصرت فتح علی قوال نے گایا بھی ہے۔



شعرِ خسرو
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم


اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔


منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا


شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم


ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔

قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا


شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم


ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔

قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا


شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم


ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔

قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا

.
 

محمد وارث

لائبریرین
امیر خسرو کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے۔ اسے نصرت فتح علی خاں قوال نے گایا بھی ہے۔


شعرِ خسرو
ابر می بارد و من می شوم از یار جدا
چون کنم دل بہ چنین روز ز دلدار جدا

ترجمہ
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ابر روتا ہے، ہُوا مجھ سے مرا یار جدا
دل سے ایسے میں کروں کیسے مَیں دلدار جدا


شعرِ خسرو
ابر باران و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا

ترجمہ
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ گریہ و فریاد کر رہا ہوں، باراں علیحدہ برس رہی ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔

قریشی
ابر برسے ہے، جدائی کی گھڑی ہے سر پر
میں جدا روتا ہوں اور ابر جدا، یار جدا


شعرِ خسرو
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستان سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا

ترجمہ
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہونے کو ہے

قریشی
سبزہ نوخیز، ہوا شاد، گلستاں سرسبز
کیا قیامت ہے کہ بلبل سے ہے گلزار جدا


شعرِ خسرو
اے مرا در تہ ہر موی بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا

ترجمہ
اے میرے محبوب تو نے مجھکو اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔


شعرِ خسرو
دیدہ از بہر تو خونبار شد، اے مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیدہء خونبار جدا

ترجمہ
اے آنکھ، میری آنکھ کی پتلی تیرے لیے پہلے ہی خونبار ہو گئی ہے، مہربانی کر اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔


شعرِ خسرو
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چون دیدہ ازان نعمتِ دیدار جدا

ترجمہ
میں نہیں چاہتا کہ اس کے بعد میری آنکھوں کی نعمت دیدار کی نعمت سے جدا رہے۔

قریشی
نعمتِ چشم ہے میرے لئے سامانِ عذاب
گر مری آنکھ سے ہو نعمتِ دیدار جدا


شعرِ خسرو
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا

ترجمہ
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔

قریشی
ہو کے خسرو سے جدا، حسن رہے گا نہ ترا
کب بقا پھول کو ہے، اس سے ہو جب خار جدا

.
 

محمد وارث

لائبریرین
قادری صاحب، میں نے یہ غزل پی ٹی وی پر سنی تھی لیکن شاید یہ مارکیٹ میں نہیں ہے کہ پی ٹی وی کے پاس ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس پر وہ سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
غزل سلطان الشعراء امیر خسرو ﴿رح﴾ کی ہو
اور اسے گایا ہو سلطان المغنیین نصرت فتح علی خان نے
واہ واہ سبحان اللہ

میں تو تصور ہی تصور میں مزے لے رہا ہوں
کیا وجد آفرین نغمہ ہے
کیا کیف پرور اشعار ہیں
اور کیا سرور افزاء گائیکی ہے
اے کاش کہ کہیں سے مل جائے
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں شاکر القادری صاحب، خسرو اور نصرت بس یوں سمجھیں کہ دو آتشہ ہے۔ میں نے بھی ایک ہی دفعہ سنی ہے اور بس حسرت ہے۔

لیکن میں اس کمی کو نصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی خسور کی دیگر غزلیں سن کر پورا کر لیتا ہوں، جیسے ایک اوپر گزری ہے، نمی دانم چہ منزل بود

اور ایک لاجواب غزل گائی ہے نصرت نے

خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سر من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد

ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

سبحان اللہ، سبحان اللہ، کیا خوبصورت کلام ہے، انشاءاللہ جلد ہی پوسٹ کروں گا یہ غزل بھی۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ایک اور حاضرِ خدمت ہے، یوں تو خسرو کا سارا کلام ہی تصوف کی چاشنی سے مملو ہے کہ آپ خود ایک صاحبِ حال صوفی تھے، لیکن کچھ غزلیں تو کمال کی ہیں اور یہ غزل بھی انہی میں سے ایک ہے۔

اس غزل کے اشعار مختلف نسخوں میں مختلف ملتے ہیں، میں نے لوک ورثہ اشاعت گھر کے شائع کردہ انتخاب کو ترجیح دی ہے۔

نصرت فتح علی خان نے اسے بہت دلکش انداز میں گایا بھی ہے۔

شعرِ خسرو
خبرم رسید امشب کہ نگار خواہی آمد
سرِ من فدائے راہے کہ سوار خواہی آمد

ترجمہ
مجھے خبر ملی ہے کہ اے میرے محبوب تو آج رات آئے گا، میرا سر اس راہ پر قربان جس راہ پر تو سوار ہو کر آئے گا۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ملا ہے رات یہ مژدہ کہ یار آئے گا
فدا ہُوں راہ پہ جس سے سوار آئے گا

