ام الکتاب دیباچہ

نبیل

تکنیکی معاون
1916 میں جب البلاغ کے صفحات پر ترجمان القران اور تفسیرالبیان کا اعلان کیا گیا تو میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک ایسے کام کا اعلان کر رہا ہوں جو پندرہ برس تک التوا و انتظار کی حالت میں معلق رہے گا اور جو ملک کے شوق و انتظار کے لیے ایک ناقابل برداشت بوجھ اور میرے ارادوں کی ناتمامیوں کے لیے ایک دردر انگیز مثال ثابت ہوگا۔
لیکن واقعات کی رفتار نے بہت جلد بتلا دیا کہ صورتحال ایسی ہی تھی!

جلا وطنی

ابھی اس اعلان پر بمشکل چند مہینے گزرے ہوں گے کہ 3 مارچ 1916 کو حکومت بنگال نے ۔۔آرڈنینس کے ماتحت مجھے حد بنگال سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا اور دفعتًہ البلاغ اور البلاغ پریس کے ساتھ تصنیف و طباعت کا تمام کارخانہ درہم برہم ہو گیا۔

چونکہ اس سے پہلے اسی آرڈنینس کے ماتحت دہلی، پنجاب، یو پی اور مدراس کی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں میرا داخلہ روک چکی تھیں، اس لیے اب صرف بہار اور دہلی کے دو صوبے رہ گئے تھےجہاں میں جا سکتا تھا۔ میں نے رانچی منتخب کیا۔ میرا خیال تھا کلکتہ سے قریب رہ کر شاید تصنیف و طباعت کا کام جاری رکھ سکوں۔
1915 میں میں نے جب اس کام کا ارادہ کیا، تو بیک وقت تین چیزیں پیش نظر تھیں، ترجمہ، تفسیر اور مقدمہ تفسیر۔ میں نے خیال کیا تھا کہ یہ تین کتابیں قران کی فہم و مطالعہ کی تین مختلف ضرورتیں پوری کر دیں گی۔ عام تعلیم کے لیے ترجمہ، مطالعہ کے لیے تفسیر، اہل علم و نظر کے لیے مقدمہ۔

البلاغ میں جب ترجمہ اور تفسیر کی اشاعت کا اعلان کیا گیا ہے تو ترجمہ پانچ پاروں تک پہنچ چکا تھا، تفسیر سورہ آل عمران تک مکمل ہو چکی تھی، اور مقدمہ یادداشتوں کی شکل میں قلمبند تھا، اس خیال سے کہ تھوڑے وقت کے اندر زیادہ سے زیادہ کام انجام پا جائے۔ میں نے تصنیف کے ساتھ چھپائی کا سلسلہ بھی جاری کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ اس طرح سال بھر کے اندر ترجمہ مکمل ہوجائے گا اور چھپ بھی جائے گا، نیز تفسیر کی بھی کم از کم پہلی جلد شائع ہو جائے گی۔ ہر سات دن کی مشغولیت میں نے یوں تقسیم کر دی تھی کہ تین دن البلاغ کی ترتیب میں صرف کرتا تھا، دو دن ترجمے میں اور دو دن تفسیر میں۔

3 مارچ 1916 کو جب میں کلکتہ سے روانہ ہوا تو تفسیر کے چھ فارم چھپ چکے تھے اور ترجمہ کی کتابت شروع ہو رہی تھی۔۔ اب میں نے کوشش کی کہ میری عدم موجودگی میں پریس جاری رہے اور کم از کم تفسیر اور ترجمہ کا کام ہوتا رہے۔ چنانچہ جون 1916 میں پریس کے دوبارہ اجراء کا انتظام ہو گیا۔ اور میں مسودات کی ترتیب میں مشغول ہوگیا تاکہ پریس کے حوالے کر دوں۔

نظر بندی

لیکن جولائی 1916 کو یکایک حکومت ہند نے میری نظر بندی کے احکام جاری کر دیے اور طعح اس امید کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ نظر بندی کے بعد کوئی موقع باقی نہیں رہا کہ باہر کی دنیا سے کسی طرح کا علاقہ رکھ سکوں۔

اب میرے اختیار میں صرف ایک ہی کام رہ گیا تھا ، یعنی تصنیف و تسوید کا مشغلہ۔ نظر بندی کی انیس دفعات میں سے کوئی دفعہ بھی مجھے اس سے نہیں روکتی تھی۔ میں نے اس پر قناعت کی۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ میں نے خیال کیا کہ زندگی کی تمام آزادیوں سے محروم ہونے پر بھی لکھنے پڑھنے کی آزادی سے محروم نہیں ہوں اور اس کے نتائج محفوظ ہوں تو زندگی کی راحتوں سے میں کوئی راحت بھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی۔ میں اس عالم میں پوری زندگی بسر کر دے سکتا ہوں۔ لیکن ابھی اس صورت حال پر تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ معلوم ہو گیا، اس گوشہ میں بھی مجھے محرومی ہی سے دو چار ہونا تھا۔

