امریکہ پاکستان کا دوست یا دشمن؟ ڈاکٹر صفدر محمود کی اطلاعات

سپر پاور کے گھوڑے...صبح بخیر۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود

(نوٹ شروع میں کالم نگار نے ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں جن کو میں نے طوالت کی وجہ سے حذف کر دیا ہے۔لئیق احمد )

ہاں تو میں اس دوست کا ذکر کررہا تھا جو آج کل واشنگٹن کے بااثر حلقوں میں’’ان‘‘ ہے، وہ امریکی اہلکاروں کے ذہن میں جھانکتا اور ان کی سوچ کی چاپ سنتا ہے۔ ہماری فون پر گفتگو جاری تھی کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم محسوس کرتے ہو کہ امریکہ پاکستا ن کو توڑنا چاہتا ہے یا پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اس نے میرا سوال سن کر ایک لمحے کے لئے توقف کیا اور پھر کہنے لگا’’سنو صفدر! میں اور تم پاکستان میں امریکی مداخلت کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی مداخلت نے پاکستان کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی برادری ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے جانے جبکہ عالمی برادری پاکستان کو امریکی سیٹلائٹ سمجھتی ہے جو ہمارے لئے باعث توہین ہے لیکن یاد رکھو کہ ہر ملک اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور امریکہ بھی اپنے مفادات کے لئے دوسرے ملکوں کو استعمال کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سازش تھیوری اس قدر مقبول عام ہے کہ اگر آپ سچی بات بھی کریں تو آپ پر الزام لگ جاتا ہے۔ ہمارا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ ہے جہاں ہمارے آبائو اجداد دفن ہیں اور جہاں ہم نے دفن ہونا ہے۔ اس لئے ہماری تمام تر محبت کا مرکز ہمارا ملک ہے۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ نہ پاکستان ٹوٹے گا اور نہ ہی انشاء اللہ کمزور ہوگا بلکہ اگر ہماری قیادت نے بصیرت کا ثبوت دیا تو پاکستانی قوم ان مسائل سے مستحکم قوم بن کر نکلے گی۔ رہی امریکی سوچ تو وہ واضح ہے۔ امریکی پالیسی ساز محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا ساتھی ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی قبضے کو ختم کرنے کے لئے پاکستان نے بنیادی کردار سرانجام دیا اور پھر نائن الیون کے بعد2001ء میں ضرورت پڑی تو پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا تھا اور آج تک کھڑا ہے۔ توڑا اسے جاتا ہے جو نافرمان یا باغی ہو۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان نے سیٹو سینٹو اور ایوب خان سے لے کر اب تک ہماری ہر بات مانی ہے۔ آج اگر پاکستان ٹوٹ جائے تو اس خطے میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی سے محروم ہوجائے گا جس سے امریکہ کے لئے بے پناہ مشکلات جنم لیں گی، اس لئے امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان قائم اور مستحکم رہے۔ وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا تو پاکستان کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ وہ کسی طرح بھی اس حوالے سے بھارت پر مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان یہ کردار صرف مضبوط ملک کی حیثیت سے ہی ادا کرسکتا ہے، پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح انہیں چین کے لئے ہندوستانی کارڈ کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح انہیں بھارت کے لئے پاکستانی کارڈ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ وقت آسکتا ہے جب بھارت امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ لڑرہی ہے اس لئے اپنے مفادات کی خاطر وہ پاکستان کو مضبوط و مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستان پاکستان کو کمزور اور منقسم دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو میں نے پوچھا کہ یہ امریکی حضرات اکثر پاکستان کے دورے پر کیوں آتے ہیں اور کیوں بار بار پاکستان کے حکمرانوں، اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں؟ میرا سوال سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ سوال ایک ذمہ دار امریکی افسر سے کیا تھا اور اس کا جواب نہایت قابل غور تھا ۔اس نے بلا جھجک مجھ سے کہا (We are looking for new horses)کہ ہمیں نئے گھوڑوں کی تلاش ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ میں نے جب سے یہ فقرہ سنا ہے میری تصوراتی نگاہوں میں پاکستانی گھوڑے گھوم رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری آزادی بھی کیا آزادی ہے!!ہم تو سپر پاور کے گھوڑے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا قابل احترام کالم نگار اپنے پڑھنے والوں کو اس ضمن ميں کوئ قابل فہم توجيہہ پيش کر سکتے ہيں کہ امريکہ کيونکر اپنی مبينہ سياسی کٹھ پتليوں يا گھوڑوں کو تبديل کرنے کے ليے تگ ودو کرے گا جبکہ لکھاری اپنے کالم کے ابتدائ حصے ميں خود ہی پڑھنے والوں کو يہ باور کروانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہيں کہ موجودہ سياسی طبقہ تو پہلے ہی سے ہماری خواہشات اور مطالبات کے آگے سرنگوں ہے۔

