ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۶۶
کے لیے ان کی پیٹھ، حفاظت کے لیے ان کی پاسبانی، پہننے کے لیے انکی کھال اور اون، برتنے کے لیے ان کے جسم کی ہڈیاں تک مفید ہیں :
(والانعام ۔۔۔۔) (۸۵:۱۶) نہ تو یہ سورۃ ۱۶ آیہ ۸۵ ہے اور نہ ہی سورۃ ۸۵ آیہ ۱۶ ہے)
"اور چارپائے پیدا کر دیے ہیں جن میں تمہارے لیے جاڑے کا سامان اور طرح طرح کے منافع ہیں، اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ جب ان کے غول شام کو چر کر واپس آتے ہیں تو جب چراگاہوں کے لیے نکلتے ہیں تو (دیکھو!) ان کے منظر میں تمہارے لیے کوش نمائی رکھ دی ہے۔ اور انہیں میں وہ جانور بھی ہیں جو تمہارا بوجھ اتھا کر ان (دور دراز) شہروں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تک تم بغیر سخت مشقت کے نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور صاحب رحمت ہے۔ اور (دیکھو!) گھوڑے، خچر، گدھے پیدا کیے گئے تاکہ تم ان سے سواری کا کام لو اور خوش نمائی کا بھی موجب ہوں۔ وہ اسی طرح (طرح طرح کی چیزیں) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔"
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّارِبِينَ۔ (۶۶:۱۶)
اور چارپایوں کے وجود میں تمہارے لیے (فہم و بصیرت کی) بڑی ہی عبرت ہے۔ انہیں جانوروں کے جسم میں سے ہم خون اور کثافتوں کے درمیان پاک و صاف دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بےغل و غش مشروب ہوتا ہے۔
وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ۔ (۸۰:۱۶)


اور (دیکھو!) اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکونت کی جگہ بنایا، اور (جو


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۶۷
لوگ شہروں میں نہیں بستے، ان کے لیے ایسا سامان کر دیا کہ) چار پایوں کی کھال کے خیمے بنا دیئے۔ سفر اور اقامت، دونوں حالتوں میں انہیں ہلکا پاتے ہو۔ اسی طرح جانوروں کی اون، رووں اور بالوں سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیں جن سے ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ پہنچتا ہے!
ایک انسان کتنی ہی محدود اور غیر متمدن زندگی رکھتا ہو، لیکن اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ اس کا گردو پیش اسے فائدہ پہنچا رہا ہے، ایک لکڑہارا بھی اپنے جھونپڑے میں بیٹھا ہوا نظر اٹھاتا ہے تو گو اپنے احساس کے لیے بہتر تعبیر نہ پائے لیکن یہ حقیقت ضرور محسوس کر لیتا ہے، جو جب بیمار ہوتا ہے تو جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا لیتا ہے، دھوپ تیز ہوتی ہے تو درختوں کے سایے میں بیٹھ جاتا ہے، بیکار ہوتا ہے تو پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کی خوش نمائی سے آنکھیں سینکنے لگتا ہے۔ پھر یہی درخت ہیں جو اپنی شادابی میں اسے پھل بخشتے ہیں، پختگی میں لکڑی کے بخشے بن جاتے ہیں، کہنگی میں آگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں۔ ایک ہی مخلوق نباتی ہے جو اپنے منظر سے نزھت و سرور بخشتی ہے، اپنی بو سے ہوا کو معطر کرتی ہے، اپنے پھل میں طرح کی غذائیں رکھتی ہے، اپنی لکڑی سے سامان تعمیر مہیا کرتی ہے اور پھر خشک ہو جاتی ہے تو اس کے جلانے سے آگ بھڑکتی، چولھے گرم کرتی، موسم کو معتدل بناتی اور اپنی حرارت سے بے شمار اشیاء کے پکنے، پگھلنے اور تپنے کا ذریعہ بنتی ہے :
(اور دیکھو!) وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کر دی، اب تم اسی سے (اپنے چولہوں کی) آگ سلگا لیتے ہو!
