امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا

Muhammad Qader Ali

محفلین
آج ایک دوست نے بتایا کہ اسلام سے قبل مدینہ میں یہودی بستے تھے اور انہیں وہاں سے نکال دیا گیا. اب بھی ان کا claim ہے کہ مدینہ ہمارا ہے اور ہم واپس لیں گے. میرے خیال میں اگر ماضی کی حقیقتوں کو دیکھنا شروع کردیا تو کوئی جگہ کسی کی نہیں بچے گی.
اسی لیے میں نے لکھا تھا
فلسطین سرزمین مسلمین

وہ لوگ خود بخود چلے گئے، اور اسلام کے بعد غیر مسلموں کو مسلمانوں کے علاقے میں جزیہ دے کر رہتا پڑتا تھا
جیسے ابولولو جس نے عمر رض کو نماز فجر کے وقت ممبر کے پیچھے سے وار کیا اور عمر رض زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے تیسرے دن شہید ہوگئے۔
یہودی تو ایک زمانے سے مدینۃ المنورہ میں آکر بس گئے تھے ان کے پاس جو کتاب تھی اس میں شہادتیں تھیں کہ
آخری رسول اس علاقے میں آنے والے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اسلئے کیا کہ وہ بنی اسرائیل میں سے
نہیں ہوئے عرب سسے ہوئے۔ لیکن ان ہی لوگوں نے بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے بہت سے پیغمبر اور نبیوں کو قتل کیا
انکار کیا۔ عیسی علیہ السلام کھلی نشانی کے ساتھ آئے تھے لیکن مریم علیہ السلام کو کیا کچھ نہیں کہہ دیا۔
قرآن الکریم میں اللہ کی طرف سے ان پر احسانوں اور عنائتوں کے انبار ہیں ان لوگوں نے ہی اپنے اوپر
گند اٹھایا ہے جیسے من سلوی کھانا ملتا تھا لیکن اس کی جگہہ انہوں نے پیاز ککڑی آلو ٹماٹر وغیرہ مانگے۔
فلسطین میں داخل ہونے کے لئے کہا لیکن داخل نہیں ہوئے، کتاب کو بدل کر اپنے چند دن کی دنیا کے فائدے
کے لئے بدل دیں۔ وغیرہ وغیرہ،

دیکھا جائے تو عرب کی زمین یہودیوں کی نہیں کیونکہ انہوں نے اس میں داخلے سے انکار کیا تھا
یہ تو فلسطینیوں نے قرآن الکریم کی تعلیمات کو بھلاکر ان کو اپنے فلسطین کی بنجر زمینیں بیجیں
جہاں یہودیوں نے بہت محنت کی اور پھر ایک سے ایک ایجادات کئے، اس کے بعد اور اج۔
 
آج ایک دوست نے بتایا کہ اسلام سے قبل مدینہ میں یہودی بستے تھے اور انہیں وہاں سے نکال دیا گیا. اب بھی ان کا claim ہے کہ مدینہ ہمارا ہے اور ہم واپس لیں گے. میرے خیال میں اگر ماضی کی حقیقتوں کو دیکھنا شروع کردیا تو کوئی جگہ کسی کی نہیں بچے گی.
اسی لیے میں نے لکھا تھا
فلسطین سرزمین مسلمین
یہ محض یہود مخالف پراپگنڈہ ہے ۔ یہود نے صیہون (بیت المقدس) کے علاوہ کسی اور مقام یا علاقہ کو واپس لینے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا آبائی وطن ہے۔ اپنے وطن سے نکالے جانے کے بعدوہ جہاں کہیں بھی رہے، وہ انکی مجبوری تھی کیونکہ واپسی کا راستہ نہیں تھا۔ 1948 میں جب اسرائیل کی واپسی ہوئی تو یہودیوں کے اور کہیں رہنے کا جواز نہیں رہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں یہود نے وہاں ہجرت کی۔ صیہونیوں کو صرف بیت المقدس اور اسرائیل سے غرض ہے۔ باقی علاقے تو وہ پہلے ہی واپس کر چکے ہیں۔
expanding_israel.jpg
 
