الف نظامی

لائبریرین
اپکسپریس نیوز کے پروگرام "کل تک "جاوید چوہدری کے ساتھ میں دیکھیے ڈاکٹر طاہر القادری کا انٹرویو 18 دسمبر رات 10:05 بجے۔

Dr-Tahir-ul-Qadri-with-Javed-Ch-2013-12-14.jpg
 
کیا آپ کو یاد ہے پرویز مشرف کا ساتھ اور اسکی حمایت تو اس وقت قادری صاحب نے خود بھی کی تھی؟ جب مشرف کے حق میں لاہور بھر میں پوسٹر لگائے گئے جن پر لکھا تھا "ہاں پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے" ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا آپ کو یاد ہے پرویز مشرف کا ساتھ اور اسکی حمایت تو اس وقت قادری صاحب نے خود بھی کی تھی؟ جب مشرف کے حق میں لاہور بھر میں پوسٹر لگائے گئے جن پر لکھا تھا "ہاں پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے" ؟
جی بالکل یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت عمران خان نے بھی کی تھی اور اسی مشرف کی پارلیمنٹ سے طاہر القادری نے استعفی بھی دیا تھا کن وجوہات پر شاید یہ آپ تذکرہ کرنا بھول گئے۔
برائے تفہیم:-
ادھوری صداقت بیان کر کے ادھورا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔
 
جی بالکل یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت عمران خان نے بھی کی تھی اور اسی مشرف کی پارلیمنٹ سے طاہر القادری نے استعفی بھی دیا تھا کن وجوہات پر شاید یہ آپ تذکرہ کرنا بھول گئے۔
برائے تفہیم:-
ادھوری صداقت بیان کر کے ادھورا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔
اگر مشرف کی پارلیمنٹ سے استعفی دیکر قادری صاحب کے جرم کی تلافی ہوگئی تو پھر دوسرے ججز جن کو آپ مشرف کے شریک جرم کرکے ان کو بھی مشرف کے ساتھ رگڑا لگوانا چاہ رہے تھے انکے گناہ بھی دھل گئے۔ کاش اس دفعہ کی قادری صاحب کی تحریک کا مطالبہ مشرف کا محاسبہ اور جمہوریت کی مضبوطی ہوتا تو انکے پچھلی سیاسی غلطیاں بھی صاف ہوجاتیں، ویسے عمران نے تو مشرف کی حمایت پر قوم سے معافی مانگی تھی لیکن قادری صاحب نے کبھی نہیں مانگی، ہے نا ؟
 
آخری تدوین:
اگر مشرف کی پارلیمنٹ سے استعفی دیکر قادری صاحب کے جرم کی تلافی ہوگئی تو پھر دوسرے ججز جن کو آپ مشرف کے شریک جرم کرکے ان کو بھی مشرف کے ساتھ رگڑا لگوانا چاہ رہے تھے انکے گناہ بھی دھل گئے۔ کاش اس دفعہ کی قادری صاحب کی تحریک کا مطالبہ مشرف کا محاسبہ اور جمہوریت کی مضبوطی ہوتا تو انکے پچھلی سیاسی غلطیاں بھی صاف ہوجاتیں، ویسے عمران نے تو مشرف کی حمایت پر قوم سے معافی مانگی تھی لیکن قادری صاحب نے کبھی نہیں مانگی، ہے نا ؟

قادری فوج اورامریکہ کا چلا ہوا کارتوس ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر مشرف کی پارلیمنٹ سے استعفی دیکر قادری صاحب کے جرم کی تلافی ہوگئی تو پھر دوسرے ججز جن کو آپ مشرف کے شریک جرم کرکے ان کو بھی مشرف کے ساتھ رگڑا لگوانا چاہ رہے تھے انکے گناہ بھی دھل گئے۔
پرویز مشرف اس کا ساتھ دینے والے لوگوں اور ججوں سب پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلنا چاہئیے۔ طاہر القادری

ذرا غور سے پھر پڑھ لیں۔
کاش اس دفعہ کی قادری صاحب کی تحریک کا مطالبہ مشرف کا محاسبہ اور جمہوریت کی مضبوطی ہوتا