اور پھر یہ وہ فوائد ہیں جو تمہیں اپنی جگہ محسوس ہو رہے ہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ فطرت نے یہ تمام چیزیں کن کن کاموں اور کن کن مصلحتوں کے لیے پیدا کی ہیں اور کارفرمائے عالم کارگاہ ہستی کے بنانے اور سنوارنے کے لیے ان سے کیا کیا کام نہیں لے رہا ہے؟
اور تمہارا پروردگار )اس کارزار ہستی کی کارفرمائیوں کے لئے) جو فوجیں رکھتا ہے، ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۶۸
پھر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ فطرت نے کائنات ہستی کے افادہ و فیضان کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت ہر مخلوق کو یکساں طور پر نفع پہنچاتا اور ہر مخلوق کی یکساں طور پر رعایت ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنے عالی شان محل میں بیٹھ کر محسوس کرتا ہے کہ تمام کارخانہ ہستی صرف اسی کی کاربرآریوں کے لیے ہے تو ٹھیک اسی طرح ایک چیونٹی بھی اپنے بل میں کہہ سکتی ہے کہ فطرت کی ساری کارفرمائیاں صرف اسی کی کاربرآریوں کے لیے ہیں اور کون ہے جو اسے جھٹلانے کی جرات کر سکتا ہے؟ کیا فی الحقیقت سورج اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے ھرارت بہم پہنچائے؟ کیا بارش اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لئے رطوبت مہیا کرے؟ کیا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ اس کی نک تک شکر کی بو پہنچا دے؟ کیا زمین اس لیے نہیں ہے کہ ہر موسم اور ہر حالت کے مطابق اس کے لیے مقام و منزل بنے؟ دراصل فطرت کی بخشائیوں کا قانون کچھ ایسا عام اور ہمہ گیر واقع ہوا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی طریقہ سے، ایک ہی نظام کے ماتحت، ہر مخلوق کی نگہ داشت کرتا اور ہر مخلوق کو یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے، حتٰی کہ ہر وجود اپنی جگہ محسوس کر سکتا ہے کہ یہ پورا کارخانہ عالم صرف اسی کی کام جوئیوں اور آسائشوں کے لیے سرگرم کار ہے :
اور زمین کے تمام جانور اور (پروار) بازوؤں سے اڑنے والے تمام پرند دراصل تمہاری ہی طرح امتیں ہیں۔
کائنات کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے :
البتہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم کون و فساد ہے، یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑنا ہے اور سمٹنے کے ساتھ بکھرنا لیکن جس طرح سنگ تراش کو توڑنا پھوڑنا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کی ایک پیکر تیار کر دے، اسی طرح کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔ تم ایک عمارت بناتے ہو لیکن اس "بنانے" کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ بہت سی بنی ہوئی چیزیں بگڑ گئیں؟ چٹانیں اگر نہ کاٹی جاتیں، بھٹے اگر نہ سلگائے جاتے، درختوں پر آراہ نہ چلتا تو ظاہر ہے کہ عمارت کا بناؤ بھی ظہور


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۶۹
میں نہ آتا۔ پھر یہ راحت و سکون جو تمہیں ایک عمارت کی سکونت سے حاصل ہوتا ہے، کس صورت حال کا نتیجہ ہے؟ یقیناً اسی شور و شر اور ہنگامہ تخریب کا جو سر و سامان تعمیر کی جد و جہد نے عرصہ تک جاری رکھا تھا، اگر تخریب کا یہ شور و شر نہ ہوتا تو عمارت کا عیش و سکون بھی وجود میں نہ آتا۔ پس یہی حال فطرت کی تعمیری سرگرمیوں کا بھی سمجھو۔ وہ عمارت ہستی کا ایک ایک گوشہ تعمیر کرتی رہتی ہے، وہ اس کارخانہ کا ایک ایک کیل پرزہ ڈھالتی رہتی ہے، وہ اس کی درستگی و خوبی کی حفاظت کے لیے ہر نقصان کا دفعیہ اور ہر فساد کا ازالہ چاہتی ہے۔ تعمیر و درستگی کی یہی سرگرمیاں ہیں جو تمہیں بعض اوقات تخریب و نقصان کی ہولناکیاں دکھائی دیتی ہیں، حالانکہ یہاں تخریب کب ہے؟ جو کچھ ہے تعمیر ہی تعمیر ہے۔ سمندر میں طلاطم، دریا میں طغیانی، پہاڑوں میں آتش فشانی، جاڑوں میں برف باری، گرمیوں میں سموم، بارش میں ہنگامہ ابر و باد، تمہارے لیے خوش آئندہ مناظر نہین ہوتے۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہر حادثہ، کانئات ہستی کی تعمیر و درستگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیا کی کوئی مفید سے مفید چیز تمہاری نگاہ میں ہو سکتی ہے۔ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو امین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح پارہ پارہ کر دیتا۔ تم بول اٹھو گے : یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا؟ لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشو و نما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہو جاتا، یہی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے جابجا اشارت کیے ہیں۔ مثلاً سورۃ روم میں ہے :
اور (دیکھو!) اس کی (قدرت و حکمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ بجلی کی چمک اور کڑک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں کی حالتیں طاری ہو جاتی ہیں۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے۔ اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل و بینش رکھتے ہیں (حکمت الہٰی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں!


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۰
جمال فطرت :
لیکن فطرت کے افادہ و فیضان کی سب سے بڑی بخشائس اس کا عالم گیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں، بلکہ اس طرح بناتی اور سنوارتی ہے کہ اس ے ہر بناؤ میں حسن و زیبائی کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہو گئی ہے۔ کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو! اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش، سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور اس کا اتار و چڑھاؤ، فضاء آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات، سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب، حیوانات کے اجسام اور انکا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ و چمن کی رعنائیاں، پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محجوب، غاض یہ کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے، حسن و زیبائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے بہشتِ راحت و سکون بن جائے!
دراصل کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے۔ فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے، اسی طرح اس کی کوب روئی اور رعنائی کے لیے معنوی عناصر کا بھی رنگ و روغن آراستہ کر دیا۔ روشنی، رنگ، خوشبو اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزاء ہین جن سے مشاطئہ فطرت چہرہ وجود کی آرائس کر رہی ہے :
مشاطہ رابگو کہ بر اسباب حسن یار
چیزی فزوں کند کہ تماشا بما رسد
صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۔ (88:27)
یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستگی کے ساتھ بنائی!

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۱
یہ اللہ ہے، محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا، طاقت والا، رحمت والا جس نے جو چیز بنائی، حسن و خوبی کے ساتھ بنائی!