آپ ٹرمپ وغیرہ کے ہم نوا لگتے ہیں
بات ٹرمپ کی نہیں انصاف کی ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فلسطینیوں کیساتھ یقیناً ظلم کر رہے ہیں البتہ ماضی میں عربوں نے بھی انکے ساتھ ظلم کیاہے۔ جس دن اسرائیل ختم ہو گیا تو عرب واپس اقتدار میں آجائیں گے اور یہود کو کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ اسکا ثبوت اسی بات سے لگا لیں کہ جو اکا دکا یہودی انکے ہاتھ چڑھ جاتاہے، اسکی تکا بوٹی کردیتے ہیں یہ وحشی لوگ۔ ایسے میں امن نہ فلسطینیوں کی بات مان کر ملے گا نہ اسرائیلیوں کی۔ قیام امن کیلئے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔
 
یورپ امریکہ برطانیہ سے یہودی کی جڑیں کاٹ دی گئی، فلسطینیوں نے پناہ دی، کیا فلسطینیوں نے غلط کیا جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں؟
فلسطینی تو خود پہلے خلافت عثمانیہ اور بعد میں تاج برطانیہ کے زیر سایہ تھے۔ وہ کیسے یہودیوں کو پناہ دیتے؟ صیہونی تحریک کا آغاز 1850 کے لگ بھگ ہوا تھا جب یورپی یہودیوں میں سے بعض نے فلسطین میں بستیاں آباد کرنا شروع کی۔ پھر یورپ کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور فلسطین میں یہودیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اسوقت تک یہ علاقہ خلافت عثمانیہ کے اندر تھا۔ بعد میں پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ چھن کر تاج برطانیہ کے پاس چلا گیا جنہوں نے علاقہ ایک عرب ریاست سلطنت اُردن اور فلسطین مینڈیٹ میں تقسیم کر دیا۔ اُردن کی آبادی آج بھی 70 فیصد فلسطینی ہے۔باقی ماندہ فلسطین مینڈیٹ کو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی دوبارہ ایک عرب ریاست فلسطین اور یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی مگر عربوں نے اسکی مخالفت کر دی۔ بات خانہ جنگی تو پہنچ گئی تو برطانیہ نے سارا علاقہ 14 مئی 1948 کر دیا خالی کر دیا۔ اگلے ہی روز6 ہمسایہ عرب ممالک شام، مصر، لبنان، عراق، سعودی عرب اور اُردن نے موقع پا کر یہودیوں پر حملہ کر دیا۔ اس اچانک حملے کا مقصد یہودیوں کو فلسطین میں قتل عام کرکے بھگانا تھا مگر خدا کی قدرت بازی پلٹ گئی۔ یہودی انتہائی بہادری کیساتھ 6 عرب ممالک اتحاد کیخلاف لڑے اور مارچ 1949 تک موجودہ اسرائیل وجود میں آگیا۔ تب سے عربوں کا رونا دھونا جاری ہے۔ اگر وہ یہ جنگ جیت جاتے تو آج فلسطین میں ایک یہودی باقی نہ بچتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان9کے مقابلہ 128ووٹوں سے مسترد،ہندستان نے امریکہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا
image: http://www.uniindia.com/cms/gall_content/2017/12/2017_12$largeimg22_Dec_2017_155306720.jpg
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان9کے مقابلہ 128ووٹوں سے مسترد،ہندستان نے امریکہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا
نیویارک ،21دسمبر(یواین آئی)اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کرلی ہے جس میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔

قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیئے جن ہندستان بھی شامل ہے ، 35 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ 9 نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ شہر کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ ’باطل اور کالعدم‘ ہے اس لیے منسوخ کیا جائے
 

فرقان احمد

محفلین
معلوم ہوتا ہے، روس نے سچ مچ ہی امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہو گی؛ مسٹر ٹرمپ نے فقط ایک برس میں کئی لحاظ سے امریکا کو تنہا کر دیا ہے۔
 
Top