يہ کھلا تضاد اور شکست خوردہ دليل اس قابل افسوس سوچ پر يقين رکھنے والوں کا طرہ امتياز رہی ہے جو کسی نہ کسی طور پاکستان ميں ہر خرابی کے ليے امريکی مداخلت کو مورد الزام قرار دينے کے ليے تلے رہتے ہيں۔ ايک جانب تو کالم کار اس بات پر بضد ہيں کہ گزرے برسوں ميں عسکری اور سول قيادتوں سميت پاکستان کی تمام حکومتيں ہميشہ امريکی آقاؤوں کے ليے ہی کام کرتی رہی ہيں ليکن پھر ہميں ايک ايسے بے چين فريق کے طور پر پيش کيا جا رہا ہے جو پاکستان ميں نئے سياسی گھوڑے تلاش کرنے کے ليے ہيجانی کے عالم ميں پاکستانی قائدين سے دھڑا دھڑ ملاقاتيں کر رہا ہے۔ اگر موجودہ قائدين پہلے ہی ہمارے مطالبات کے آگے ڈھير ہو چکے ہيں تو پھر ہميں اپنے ان مبينہ اثاثوں کو تبديل کرنے کی کيا ضرورت ہے؟

لکھاری کی منطق کو اگر سامنے رکھا جائے اور يہ تصور کر ليا جائے کہ امريکہ کو نئے سياسی کھلاڑی سامنے لانے کی ضرورت ہے تو پھر ہم پاکستان ميں تعليم، توانائ، تعمير ومرمت اور معاشی بحالی کے حوالے سے ترقياتی منصوبوں کی مد ميں اپنے ٹيکس دہندگان کے کروڑوں ڈالرز کيوں صرف کر رہے ہيں؟

ريکارڈ کے ليے يہ بھی واضح کر دوں کہ سفارت کاروں اور سرکاری عہديداروں کی اپنے ہم عصروں کے ساتھ ملاقاتيں سفارت کاری، سياسی تعلقات، بات چيت کا عمل، باہم مفادات پر مبنی معاملات طے کرنے اور تعلقات ميں وسعت اور مضبوطی قائم کرنے کے ليے قانونی طريقہ کار وضع کرنا قرار پاتا ہے۔ ميں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ کئ ممالک کے سفارت کار اور حکومتی عمائدين بھی پاکستانی حکام کے ساتھ اسی نوعيت کی ملاقاتيں روزانہ کرتے رہتے ہيں۔ اسی طرح پاکستانی سفارت کار بھی مختلف بيرونی دارالحکومتوں ميں اسی عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔

دنيا کا کوئ بھی قابل فہم شخص سفارت کاروں کی ملاقاتوں کو "کٹھ پتليوں کی تلاش" سے تعبير نہيں کر سکتا ہے۔

اور اگر ہم اس منطق کو درست سمجھ ليں تو پھر ہميں يہ بھی تصور کر لينا چاہيے کہ پاکستانی وزيراعظم کا حاليہ ترکی کا دورہ ان کی پاليسيوں پر اثرانداز ہونے اور اس ملک کے خلاف پاکستان کے مذموم عزائم اور بيرونی مداخلت کو اجاگر کرتا ہے۔ کيا آپ واقعی سمجھتے ہيں اس منطق کو درست تسليم کيا جا سکتا ہے؟

لکھاری کی جانب سے پيش کردہ دليل کے بنيادی اور غيرجانب دار تجزيے سے اس محدود سوچ اور فکر کی عکاسی ہوتی ہے جس کے تحت ہر واقعے، بيان اور معمول کی سياسی اور سفارتی تبديليوں اور عمل کو سازشی کہانيوں کے آئينے سے ديکھا جاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top