امن کی آشا ؟؟؟

یوسف-2

محفلین
عرض کیا میرامسئلہ یہ ہے کہ میں ساری عمر ترقی پسندوں سے لڑتا رہا کہ منشور طے کر کے ادب نہیں لکھا جا سکتا۔اب مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ این جی اوز کے ایجنڈے کے مطابق اپنے فکری اور قومی مسئلوں کو طے کرو۔ یہ نہیں ہونے کا۔ حضور کون یہ کہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی نہیں ہونا چاہیے۔مگر یہ دوستی کسی این جی او کے ایجنڈے کے مطابق نہیں ہو گی۔ مجھے نہیں معلوم یہ امن کی آشا کیا ہوتی ہے ۔ سچ پوچھئے تو مری بعض مستند ابتدائی اور بنیادی لغات میں تو یہ لفظ ہی نہیں ہے۔ مثلاً آج ہی فرہنگ آصفیہ دیکھ رہا تھا، اس کا صاحب علم مصنف اس لفظ سے بے خبر ہے۔ اس طرح امن نہیں ہو گا۔ ہم نے پوربی پاکستان پچھمی پاکستان کہہ کر دیکھ لیا۔ کیا اس سے دونوں ملک ایک رہ پائے۔ ایسی لیپا پوتی سے کچھ نہیں ہونا۔
اس دن حالات ایسے تھے کہ مجھے آخر میں تقریر کرنا پڑی۔ اس سے پہلے اوریامقبول جان اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔ مجیب شامی کو جلدی تھی، وہ تقریر کر کے جا چکے تھے۔ گفتگو امن کی آشا اور ہمارا میڈیا کے موضوع پر تھی۔ یہ الحمراءعالمی ادبی وثقافتی کانفرنس کا آخری دن اورآخری سیشن تھا۔ عطاءالحق قاسمی نے جب سے اس کانفرنس کی داغ بیل ڈالی ہے ، ماننا پڑے گا اسے ایک پروقار تقریب بنا دیا ہے۔ تین دن تک پورے برصغیر بلکہ دنیا بھر سے اردو کے ادیب اکٹھا ہو کر خوب خوب باتیں کرتے ہیں۔ اس بار بھی خوب محفلیں جمیں۔ افتتاح تو خیر وزیراعظم نواز شریف نے کیا۔ میں اس میں حاضر نہ ہو پایا، اسلام آباد میں وزیراعظم ہی کی تقریر وژن2025 سننے گیا ہوا تھا۔ باقی محفلوں کی شان دیکھ کر اندازہ ہوا اور کہنا پڑتا ہے کہ یہ کم ہوتا ہے کہ سرکار کے وسائل سے ایسے آزادانہ ماحول میں ادب و ثقافت کی اونچ نیچ سمجھی جائے۔ عطاءنے ایک رسم ڈال رکھی ہے کہ آخری سیشن میں میڈیا کے نامور لوگوں کو اکٹھا کر کے کسی ایسے ہی موضوع پر گفتگو کرا کر ٹی وی چینلوں کے پروگراموں کا سا نقشہ جما دیا جاتا ہے۔ خوب رونق لگتی ہے۔ ایسے میں امن کی آشا اور ہمارا میڈیا کا عنوان ہی ایسا تھا کہ شعلے لپکنا لازمی تھے۔
میں بتا رہا تھا کہ این جی اوز کے ایجنڈے کے مطابق امن کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ عالمی کارپوریٹ سیکٹر کا پھندا ہے، جو ہمارے گلے میں ڈالا جارہا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم کے تحت سول سوسائٹی کا مطلب یہی این جی اوز ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے لفظوں میں Grand Derivativf کو چھوڑ کر لوگوں کو چھوٹی چھوٹی اچھائیوں پر لگا دو۔ یعنی اب کوئی انقلاب کی بات نہ کرے، سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف نہ بولے نہ کام کرے۔ اس کے بجائے کاروکاری، چائلڈ لیبر وغیرہ جیسے کاموں پر لگ جائے۔ کراچی میں ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں سیمینار تھا، کاروکاری پر۔ کسی خاتون نے شکایت کی کہ لاڑکانہ میں ایک واقعہ ہوا ہے، ہم مقدمہ درج کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔پوچھنے پر بتایا کہ قانون تو موجود ہے مگر با اثر افراد مقدمہ درج ہی نہیں ہونے دیتے۔ پوچھا یہ با اثر افراد کون ہیں؟ علاقے کا کوئی وڈیرہ ، کوئی جاگیردار۔ جب تک یہ نظام ختم نہیں ہوتا، تم کاروکاری جیسی لعنت کو ختم نہیں کر سکتے۔ اور اب ہم نے جاگیردارانہ نظام یا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بات کرنا ہی چھوڑ دی۔ ہمارے ایک وزیراعظم نے اسمبلی میں کہا کہ اب زرعی اصلاحات کی ضرورت نہیں۔سارا لیفٹ این جی او کو پیارا ہو گیا ۔ خوب پیسہ آ رہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کامیاب جا رہا ہے۔ کوئی کیپٹل ازم کے خلاف بھی اب بات نہیں کرتا۔
اس طرح میں عرض کر رہا ہوں کہ پاک و ہند کے درمیان دوستی ہو ہی نہیں سکتی جب آپ Grand Derivativf بڑے مقصد کو چھوڑ دو گے۔ میں کور ایشو نہیں کہتا، چلئے کشمیر کا نام بھی نہیں لیتا۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بنیادی مسئلہ حل کئے بغیر سب کچھ اکارت ہے۔ جتنے چاہے CBM ، اتحاد پیدا کرنے والے اقدام کو لو۔ وفود کے تبادلے کر لو، فنکاروں کی آمدورفت کو فروغ دو، اور بھی ایسے نخرے رچا لو جب تک بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا، یہ سب بے معنی ہے۔ ایک ہی ریلے میں سب کچھ بہہ جائے گا۔
ہم نے جامع مذاکرات کی بنیاد رکھی، ممبئی واقعات کے بعد سب کچھ اڑ گیا۔ نواز شریف کے آنے پر کیا شور تھا ، دوستی ہونے والی ہے۔ بس دونوں وزیراعظم ملنے ہی والے ہیں۔ کیا ہوا؟ جی ،لائن آف کنٹرول پر 5 بندے مار دیئے ہیں۔ سب کچھ ختم۔
بس روک لی گئی، پاکستانی سفارت خانہ کے سامنے مظاہرہ برپا ہوا، ہمارے فنکاروں کو واپس بھیج دیا گیا۔ کھلاڑی لوٹنے لگے ۔ کسی نے کہا یہ تو اتحاد پیدا کرنے کا وسیلہ ہیں۔ جامع مذاکرات کہاں، دونوں ملک کٹی کر کے بیٹھے ہیں۔ وزرائے اعظم نے منہ بھسوڑے ملاقات کی۔ اب کہتے ہیں، بھارت میں الیکشن ہو جائیں تو بات ہو گی۔ یہ سب ا س فکر کا شاخسانہ ہے کہ ہم لائن سے ہٹتے جارہے ہیں۔ سرحد پر دیئے جلانے سے کیا دلوں میں بھی دئیے جلنے لگیں گے۔ یہ سب مصنوعی کہانی ہے۔
دیکھیں یہ محمود شام بیٹھے ہیں۔ ان کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ جب ہم مشرف کے ساتھ آگرہ سمٹ کے لئے گئے، تو دلّی میں ہمیں ایک جگہ لے جایا گیا۔ آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر تھا شاید، وہاں ” پنج جنّے“ کے نام سے ایک جریدہ نکلتا تھا۔ بتایا گیا واجپائی اس کے پہلے ایڈیٹر تھے۔ اب 13ویں ایڈیٹر موجود تھے۔ ان کا اس اخبار سے تعاون کامعاہدہ تھا جس میں شام جی ان دنوں کام کرتے تھے۔ گویا وہ تو وہاں ہمارے میزبان تھے۔ انہوں نے تو تقریر کرنا تھی۔ اس کے فوراً بعد مجھ سے کہا گیا۔ ہم ہند میں آپ کو بہت سنتے ہیں، بہت پڑھتے ہیں، بہت اہمیت دیتے ہیں۔ آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے تو میں چکرا گیا۔ کیا کیا چوٹی کا صحافی وہاں موجود تھا۔ ہمارے شامی صاحب، ارشاد حقانی ، حمید ہارون، عبدالقادر حسن ،کون نہیں تھا۔ پاکستان کے کوئی ستر اہم ترین افراد موجود تھے۔ ایسے میں مجھے کیوں ؟ ایک لمحے میں سمجھ گیا۔ نوائے وقت کراچی کا ایڈیٹر جو ہوں۔ پھر پی ٹی وی پر بھارت کے بارے میں بولتا رہتا ہوں۔ اس وقت ایک ہی چینل تھا۔ بہت سی باتیں کی تھیں۔ مگر ایک اہم ہے، آج کی مناسبت سے۔ میں نے کہا ، ایجنٹوں کی ایجنٹوں سے دوستی نہیں ہو سکتی۔دوستی جب ہو گی جب ایک سچا پاکستانی اور سچا ہندوستانی دل سے دوستی چاہیں گے۔