مشرف کے خلاف تحریک چلانے سے کسی کو کسی نے بھی منع نہیں کیا ، آپ تحریک چلا لیں یا اپنی سیاسی جماعت کو اس امر کا کہیں۔
طاہر القادری صاحب کا مقصد و منشا آئینِ پاکستان کا نفاذ اور کرپٹ سیاسی نظام کی اصلاح ہے اور جب اس کا نفاذ ہو جائے گا تو پاکستان کے تمام ذیلی مسائل کا حل ممکن ہوگا۔


قائد پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری نے 15 اکتوبر 2004 ء کو قومی اسمبلی میں صدر کی دوہری "وردی" کے بل کے موقع پر قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے بطور احتجاج مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا یہ قدم فی الواقع ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی دوسری مثال قائداعظم کے سوا اور کہیں نہیں ملتی جو اصولوں پر سودے بازی نہ کرتے ہوئے قبل از تقسیم ایک سیاہ قانون کے پاس ہونے پرمستعفی ہو گئے تھے۔
بعد ازاں ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے استعفیٰ کی وجوہات پر مبنی ایک تاریخی 72 صفحات پر مبنی دستاویز سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کی جس میں قومی اسمبلی کے کردار کا اچھی طرح تجزیہ پیش کیا گیااور اس میں پس پردہ سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ان حقائق کی روشنی میں استعفیٰ پیش کرتے ہوئے قائد تحریک نے 150 اپوزیشن اراکین اسمبلی سے بھی کہا کہ وہ بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیں۔ قائد تحریک کے اس استعفیٰ سے عوام الناس، سیاسی وصحافتی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ عوامی حلقوں نے قائد تحریک کے اس فیصلے کو سراہا اور جرات مندانہ اقدام قرار دیا۔
جدوجہد کا لائحہ عمل
قائد پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے استعفیٰ کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے لیے قومی ایجنڈا طے ہوا کہ پاکستان عوامی تحریک درج ذیل 11 نکاتی ایجنڈے کے حصول کیلئے اپنی جددجہد جاری رکھے گی۔
  • سماجی و اقتصادی احوال کی اصلاح
  • نظام کی تبدیلی
  • عوامی شعور کی بیداری
  • انسانی حقوق
  • رفاہ عامہ
  • عوامی تعلیمی مراکز
  • عوامی مسائل کو اجاگر کرنا
  • مزدوروں، کسانوں اور مظلوم طبقات کے حقوق کا تحفظ
  • حقوق نسواں
  • بدعنوانی کا خاتمہ
  • سیاسی رابطے
ڈاکٹر طاہر القادری کے پارلیمنٹ کے استعفی سے متعلق بی بی سی اردو پر یہ خبر رپورٹ ہوئی
حکومت کے حامی ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ صدر کے دو عہدے رکھنے کا جو بل جمعرات کے روز اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے وہ اس ایوان کی توہین ہے۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو حزب اختلاف کے راجہ پرویز اشرف نے ان سے تحریر کردہ استعفیٰ چھین لیا۔
علامہ طاہر القادری نے کہا کہ فوجی وردی کے حق میں بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کے ایوان میں بیٹھنے کے لیے ان کا ضمیر نہیں مانتا اور ان کی جماعت نے ان کے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب وہ اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیں گے۔
 
آخری تدوین:
[طاہر القادری صاحب کا مقصد و منشا آئینِ پاکستان کا نفاذ اور کرپٹ سیاسی نظام کی اصلاح ہے اور جب اس کا نفاذ ہو جائے گا تو پاکستان کے تمام ذیلی مسائل کا حل ممکن ہوگا۔

یہ معاملہ بڑا لمبا ہے۔ اس کا م کے لیے پاکستان کے عوام پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کرپٹ سیاسی نظام کی جب درستگی ہوگی جب کرپٹ عوام کرپشن چھوڑے گی۔ عوام اپنے معاملات درست کرلے، سیاسی معاملہ بھی درست ہوجائے گا
 
پرویز مشرف اس کا ساتھ دینے والے لوگوں اور ججوں سب پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلنا چاہئیے۔ طاہر القادری