تلاشی۔۔ مسودات کی ۔۔

نظر بندی کے احکام جس وقت نافذ کیے گئے ہیں تو میرے قیام گاہ کی تلاشی بھی لی گئی تھی اور جس قدر کاغذات ملے تھے افسران تفتیش نے اپنے قبضہ میں کر لیے تھے۔ انہی میں ترجمہ اور تفسیر کا مسودہ بھی تھا۔ لیکن جب معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں کوئی چیز قابل اعتراض اور حکومت کے لیے ۔۔۔۔ مقصد نہیں ہے، تو دو ہفتے کے بعد واپس دے دیے گئے۔

لیکن جب تفتیش کے نتیجے سے حکومت ہند کو اطلاع دی گئی تو اس نے مقامی حکومت کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ وہاںخیال کیا گیا کہ مقامی حکومت نے کاغذات واپس دے دینے میں جلدی کی، اور بہت ممکن ہے کہ پوری پوشیاری کے ساتھ معائنہ نہ کیا گیا ہو۔ اس زمانے میں حکومت ہند کے محکمہ تفتیش کا افسر اعلی سر چارلس کلیو لینڈ تھا، اور مختلف اسباب سے جن کی تشریح کا یہ موقع نہیں، اسے میری مخالفت میں ایک خاص کد ہو گئی تھی۔ وہ پہلے کلکتہ آیا اور کئی ہفتے تک تفتیش میں مشغول رہا، اور پھر رانچی آیا اور ازسرنو میرے مکان کی تلاشی لی گئی۔ تلاشی کے بعد کہا گیا کہ جو کاغذات پچھلی تلاشی کے موقعے پر لیے گئے تھے، اب حکومت ہند کے معائنے کےلیے بھیجے جائیں گے۔ چنانچہ تمام کاغذات حتی کہ چھپی ہوئی کتابیں بھی لے لی گئیں۔ ان میں نہ صرف ترجمہ و تفسیر کا مسودہ تھا، بلکہ دوسری تصنیفات کے بھی مکمل و نامکمل مسودات تھے۔

جس وقت یہ معاملہ پیش آیا، ترجمہ کا مسودہ آٹھ پاروں تک اور تفسیر کا مسودہ سورۃ نساء تک پہنچ چکا تھا، لیکن اب ان کا ایک ورق بھی میرے قبضے میں نہ تھا۔ تاہم میں نے نویں پارے سے ترجمے کی ترتیب جاری رکھی اور 1916 کے اواخر میں کام ختم کر دیا۔ اب اگر ابتدا کے آٹھ پاروں کا ترجمہ واپس مل جائے تو پورے قران کا ترجمہ مکمل تھا۔

میں نے کاغذات کی واپسی کے لیے خط و کتابت کی، لیکن جواب ملا کہ نہ تو سردست واپس دیے جا سکتے ہیں، نہ ہی بتلایا جا سکتا ہے کہ کب تک واپس کیے جائیں گے۔ چونکہ کاغذات کی واپسی کی بظاہر کوئی قریبی امید نظر نہیں آتی تھی۔ اور کچھ معلوم نہ تھا کہ آگے چل کر کیا صورت حال پیش آئے، اس لیے یہی مناسب معلوم ہوا کہ ازسرنو ان پاروں کا ترجمہ کرکے کتاب مکمل کرلی جائے۔ یہ کام آسان نہ تھا۔ ایک لکھی ہوئی چیز کو دوبارہ لکھنا طبیعیت پر بہت شاق گزرتا ہے، تاہم میں نے چند ماہ کی محنت کے بعد یہ حصہ بھی از سر نو مکمل کر لیا:

گفتہ گر شد زکفم شکر کہ ناگفتہ بجا ست
از دو صد گنج، یکے مشت گہر باختہ ام

اس خیال سے کہ مسودہ بہتر حالت میں مرتب ہو جائے اور اگر کسی دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے تو تصحیح میں آسانی ہو۔ میں نے اردو ٹائپ رائٹر منگوا کر اسے ٹائپ کرانا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ دسمبر 1919 میں نصف سے زیادہ حصہ ٹائپ ہو چکا تھا۔