شعرِ خسرو
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد

ترجمہ
جنگل کے تمام ہرنوں نے اپنے سر اتار کر اپنے ہاتھوں میں رکھ لیے ہیں اس امید پر کہ کسی روز تو شکار کیلیے آئے گا۔

قریشی
غزالِ دشت، ہتھیلی پہ سر لئے ہوں گے
اس آس پر کہ تو بہرِ شکار آئے گا

شعرِ خسرو
کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد

ترجمہ۔
عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔

قریشی
کشش جو عشق میں ہے، بے اثر نہیں ہوگی
جنازہ پر نہ سہی، بر مزار آئے گا

شعرِ خسرو
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد

ترجمہ
میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آجا کہ میں زندہ رہوں۔ اسکے بعد جبکہ میں زندہ نہ رہوں گا تو پھر تو کس کام کیلیے آئے گا۔

قریشی
لبوں پہ جان ہے، تُو آئے تو رہوں زندہ
رہا نہ میں، تو مجھے کیا کہ یار آئے گا

شعرِ خسرو
بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شود اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد

ترجمہ
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔

قریشی
فدا کئے دل و دیں اک جھلک پر خسرو نے
کرے گا کیا جو تُو دو تین بار آئے گا

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
امیر خسرو کی ایک اور خوبصورت غزل حاضر ہے۔


شعرِ خسرو
دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا
تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا

ترجمہ
میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔ میرا جسم بے دلی سے بیچارہ ہو گیا ہے، اور زیادہ بیچارہ ہوجائے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہوجائے
مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہوجائے

شعرِ خسرو
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارہء کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

ترجمہ
اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لیے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ، اور زیادہ آوارہ ہو جائے۔

قریشی
اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد
کہ وہ آوارہء کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے


شعرِ خسرو
دلِ من پارہ گشت از غم نہ زانگونہ کہ بہ گردد
اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا

ترجمہ
میرا دل غم سے ٹکرے ٹکرے ہوگیا ہے اور اسطرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہوجائے، اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یا رب میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے۔

قریشی
مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو
اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے


شعرِ خسرو
ہمہ گویند کز خونخواریش خلقے بجاں آمد
من ایں گویم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا

ترجمہ
سبھی کہتے ہین کہ اسکی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کیلیے وہ اور زیادہ خونخوار ہو جائے۔

قریشی
سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے
میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے


شعرِ خسرو
چو با تر دامنی خو کرد خسرو با دوچشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مژگاں دامنش ہموارہ تر بادا

ترجمہ
اے خسرو، اگر تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے۔

قریشی
دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو
برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
امیر خسرو کی ایک انتہائی خوبصورت غزل حاضرِ خدمت ہے، آپ چونکہ صوفی باصفا تھے اسلیے سارا کلام تصوف کی چاشنی سے مملو ہے اور یہ غزل اسی کا پر تو ہے۔


شعرِ خسرو
کافرِ عشقم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زُنّار نیست

ترجمہ
میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے زنار کی حاجت نہیں۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
کافرِ عشق ہوں، ایماں مجھے درکار نہیں
تار، ہر رگ ہے، مجھے حاجتِ زنار نہیں


شعرِ خسرو
از سرِ بالینِ من برخیز اے ناداں طبیب
دردمندِ عشق را دارُو بجز دیدار نیست

ترجمہ
اے نادان طبیب میرے سرہانے سے اٹھ جا، عشق کے بیمار کو تو صرف دیدار ہی دوا ہے۔

قریشی
میرے بالیں سے اٹھو اے مرے نادان طبیب
لا دوا عشق کا ہے درد جو دیدار نہیں


شعرِ خسرو
شاد باش اے دل کہ فردا برسرِ بازارِ عشق
مژدہء قتل است گر چہ وعدہء دیدار نیست

ترجمہ
اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ نہیں ہے۔

قریشی
اے دلِ زار ہو خوش، عشق کے بازار میں کَل
مژدہء قتل ہے گو وعدہء دیدار نہیں


شعرِ خسرو
ناخدا در کشتیء ما گر نباشد گو مباش
ما خدا داریم، ما را ناخدا درکار نیست

ترجمہ
اگر ہماری کشتی میں ناخدا نہیں ہے تو کوئی ڈر نہیں کہ ہم خدا رکھتے ہیں اور ہمیں ناخدا درکار نہیں۔