بلبل کی نغمہ سنجی اور زاغ و زغن کا شور و غوغا :
بلاشبہ کاروبار فطرت کے بعض مظاہر ایسے بھی ہیں جن میں تمہیں حسن و خوبی کی کوئی گیرائی محسوس نہین ہوتی۔ تم کہتے ہو قمری و بلبل کی نغمہ سنجیوں کے ساتھ زاغ و زغن کا شور و غوغا کیوں ہے؟ لیکن تم بھول جاتے ہو کہ ارغنون ہستی کا نغمہ کسی ایک آہنگ ہی سے نہین بنا ہے اور نہ بننا چاہیے تھا۔ جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیر و بم کے تمام آہنگ موجود ہوتے ہیں، اسی طرح ساز فطرت کے تاروں میں بھی اتار و چڑھاؤ کے تمام آہنگ موجود ہیں۔ اس میں ہلکے سے ہلکے سُر بھی ہیں جن سے باریک اور سُریلی صدائیں نکلتی ہیں، موٹے سے موٹے سُرب بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھارے صدائیں پیدا کرتے ہیں، ان تمام سُروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی موسیقی کی حلاوت ہے، کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مکتلف اجزاء کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک ہی سُر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہو جائے، اگر تم بین یا ستار اتھا کر صرف اس کے چڑھاؤ کا کوئی ایک پردہ چھیڑ دو گے، یا پیانو کی بھاری کنجیوں میں سے کوئی ایک کنجی ہی بجانے لگو گے تو یہ نغمہ نہ ہو گا، بھاں بھاں کی ایک کرخت آواز ہو گی۔ یہی حال موسیقی فطرت کے زیر و بم کا بھی ہے، تمہیں کوے کی کائیں کائیں اور چیل کی چیخ میں کوئی دل کشی محسوس نہیں ہوتی، لیکن موسیقی فطرت کی تالیف کے لیے جس طرح قمری و بلبل کا ہلکا سُر ضروری تھا، اسی طرح زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سُر بھی ناگزیر تھا، بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سُر بھی ناگزیر تھا، بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کو چڑھاؤ :
بر اہل ذوق در فیض در نمی بندد
نوائے بلبل اگر نیست صوت زاغ شنو!
(باذوق لوگوں پر فیاض فطرت، اپنا دروازہ بند نہیں کر دیتی، اگر بلبل کو نوا نہیں تو زاغ کی آواز ہی سنو۔)

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۲
ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں ہے، سب (اپنی بناوٹ کی خوبی اور صنعت کے کمال میں) اللہ کی بڑائی اور پاکی کا (زبان حال سے) اعتراف کر رہے ہیں۔ اور (اتنا ہی نہیں بلکہ کائنات خلقت میں) کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو (زبان حال سے) اسکی تسبیح و تمحید نہ کر رہی ہو۔ مگر (افسوس! کہ) تم (اپنے جہل و غفلت سے) اس ترانہ تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ بلا شبہ وہ بڑا ہی بردبار، بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
فطرت کی حسن افروزیاں اور رحمت الہٰی کی بخشش :
آؤ چند لمحوں کے لیے پھر ان سوالات پر غور کر لیں جو پہلے گزر چکے ہیں! فطرت کائنات کی یہ تمام حسن افروزیاں اور جلوہ آرائیاں کیوں ہیں؟ یہ کیوں ہے کہ فطرت حسین ہے اور جو کچھ اس سے ظہور میں آتا ہے، وہ حسن و جمال ہی ہوتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ ہستی ہوتا، لیکن رنگ کی نظر افروزیاں، بو کی عطر بیزیاں، نغمہ کی جاں نوازیاں نہ ہوتیں؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ سب کچھ ہوتا، لیکن سبزہ و گل کی رعنائیاں و قمری اور بلبل کی نغمہ سنجیاں نہ ہوتیں؟ یقیناً دنیا اپنے بننے کے لیے اس کی محتاج نہ تھی کہ تتلی کے پروں میں عجیب و غریب نقش و نگار ہوں اور رنگ برنگ کے دل فریب پرند درختوں کی شاخوں پر چہچہا رہے ہوں۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ درخت ہوتے مگر قامت کی بلندی، پھیلاؤ کی موزونیت، شاخوں کی ترتیب، پتوں کی سبزی، پھولوں کی رنگا رنگی نہ ہوتی۔ پھر یہ کیوں ہے کہ تمام حیوانات اپنی اپنی حالت اور گرد و پیش کے مطابق دیل ڈول کی موزونیت اور اعضاء کا تناسب ضرور ہی رکھیں اور کوکئی وجود ہی نہ ہو جو اپنی شکل و منظر میں ایک خاص طرح کا معتدل پیمانہ نہ رکھتا ہو؟
انسانی علم و نظر کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کر سکیں کہ یہاں تعمیر کے ساتھ تحسین کیوں ہے؟ مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خالق کائنات "الرحٰمن" اور "الرحیم" ہے، یعنی اس میں رحمت ہے اور اس کی رحمت اپنا ظہور و فعل بھی رکھتی ہے۔ رحمت کا مقتضٰی یہی تھا کہ بخشش ہو، فیضان ہو، جود و احسان ہو پس اس نے ایک طرف تو ہمیں زندگی


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۳
کے تمام احساس و عواطف بخش دیئے جو خوش نمائی اور بدنمائی میں امتیاز کرتے اور خوبی و جمال سے کیف و سرور حاصل کرتے ہیں، دوسری طرف کار گاہ ہستی کو اپنی حسن آرائیوں اور جان فزائیوں سے اس طرح آراستہ کر دیا کہ اس کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے جنت، سامعہ کے لیے حلاوت اور روح کے لیے سرمایہ کیف و سرور بن گیا :
پس کیا ہی برکت والی ذات ہے اللہ کی، بنانے والوں میں سب سے زیادہ حسن و کوبی کے ساتھ بنانے والا!
