امریکی مغوی اب ’پکا مسلمان

امریکی مغوی اب ’پکا مسلمان
پال وُڈبی بی سی، مشرق وسطی

141006113346_kassig_624x351_ap_nocredit.jpg

اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا اور وہ عبدالرحمان کہلانے لگ گئے
پیٹر کیسگ نامی امدادی کارکن جنھیں دولت اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا، قید کے دوران ’پکے مسلمان‘ ہو چکے ہیں۔

پیٹر کیسگ کے ایک ساتھی قیدی کا کہنا ہے کہ پیٹر نے اپنا نام تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب ’عبدالرحمان کیسگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

پیٹر کیسگ کے ساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمان کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا تھا۔

ڈاکٹر انس کے بقول کیسگ کبھی بھی دنیا دار شخص نہیں تھے کیونکہ وہ کھُل کے بات کرتے تھے، دیانت دار تھے، قدرے جذباتی تھے، عام لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوتے اور بہت جلد ہی مزاحمت کاروں کے بہکاوے میں آ جاتے تھے: ’اسی لیے بعد میں جب میں نے اُس کے والدین کو یہ کہتے سنا کہ ان کا بیٹا اس دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں تھا تو سچ پوچھیں مجھے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔‘

میٹھے کا شوق
ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔
عبالرحمان کے ایک ساتھی
لگتا ہے پیٹر کیسگ کو جس چیز کی تلاش تھی وہ انھیں مل گئی اور انھوں نے شام سے تعلق رکھنے والے طبی اہلکاروں کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ان کی تربیت کی بدولت شاید کئی لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔

ان کا کام آسان نہیں تھا بلکہ وہ ہر وقت گولیوں، بموں، فضائی حملوں اور اغوا کیے جانے کے خطرات میں گھرے ہوئے تھے۔

ڈاکٹر انس کے بقول جب وہ آخری مرتبہ کیسگ سے ملے تو انھوں نے پوچھا: ’پیٹر، تمھیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا، تو اس کا جواب تھا کہ تم سب کی زندگیوں کے مقابلے میں میری زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔‘

گذشتہ برس عبدالرحمان کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ شمالی شام کے قصبے دیار ازور جا رہے تھے۔ ان کو اغوا کرنے والے گروہ دولت اسلامیہ کا کہنا تھا کہ موت کے گھاٹ اتارے جانے والے اگلے مغربی مغوی عبدالرحمان ہی ہوں گے۔

فرانسیسی صحافی نکولس ہینن اغوا کیے جانے کے چار ماہ بعد تک عبدالرحمان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں قید رہے۔ بعد میں نکولس ہینن کو باقی فرانسیسی مغویوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا تھا۔

نکولس نے مجھے بتایا کہ عبدالرحمان بھی شروع شروع میں باقی مغویوں کی طرح پریشان ہو گئے تھے اور ’قید نے اس پر بھی خاصے اثرات مرتب کیے تھے۔‘

141006094400_peter_kassig1_624x351_bbc_nocredit.jpg

عبدالرحمان کے والدین کے بقول ان کا بیٹا منزل کی تلاش میں تھا
نکولس سے میری ملاقات پیرس میں ہوئی۔ جب ہماری ٹیکسی پیرس کی اینٹوں سے بنی ہوئی گلیوں سےگزر رہی تھی تو نکولس نے مجھے قید کے دنوں کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے بتایا کہ تمام مغوی کس طرح بھوک، اکتاہٹ اور دہشت کا نشانہ بن رہے تھے۔

’ہمار معمول یہی تھا کہ ہم 24 گھنٹے کھانے کا ہی انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ ہمیں کبھی بھی کافی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جہاں تک عبدالرحمان کا تعلق ہے، تو وہ اپنا تمام کھانا دوسرے مغویوں کو دے دیتا تھا اور خود میٹھی چیزوں کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اسی چکر میں ہوتا تھا کہ کہیں سے اسے مارملیڈ مل جائے۔

’اپنے اغوا کے بہت جلد ہی پیٹر نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عبدالرحمان کہلانے لگ گیا تھا۔ جب میں اسے پہلی مرتبہ ملا تو وہ اس وقت بھی تمام پہرے داروں کو اپنا نام عبدالرحمان ہی بتا رہا تھا۔