قریشی
ناخدا گر نہیں کشتی میں نہ ہو، ڈر کیا ہے
ہم کہ رکھتے ہیں خدا، وہ ہمیں درکار نہیں


شعرِ خسرو
خلق می گوید کہ خسرو بُت پرستی می کند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست

ترجمہ
خلق کہتی ہے کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں بت پرستی کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے۔

قریشی
بُت پرستی کا ہے خسرو پہ جو الزام تو ہو
ہاں صنم پوجتا ہوں، خلق سے کچھ درکار نہیں


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شعرِ خسرو
عاشق شدم و محرمِ ایں کار ندارم
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم

ترجمہ
میں عاشق تو ہو گیا ہوں مگر اس کام کا میرے پاس کوئی محرم راز نہیں ہے، فریاد ہے کہ مجھے غم تو ہے لیکن کوئی غم خوار نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
عاشق ہوں، کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے
فریاد کہ غم ہے، کوئی غم خوار نہیں ہے


شعرِ خسرو
آں عیش، کہ یاری دہدم صبر، ندیدم
واں بخت، کہ پرسش کندم یار ندارم

ترجمہ
میں پاس نہیں ہے وہ عیش کہ یار مجھے صبر دے، میرے پاس نہیں ہے وہ قسمت کہ یار خود میرا حال پوچھے۔

قریشی
وہ عیش کے دے صبر مجھے یار، نہ پایا
وہ بخت کہ پوچھے مجھے خود یار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
بسیار شدم عاشقِ دیوانہ ازیں پیش
آں صبر کہ ہر بار بُد ایں بار ندارم

ترجمہ
اس سے پہلے بھی میں بہت دفعہ عاشق و دیوانہ ہوا، لیکن وہ صبر جو ہر بار حاصل تھا، اب کے نہیں ہے۔

قریشی
سو بار ہوا عاشق و دیوانہ، پہ اب کے
وہ صبر جو حاصل تھا ہر اک بار، نہیں ہے


شعرِ خسرو
دل پُر ز غم و غصۂ ہجرست ولیکن
از تنگ دلی طاقتِ گفتار ندارم

ترجمہ
دل ہجر کے غم و غصے سے پر تو ہے لیکن تنگدلی کی وجہ سے مجھے طاقتِ گفتار نہیں ہے۔

قریشی
دل، ہجر پر معمور تو ہے غصہ و غم سے
دل تنگ ہوں، اب طاقتِ گفتار نہیں ہے


شعرِ خسرو
خوں شد دلِ خسرو ز نگہداشتنِ راز
چوں ہیچ کسے محرمِ اسرار ندارم

ترجمہ
راز کی حفاظت کر کر کے خسرو کا دل خون ہوگیا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بھی محرمِ اسرار نہیں ہے۔

قریشی
یہ راز چھپانے میں ہوا خوں دلِ خسرو
افسوس کوئی محرمِ اسرار نہیں ہے

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شعرِ خسرو
نیست در شہر گرفتار تر از من دگرے
نبُد از تیرِ غم افگار تر از من دگرے

ترجمہ
پورے شہر میں کوئی اور شخص مجھ جیسا گرفتار نہیں ہے، غموں کے تیر سے کوئی اور مجھ جیسا زخمی نہیں ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
شہر میں کوئی گرفتار نہیں ہے مجھ سا
تیر سے غم کے دل افگار نہیں ہے مجھ سا


شعرِ خسرو
بر سرِ کُوئے تو دانم کہ سگاں بسیار اند
لیک بنمائی وفادار تر از من دگرے

ترجمہ
میں جانتا ہوں کہ تیرے کوچے میں بہت سے سگ ہیں لیکن ان میں کوئی بھی مجھ سا وفادار نہیں ہے۔

قریشی
یوں تو کوچے میں ترے سگ ہیں بہت سے لیکن
ایک بھی ان میں وفادار نہیں ہے مجھ سا


شعرِ خسرو
کارواں رفت و مرا بارِ بلائے در دل
چوں روم نیست گرانبار تر از من دگرے

ترجمہ
کارواں چلا گیا اور میرے دل میں جدائی کا بوجھ ڈال گیا، کسطرح چلوں کہ کوئی اور مجھ سا گراں بار نہیں ہے۔

قریشی
سب گئے، رہ گیا میں بارِ بلا دل میں لئے
ان میں کوئی بھی گرانبار نہیں ہے مجھ سا


شعرِ خسرو
ساقیا بر گزر از من کہ بخوابِ اجلم
باز جُو اکنوں تو ہوشیار تر از من دگرے

