امریکی سعودی اختلافات اور شامی تنازعہ

صرف علی

محفلین
امریکی سعودی اختلافات اور شامی تنازعہ
امریکا اور سعودی عرب کے روایتی اتحاد کو مستحکم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں کے ضمن میں ان دونوں ممالک کے اختلافات غالباً بدستور برقرار ہیں اور شامی باغیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔


28 مارچ 2014ء کو سعودی دارالحکومت ریاض میں شاہ عبد اللہ اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی تھی

یہ بات نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک تازہ جائزے میں کہی گئی ہے۔ اگرچہ اس جائزے کے مطابق ایسے کچھ شواہد نظر آ رہے ہیں کہ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار چند ایک اعتدال پسند گروپوں تک امریکی ہتھیار پہنچنا شروع ہو گئے ہیں لیکن اس سوال پر پائے جانے والے اختلافات لڑائی کے راستے میں رکاوٹیں بن رہے ہیں کہ کیسے اور کس طرح کا اسلحہ فراہم کیا جانا چاہیے۔ باغیوں کا کہنا یہ ہے کہ اُن کے پاس اسد کی فضائیہ کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری طیارہ شکن میزائلوں کی شدید کمی ہے۔


امریکی گوناگوں وجوہات کی بناء پر شامی خانہ جنگی میں الجھنے سے خائف ہیں

حالیہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب اور قطر نے شامی باغیوں کی مالی مدد کی ہے کیونکہ اُن کے نزدیک شام میں جاری لڑائی مشرقِ وُسطیٰ کے مستقبل کی جنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف امریکی حکومت تشدد کے لیے اسد کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اُسے اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتی ہے لیکن مجموعی طور پر وہ اس تنازعے کو ذرا مختلف انداز میں دیکھتی ہے۔ امریکی اس خانہ جنگی میں ملوث ہونے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایک تو انہیں اس جنگ کا کوئی واضح فوجی حل نظر نہیں آ رہا اور دوسرے اُن کے خیال میں یہ خانہ جنگی اسلام پسندوں کی ایک ایسی نئی نسل کو انتہا پسندی کی طرف لے جا رہی ہے، جو مغربی دنیا سے نفرت کرتے ہیں۔

اس سال مارچ میں امریکی صدر باراک اوباما اور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے درمیان دو گھنٹے کی بات چیت بھی اُن کے باہمی اختلافات دور نہیں کر سکی، جس پر شامی باغی بے حد پریشان ہیں۔ اسکائپ کی وساطت سے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شامی کمانڈر نے، جس کے جنگجو انتہا پسند النصرۃ فرنٹ کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں، کہا:’’اگر امریکی ہمیں طیارہ شکن میزائل دینے سے انکار کر رہے ہیں تو پھر سعودی خود ہمیں یہ میزائل کیوں نہیں دے دیتے۔‘‘


سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امریکا ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے بشار الاسد کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کر دے

سعودی حکمران عرب دنیا میں ابھرنے والی حالیہ انقلابی تحریکوں کو اِس خطّے میں ایرانی توسیع پسندی کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ جب نومبر میں امریکی حکومت نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے تنازعے پر تہران حکومت کے ساتھ ایک ابتدائی معاہدہ طے کیا تو ریاض حکومت نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح ایران پر سیاسی دباؤ کم ہو جائے گا اور وہ زیادہ آسانی سے عرب دنیا میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکے گا۔ سعودی قیادت امریکا سے اس بات پر بھی خفا تھی کہ اُس نے مصر میں نہ صرف حسنی مبارک کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اخوان المسلمون کے محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی فوج کو ہدفِ تنقید بھی بنایا۔

سعودی عرب کی خواہش ہے کہ امریکا اپنی جدید فوجی مشینری استعمال کرتے ہوئے اسد کے اقتدار کا خاتمہ کر دے تاہم امریکا کو ڈر ہے کہ بھاری ہتھیار یا ٹریننگ کے طریقے اگر عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو وہ اُنہیں مغربی دنیا کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اور امریکا کو ایک بار پھر ویسا ہی تجربہ ہو سکتا ہے، جیسا اُسے 1980ء کے افغانستان کے بعد ہوا۔ سعودی حکمران امریکا کی اس ہچکچاہٹ کو غلط حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔

تمام تر اختلافات کے باوجود خلیج میں امریکا کی بڑی فوجی موجودگی سعودی عرب کو بیرونی دشمنوں سے بچائے ہوئے ہے اور سعودی مسلح افواج زیادہ تر امریکی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ریاض میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق امریکی سفارت کار گیری گریپو نے امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’دونوں ملک اُن میاں بیوی کی طرح ہیں، جن کی شادی کو چالیس سال گزر چکے ہوں، جو ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور نہ کر سکتے ہوں لیکن جو ایک دوسرے کو تنگ کیے اور چھیڑ چھاڑ کیے بغیر بھی نہ رہ سکتے ہوں‘۔
http://www.dw.de/امریکی-سعودی-اختلافات-اور-شامی-تنازعہ/a-17613472
 

صرف علی

محفلین
ایک سابق امریکی سفارت کار گیری گریپو نے امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’دونوں ملک اُن میاں بیوی کی طرح ہیں، جن کی شادی کو چالیس سال گزر چکے ہوں، جو ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور نہ کر سکتے ہوں لیکن جو ایک دوسرے کو تنگ کیے اور چھیڑ چھاڑ کیے بغیر بھی نہ رہ سکتے ہوں‘۔
یہ بھی بڑی مزے کی بات بولی
 
Top