اور بھی باتیں کی تھیں۔ ان دنوں عصمت چغتائی کے ایک فقرے کا بہت تذکرہ تھا جو انہوں نے پاکستان آ کر کہا تھا کہ یہ جو سرحد کی لکیر ہے یہ سندور کی لکیر ہے۔ فوراً لکھا تھا، وہاں بھی عرض کیا، عصمت آپا، یہ سندور کی لکیر نہیں، ہم نے اسے اپنے خون سے سینچا ہے۔
آج بھی میں کہتا ہوں، دوستی کرنا ہے تو مجھ سے بات کرو۔ نواز شریف سے بھی عرض کیا تھا کہ بات کہنے کے لئے جگہ اور وقت کا تعین اہم ہے۔ سفما کے پلیٹ فارم پر یوم آزادی کے موقع پر بھارت سے دوستی کا اعلان ایک غلط پیغام دیتا ہے ۔ اس طرح دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمیں سفما کا ایجنڈا منظور نہیں ہے۔ وہ اب بھی کہتے ہیں کہ خوشحالی چاہیے تو بھارت سے دوستی کرنا پڑے گی۔ حضور ، یہ تو بات ہی غلط ہو گئی۔ ایسے زیور کا کیا کرے کوئی جس سے پھوٹے کان۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت میں یہ خیال عام ہو گیا کہ دوستی کا مطلب پاکستان کو فائدہ پہنچانا ہے۔ وہ کہتے ہیں، کیوں کریں دوستی؟ امن کی جتنی ضرورت ہمیں ہے اتنی بھارت کو بھی ہے۔ آپ نے تو کیس ہی خراب کردیا۔ امن اور دوستی کو کس چیز سے منسلک کردیا۔ ہمیں خوشحالی چاہیے، یقیناً چاہیے ، مگر اس کے لئے بھارت سے دوستی کی شرط لگانا خوشحالی اور دوستی دونوں کو مشکوک بنانا ہے۔
میاں صاحب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عوام نے انہیں دوستی کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ نہیں، صاحب، نہیں، آپ کے جلسوں میں نعرے تو اس وقت لگتے تھے جب آپ کہتے تھے۔ ہم نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا۔ عوام سے آپ نے کبھی نہیں پوچھا تھامیں بھارت سے دوستی کرنے جارہا ہوں۔
پھر بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوستی بری چیز ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ مگر پہلے ایجنڈا درست کرو، تناظر کو ٹھیک کرو اور یہ جان لو کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی اور یہ کہ این جی اوز کے عالمی ایجنڈے پر چل کر دل ایک نہیں ہو سکتے۔
اور بہت باتیں کیں کہ میں خود اس شہر میں پیدا ہوا ہوں جو اب بھارت میں ہے۔ میری ماں بتاتی ہے کہ اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو سینے سے لگا کر گولیوں کی بوچھاڑ میں سرحد پار کی تھی۔ ان کا ادھر کوئی نہیں رہا تھا، ہمارا ادھر کوئی نہ بچا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرو۔ یہ بتانا کہ پہلے تعلقات بہت اچھے تھے، ویزا تک نہ تھا، پورا سچ نہیں۔ بھارت نے 49 ءمیں ہمارا پانی کیوں بند کیا تھا۔ اس لئے کہ ہم نے اس کے ساتھ اپنے روپے کی قیمت کم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اور بھی بہت باتیں کی تھیں۔ اور یوں سمجھئے گولیوں کی بوچھاڑ میں کی تھیں۔ یہ بوچھاڑ یوں تو اوریا مقبول جان کی تقریر سے پہلے شروع ہو گئی تھی۔ فائدہ یوں سمجھئے یہ ہوا کہ یک طرفہ بات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی ہو گئی۔ محبت کے نغمے گانا اچھا لگتا ہے ، مگر بے سرے نغمے، نغمے نہیں ہوا کرتے ہیں (سجاد میر کا کالم، مطبوعہ روزنامہ نئی بات 27 نومبر 2013ء)
 
Top