الف نظامی
لائبریرین
امریکی تھینک ٹینک اس بات سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ دنیا پر مغرب کی حکمرانی کا وقت اب سمٹتا جا رہا ہے اور نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے جس میں آنے والی صدی کی حکمرانی بقول Gold Mau Such مشرقی ایشیا کی ہونا مقرر پائے گی۔ امریکی دانشوروں کو اس کا احساس بھی ہو چکا ہے کہ عسکری محاذ آرائیوں کے ذریعے حاکمیت قائم کرنے کا دور بیت گیا۔ مستقبل قریب معاشی برتری کے حصول کی دوڈ کا دور ہو گا۔ اسی بنا پر امریکہ کا بااختیار ترین صدر شدید تشویش میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اور اس کا وزن بھی کم ہو گیا ہے۔
امریکہ کو پریشانی لاحق ہے کہ مشرقی ایشیا کی ابھرتی ہوئی مضبوط قوت کو کس طرح ڈیل کرے جو اس کے تسلط کیلئے واضح خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ نے بارود کی بُو سے اپنا تسلط پائیدار بنانے کی جو روش اپنائی ہے اس نے اسے اقتصادی طور پرناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اس کے امیج پر دنیا بہت زیادہ تحفظات کا شکار ہو گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اس کے حلیف اسے تنہا کرتے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں بھی سپر پاور کی گرفت میں واضح دراڑیں دکھائی دینے لگ گئی ہیں۔
اس تناظر میں اوبامہ کے میشران ان کے مصروف ترین اوقات میں جو ملاقاتیں ایشیائی ممالک کے ساتھ ہونا مقرر پائی ہوں ان پر must attand کا اسٹکر لگا رہے ہیں گروپ ایٹ میٹنگز، ایشین پیسیفک (APEC) اور آسیان (ASEAN) کو امریکہ اپنے مفادات کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسے یہ تشویش لاحق ہے کہ خطے کی اُبھرتی ہوئی قوتیں معاشی الحاق سے اسے اقتصادی طور پر کھوکھلا کر کے مات نہ دے دیں۔
تاریخ میں قریب ترین عسکری قوت جو دنیا کے نقشے پر اپنا وجود بکھیر چکی ہے وہ سودیت سودیت یونین ہے۔ امریکہ نے اسکی شکست و ریخت کو صرف اپنی ہی کامیابی تصور کر کے سرد جنگ کو Expire کر کے گرم جنگ کے ذریعے دنیا کو برباد کرنے کا نیا مشن شروع کیا ہے۔ امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں اسی پالیسی پر چل پڑا ہے جس نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا مگر امریکہ کو جس انداز سے تباہ کیا جائے گاہ وہ تاریخ میں ایک اور ہی انداز ہو گا Gold Mau Such کے مطابق 2050ء میں جو بڑی چار معاشی قوتیں ہونگی ان میں آج کی سپر پاور تیسرے نمبر پر جا چکی ہو گی۔ چین انڈیا اور جا پان پہلے دوسرے اور چوتھے نمبر پر ہونگے۔ انڈین اکانومی 2050ء کے قریب امریکہ کو ٹیک اوور کر سکے گی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ کا یک بھی ملک ان چار بڑی معاشی قوتوں میں نہ ہو گا۔ امریکہ ہشیار باش ہو نا پڑے گا اور ماہر معیشت دانوں کی باتوں پر کان دھرنا ہونگے اور اپنی ان پالیسیوں سے ثابت کرنا ہو گا جو غیر محسوس طور پر اس کا تابوت بنانے میں مصروف ہیں۔ امکان غالب یہ ہے کہ امریکہ کی انانیت تاریخ کو دھرانے میں معاون ہو گی اور پھر جو ایسا ہو گا جیسا یورپ کے صنعتی انقلاب سے قبل 1820ء میں ہوا تھا۔ اس وقت چین اور انڈیا ہی معاشی طور پر دنیا میں مضبوط تصور ہوتے تھے اس لئے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں برطانیہ کی رال ٹپک پڑی تھی اور 1947ء تک وہ یہاں سے اتنے وسائل لوٹ کر لے گیا جو آئندہ مزید کئی برسوں تک اس کی معیشت کو سہارا دیئے رکھیں گے۔ حالات اب دوبارہ اشارہ دے رہے ہیں کہ دنیا کی معاشی قوت ایشیا میں منتقل ہو جائے گی۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ویت نام اور کوریا کو اکٹھا ہونا پڑا مگر ان ممالک نے فوری طور پر امریکہ کے خلاف رد عمل نہیں دکھایا بلکہ چپ سادھ کر نہ صرف اپنے آپ کو معاشی طورپر بحال کیا بلکہ خطے کے تمام ممالک کے درمیان تعاون کے رویے کو فروغ دے کر امن اور استحکام کو م منظم کیا اور صنعت و حرفت، ذراعت، سائنس، ایجادات اور خلا کی تسخیر کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی کی۔