ذرا غور سے پھر پڑھ لیں۔


مشرف کے خلاف تحریک چلانے سے کسی کو کسی نے بھی منع نہیں کیا ، آپ تحریک چلا لیں یا اپنی سیاسی جماعت کو اس امر کا کہیں۔
طاہر القادری صاحب کا مقصد و منشا آئینِ پاکستان کا نفاذ اور کرپٹ سیاسی نظام کی اصلاح ہے اور جب اس کا نفاذ ہو جائے گا تو پاکستان کے تمام ذیلی مسائل کا حل ممکن ہوگا۔
میری کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ البتہ میں ذاتی طور پر جمہوریت کا حامی ہوں اور قانونی طریقے چلنے والے سب لوگوں کی سپورٹ کرتا ہوں۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص بھولے بھالے پاکستانیوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ آخری لانگ مارچ میں جیسے قادری صاحب نے لوگوں کو استعمال کیا اور ان کو شدید سردی کی تکلیف میں مبتلا کیا جس میں کئی معصوم بچے اور خواتین بیمار ہوئیں، یہ سب میرے لئے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے بہت تکلیف دہ تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
---- یہ سب میرے لئے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے بہت تکلیف دہ تھا۔
ملک میں کرپٹ سیاسی نظام اور اس کے نتیجے میں ظلم و ستم کا جو بازار گرم ہے اس پر آپ کو ایک پاکستانی ہونے کے ناطے آپ کو اور "فیک جمہوریت" کے ثمرات سے مستفید ہونے والی جماعتوں کو بھی تکلیف محسوس کرنی چاہیے اور کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف کچھ کہنا چاہیے ، عملا نہ سہی تو قولا ہی سہی۔
کسی حد تک ، کسی سطح تک ، کچھ تو کہو!
 
ملک میں کرپٹ سیاسی نظام اور اس کے نتیجے میں ظلم و ستم کا جو بازار گرم ہے اس پر آپ کو ایک پاکستانی ہونے کے ناطے آپ کو اور "فیک جمہوریت" کے ثمرات سے مستفید ہونے والی جماعتوں کو بھی تکلیف محسوس کرنی چاہیے اور کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف کچھ کہنا چاہیے ، عملا نہ سہی تو قولا ہی سہی۔
کسی حد تک ، کسی سطح تک ، کچھ تو کہو!
نظام تو کرپٹ ہے، اس بات کو سارے جانتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کو بدلنے کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہر ایک اپنے اپنے مفاد کا کھیل کھیل رہا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میری کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ البتہ میں ذاتی طور پر جمہوریت کا حامی ہوں اور قانونی طریقے چلنے والے سب لوگوں کی سپورٹ کرتا ہوں
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حالیہ الیکشن کے انعقاد کرنے والے الیکشن کمشن کی تشکیل غیر آئینی طریقسے ہوئی اور امیدواروں کی اہلیت کو جانچے بغیر انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی مزید مختلف حلقوں میں نادرا ویری فیکشن بذریعہ تھمب امپریشن کے معاملہ پر غور کر لیجیے اورقانونی طریقے کا جواز تلاش کر لیجیے۔
 
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ حالیہ الیکشن کے انعقاد کرنے والے الیکشن کمشن کی تشکیل غیر آئینی طریقسے ہوئی اور امیدواروں کی اہلیت کو جانچے بغیر انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی مزید مختلف حلقوں میں نادرا ویری فیکشن بذریعہ تھمب امپریشن کے معاملہ پر غور کر لیجیے اورقانونی طریقے کا جواز تلاش کر لیجیے۔
تو آپ موجودہ نظام یعنی اسمبلیوں وغیرہ کو کالعدم قرار دلوانا چاہتے ہیں کیونکہ آپکے خیال میں سب کچھ غیر آئینی طریقے سے ہوا؟ ایسے تو ملک میں افراتفری اور انارکی پھیل جائے گی! اور ملکی نظام سنبھالنے کیلئے پھر فوج مداخلت کے گی۔ کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
الیکشن کمشن کی تشکیل غیر آئینی طریقے سے ہوئی ذرا کاوش کیجیے اور الیکشن سے قبل 3 ماہ دورانیہ کے اخبارات کا مطالعہ فرمائیں۔ اگر زیادہ محنت طلب امر ہو تو مجھے کہیے فرصت نکال کر حوالہ جات مہیا کر دوں گا۔ آپ تو خود کو سیاست کے طالب علم کہتے ہیں اور اس امر سے لاعلم ہیں؟
مختصر عرض کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا اس بنا پر الیکشن کمیشن غیر آئینی ہوگیا۔
کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟

