انتخابِ رام ریاض

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

راہوں کو اندھیرے نگل رہے ہیں
قبروں پہ چراغ جل رہے ہیں

کچھ جاگتے میں بت بنے ہوئے ہیں
کچھ نیند میں ہیں اور چل رہے ہیں

جھونکا تو ہوا کا گزر گیا ہے
اشجار کھڑے ہاتھ مَل رہے ہیں

تاروں کی لویں کانپنے لگی ہیں
بستی سے مسافر نکل رہے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

میں دوپہر کا مسافر، میں آدھی رات کا چاند
ابھی غبار سے نکلا، ابھی غبار میں ہوں

کوئی ہنسے، کوئی روئے، مجھے نہیں معلوم
میں دفن اپنے خیالات کے مزار میں ہوں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

اب کے اس طرح ترے شہر میں کھوئے جائیں
لوگ معلوم کریں، ہم کھڑے روئے جائیں

ورقِ سنگ پہ تحریر کریں نقشِ مراد
اور بہتے ہوئے دریا میں ڈبوئے جائیں


رام دیکھے عدم آباد کے رہنے والے
بے نیاز ایسے کہ دن رات ہی سوئے جائیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

چین آیا ہے تو اب نیند بھی آ جائے گی
اور دھرتی ہمیں آرام سے کھا جائے گی

تو یونہی دیکھتا رہ جائے گا ، اور موجِ ہوا
پُستکِ عمر کے سب حرف مٹا جائے گی

ہم نشیں تو بھی کسی روز وہاں ہو گا جہاں
مری دستک، نہ اشارہ، نہ صدا جائے گی

اب یہ آواز ہمیں خوف زدہ رکھتی ہے
اتنے مخلص ہو، تمہیں موت بھی آ جائے گی

باولی دھوپ! مرے صحن سے باہر مت جا
ایسی گرمی میں کہاں آبلہ پا جائے گی
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

کسی کا دن کا سفر ہے، کسی کا رات کا ہے
رُکے رہو کہ زمانہ یہ حادثات کا ہے

ہوا چلے تو مرا دل دھڑکنے لگتا ہے
نہ جانے کیوں مجھے غم ساری کائنات کا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

جو برق و باد پروں سے نکال دیتے ہیں
ہم ان کو ہم سفروں سے نکال دیتے ہیں

ترا بھی مہر و مروت پہ اعتقاد نہیں
تو ہم یہ خواب سروں سے نکال دیتے ہیں

جو دل نہ جوڑ سکے، اب تو شیشہ گر اُس کو
سنا ہے شیشہ گروں سے نکال دیتے ہیں

تجھے بھی دن میں اندھیرا نظر نہیں آتا
تجھے بھی دیدہ وروں سے نکال دیتے ہیں

صبا اُدھر سے کبھی لوٹ کر نہیں آئی
اِسے بھی نامہ بروں سے نکال دیتے ہیں

میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں
بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ہمارے سامنے کچھ مبتلائے غم گزرے
پھر اس کے بعد اُسی راستے سے ہم گزرے

نہ تو جلا ، نہ کبھی تیرے گھر کو آگ لگی
ہمیں خبر ہے کہ جن مرحلوں سے ہم گزرے

ہمیں زیادہ خد و خال کی نہیں پہچان
کہ ایسے لوگ ہماری نظر سے کم گزرے


رہِ حیات میں کانٹے رہے کہ انگارے
ٹھہر ٹھہر کے چلے اور قدم قدم گزرے

یہ انتظارِ قیامت بڑا قیامت ہے
جو رام ہم پہ گزرنی ہے ایک دم گزرے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

یہ روشنی کا زمانہ ہے، اس زمانے میں
جو تم رہو تو ذرا دیکھ بھال کر رہنا

ہمارے خیمے ابھی آگ کی لپیٹ میں ہیں
جدھر سے تیز ہوا آئے تم اُدھر رہنا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

سنا ہے دور اُفق تک زمین تھی آزاد
ہمارے ہوش سے پہلے نگر کسی کا نہ تھا

تمام ایک طرح جاگتے تھے، سوتے تھے
کسی زمانے میں کوئی ہنر کسی کا نہ تھا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

ذہن نہ مانے، جی گھبرائے، پھر بھی نگلنا پڑتا ہے
رام زمانے کا غم جیسے بازی گر کا گولا ہے
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

برسوں کا بے نام دریچہ، صدیوں کی انجان ہوا
میں مُردہ ماضی کا حوالہ، اور تیری پہچان ہوا

برسوں گزرے اور ابھی جانے کب تک یاد آئیں گے
اس کا خوشبو کا دروازہ اور اس کی دربان ہوا
 

نوید صادق

محفلین
پیڑ اور پتے۔ رام ریاض

آج نیند آنکھوں میں پہلے سے زیادہ ہے
تو کہے تو سو جائیں، تیرا کیا ارادہ ہے

ایسے آدمی جاناں! ہم سفر نہیں ہوتے
میں بھی پا پیادہ ہوں تو بھی پا پیادہ ہے
 
Top