قریشی
ساقیا خوابِ اجل میں ہوں پہ تو جانتا ہے
میکدے میں کوئی ہشیار نہیں ہے مجھ سا


شعرِ خسرو
خسروم، بہرِ بُتاں کُوئے بکو سرگرداں
در جہاں بود نہ بیکار تر از من دگرے

ترجمہ
میں خسرو ہوں اور کوبکو بتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوں، اس جہاں میں مجھ سا بیکار کوئی نہیں ہے۔

قریشی
کُو بہ کُو بہرِ بُتاں خسرو ہوا سرگرداں
کوئی اس دنیا میں بیکار نہیں ہے مجھ سا

.
 

محمد وارث

لائبریرین
شعرِ خسرو
منم بہ خانہ تن اینجا و جاں بجائے دگر
بہ دل تُوئی و سخن بر زباں بجائے دگر

ترجمہ
میرا جسم یہاں پر ہے اور جان کسی اور جگہ پر ہے۔ دل میں تو تُو ہی ہے اور زبان پر بات کسی اور جگہ کی ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
ہے گھر میں جسم مرا اور جان اور جگہ
تو میرے دل میں ہے، ڈھونڈے جہان اور جگہ


شعرِ خسرو
بہ بوستاں رَوَم از غم، ولے چہ سود کہ ہست
دلم بجائے دگر، بوستاں بجائے دگر

ترجمہ
غم کی وجہ سے میں باغ میں چلا جاتا ہوں لیکن کیا فائدہ کہ میرا دل تو کسی اور جگہ ہے اور باغ کسی اور جگہ۔

قریشی
میں بوستاں میں گیا تیرے غم کو بہلانے
پہ دل ہے اور جگہ، بوستان اور جگہ


شعرِ خسرو
کُجا بہ کُوئے تو ماندِ نسیمِ باغِ بہشت
زمینست جائے دگر، آسماں بجائے دگر

ترجمہ
بہشت کے باغ کی ہوا تیرے کوچے کی مانند کسطرح ہوسکتی ہے کہ زمین کسی اور جگہ پر ہے اور آسمان کسی اور جگہ۔

قریشی
کہاں گزر ترے کُو میں نسیمِ جنّت کو
زمیں ہے اور جگہ آسمان اور جگہ


شعرِ خسرو
نشاں ز کوئے تو پرسند و من ز بس غیرت
تو جائے دیگر و گویم نشاں بجائے دگر

ترجمہ
تیرے کوچے کا پتہ مجھ سے پوچھتے ہیں اور میں غیرت کی وجہ سے کسی اور جگہ کا پتہ بتا دیتا ہوں جبکہ تو ہے کسی اور جگہ۔

قریشی
پتہ جو پوچھا ترا مجھ سے، میں نے غیرت سے
تُو اور جا تھا، بتایا نشان اور جگہ


شعرِ خسرو
مگو کہ یارِ دگر کن، کنم اگر بینم
لطافتے کہ تو داری ہماں بجائے دگر

ترجمہ
یہ مت کہہ کے کوئی اور دوست بنا لے۔ میں بنا ہی لوں اگر دیکھوں تیرے جیسی لطافت کسی اور جگہ۔

قریشی
نہ کہہ کہ ڈھونڈ دگر یار، مل نہ پائے گی
لطافت اور تری آن بان اور جگہ


شعرِ خسرو
بگو، چگونہ تواں گفت زندہ خسرو را
کہ اُو بجائے دگر ماند و جاں بجائے دگر


ترجمہ
تو خود ہی بتا کہ خسرو کو کسطرح زندہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تو کسی اور جگہ ہے اور اسکی جان کسی اور جگہ۔

قریشی
تُو خود بتا کہیں خسرو کو کس طرح زندہ
کہ وہ ہے اور جگہ اس کی جان اور جگہ

.
 

محمد وارث

لائبریرین
درج ذیل غزل خسرو کی ایک غزلِ مسلسل ہے اور ایک ہی خیال کو مختلف حقیقتوں سے واضح کیا ہے اور کیا خوب تشبیہات و استعارات اس غزل میں بیان کئے ہیں۔



شعرِ خسرو
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

ترجمہ
اس کامیاب (محبوب) کو مجھ سے کیا غم ہے، ماہتاب کو رات کا غم کب ہوتا ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا


شعرِ خسرو
ذرّہ ہا گر شوند زیر و زبر
چشمۂ آفتاب را چہ غمست

ترجمہ
اگر تمام ذرے زیر و زبر بھی ہو جائیں تو سورج کے چشمے کو انکے زیر و زبر ہونے کا کیا غم ہے۔