’پیٹر نے مجھے بتایا کہ اسلام اس کے لیے کتنا اہم ہے اور اسے قید سے نمٹنے میں اسلام کتنی مدد کر رہا ہے۔ وہ بہت پکا مسلمان ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ پیٹر قدرے پریشان تو ہے، لیکن اسلام اسے طاقت بخش رہا ہے۔

عقیدے سے مطمئن ہوں
جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔ اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔
عبدالرحمان​
’عبدالرحمان واحد مغربی مغوی نہیں تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہمارے گروپ میں چند اور لوگ بھی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے۔ یہ لوگ پانچ وقت کے نمازی تھے، بلکہ بسا اوقات یہ لوگ دو اضافی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ یہ لوگ پیر اور جمعرات کو روزہ بھی رکھتے تھے جو کہ فرض نہیں بلکہ اضافی ہے، جیسے، پکے مسلمان۔‘

یہ جانتے ہوئے کہ قید میں اکثر لوگ اس قسم کی حرکت کرتے ہیں جس میں وہ اپنے اغوا کاروں کو خوش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انھیں اغوا کاروں سے ہمدردی ہو جاتی ہے، میں نے نکولس سے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ ہم سٹاک ہوم سنڈروم کی بات کر رہے ہیں۔‘

نکولس کا جواب بالکل الٹ تھا: ’ہمیں اغوا کرنے والوں کو نفسیات کا تو کچھ زیادہ پتہ نہیں تھا، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ ہمیں سٹاک ہوم سنڈروم میں بالکل مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ انھوں نے اس سے بچاؤ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔‘

نکولس اپنے اس جواب سے دراصل اس تشدد کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کا نشانہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اپنے مغویوں کو بناتے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے نکولس نے کہا: ’ کچھ پہرے دار ہم میں سے ان لوگوں کی زیادہ عزت کرتے تھے جو مسلمان ہو چکے تھے، لیکن باقی اغواکاروں کی نظر میں مسلمان یا غیر مسلمان کا کوئی لحاظ نہیں تھا۔‘

میں نے نکولس سے پوچھا کہ انھوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں برطانوی مغوی ایلن ہیننگ کو قتل کرتے دکھایا گیا اورعبدالرحمان کیسگ کو بھی قتل کیے جانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔

ایک بہت طویل خاموشی کے بعد نکولس کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہ تمام ویڈیوز دیکھی ہیں:

141006120434_peter_kassig_and_mother_paula_kassig_512x288_reuters.jpg

پیٹر کیسگ کے والدین کو امید ہے کہ ان کا بیٹا زندہ واپس آجائے گا
’یہ میرے لیے نہایت ہی کربناک تجربہ تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اِن ویڈیوز میں مجھے بھی قتل ہوتے دکھایا جا سکتا تھا۔‘

یاد رہے کہ عبدالرحمان قید سے اپنےگھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس خط میں ان کا کہنا تھا: ’جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس سے لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔‘

عبدالرحمان کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔

والدین کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بیٹے کا مذہب اس کی جان بچانے کا سبب بن جائے۔

ان کی یہ خواہش بالکل بے جا نہیں ہے، کیونکہ لوگوں کو اغوا کرنا اور پھر انھیں سزائے موت دے دینا، یہ کام دولتِ اسلامیہ کے جنجگجوؤں کے ہر روز کے جنگی ہتھکنڈے ہیں۔

والدین کو یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ ان کے بیٹے کا ’پیٹر کسیج‘ سے ’عبدالرحمان کسیج‘ بن جانا اس کے کام آ جائے۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ انھیں اس دردناک حقیقت کا بھی علم ہے کہ دولتِ اسلامیہ صرف غیر مسلموں کو ہی نہیں مارتی، بلکہ اس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہی تھی۔
 
یوں لگتا ہے کہ عبدالرحمن اغوا ہونے سے پہلے ہی اسلام کے بہت قریب آچکا تھا۔ نو مسلموں میں جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
 