آج امریکی پالیسی ساز جنوب مشرقی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو کھٹکتی ہوئی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور بعض ASEAN (جو دس ممالک کا گروپ ہے) کو خطرہ تصور کر تے ہیں۔ چین کا (ASEAN) ممالک کے ساتھ مشفقانہ رویہ امریکہ واضح محسوس کر رہا ہے کہ یہ آنے واے وقت میں اس کی Supermacy کیلئے خطرہ ہو گا کینوکہ چین انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کو بھی ایک ایک ارب ڈالرز کی اقتصادری امداد دے رہ اہے اس پر مزید یہ کہ نومبر 2001ء میں ہونے والی ASEAN CHINA SUMMIT میں چین کی طرف سے ممبر ممالک کو فری ٹریڈ کی پیشکش اور مستقبل میں ان کے درمیان مشترکہ مارکیٹ کا منصوبہ امریکہ کی تشویش میں مزید اضافہ کرنے کیلئے کامہ ہے کیونکہ چین کے ان منصوبوں کے امریکہ کی معاشی صحت پر بہت زیادہ مضر اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کیلئے بری خبر یہ ہے کہ انڈیا ایک زہریلے بچھو کی طرح خطرناک حملے کیلئے مناسب وقت کا منتظر ہے کیونکہ سرپرستوں نے امریکہ سے ہاتھ اٹھا کر انڈیا کے سر پر رکھ دیئے ہیں۔ ان ہاتھوں کے سر سے اٹھنے کے باعث ہی امریکہ داخلی اور خارجی طور پر شدید ترین مشکلات کے بھنور میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ امریکی بنکوں کا دیوالیہ ہونا اور بقیہ بنکوں پر 12 ٹریلین ڈالرذ کا قرضہ ایک سپر پاور ملک کی کھوکھلی معیشت کا مہ چڑا رہا ہے۔ رہی مستقبل کی چوتھی بڑی معاشی قوت جاپان جو امریکی بربریت پر تاریخی مہر کامظاہرہ کر کے دنیا سے اپنی ٹیکنالوجی کا لوہا منوا کر آج اس مقام پر کھڑا ہے جو دنیا کیلئے قابل رشک ہے مگر اب کی بار جاپان کا وزیر خارجہ امریکہ جا کر اس کی مہنگی کاروں کا سودا کر کے اسکی ڈوبتی معیشت کو بچانے کااعلان نہیں کرے گا وہ امریکہ کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے گا وہ عالمی منظر نامے پر جلہ عیاں ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھرنے والی یہ معاشی قوتیں اپنا گھیرا امریکہ کے گرد تنگ کئے جارہی ہے۔ ان حالات میں امریکہ جیسے مدہوش کو ہشیار باش ہونے اور خود احتسابی کی اصلاح ہی دی جا سکتی ہے۔
امریکہ کو پریشانی لاحق ہے کہ مشرقی ایشیا کی ابھرتی ہوئی مضبوط قوت کو کس طرح ڈیل کرے جو اس کے تسلط کیلئے واضح خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ نے بارود کی بُو سے اپنا تسلط پائیدار بنانے کی جو روش اپنائی ہے اس نے اسے اقتصادی طور پرناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اس کے امیج پر دنیا بہت زیادہ تحفظات کا شکار ہو گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اس کے حلیف اسے تنہا کرتے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں بھی سپر پاور کی گرفت میں واضح دراڑیں دکھائی دینے لگ گئی ہیں۔
اس تناظر میں اوبامہ کے میشران ان کے مصروف ترین اوقات میں جو ملاقاتیں ایشیائی ممالک کے ساتھ ہونا مقرر پائی ہوں ان پر must attand کا اسٹکر لگا رہے ہیں گروپ ایٹ میٹنگز، ایشین پیسیفک (APEC) اور آسیان (ASEAN) کو امریکہ اپنے مفادات کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسے یہ تشویش لاحق ہے کہ خطے کی اُبھرتی ہوئی قوتیں معاشی الحاق سے اسے اقتصادی طور پر کھوکھلا کر کے مات نہ دے دیں۔
