امریکی غرور اور بھارتی بے حسی کا مقابلہ

امریکہ بلا شبہ دنیاکا سب سے طاقت ور ملک ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا پر اس کا غلبہ رہا ہے ۔ امریکہ نے بے پناہ دولت بھی بنائی اور وہ دولت اور اثاثوں کے اعتبار سے بھی دنیا میں سب سے آگے ہے۔امریکہ کی کئی ریاستوں کی معیشت اتنی بڑی ہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں کی معیشت بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔انفرادی طور پر امریکی لوگ نرم گفتار اور عموما بہت منکسر ہوتے ہیں۔ لیکن عوام کے بر عکس امریکی نظام میں دولت اور طاقت کے ساتھ ساتھ ’تکبر اور غرور‘ جیسے عناصر کی شمولیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے۔گزشتہ دنوں جس طرح امریکہ کی پولیس نیو یارک میں بھارت کی اعلی سفارتکار ڈپٹی قونصل جنرل دیویانی کھوبراگڑے کو گرفتار کیا وہ اسی ’غرور اور تکبر‘ کا غماز ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے مقابلے یورپ اور امریکہ میں قانون کی مکمل عمل داری ہے اور اس کی گرفت میں جو آگیا وہ کتنا ہی طاقتور اور دولت مند کیوں نہ ہو اسے قانون کی قوت کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔
دیویانی ایک سفارتکار ہیں اور پولیس نے انہیں اس لیے گرفتار کیا کہ انہوں نے اپنی خادمہ کو امریکی قانون کے مطابق جتنی کم سے کم تنخواہ دینی چاہيے تھی اس سے انتہائی کم تنخواہ دی اور یہی نہیں انہوں نے اپنے ویزا فارم میں خادمہ کو دی جانی والی تنخواہ بڑھا کر دکھائی۔ فی الحال وہ ضمانت پر رہا ہو گئی ہیں۔ لیکن اس واقعے سے دونوں ملکوں کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
بھارت نے کہا ہے کہ اس واقعے کے لیے امریکہ معافی مانگے اور یہ کہ دیویانی کے خلاف سارے معاملات واپس لیے جائیں۔ امریکہ نے معافی مانگنے اور کیس واپس لینے کے دونوں ہی مطالبات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتی سفارتکار نے امریکی سر زمین پر قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور انہیں اس سلسلے میں قانون کا سامنا کرنا ہی ہو گا۔
اگر یہی عمل امریکہ نے بہتر طریقے سے کیا ہوتا تو شاید بھارت میں اتنا ہنگامہ نہ ہوا ہوتا اور سفارتکار کی غلطی کا کوئی حل بھی آسانی سے نکل آتا۔ لیکن امریکی بہت سے کام ’غرور‘ سے کرنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی حکومت کا رویے پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں جو بے حسی کی حدوں کو چھوتا ہے۔ بجائے یہ کہ حکومت الزامات کے تناظر میں اپنی غلطیاں تسلیم کر کے درستگی کے لیے اقدامات کرتی اس بات پر مصر رہی کہ دیویانی ایک سفارتکار ہیں اس لیے انہیں غیر قانونی حرکت کرنے لیے قانون سے استثنیٰ حاصل ہے۔
بھارت میں امریکہ کی مذمت کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں مقابلہ بازی شروع ہو گئی ہے۔ ٹی وی چینلز پر ہر طرح کے ماہرین کے درمیان قوم پرستی کی جنگ چھڑی ہے لیکن کسی بحث اور کسی بیان میں اس غریب خادمہ کا ذکر نہیں تھا جس کے استحصال کا دیویانی پر الزام ہے اور جس کی شکایت پر انہیں مقررہ یومیہ اجرت کے قانون کی خلاف ورزی اور ویزا فراڈ کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔
خادمہ کی طرف سے شکایت کے بعد بھارت کی حکومت نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوراً بھارت لوٹ آئیں امریکی اٹارنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارتی حکام خادمہ اور ان کے گھر والوں کو دھمکیاں دے رہے تھے۔ امریکہ نے گھریلو خادمہ کے شوہر اور بچے کو بھی امریکہ بلا لیا ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے ہی جال میں پھنس گئی ہے اور اس سے نکلنے کے راستے تلاش کر رہی ہے۔

دیویانی کھوبراگڑے کا معاملہ اس نوعیت کا کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ دو برس قبل امریکہ میں ایک اعلیٰ بھارتی سفارت کار پر ان کی گھریلو خادمہ نے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا یا تھا۔
اس سے ایک برس قبل ایک اور سفارتکار پر اپنی خادمہ کو ہراساں کرنے اور استحصال کرنے کا الزام لگا تھا۔ امریکہ کے ایک جج نے اس سفارتکار کو پندرہ لاکھ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت کی دلیل یہی رہی ہے کہ چونکہ یہ سبھی سفارتکار ہیں اس لیے ان کے خلاف ان معاملات میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
لیکن گزشتہ ہفتے امریکہ کا رویہ دیکھنے کے بعد بھارت کی وزارت خارجہ میں ہلچل دیکھنے میں آئی۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے اپنے تمام سفارتکاروں سے کہا ہے کہ وہ گھریلو خادموں کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیں۔
یعنی کہ بھارت میں تو خادماؤں کا جتنا چاہیں ’استحصال‘ کر لیں لیکن دوسرے ملکوں میں ان غریبوں کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔اور خلاف ورزی ہونے پر سفارتکار بھی قانون کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2013/12/131221_doosra_pehlu_ka.shtml
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
بہت شکریہ
یہ اندر سے ایک دوسرے کے خلاف ہونے کے باوجود اسلام کے خلاف لنگوٹھے یار ہیں
 
الحمدللہ پاکستان میں گھریلو ملازموں کے ساتھ ایسا ظلم بہت کم ہے۔ ہماری والدہ کی تربیت کی وجہ سے ہم بچپن سے ہی گھریلو خادمہ کو "خالہ" کہ کر پکارتے تھے۔
 

x boy

محفلین
الحمدللہ پاکستان میں گھریلو ملازموں کے ساتھ ایسا ظلم بہت کم ہے۔ ہماری والدہ کی تربیت کی وجہ سے ہم بچپن سے ہی گھریلو خادمہ کو "خالہ" کہ کر پکارتے تھے۔
ہم تو ماسی پکارتے ہیں اور نخرے ہزار، من مانی چھٹی کرلیتے جبکہ تنخواہ وقت پر چاہیے، روز اپنے گھر کے کھانے میں سے کچھ نہ کچھ انکے لیے نکالنا بھی پڑتا ہے
دراصل کراچی میں پارٹ ٹانم ماسیوں کا رواج ہے، جھاڑو پوچھا والی ماسی، کپڑے دھونے والی ماسی وغیرہ۔
 
Top