بے چارہ۔ اپنے "مسلمان بھائیوں" کے ہاتھوں مارا جائے گا کہ داعش کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہی ہیں :(
اگر ایسا ہوا تو عبدالرحمن کو شہادت ملے گی جو کسی بھی مسلمان کے لئے سب اچھی موت ہے اور داعش تو پہلے ہی بدنام ہے مزید بدنامی ملے گی۔
 

arifkarim

معطل
یوں لگتا ہے کہ عبدالرحمن اغوا ہونے سے پہلے ہی اسلام کے بہت قریب آچکا تھا۔ نو مسلموں میں جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
جی اغوا کے بعد اس جذبہ ایمانی کو اسٹالک ہوم سینڈروم کہتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Stockholm_syndrome

بے چارہ۔ اپنے "مسلمان بھائیوں" کے ہاتھوں مارا جائے گا کہ داعش کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ہی ہیں :(
کونسے مسلک و مکتبہ الفکر والے؟ جہاں تک میری معلومات ہیں وہ کٹر وہابیوں کو چھوڑکر باقی سب مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اگر ایسا ہوا تو عبدالرحمن کو شہادت ملے گی جو کسی بھی مسلمان کے لئے سب اچھی موت ہے اور داعش تو پہلے ہی بدنام ہے مزید بدنامی ملے گی۔
شہادت کا مطلب موت نہیں بلکہ کسی خاص مقصد کیلئے خدا کی راہ میں جان دینے کا نام شہادت ہے۔ خودکش بمبار، دہشت گرد، عسکریت پسند، شدت پسند، مذہبی جنونی اس زمرے میں نہیں آتے۔

کیا موت سے پہلے شہادت مل سکتی ہے؟ اگر ہاں تو براہ کرم اہل تشیع، داعش، القائدہ، حماس، حزب اللہ وغیرہ تک اس نسخہ کو ارسال کر کے بلا وجہ کی قتل و غارت سے امت مسلمہ کو بچائیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا موت سے پہلے شہادت مل سکتی ہے؟ اگر ہاں تو براہ کرم اہل تشیع، داعش، القائدہ، حماس، حزب اللہ وغیرہ تک اس نسخہ کو ارسال کر کے بلا وجہ کی قتل و غارت سے امت مسلمہ کو بچائیں۔
اس بارے آپ روشنی ڈالئے قرآن و حدیث کی روشنی میں :)
 

arifkarim

معطل
سر قلم کرنے کی وجہ کیا بیان کی؟ ویسے آجکل نیٹ پر داعش کی وحشیانہ ویڈیوز بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ سیڈیسٹ افراد انکو زمانہ بربریت میں سرقلمی کیسے ہوتی تھی اور انسانی ذبح خانے جیسے عنوانات کیساتھ جاری کرتے رہتے ہیں :(
پھر کچھ لوگ کہتے ہیں مغرب میں اسلام خوامخواہ بدنام ہے۔ جب موصوف مسلمان ہوئے تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور جب اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں مغوی بن کر قتل ہو گئے تو مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ یہی وہ دوغلہ پن ہےجسکو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔
لئیق احمد
 
سر قلم کرنے کی وجہ کیا بیان کی؟ ویسے آجکل نیٹ پر داعش کی وحشیانہ ویڈیوز بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ سیڈیسٹ افراد انکو زمانہ بربریت میں سرقلمی کیسے ہوتی تھی اور انسانی ذبح خانے جیسے عنوانات کیساتھ جاری کرتے رہتے ہیں :(
داعش؟ وہی جس کی اسلامی خلافت کی مبارکبادوں کی چاکنگ پورے پنجاب خصوصاً لاہور میں کی گئی ہے
 