تاریخ میں قریب ترین عسکری قوت جو دنیا کے نقشے پر اپنا وجود بکھیر چکی ہے وہ سودیت سودیت یونین ہے۔ امریکہ نے اسکی شکست و ریخت کو صرف اپنی ہی کامیابی تصور کر کے سرد جنگ کو Expire کر کے گرم جنگ کے ذریعے دنیا کو برباد کرنے کا نیا مشن شروع کیا ہے۔ امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ وہ طاقت کے نشے میں اسی پالیسی پر چل پڑا ہے جس نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا مگر امریکہ کو جس انداز سے تباہ کیا جائے گاہ وہ تاریخ میں ایک اور ہی انداز ہو گا Gold Mau Such کے مطابق 2050ء میں جو بڑی چار معاشی قوتیں ہونگی ان میں آج کی سپر پاور تیسرے نمبر پر جا چکی ہو گی۔ چین انڈیا اور جا پان پہلے دوسرے اور چوتھے نمبر پر ہونگے۔ انڈین اکانومی 2050ء کے قریب امریکہ کو ٹیک اوور کر سکے گی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ کا یک بھی ملک ان چار بڑی معاشی قوتوں میں نہ ہو گا۔ امریکہ ہشیار باش ہو نا پڑے گا اور ماہر معیشت دانوں کی باتوں پر کان دھرنا ہونگے اور اپنی ان پالیسیوں سے ثابت کرنا ہو گا جو غیر محسوس طور پر اس کا تابوت بنانے میں مصروف ہیں۔ امکان غالب یہ ہے کہ امریکہ کی انانیت تاریخ کو دھرانے میں معاون ہو گی اور پھر جو ایسا ہو گا جیسا یورپ کے صنعتی انقلاب سے قبل 1820ء میں ہوا تھا۔ اس وقت چین اور انڈیا ہی معاشی طور پر دنیا میں مضبوط تصور ہوتے تھے اس لئے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں برطانیہ کی رال ٹپک پڑی تھی اور 1947ء تک وہ یہاں سے اتنے وسائل لوٹ کر لے گیا جو آئندہ مزید کئی برسوں تک اس کی معیشت کو سہارا دیئے رکھیں گے۔ حالات اب دوبارہ اشارہ دے رہے ہیں کہ دنیا کی معاشی قوت ایشیا میں منتقل ہو جائے گی۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ویت نام اور کوریا کو اکٹھا ہونا پڑا مگر ان ممالک نے فوری طور پر امریکہ کے خلاف رد عمل نہیں دکھایا بلکہ چپ سادھ کر نہ صرف اپنے آپ کو معاشی طورپر بحال کیا بلکہ خطے کے تمام ممالک کے درمیان تعاون کے رویے کو فروغ دے کر امن اور استحکام کو م منظم کیا اور صنعت و حرفت، ذراعت، سائنس، ایجادات اور خلا کی تسخیر کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی غیر معمولی ترقی کی۔
آج امریکی پالیسی ساز جنوب مشرقی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو کھٹکتی ہوئی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں اور بعض ASEAN (جو دس ممالک کا گروپ ہے) کو خطرہ تصور کر تے ہیں۔ چین کا (ASEAN) ممالک کے ساتھ مشفقانہ رویہ امریکہ واضح محسوس کر رہا ہے کہ یہ آنے واے وقت میں اس کی Supermacy کیلئے خطرہ ہو گا کینوکہ چین انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کو بھی ایک ایک ارب ڈالرز کی اقتصادری امداد دے رہ اہے اس پر مزید یہ کہ نومبر 2001ء میں ہونے والی ASEAN CHINA SUMMIT میں چین کی طرف سے ممبر ممالک کو فری ٹریڈ کی پیشکش اور مستقبل میں ان کے درمیان مشترکہ مارکیٹ کا منصوبہ امریکہ کی تشویش میں مزید اضافہ کرنے کیلئے کامہ ہے کیونکہ چین کے ان منصوبوں کے امریکہ کی معاشی صحت پر بہت زیادہ مضر اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کیلئے بری خبر یہ ہے کہ انڈیا ایک زہریلے بچھو کی طرح خطرناک حملے کیلئے مناسب وقت کا منتظر ہے کیونکہ سرپرستوں نے امریکہ سے ہاتھ اٹھا کر انڈیا کے سر پر رکھ دیئے ہیں۔ ان ہاتھوں کے سر سے اٹھنے کے باعث ہی امریکہ داخلی اور خارجی طور پر شدید ترین مشکلات کے بھنور میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ امریکی بنکوں کا دیوالیہ ہونا اور بقیہ بنکوں پر 12 ٹریلین ڈالرذ کا قرضہ ایک سپر پاور ملک کی کھوکھلی معیشت کا مہ چڑا رہا ہے۔ رہی مستقبل کی چوتھی بڑی معاشی قوت جاپان جو امریکی بربریت پر تاریخی مہر کامظاہرہ کر کے دنیا سے اپنی ٹیکنالوجی کا لوہا منوا کر آج اس مقام پر کھڑا ہے جو دنیا کیلئے قابل رشک ہے مگر اب کی بار جاپان کا وزیر خارجہ امریکہ جا کر اس کی مہنگی کاروں کا سودا کر کے اسکی ڈوبتی معیشت کو بچانے کااعلان نہیں کرے گا وہ امریکہ کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے گا وہ عالمی منظر نامے پر جلہ عیاں ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھرنے والی یہ معاشی قوتیں اپنا گھیرا امریکہ کے گرد تنگ کئے جارہی ہے۔ ان حالات میں امریکہ جیسے مدہوش کو ہشیار باش ہونے اور خود احتسابی کی اصلاح ہی دی جا سکتی ہے۔