قدرت کا خودرو سامان راحت و سرور اور انسان کی ناشکری :
ہم زندگی کی بناوٹی اور خود ساختہ آسائشوں میں اس درجہ منہمک ہو گئے ہیں کہ ہمیں قدرتی راحتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور بسا اوقات تو ہم ان کی قدر و قیمت کے اعتراف سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر چند لمحوں کے لئے اپنے آپ کو اس غفلت سے بیدار کر لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ کائنات ہستی کا حسن و جمال فطرت کی ایک عظیم اور بے پایاں بخشش ہے اور اگر یہ نہ ہوتی یا ہم میں اس کا احساس نہ ہوتا تو زندگی زندگی نہ ہوتی، نہیں معلوم کیا چیز ہو جاتی؟ ممکن ہے موت کی بدحالیوں کا ایک تسلسل ہوتا۔
ایک لمحہ کے لیے تصور کرو کہ دنیا موجود ہے، مگر حسن و زیبائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے، ستارے ہیں مگر ان کی درخشندگی و جہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی نہیں ہے، درخت ہیں مگر بغیر سبزی کے، پھول ہیں مگر بغیر رنگ و بو کے، اشیاء کا اعتدال، اجسام کا تناسب، صداؤں کا ترنم، روشنی و رنگت کی بو قلمونی، ان میں سے کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی، یا یوں کہا جائے کہ ہم میں ان کا احساس نہیں ہے۔ غور کرو! ایک ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کیسا بھیانک اور ہولناک منظر پیش کرتا ہے؟ ایسی زندگی جس میں نہ تو حسن کا احساس ہو نہ حسن کی جلوہ آرائی، نہ نگاہ کے لیے سرور ہو نہ سامعہ کے لیے حلاوت، نہ جذبات کی رقت ہو نہ محسوسات کی لطافت، یقیناً عذاب و جان کاہی کی ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۴
لیکن جس قدرت نے ہمیں زندگی دی، اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت، یعنی حسن و زیبائی کی بخشش سے بھی مالا مال کر دے۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا، دوسرے ہاتھ سے تمام دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا۔ یہی حقیقت ہے جو ہمیں رحمت کی موجودگی کا یقین دلاتی ہے، اگر پردہ ہستی کے پیچھے صرف خالقیت ہی ہوتی، رحمت نہ ہوتی، یعنی پیدا کرنے یا پیدا ہو جانے کی قوت ہوتی، مگر افادہ و فیضان کا ارادہ نہ ہوتا تو یقیناً کائنات ہستی میں فطرت کے فضل و احسان کا یہ عالم گیر مظاہرہ بھی نہ ہوتا :
کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہین کیا؟ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہو، وہ سب تمہارے لیے خدا نے مسخر کر دیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی پوری کر دی ہیں۔ انسانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے جھگڑتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت ہو یا کوئی کتاب روشن۔
انسانی طبیعت کی یہ عالم گیر کمزوری ہے کہ جب تک وہ ایک نعمت سے محروم نہیں ہو جاتا، اس کی قدر و قیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کر سکتا۔ تم گنگا کے کنارے بستے ہو، اس لیے تمہارے نزدیک زندگی کی سب سے زیادہ بے قدر چیز پانی ہے۔ لیکن اگر یہی پانی چوبیس گھنٹے تک میسر نہ آئے تو تمہیں معلوم ہو جائے اس کی قدر و قیمت کا کیا حال ہے! یہی حال فطرت کی فیضان جمال کا بھی ہے۔ اس کے عام اور بے پردہ جلوے شب و روز تمہاری نگاہوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں، اس لیے تمہیں ان کی قدر و قیمت محسوس نہیں ہوتی۔ صبح اپنی ساری جلوہ آرائیوں کے ساتھ روز آتی ہے، اس لیے تم بستر سے سر اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، چاندنی اپنی ساری حسن افروزیوں کے ساتھ ہمیشہ نکھرتی رہتی ہے اس لیے تم کھڑکیاں بند کر کے سو جاتے ہو، لیکن جب یہی شب و روز کے جلوہ ہائے فطرت تمہاری نظروں سے روپوش ہو جاتے ہیں یا تم میں ان کے نظارہ و سماع کی استعداد باقی نہیں رہتی تو غور

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۵
کرو اس وقت تمہارے احساسات کا کیا حال ہوتا ہے؟ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ان میں سے ہر چیز زندگی کی ایک بے بہا برکت اور معیشت کی ایک عظیم الشان نعمت تھی؟ سرد ملکوں کے باشندوں سے پوچھو جہاں سال کا بڑا حصہ ابرآلود گزرتا ہے کیا سورج کی کرنوں سے بڑھ کر بھی زندگی کی کوئی مسرت ہو سکتی ہے؟ ایک بیمار سے پوچھو جو نقل و حرکت سے محروم بستر مرض پر پڑا ہے، وہ بتائے گا کہ آسمان کی صاف اور نیلگوں فضا کا ایک نظارہ راحت و سکون کی کتنی بڑی دولت ہے! ایک اندھا جو کہ پیدائشی اندھا نہ تھا، تمہیں بتا سکتا ہے کہ سورج کی روشنی اور باغ و چمن کی بہار دیکھے بغیر زندگی بسر کرنا کیسی ناقابل برداشت مصیبت ہے! تم بسا اوقات زندگی کی مصنوعی آسائشوں کے لیے ترستے ہو اور خیال کرتے ہو کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت چاندی سونے کا ڈھیر اور جاہ و حشم کی نمائش ہے، لیکن تم بھول جاتے ہو کہ زندگی کی حقیقی مسرتوں کا جو خود رو سامان فطرت نے ہر مخلوق کے لیے پیدا کر رکھا، اس سے بڑھ کر دنیا کی دولت و حشمت کون سا سامان نشاط مہیا کر سکتی ہے؟ اور اگر انسان کو وہ سب کچھ میسر ہو تو پھر اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے؟ جس دنیا میں سورج ہر روز چمکتا ہو، جس دنیا میں صبح ہر روز مسکراتی اور شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی، جس کی بہار سبزہ و گل سے لدی ہوئی اور جس کی فصلیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے گراں بار ہوں، جس دنیا میں روشنی اپنی چمک، رنگ اپنی بوقلمونی، خوشبو اپنی عطر بیزی اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو، کیا اس دنیا کا کوئی باشندہ آسائش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہو سکتا ہے؟ کیا کسی آنکھ کے لیے جو دیکھ سکتی ہو اور کسی دماغ کے لیے جو محسوس کر سکتا ہو، ایک ایسی دنیا میں نامرادی و بدبختی کا گلہ جائز ہے؟ قرآن نے جابجا انسان کی اس کے اسی کفران نعمت پر توجہ دلائی ہے :
اور اس نے تمہیں وہ تمام چیزیں دے دیں جو تمہیں مطلوب تھیں، اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی شمار نہین کر سکو گے، بلا شبہ انسان بڑا ہی ناانصاف، بڑا ہی ناشکرا ہے!