’کیسگ کا قتل خالص شیطانی کارروائی ہے‘

141116094824_kassig_is_624x351_getty.jpg

کیسگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں گذشتہ سال شام میں یرغمال بنالیا گیا تھا اور دوران قید وہ اسلام لے آئے تھے
امریکی صدر براک اوباما نے دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں امریکی مغوی عبدالرحمان کیسگ کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اسے’خالص شیطانی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔
ادھر مقتول کے والدین نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا ’شامی عوام کے لیے اپنی محبت کی وجہ سے مارا گیا۔‘
اوباما نے مقتول عبدالرحمان المعروف پیٹر کیسگ کے اہلِ خانہ سے تعزیت بھی کی ہے۔
اس سے قبل انٹرنیٹ پر جاری ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے اپنے زیرِ قبضہ مغوی امریکی امدادی کارکن کیسگ کو قتل کر دیا ہے۔
عبدالرحمٰن کیسگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کا نام اسلام لانے سے پہلے پیٹر کیسگ تھا اور انھیں شام میں گذشتہ سال اغوا کیا گيا تھا۔
اس ویڈیو میں ایک نقاب پوش شخص کو خنجر لہراتے اور امریکی فوجیوں کو بھی اسی انجام کی دھمکی دیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ویڈیو میں مبینہ طور پر شامی فوجیوں کے ایک گروپ کے سر قلم ہوتے بھی دکھائے گئے ہیں۔
براک اوباما نے جی 20 اجلاس سے واپسی پر اپنے بیان میں کہا کہ بطور امدادی کارکن کیسگ کی خدمات قابلِ تعریف تھیں اور ’انھیں ہم سے دور کر دینا ایک دہشت گرد گروپ کی جانب سے مکمل شیطانی عمل ہے جسے دنیا غیرانسانی قرار دے گی۔‘
عبدالرحمان کیسگ کے والدین ایڈ اور پاؤلا کیسگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اپنے بیٹے کی موت سے ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔
141010024854_paula_kassig_prayer_624x351_getty.jpg

کیسگ کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا مسلمان ہو گیا ہے اور انھوں نے اغواکاروں سے اس کی رہائي کی اپیل کی ہے
ایڈ اور ان کی اہلیہ نے کہا کہ انھیں اپنے بیٹے پر فخر ہے جو اپنی زندگی انسانیت کو دے گیا اور وہ ’اس کی یاد اور ورثے کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘
پیٹر کیسگ کے ایک ساتھی قیدی نے پیٹر کے نام کی تبدیلی کے بارے میں بتایا تھا کہ اور وہ اب ’عبدالرحمٰن کیسگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
پیٹر کیسگ کے ساتھ قید میں رکھے جانے والے ایک قیدی کا کہنا ہے کہ وہ 26 سالہ عبدالرحمٰن کیسگ کو ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ شام اور ترکی کی درمیانی سرحد پر ملے تھے اور دونوں نے امدادی کام کا آغاز کیا تھا۔
عبدالرحمان قید سے اپنےگھر والوں تک ایک خط پہنچانے میں کامیاب ہوئے جس میں ان کا کہنا تھا: ’جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، تو میں ہر روز نماز پڑھتا ہوں اور اس لحاظ سے میں اپنی قید سے پریشان نہیں ہوں۔اگرچہ عقیدے کے لحاظ سے آج کل مجھے تھوڑی پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے، لیکن میں اپنے عقیدے سے مطمئن ہوں۔‘
عبدالرحمٰن کے والدین اپنے بیٹے کے ان الفاظ سے یہی مطلب لیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے۔
رواں سال اکتوبر میں دولت اسلامیہ نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں برطانوی رضاکار ایلن ہیننگ کے قتل کو دکھایا گیا تھا اور اس ویڈیو کا اختتام کیسگ کی موت کی دھمکی پر ہوا تھا۔
دولتِ اسلامیہ اب تک کیسگ کے علاوہ چار مغربی باشندوں کو ہلاک کر چکی ہے جن میں دو برطانوی ایلن ہیننگ اور ڈیوڈ ہینز جبکہ دو امریکی صحافی جیمز فولی اور سٹیون سوتلوف شامل ہیں۔
 
انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور جب اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں مغوی بن کر قتل ہو گئے تو مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ یہی وہ دوغلہ پن ہےجسکو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے
آپ کس کی خاموشی کا ذکر کر رہے ہیں؟
مجھے تو یہ خبر ابھی اس دھاگے سے ملی ہے! اور میں داعش کے بارے یہ کہ چکا ہوں۔
داعش تو پہلے ہی بدنام ہے مزید بدنامی ملے گی۔
کیا آپ کسی کو بدنام کرنا چاہ رہے ہیں؟
 
جو واقعی اللہ جل شانہ کے نزدیک شہید ہوتا ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور اس کے درجات یقیناً بلند ہوتے ہیں اور جو لوگ ظالمان ہوتے ہیں اور شہید کہلوانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے حالات بہت بہتر جانتے ہیں
 
Top