انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

لوگ بڑے ہمدرد، زمانہ اچھا ہے
پھر بھی یارو! زخم چھپانا اچھا ہے

شاید کوئی بچھڑا ساتھی آن ملے
سارے رستے گرد اڑانا اچھا ہے

اتنا زیادہ خون کہاں سے لاؤ گے
بیماروں کو زہر پلانا اچھا ہے

دیکھو، اپنا آپ جہاں تک دیکھ سکو
اس سے آگے آنکھ چرانا اچھا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

وہ لوگ اب وہ لوگ نہ جانے کدھر گئے
میلے بھرے بھرائے جو سنسان کر گئے

کچھ ساتھیوں کو وقت کا سنسار لے گیا
کچھ زندگی کے بوجھ تلے آ کے مر گئے

آنکھوں میں ایک بوند بھی پانی نہیں رہا
بادل سمٹ گئے ہیں کہ دریا اتر گئے؟

ایسے بھی رام ہم کو کئی ہم سفر ملے
جو ساتھ چھوڑ کر بڑا احسان کر گئے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

دیر تک میکدہ خاموش رہا
میں گرا ہوں تو پیالے ٹوٹے

آستینوں میں چھپاؤ گے صنم
رام جس دن یہ شوالے ٹوٹے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

یہاں کوئی نہیں آیا گیا تو کس کے لئے
سحر کو فرش بچھے، شب کو شامیانے لگے

مرا ہنر انہیں اتنا پسند آیا کہ وہ
ہنر کے ساتھ مرا گھر بھی قومیانے لگے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

یہ ہار، یہ مہکار سراپا تری زلفیں
یہ ناز یہ انداز سراسر ترے جادو

ہر شخص یہاں تیری زباں بول رہا ہے
حیران ہوں کس طرح چڑھے سر ترے جادو
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

بے گھر ہوئے کہ ان سے کنارا نہیں کیا
تھا زہر کون سا جو گوارا نہیں کیا

کس بزمِ تیرگی میں جلایا نہیں ہے دل
کس اشکِ غم کو ہم نے ستارا نہیں کیا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

میں جب بھی ساتھیوں کو دور سے آواز دیتا ہوں
تو اکثر پوچھتے ہیں رام بھائی بوجھ کتنا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

اس وحشت میں کیا رکھا ہے
پھولو! چاک گریباں سی لو

ہم کو کسی دن لے ڈوبو گی
روپ رتن آنکھوں کی جھیلو
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

کیسے کیسے کام کر جاتے ہیں لوگ
ہم نے دیکھا ہے کہ مر جاتے ہیں لوگ

مسکراؤ یوں نہ اپنے حال پر
دوستو! محسوس کر جاتے ہیں لوگ

راستے سوئے پڑے رہتے ہیں رام
کتنے آہستہ گزر جاتے ہیں لوگ
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

بات آئی گئی، ہٹو بابا
اب مری راہ چھوڑ دو بابا

تم نے آنکھوں کی روشنی دے دی
رہتی دنیا تلک جیو بابا

اس جگہ خیر کا رواج نہیں
اپنا دامن سمیٹ لو بابا

یہ زمانہ ہُوا کنویں کی صدا
جو کہا ہے، وہی سنو بابا

چل رہی ہے بہت لطیف ہوا
ذرا آہستہ سانس لو بابا

جانے کس وقت موت آ جائے
عمر بھر جاگتے رہو بابا
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

دیکھیں اس کالے صحرا میں ساتھی کوئی ہمارا ہو
اک آواز سی کان پڑی ہے جیسے کوئی پکارا ہو

ہم بھی کبھی دریا تھے اب تو دریا دیکھنے والے ہیں
سیلِ وقت کے ہاتھوں جب سے بیٹھ گئے ہیں کنارا ہو

روز یہی رونا ہے کس کے ساتھ گزاریں دن اور رات
سارے ہمارے دشمن ٹھہرے سورج ہو کہ ستارا ہو
 

نوید صادق

محفلین
ورقِ سنگ- رام ریاض

یہ گھنے لوگ، یہ چوڑے بازار
شہر میں کون اکیلا جائے

جانے کیوں آدمی یہ سوچتے ہیں
اپنے بارے ہی میں سوچا جائے

اب وہ بستی ہے نہ بستی والے
کیا تجھے یاد دلایا جائے
 
Top