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۶
جمال معنوی :
پھر فطرت کی بخشائش جمال کے اس گوشہ پر بھی نظر ڈالو کہ اس نے جس طرح جسم و صورت کو حسن و زیبائی بخشی، اسی طرح اس کی معنویت کو بھی جمال معنوی سے آراستہ کر دیا، جسم و صورت کا جمال یہ ہے کہ ہر وجود کے ڈیل ڈول اور اعضاء و جوارح میں تناسب ہے، معنویت کا جمال یہ ہے کہ ہر چیز کی کیفیت اور باطنی قویٰ میں اعتدال ہے۔ اسی کیفیت کے اعتدال سے خواص اور فوائد پیدا ہوئے ہیں اور یہی اعتدال ہے جس نے حیوانات میں ادراک و حواس کی قوتیں بیدار کر دیں اور پھر انسان کے درجے میں پہنچ کر جوہر عقل و فکر کا چراغ روشن کر دیا :
اور (دیکھو!) یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ تم اپنی ماؤں کے شکم سے پیدا ہوتے ہو اور کسی طرح کی سمجھ بوجھ تم میں نہیں ہوتی، لیکن اس نے تمہارے لیے دیکھنے سننے کے حواس بنا دیے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عقل دے دی، تاکہ اس کی نعمت کے شکر گزار ہو۔
کائنات ہستی کے اسرار و غوامض بے شمار ہیں، لیکن روح حیوانی کا جو ہر ادراک زندگی کا سب سے زیادہ لانیحل عقدہ ہے، حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک، ہر طرح کا احساس و ادراک رکھتے ہیں اور انسان دماغ کے نہاں خانہ میں عقل و تفکر کا چراغ روشن ہے۔ یہ قوت احساس، یہ قوت ادراک، یہ قوت عقل کیونکر پیدا ہوئی؟ مادی عناصر کی ترکیب و امتزاج سے ایک ماورائے مادہ جوہر کس طرح ظہور میں آ گیا؟ چیونتی کو دیکھو! اس کے دماغ کا حجم سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہو گا، لیکن مادے کے اس حقیر ترین عصبی ذرے میں بھی احساس و ادراک، محنت و استقلال، ترتیب و تناسب، نظم و ضبط اور صنعت و اختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں اور وہ اپنے اعمال حیات کی کرشمہ سازیوں سے ہم پر رعب اور حیرت کا عالم طاری کر دیتی ہے۔ شہد کی مکھی کی کارفرمائیاں ہر روز تمہارے نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ کون ہے جس نے ایک چھوٹی سے مکھی میں تعمیر و تحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کر دی ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۷
قرآن کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ رحمت کا متقضیٰ جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال صوری سے دنیا آراستہ کر دی ہے، اسی طرح جمال معنوی کی بخشائشوں سے بھی اسے مالا مال کر دیتی :
یہ محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا عزیز و رحیم ہے جس نے جو چیز بھی بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی۔ چنانچہ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھر اس کے توالد و تناسل کا سلسلہ (خون کے) خلاصے سے جو پانی ایک حقیر سا قطرہ ہوتا ہے، قائم کر دیا۔ پھر اس کی تمام قوتوں کی درستگی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھونک دی اور (اس طرح) اس کے لیے سننے دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کر دیں۔ (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر!) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ (اللہ کی رحمت کا) شکر گزار ہو۔
بقاء نفع :
لیکن کائنات ہستی کا یہ بناؤ، یہ حسن، یہ ارتقاء قائم نہیں رہ سکتا تھا، اگر اس میں خوبی کے بقاء اور خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے؟ فطرت کا انتخاب ہے۔ فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے، وہ ہر گوشے میں صرف خوبی اور بہتری ہی باقی رکھتی ہے، فساد اور نقص محو کر دیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم اسے "بقاء اصلح" کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں "اصلح" یعنی Fittest لیکن قرآن "بقاء اصلح" کی جگہ "بقاء انفع" کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : اس کار گاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو، کیونکہ یہاں رحمت کارفرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ و فیضان ہو، نقصان و برہمی گوارا نہیں کر سکتی، تم سونا کٹھالی میں ڈال کر آگ پر
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۸
رکھتے ہو، کھوٹ جل جاتا ہے، خالص سونا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی مثال فطرت کے انتخاب کی ہے۔ کھوٹ میں نفع نہ تھا، نابود کر دیا گیا، سونے میں نفع تھا، باقی رہ گیا :