قریشی
ذرّے زیر و زبر جو ہوں تو ہوں
چشمۂ آفتاب کو غم کیا


شعرِ خسرو
گر بسوزد ہزار پروانہ
مشعلِ خانہ تاب را چہ غمست

ترجمہ
اگر ہزار پروانے بھی جل مریں تو گھر کو روشن کرنے والی مشعل کو اسکا کیا غم ہے۔

قریشی
جل مریں گو ہزار پروانے
مشعلِ خانہ تاب کو غم کیا


شعرِ خسرو
خرمنِ من کہ گشت خاکستر
آتشِ پُر عذاب را چہ غمست

ترجمہ
میری جان کی کھیتی جل کر راکھ ہوگئی مگر عذاب سے پُر آگ کو اس کا کیا غم ہے۔

قریشی
خرمنِ جاں جو جل کے راکھ ہوا
آتشِ پر عذاب کو غم کیا


شعرِ خسرو
گر مرا نیست خوابے اندر چشم
چشمِ آں نیم خواب را چہ غمست

ترجمہ
اگر میری آنکھوں میں نیند نہیں رہی تو اسکا اس نیم خواب آنکھوں (والے) کو کیا غم ہے۔

قریشی
رتجگے ہیں اگر نصیب مرا
دیدۂ نیم خواب کو غم کیا


شعرِ خسرو
خسرو ار جاں دہد تو دیر بزی
ماہی ار میرد آب را چہ غمست

ترجمہ
خسرو تو جان دیتا ہے لیکن تو دیر تک زندہ رہ کہ مچھلی کے مرنے کا پانی کو کیا غم۔

قریشی
جان خسرو نے دی، تُو جُگ جُگ جی
مرگِ ماہی پہ آب کو غم کیا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شعرِ خسرو
جاں ز تن بُردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی و درمانی ہنوز

ترجمہ
تُو میرے جسم سے دل کو نکال کر لے گیا لیکن اسکے اندر جان ابھی باقی ہے، تو نے بہت درد دیئے لیکن انکا علاج ابھی باقی ہے۔

منظوم ترجمہ مسعود قریشی
تن سے جاں لے کر بھی تُو جاں ہے ابھی
درد دے کر بھی تو درماں ہے ابھی

شعرِ خسرو
آشکارا سینہ ام بشگافتی
ہمچناں در سینہ پنہانی ہنوز

ترجمہ
تو نے میرے سینے کو پھاڑ دیا ہے لیکن ابھی تک تُو اسی طرح میرے سینے میں پوشیدہ ہے۔

قریشی
سینہ میرا آشکارا کر کے چاک
میرے سینے میں تو پنہاں ہے ابھی


شعرِ خسرو
ملکِ دل کردی خراب از تیغِ ناز
داندریں ویرانہ سلطانی ہنوز

ترجمہ
اپنی تیغِ ناز سے تُو نے میرے دل کے ملک کو ویران کر دیا لیکن اس ویرانے میں ابھی تک تیری ہی حکمرانی ہے۔

قریشی
ملکِ دل ویراں ہے تیغِ ناز سے
تو ہی ویرانے میں سلطاں ہے ابھی


شعرِ خسرو
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

ترجمہ
تو نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے، اپنا نرخ بڑھا کہ یہ ابھی تک ارزاں ہے۔

قریشی
اپنی قیمت دو جہاں تُو نے کہی
نرخ اونچا کر تو ارزاں ہے ابھی


شعرِ خسرو
جور کردی سالہا چوں کافراں
بہرِ رحمت نامسلمانی ہنوز

ترجمہ
کافروں کی طرح تو نے سال ہا سال ظلم و ستم کئے لیکن رحمت کیلیئے ابھی تک نا مسلمانی موجود ہے۔


شعرِ خسرو
جاں ز بندِ کالبد آزاد گشت
دل بہ گیسوئے تو زندانی ہنوز

ترجمہ
جان جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ہے لیکن دل ابھی تک تیری زلفوں کی قید میں ہے۔

قریشی
جاں ہوئی آزاد تن کی قید سے
دل کو تیری زلف زنداں ہے ابھی


شعرِ خسرو
پیری و شاہد پرستی نا خوش است
خسروا تا کے پریشانی ہنوز

ترجمہ
وقتِ پیری شاہد پرستی اچھی بات نہیں، خسرو تو کب تک اس پریشانی سے دوچار رہے گا کہ جو ابھی تک ہے۔

قریشی
پیر ہو کر بھی وہ ہے شاہد پرست
اس لئے خسرو پریشاں ہے ابھی


۔
 
Top