برائے تفہیم (پڑھنا شرط ہے)
پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟
بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ؛ قیادت اور علم
انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائطِ اہلیت کا مسئلہ
بیداری شعور : ضرورت اور اہمیت
فرسودہ نظام کا خاتمہ

انتخابی اصلاحات

ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات کی بات کی تو اسے الیکشن التواء کرنے کی سازش کہا گیا ، اب الیکشن ہو چکے ، کیا خیال ہے پارسا جمہوریت پسند جماعتیں انتخابی اصلاحات کا نام لینا پسند کریں گی؟

2bp0ep.png
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
مزید برائے لئیق احمد
اگر ووٹ لینے کے لیے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ قانونی طور پر ووٹ ڈالنا قومی فریضہ ہے تو پھر وہی قانون قوم کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ پہلے ٹیکس چوروں ، قرضہ چوروں سے ٹیکس اور قرضہ وصول کروا کے انہیں جیل بھجوا کر پھر الیکشن کروائے جائیں اور پھر پوری قوم مل کر اس قومی امانت ووٹ ڈالے ، اس عمل سے قبل ووٹ قوم کی امانت نہیں بلکہ ظالم نظام کا ساتھ دینے کی گواہی اور شہادت کہلاتا ہے جو گناہ کبیرہ میں شمار ہوگا۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا آپ موجودہ نظام کو گرانا چاہتے ہیں؟
پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟

اگر یہ نظام ہے تو پھر بد نظمی کیا ہوتی ہے؟
وہ نام نہاد پاکستانی نظامِ جمہوریت کے دانش ور جو جمہوریت کا نام لیتے نہیں تھکتے اور پاکستان میں موجودہ نظام کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں ان سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ نظام ہے کیا؟ اگر اسی کا نام نظام ہے تو پھر بد نظمی کسے کہتے ہیں؟ آپ کس نظام کی بات کرتے جو قوم کو کرپشن، فراڈ، ناانصافی، جہالت، قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ دے اور اسے ذلت و رُسوائی سے ہم کنار کرے۔
اِنتخاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ ووٹر کو ووٹ ڈالتے ہوئے یہ پتہ ہو کہ میرے ووٹ سے کیا change آسکتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام اور طرزِ انتخاب ہے کہ اگر پارٹیوں کی پالیسیز میں کوئی فرق اگر ہے تو وہ گالیوں کا فرق ہے، دنگے فساد کا فرق ہے۔ وہ فرق برادری اِزم اور خاندانی وابستگیاں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو آج تک سیاسی طور پر پوجتے ہوئے ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ انہیں کسی منشور سے کوئی غرض نہیں۔ جہاں شعور کا عالم یہ ہو اور یہ بھی کوئی نہ پوچھے اور نہ جانے اور سمجھے کہ ان پارٹیز کی پالیسیز میں کیا فرق ہے تو وہاں کس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے؟ پیپلز پارٹی 70ء میں جب پہلی بار آئی تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دور تھا، مسلم لیگیں اور دوسرے لوگ ایک طرف تھے۔ اس وقت نظریات کا ایک فرق ضرور تھا، بعد میں نتائج کیا آئے یہ الگ بحث ہے۔ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئی اور ایک ڈائریکشن بنی، قومی پالیسی کا ایک نقشہ تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور جانے کے بعد آنے والے سب اَدوار دیکھ لیں ان میں سوائے الفاظ کے، نعروں کے، تقریروں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔ اب ترجیحات ہیں نہ پالیسیز ہیں اور نہ ہی پلاننگ۔ صرف ایک دوسرے کو گالی گلوچ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور تہمتیں ہی پارٹیوں کا کل منشور ہے۔
کیا اس نظام سے آپ اِس ملک کو بچانا چاہتے ہیں؟ اِس سیاسی اور انتخابی روِش سے تبدیلی کی اُمید رکھتے ہیں کہ روشن سویرا طلوع ہو؟ خدارا! اِس سازش کو سمجھیں۔ ابھی تین چار سال میں جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا کیا یہ بھیانک مستقبل کی خبر نہیں دے رہا؟ اب پھر وہی پرانا میلہ لگے گا، ٹکٹیں بکیں گی، پارٹیاں میدان میں کودیں گی، جلسے شروع ہو جائیں گے اور لوگ جوش و خروش سے آجائیں گے، کہیں ایمانی جوش ہوگا تو کہیں جمہوری جوش ہوگا اور کہیں نظریاتی جوش ہوگا۔ بس پوری قوم دوبارہ بے وقوف بنے گی، الیکشن ہوگا، ووٹ ڈالیں گے، جب نتائج آئیں گے تو اِسی طرح کی ایک نئی پارلیمنٹ تمام تر خرابیوں کے ہمراہ دوبارہ آپ کے سامنے کھڑی ہوگی۔ Split mandate کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کے لیے پھر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گا اور قوم گئی جہنم میں! یہ ہے پاکستان کا نظام جمہوریت اور طرز انتخاب۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے قوم کو کیا دیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ آپ کون ہیں پوچھنے والے، ہمیں قوم نے mandate دیا ہے۔ لوگوں کے ووٹوں سے آئے ہیں۔ اگر ہم نے کچھ نہ دیا تو اگلے الیکشن میں قوم ہمیں مسترد کردے گی۔ اس جملے کے سوا سترہ کروڑ عوام کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ حالانکہ الیکشن کیا ہے؟ یہ دراصل 5 سال کے بعد اس قوم کو پھر سے بے وقوف بنا کر انہیں اس بات کا علم ہے کہ مروّجہ باطل سیاسی نظامِ اِنتخاب کے ہوتے ہوئے کسی میں ان کو مسترد کرنے کی طاقت نہیں۔ تبھی تو دس دس مرتبہ منتخب ہو کر تیس تیس سالوں سے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اے اہلیانِ پاکستان! جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا، ہمیں اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوگی اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا؛ سب کچھ لا حاصل ہے۔
تبدیلی کا صرف ایک راستہ ہے
عزیزانِ وطن! جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تبدیلی مسلح طاقت سے نہیں آسکتی، یہ دہشت گردی کا راستہ ہے۔ نہ فوج کے ذریعے آسکتی ہے کیونکہ یہ آمریت کا راستہ ہے اور نہ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے کیونکہ یہ کرپشن کھولنے کا راستہ ہے۔ اب آخری بات سن لیجیے! اگر قوم عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے، اس قوم کے نوجوان پڑھے لکھے لوگ وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بزرگوں کا حاصل کیا ہوا یہ وطنِ عزیز غیروں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس نظامِ انتخاب کے خلاف بغاوت کے لیے کھڑے ہو جایئے، یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اس نظامِ انتخاب کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کی مثالیں خلیج اور عرب ممالک کی حالیہ لہر میں موجود ہیں جس کے تحت مصر، لیبیا اور تیونس کے لوگوں نے تبدیلی کو ممکن بنایا۔ جس طرح ایران کے عوام نے شہنشاہیت کو رخصت کیا۔ یہ نظامِ انتخاب آپ کا رضا شاہ پہلوی ہے جس کے خلاف ایرانی قوم اٹھی تھی، یہ نظام انتخاب آپ کے ملک کا قذافی ہے جس کے خلاف لیبیا کی عوام اُٹھی، اِس نظام کے خلاف اُس طرح اُٹھیے جس طرح تیونس اور مصر کے لوگ اُٹھے اور عشروں سے قائم آمریت کا تختہ الٹ دیا۔
 
آخری تدوین:
Top