خدا نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی نالوں میں جس قدر سمائی تھی اس کے مطابق بہہ نکلے اور جس قدر کوڑا کرکٹ جھاگ بن کر اوپر آ گیا تھا، اسے سیلاب اٹھا کر بہا لے گیا۔ اسی طرح جب زیور یا اور کسی طرح کا سامان بنانے کے لیے (مختلف قسم کی دھاتیں) آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بھی جھاگ اٹھتا ہے اور میل کچیل کٹ کر نکل جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کر تیا ہے۔ جھاگ رائیگان جائے گا (کیونکہ اس میں نفع نہ تھا) جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہو گا وہ زمین میں باقی رہ جائے گی۔
تدریج و امھال
پھر اگر وقت نظر سے کام لو تو افادہ و فیضان فطرت کی حقیقت کچھ انہیں مظاہر پر موقوف نہیں ہے، بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال و قوانین کا یہی حال ہے۔
تم دیکھتے ہو کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفظوں میں اسے تعبیر کرنا چاہو تو صرف فطرت کے فضل و رحمت ہی سے تعبیر کر سکتے ہو، تمہیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی۔ مثلاً اس کے قوانین کا عمل کبھی فوری اور اچانک نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتی ہے، آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور تدریجی طرز عمل نے دنیا کے لیے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کر دیا ہے، یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے۔ اور اس کی ہر فعل عفو و درگذر کا دروازہ آخر تک کھلا رکھتا ہے۔ بلا شبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں، ان میں رد و بدل کا امکان نہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۷۹
ہمارے یہاں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔
اور اس لیے تم خیال کرنے لگتے ہو کہ ان کی قطیعت بے رحمی سے خالی نہیں۔ لیکن تم نہیں سوچتے کہ جو قوانین اپنے نفاذ میں اس درجہ قطعی اور بے پروا ہیں، وہی اپنی نوعیت میں کس درجہ عفو و درگذر اور مہلت بخشی و اصلاح کوشی کی روح بھی رکھتے ہیں؟ اسی لیے آیت مندرجہ صدر میں "ما يبدل القول" کے بعد ہی فرمایا :
لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بندوں کے لیے زیادتی کرنے والے ہوں۔
فطرت اگر چاہتی تو ہر حالت، بیک دفعہ ظہور میں آ جاتی، یعنی اس کے قوانین کا نفاذ فوری اور ناگہانی ہوتا، لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر حالت، ہر تاثیر، ہر انفعال کے ظہور و بلوغ کے لیے ایک خاص مدت مقرر کر دی گئی ہے اور ضروری ہے کہ بتدریج مختلف منزلیں پیش آئیں۔ پھر ہر منزل اپنے آثار و انداز رکھتی ہے اور آنے والے نتائج سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ زندگی اور موت کے قوانین پر غور کرو! کس طرح زندگی بتدریج نشو و نما پاتی اور کس طرح درجہ بدرجہ مکتلف منزلوں سے گزرتی ہے اور پھر کس طرح موت، کمزوری و فساد کا ایک طول طویل سلسلہ ہے جو اپنے ابتدائی نقطوں سے شروع ہوتا اور یکے بعد دیگرے مکتلف منزلیں طے کرتا ہوا آخری نقطہ بلوغ تک پہنچا کرتا ہے! تم بدپرہیزی کرتے ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ فوراً ہی ہلاک ہو جاؤ، بلکہ بتدریج موت کی طرف بڑھنے لگتے ہو اور بالاخر ایک خاص مدت کے اندر جو ہر صورتحال کے لئے یکساں نہیں ہوتیں درجہ بدرجہ اترتے ہوئے موت کی آغوش میں جا گرتے ہو۔ نباتات کو دیکھو! درخت اگر آبیاری سے محروم ہو جاتے ہیں یا نقصان و فساد کا کوئی دوسرا سبب عارض ہو جاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی دفعہ مرجھا کر رہ جائیں یا کھڑے کھڑے اچانک گر جائیں، بلکہ بتدریج، شادابی کی جگہ پژمردگی کی حالت طاری ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک خاص مدت کے اندر جو مقرر کر دی گئی ہے، یا تو بالکل مرجھا کر رہ جاتے ہیں یا جڑ کھوکھلی ہو کر گر پڑتے ہیں۔

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۸۰
اصطلاح قرآنی میں "اجل"
یہی حال کائنات کے تمام تغیرات اور انفعالات کا ہے، کوئی تغیر ایسا نہیں جو اپنا تدریجی دور نہ رکھتا ہو۔ ہر چیز بتدریج بنتی ہے اور اسی طرح بتدریج بگڑتی ہے۔ بناؤ ہو یا بگاڑ، ممکن نہیں کہ ایک خاص مدت گزرے بغیر کوئی حالت بھی اپنی کامل صوفت میں ظاہر ہو سکے۔ یہ مدت جو ہر حالت کے ظہور کے لیے اس کی "اجل" یعنی مقررہ وقت ہے، مختلف گوشوں اور مختلف حالتوں میں مختلف مقدار رکھتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کی مقدار اتنی طویل ہوتی ہے کہ ہم اپنے نظام اوقات سے اس کا حساب بھی نہین لگا سکتے۔ قرآن نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ جس مدت کو تم اپنے حساب میں ایک دن سمجھتے ہو، اگر اسے ہزار برس یا پچاس ہزار برس تصور کر لو تو ایسے دنوں سے جو مہینے اور برس بنیں گے ان کی مقدار کتنی ہو گی :
اور بلاشبہ تمہارے پروردگار کے حساب میں ایک دن ایسا ہے جیسے تمہارے حساب میں ایک ہزار برس!