رہائی اور تحریک لاتعاون

27 دسمبر 1919 کو حکومت نے مجھے رہا کر دیا، اور اب طباعت و اشاعت کی تمام رکاوٹیں راہ سے دور ہو گئیں۔ لیکن یہ وقت وہ تھا کہ ملک میں ایک عام سیاسی حرکت کا مواد تیار ہو رہا تھا، اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، الہلال کی سیاسی دعوت کی صدائے بازگشت ہو گوشے سے بلند ہونے لگی تھی۔ میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وقت کے تقاضے سے تغافل کرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رہا ہوتے ہی تحریک لاتعاون کی سرگرمیوں میں مشغول ہو گیا، اور عرصہ تک اس کی مہلت ہی نہیں ملی کہ کسی دوسری طرف نگاہ اٹھا سکتا۔

لیکن 1921 میں جب ملک کے ہر گوشے سے ترجمان القران کے لیے تقاضہ شروع ہوا، تو مجھے اس کی اشاعت۔۔۔


یہ کاغذات رہائی کے بعد 1920 میں واپس ملے۔ رہائی کہ بعد جب میں نے مطالبہ کیا تو کئی ماہ تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس زمانے میں صوبہ بہار کے گورنر لارڈ سنہا تھے۔ مجھ میں اور ان میں اس وقت سے شناسائی تھی جب 1909 میں وہ حکومت ہند کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہوئے تھے۔ وہ علاج کے لیے کلکتہ آئے اور ایک دوست کے یہاں اتفاقا ملاقات ہو گئی۔ میں نے یہ واقعہ ان سے بیان کیا۔ انہوں نے حکومت ہند سے خط و کتابت کی، اور دو ہفتے بعد تمام کاغذات مجھے واپس مل گئے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ صورتحال فی الحقیقت مسلمانوں کے عام دماغی تنزل کا قدرتی نتیجہ تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ قران کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے، تو کوشش کی قران کو اس کی بلندیوں سے اس قدر نیچے اتار لیں کہ ان کی پستیوں کا ساتھ دے سکے!

اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ قران کو اس کی حقیقی شکل و نوعیت میں دیکھیں تو ضروری ہے کہ پہل ےوہ تمام پردے ہٹائیں جو مختلف عہدوں اور مختلف گوشوں کے خارجی مؤثرات نے اس کے چہرے پر ڈال دیے ہیں۔ پھر آگے بڑھیں اور وران کی حقیقت خود قران ہی کے صفحوں میں تلاش کریں۔

بعض اسباب و مؤثرات جو فہم حقیقت میں مانع ہیں

یہ مخالف اثرات جو یکے بعد دیگرے جمع ہوتے جا رہے ہیں، دو چار نہیں بے شمار ہیں، اور ہر گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ممکن نہیں کہ اختصار کے ساتھ بیان میں آسکیں۔ لیکن میں مقدمہ تفسیر میں کوشش کی ہے کہ انہیں چند اصول و انواع کے ماتحت سمیٹ لوں۔ اس سلسلے میں حسب ذیل دفعات قابل غور ہیں:

(1) قران حکیم اپنی وضع، اپنے اسلوب، اپنے انداز بیان، اپنے طریق خطاب، اپنے طریق استدلال، غرضیکہ اپنی ہر بات میں ہمارے وضعی اور صناعی طریقوں کا پابند نہیں ہے، اور نہ اسے پابند ہونا چاہیے۔ وہ اپنی ہر بات میں اپنا بے میل طری طریقہ رکھتا ہے، اور یہی وہ بنیادی امتیاز ہے ، جو انبیاء کرام (علیہم السلام) کے طریق ہدایت کو علم و حکمت کے وضعی طریقوں سے ممتاز کر دیتا ہے۔

قران جب نازل ہوا، تو اس کے مخاطبوں کا پہلا گروہ ایسا ہی تھا۔ تمدن کے وضعی اور صناعی سانچوں میں ابھی اس کا دماغ نہیں ڈھلا تھا۔ فطرت کی سیدھی سادی فکری حالت پر قانع تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قران اپنی شکل و معنی میں جیسا کہ واقع ہوا تھا، ٹھیک ٹھیک ویسا ہی اس کے دلوں میں اتر گیا، اور اسے قران کے فہم و معرفت میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ صحابہ کرام پہلی مرتبہ قران کی کوئی آیت یا سورت سنتےتھے، اور سنتے ہی اس کی حقیقت پا لیتے تھے۔