تکویر :
فطرت کا یہی تدریجی طرز عمل ہے جسے قرآن نے "تکویر" سے بھی تعبیر کیا ہے، یعنی لپٹنے سے۔ وہ کہتا ہے : بجائے اس کے کہ اچانک دن کی روشنی نکل آتی اور ناگہانی رات کی اندھیری ابل پڑتی، فطرت نے رات اور دن کے ظہور کو اسطرح تدریجی بنا دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے رات آہستہ آہستہ دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن درجہ بدرجہ رات پر لپٹتا آتا ہے :
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس نے رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے کا ایسا انتظام کر دیا ہے کہ رات دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹتا آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کو اسکی قدرت
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ 81
نے (ایک خاص انتظام کے ماتحت) مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کے لیے حرکت میں ہیں۔
قرآن اس تدریجی رفتار عمل کو، فائدہ اٹھانے کا موقع دینے، ڈھیل دینے، عفو و درگذر کرنے اور ایک خاص مدت تک فرصت حیات بخشنے سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ کائنات ہستی میں فضل و رحمت کی مشیت کام کر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے ہر غلطی کو درستگی کے لیے، ہر نقصان کو تلافی کے لیے ہر لغزس کو سنبھل جانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مہلت اصلاح ملتی رہے اور اس کا دروازہ کسی پر بند نہ ہو۔
تاخیر اجل :
وہ کہتا ہے : اگر تدریج و امہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تو دنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھا سکتا، ہر غلطی، ہر کمزوری ہر نقصان، ہر فساد اچانک، بیک دفعہ ہلاکت کا باعث ہو جاتا :
اور انسان جو کچھ اپنے اعمال سے کمائی کرتا ہے، اگر اللہ اس پر (فوراً) مؤاخذہ کرتا تو یقین کرو زمین کی سطح پر ایک جاندار بھی باقی نہ رہتا، لیکن (یہ اس کی رحمت ہے کہ) اس نے ایک مقررہ وقت تک فرصت حیات دے رکھی ہے، البتہ جب وہ مقرر وقت آ جائےے، تو پھر (یاد رہے کہ) اللہ اپنے بندوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے، اس کی آنکھیں ہر وقت اور ہر حال میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔
تدریج و امسہال اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے :
قدرتی طور پر یہ ڈھیل اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے، اچھائی کے لیے اس لیے، تاکہ زیادہ نشو و نما پائے، برائی کے لیے اس لیے، تاکہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ 82
تلافی کا سامان کر لے :
اور لوگوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی (یعنی اچھوں کو بھی بروں کو بھی) سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش میں سے حصہ مل رہا ہے اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں!
اگر قوانین فطرت کی ان مہلت بخشیوں سے فائدہ اٹھا کر نقصان و فساد کی اصلاح کر لی جائے، مثلاً تم نے بدپرہیزی کی تھی، اسے ترک کر دو پھر اسی فطرت کا یہ بھی قانون ہے کہ اصلاح و تلافی کی ہر کوشش قبول کر لیتی ہے اور نقصان و فساد کے جو نتائج نشو و نما پانے لگے تھے، ان کا مزید نشو و نما فوراً رک جات ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ اگر اصلاح بروقت اور ٹھیک ٹھیک کی گئی ہے تو پچھلے مضر اثرات بھی محو ہو جائیں گے اور اس طرح محو ہو جائیں گے، گویا کوئی خرابی پیش ہی نہیں آئی تھی، لیکن فطرت کی تمام مہلت بخشیاں رائیگاں گئیں، اس کا بار بار اور درجہ بدرجہ انداز بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکا تو پھر بلاشبہ وہ آخری حد نمودار ہو جاتی ہے جہاں پہنچ کر فطرت کا آخری فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اور پھر جب اس کا فیصلہ صادر ہو جائے تو نہ تو اس میں چشم زدن کی تاخیر ہو سکتی ہے نہ کسی حال میں بھی تزلزل اور تبدیلی!!
پھر جب ان کا مقررہ وقت آ گیا تو اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (یعنی نہ تو اس کے نفاذ میں تاخیر ہو سکتی ہے نہ تقدیم، ٹھیک ٹھیک اپنے وقت میں اسے ہو جانا ہے)۔

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ 83
تسکین حیات
زندگی کی محنتیں اور کاوشیں :
یا مثلاً ہم دیکھتے ہیں انسان کی معیشت، قیام و بقاء کی جد و جہد اور کشاکش کا نام ہے، اس لیے قدرتی طور پر اس کا ہر گوشہ طرح طرح کی محنتوں اور کاوشوں سے گھرا ہوا ہے اور بہ حیثیت مجموعی، زندگی کی اضطراری ذمہ داریوں کا بوجھ اور مسلسل مشقتوں کی آزمایش ہے:
بلا شبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا ہے کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے!
مشغولیت اور انہماک :
لیکن بایں ہمہ فطرت نے کارخانہ معیشت کا ڈھنگ کچھ اس طرح کا بنا دیا ہے اور طبیعتوں میں کچھ اس طرح کی خواہشیں، ولولے اور انفعالات ودیعت کر دیے ہیں کہ زندگی کے ہر گوشے میں ایک عجیب طرح کی دل بستگی، مشغولیت، ہماہمی اور سرگرمی پیدا ہو گئی ہے اور یہی زندگی کا انہماک ہے جس کی وجہ سے ہر ذی حیات نہ صرف زندگی کی مشقتیں برداشت کر رہا ہے، بلکہ انہیں مشقتوں میں زندگی کی بڑی سے بڑی لذت و راحت محسوس کرتا ہے، یہ مسقتیں جس قدر زیادہ ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ زندگی کی دلچسپی اور محبوبیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کی زندگی ان مشقتوں سے خالی ہو جائے تو وہ محسوس کرے گا کہ زندگی کی ساری لذتوں سے محروم ہو گیا اور اب زندہ رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہے!
حالات متفاوت ہیں لیکن زندگی کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے ہے :
پھر دیکھو! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ حالات متفاوت ہیں، طبائع متنوع ہیں، اشغال مختلف ہیں، اغراض متضاد ہیں، لیکن معیشت کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے یکساں ہے اور سب ایک ہی طرح اس کی مشغولیتوں کے لیے جوش و طلب رکھتے
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ 84
ہیں۔ مرد و عورت، طفل و جواں، امیر و فقیر، عالم و جاہل، قوی و ضعیف، تندرست و بیمار، مجرد و متاہل، حاملہ و مرضعہ سب اپنی اپنی حالتوں میں منہمک ہیں اور کوئی نہیں جس کے لیے زندگی کی کاوشوں میں محویت نہ ہو۔ امیر اپنے محل کے عیش و نشاط میں اور فقیر اپنی بے سر و سامانیوں کی فاقہ مستی میں زندگی بسر کرتا ہے، لیکن دونوں کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں دل بستگی ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون زیادہ مشغول ہے۔ ایک تاجر جس انہماک کے ساتھ اپنی لاکھوں روپیہ کی آمدنی کا حساب کرتا ہے، اسی طرح ایک مزدور بھی دن بھر کی محنت کے چند پیسے گن لیا کرتا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طور پر زندگی محبوب ہوتی ہے۔ ایک حکیم کو دیکھو جو اپنے علم و دانش کی کاوشوں میں غرق ہے اور ایک دہقان کو دیکھو جو دوپہر کی دھوپ میں برہنہ سر ھل جوت رہا ہے۔ اور پھر بتاؤ! کس کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں زیادہ دل بستگی ہے؟
پھر دیکھو! بچے کی پیدائش ماں کے لیے کیسی جان کاہی و مصیبت ہوتی ہے! اس کی پرورش و نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا ایک طول طویل سلسلہ ہے! تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہشوں اور جذبوں کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرورش اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کا سب سے بڑا دکھ سہے گی اور پھر اسی دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی! وہ جب اپنی معیشت کی ساری راحتیں قربان کر دیتی ہے اور اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ زندگی کے سب سے بڑے احساس مسرت سے معمور ہو جاتا ہے!
پھر کاروبار فطرت کے یہ تصرفات دیکھو کہ کس طرح نوع انسانی کے منتشر افراد اجتماعی زندگی کے بندھنوں سے باہم دگر مربوط کر دیے گئے ہیں اور کسطرح صلہ رحمی کے رشتہ نے ہر فرد کو سینکڑوں ہزاروں افراد کے ساتھ جوڑ رکھا ہے!
فرض کرو! زندگی و معیشت ان تمام مؤثرات سے خالی ہوتی! لیکن قرآن کہتا ہے کہ خالی نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے کہ فطرت کائنات میں رحمت کارفرما ہے اور رحمت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ معیشت کی مشقتوں کو خوش گوار بنا دے اور زندگی کے لیے تسکین و راحت کا سامان پیدا

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۸۵
کر دے۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت، الم میں لذت اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کر دی ہے!
اشیاء و مناظر کا اختلاف و تنوع اور تسکین حیات :
چنانچہ قرآن نے تسکین حیات کے مختلف پہلوؤں پر جابجا توجہ دلائی ہے۔ ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر و اشیاء کا اختلاف و تنوع ہے۔ انسانی طبیعت کا خلاصہ ہے کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی و تنوع میں خوش گواری و کیفیت سرور محسوس کرتی ہے۔ پس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی و یک رنگی ہی ہوتی ہے تو یہ دل چسپی اور خوش گواری پیدا نہ ہو سکتی جو اس کے ہر گوشے میں ہمیں نظر آ رہی ہے۔ اوقات کا اختلاف، موسموں کا اختلاف، خشکی و تری کا اختلاف، مناظر طبیعت اور اشیاء خلقت کا اختلاف جہاں بے شمار مصلحتیں اور فوائد رکھتا ہے، وہاں ایک بڑی مصلحت دنیا کی زیب و زینت اور معیشت کی تسکین و راحت بھی ہے :
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق! اس جہاں میں ہے زیب، اختلاف سے
اختلاف لیل و نہار :
چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے : اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الہٰی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمد و شد کی دو مختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے، زندگی کے لیے بڑی ہی تسکین و دلبستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور وقت ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہتا تو دنیا میں زندہ رہنا دشوار ہو جاتا۔ اگر تم قطبین کے اطراف میں جاؤ جہاں شب و روز کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ اختلاف گذران حیات کے لیے کیسی عظیم الشان نعمت ہے :


 
Top