لیکن صدر اول کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ روم و ایران کے تمدن کی ہوائیں چلنے لگیں، اور پھر یونانی علوم کے تراجم نے علوم و فنون وضعیہ کا دور شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جوں جوں وضعیت کا ذوق بڑھتا گیا، قران کے فطری اسلوبوں طبیعیتیں نا آشنا ہوتی گئیں۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ گیا کہ قران کی ہر بات وضعی اور صناعی طریقوں کے سانچوں میں ڈھالی جانے لگی۔ چونکہ ان سانچوں میں وہ ڈھل نہیں سکتی تھی، اس لیے طرح طرح کے الجھاؤ پیدا ہونے لگے اور پھر جس قدر کوششیں سلجھانے کی کی گئیں، الجھاؤ اور زیادہ بڑھتے گئے۔

فطریت سے جب بعد ہو جاتا ہ، اور وضعیت کا استغراق طاری ہو جاتا ہے، تو طبیعیتیں اس پر راضی نہیں ہوتیں کہ کسی بات کو اس کی قدرتی سادگی میں دیکھیں۔ وہ سادگی کے ساتھ حسن و عظمت کا تصور کر ہی نہیں سکتیں۔ وہ جب کسی بات کو بلند اور شاندار دکھانا چاہتی ہیں، تو کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وضعیت او صناعیت کے پیچ و خم پیدا کر دیں۔ یہی معاملہ قران کے ساتھ پیش آیا۔ سلف کی طبیعیتیں وضعی طریقوں میں نہیں ڈھلی تھیں۔ اس لیے وہ قران کی سیدھی سادی حقیقت نبے ساختہ پہچان لیتے تھے، لیکن خلف کی طبیعیتوں پر یہ بات شاق گزرنے لگی کہ قران اپنی سیدھی سادی شکل میں نمایاں ہو۔ ان کی وضعیت پسندی اس پر قانع نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے قران کی ہر بات کے لیے وضعیت کے جامے تیار کرنے شروع کر دیے، اور چونکہ جامہ اس پر راست نہیں آ سکتا تھا، اس لیے بہ تکلف پہنانا چاہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حقیقت کی موزونیت باقی نہ رہی۔ ہر بات ناموزوں اور الجی ہوئی بن کر رہ گئی!

تفسیر قران کا پہلا دور وہ ہے جب علوم اسلامیہ کی تدوین و کتابت شروع نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا دور تدوین و کتابت سے شروع ہوتا ہے، اور اپنے مختلف عہدوں اور طبقوں میں اترتا آتا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ابھی دوسرا دور شروع ہی ہوا تھا کہ یہ جامہ قران کے لیے بننا شروع ہو گیا۔ لیکن اس کا منتہا بلوغ، فلسفہ و علوم کی ترویج و اشاعت کا آخری زمانہ ہے۔ یہی زمانہ ہے جب امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر لکھی، اور پوری کوشش کی کہ قران کا سراپا اس مصنوعی لباس وضعیت سے آراستہ ہو جائے۔ اگر امام رازی کی نظر اس حقیقت پر ہوتی تو ان کی پوری تفسیر نہیں تو دو تہائی حصہ یقیناً بیکار ہو جاتا۔

بہرحال یاد رہے، وضعیت کے سانچے جتنے ٹوٹتے جائیں گے، قران کی حقیقت ابھرتی آئے گی۔
قران کے اسلوب بیان کی نسبت لوگوں کو جس قدر مشکلیں پیش آئیں، محض اس لیے کہ وضعیت کا استغراق ہوا اور فطریت کی معرفت باقی نہ رہی۔

قران کے مختلف حصوں او رآیتوں کے مناسبات و روابط کے سارے الجھاؤ صرف اس لیے ہیں کہ فطریت سے بعد ہو گیا اور وضعیت ہمارے اندر بسی ہوئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں، قران کو بھی ایک ایسی مرتب کتاب کی شکل میں دیکھیں جیسی کتابیں ہم مرتب کرتے ہیں۔

قران کی زبان کی نسبت بحثوں کا جس قدر انبار لگا دیا گیا ہے، وہ بھی محض اس لیے ہے کہ فطریت کے سمجھنے کی ہم میں استعداد باقی نہیں رہی۔

قران کی بلاغت کا مسئلہ ہمارے وجدان کے لیے اس قدر سہل، مگر ہمارے دماغ کے لیے اس قدر دشوار کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اسی لیے کہ وضعیت کا خود ساختہ ترازو ہمارے ہاتھ میںہے۔ ہم چاہتے ہیں، اسی سے قران کی بلاغت بھی وزن کریں۔

قران کا طریق استدلال کیوں نمایاں نہیں ہوتا؟ اس کے تمام دلائل و براہین جنہیں وہ حجۃ بالغہ سے تعبیر کرتا ہے، کیوں مستور ہو گئے ہیں؟
 
Top