نگار ف

محفلین
وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
130901110635_obama-2.jpg

امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔

اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔

وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نےجوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔

وہ زمانہ اور تھا جب امریکہ نے ویتنام کے تیرہ فیصد جنگلات اور زرعی زمین کو بی باون طیاروں سے ایجنٹ اورنج چھڑک کر زہریلا کر ڈالا تھا ۔

وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔

اپنی کم بختی کو خود دعوت دی
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔

وہ واشنگٹن اور تھا جس کے بذریعہ اقوامِ متحدہ عراق کی دس برس کی مکمل اقتصادی ناکہ بندی کے سبب پانچ لاکھ سے زائد بچے مرگئے یا اپاہج ہوگئے۔وہ بش سینیئر کوئی اور تھا جس کے دستوں نے جنوبی عراق میں یورینیم سے آلودہ آرٹلری شیل استعمال کیے ۔یوں علاقے میں طرح طرح کے سرطانوں کی ایک طویل فصل لہلا اٹھی۔

وہ طیارے کسی اور امریکہ کے تھے جنہوں نے قندھار کی وادیِ ارغنداب کے گاؤں طارق کلاچی پر دو برس پہلے پچیس ٹن بارود کچھ یوں برسایا کہ اب وہ افغانستان کے نقشے میں ہی نہیں۔البتہ متاثرہ خاندانوں کو دس دس ہزار ڈالر بھی ملے۔

ایک زمانہ تھا کہ بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد شرفا میں شمار ہوتے تھے۔تبھی تو شام انیس سو نوے کی جنگِ خلیج میں عراق مخالف امریکی اتحاد کا حصہ تھا۔تبھی تو سی آئی اے مشتبہ القاعدہ قیدی راز اگلوانے کے لیے ابھی کچھ عرصے پہلے تک بشار الاسد حکومت کے حوالے کیا کرتی تھی۔لیکن اب نہ وہ شریف شام رہا اور نہ ہی وہ سفاک امریکہ۔

دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔

حال ہی میں مصر میں ایک ہزار سے زائد افراد بھی انہی ہتھیاروں سے قتل ہوئے۔کسی نے کوئی اعتراض کیا؟ لیکن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے چودہ سو انتیس معصوم شہریوں کی ہلاکت تو کوئی سفاک سے سفاک انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔چے جائکہ مہذب دنیا؟ چے جائکہ امریکہ اور فرانس وغیرہ ؟

121230061345_sadam_hussain_304x171_afp_nocredit.jpg

وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔

حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے ایک سو اٹھاسی ممالک نے کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری، زخیرے اور استعمال پر پابندی کے عالمی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔لیکن شام، اسرائیل اور مصر ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس کنونشن کو تسلیم نہیں کرتے۔(مصر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے یمن میں سن ساٹھ کی دہائی میں باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے۔تہتر کی جنگ کے دوران شام کو احتیاطاً کیمیاوی ہتھیاروں کے سمپل بھی بھجوائے اور صدام حسین کو اس شعبے میں مہارت دلانے کے لیے مغربی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کیا۔مگر اسرائیل اور مصر کی بات کچھ اور ہے۔شام سے بھلا ان کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے)۔

امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔ شام کے بعد وہ اسرائیل اور مصر کو کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط پر مجبور کرے گی۔ایران کے بعد سعودی اور اماراتی جوہری پروگرام پر بھی پابندیاں لگوائے گی۔اور کیمیاوی ہتھیاروں کے دستخطی کے طور پر امریکہ کو انتیس اپریل دو ہزار بارہ تک اپنی قاتل گیسوں سے جو سو فیصد چھٹکارا پانا تھا۔وہ اپنی کوتاہی پر عالمی برداری سے معافی بھی مانگے گا اور شام پر حملے سے پہلے پہلے اپنے بقیہ پانچ ہزار ٹن کیمیاوی ہتھیاروں کے زخیرے کو بھی چوک میں رکھ کے آگ لگائے گا۔۔۔

مجھے قطعاً تعجب نا ہوگا کہ اگلے ہفتے سے ڈالر پر جارج واشنگٹن کے بجائے گوتم بدھ کی تصویر چھپنے لگے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/09/130901_baat_se_baat_zz.shtml
 

x boy

محفلین
وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
130901110635_obama-2.jpg

امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔

اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔

وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نےجوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔

وہ زمانہ اور تھا جب امریکہ نے ویتنام کے تیرہ فیصد جنگلات اور زرعی زمین کو بی باون طیاروں سے ایجنٹ اورنج چھڑک کر زہریلا کر ڈالا تھا ۔

وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔

اپنی کم بختی کو خود دعوت دی
دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔

وہ واشنگٹن اور تھا جس کے بذریعہ اقوامِ متحدہ عراق کی دس برس کی مکمل اقتصادی ناکہ بندی کے سبب پانچ لاکھ سے زائد بچے مرگئے یا اپاہج ہوگئے۔وہ بش سینیئر کوئی اور تھا جس کے دستوں نے جنوبی عراق میں یورینیم سے آلودہ آرٹلری شیل استعمال کیے ۔یوں علاقے میں طرح طرح کے سرطانوں کی ایک طویل فصل لہلا اٹھی۔

وہ طیارے کسی اور امریکہ کے تھے جنہوں نے قندھار کی وادیِ ارغنداب کے گاؤں طارق کلاچی پر دو برس پہلے پچیس ٹن بارود کچھ یوں برسایا کہ اب وہ افغانستان کے نقشے میں ہی نہیں۔البتہ متاثرہ خاندانوں کو دس دس ہزار ڈالر بھی ملے۔

ایک زمانہ تھا کہ بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد شرفا میں شمار ہوتے تھے۔تبھی تو شام انیس سو نوے کی جنگِ خلیج میں عراق مخالف امریکی اتحاد کا حصہ تھا۔تبھی تو سی آئی اے مشتبہ القاعدہ قیدی راز اگلوانے کے لیے ابھی کچھ عرصے پہلے تک بشار الاسد حکومت کے حوالے کیا کرتی تھی۔لیکن اب نہ وہ شریف شام رہا اور نہ ہی وہ سفاک امریکہ۔

دراصل شام نے اپنی کم بختی کو خود دعوت دی ہے۔اگر روایتی ہتھیاروں سے وہاں ایک لاکھ کے بجائے دو لاکھ افراد بھی مر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔آخر پینسٹھ برس سے ہزاروں فلسطینی روایتی امریکی ہتھیاروں سے ہی مرے ہیں اور مر رہے ہیں۔

حال ہی میں مصر میں ایک ہزار سے زائد افراد بھی انہی ہتھیاروں سے قتل ہوئے۔کسی نے کوئی اعتراض کیا؟ لیکن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال سے چودہ سو انتیس معصوم شہریوں کی ہلاکت تو کوئی سفاک سے سفاک انسان بھی برداشت نہیں کر سکتا۔چے جائکہ مہذب دنیا؟ چے جائکہ امریکہ اور فرانس وغیرہ ؟

121230061345_sadam_hussain_304x171_afp_nocredit.jpg

وہ امریکہ اور تھا جس کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے صدام حسین نے اسی کے عشرے میں ایرانی فوجی دستوں کو پن پوائنٹ کر کے بیس ہزار ایرانیوں کو گیس بموں ، مارٹروں اور شیلوں کی مدد سے اگلے جہان پہنچا دیا تھا اور حلب جاہ میں اپنے ہی پانچ ہزار شہری گیس کے چھڑکاؤ سے مار ڈالے تھے اور ریگن انتظامیہ بضد تھی کہ یہ کارروائی ایرانیوں نے کی ہے۔

حالانکہ امریکہ سمیت دنیا کے ایک سو اٹھاسی ممالک نے کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری، زخیرے اور استعمال پر پابندی کے عالمی کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں۔لیکن شام، اسرائیل اور مصر ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس کنونشن کو تسلیم نہیں کرتے۔(مصر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے یمن میں سن ساٹھ کی دہائی میں باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے۔تہتر کی جنگ کے دوران شام کو احتیاطاً کیمیاوی ہتھیاروں کے سمپل بھی بھجوائے اور صدام حسین کو اس شعبے میں مہارت دلانے کے لیے مغربی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ فعال کردار ادا کیا۔مگر اسرائیل اور مصر کی بات کچھ اور ہے۔شام سے بھلا ان کا مقابلہ کیسے ہوسکتا ہے)۔

امریکہ نے چونکہ اب ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا تہیہ کر ہی لیا ہے۔لہذٰا اوباما انتظامیہ محض شام تک نہیں رکے گی۔ شام کے بعد وہ اسرائیل اور مصر کو کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط پر مجبور کرے گی۔ایران کے بعد سعودی اور اماراتی جوہری پروگرام پر بھی پابندیاں لگوائے گی۔اور کیمیاوی ہتھیاروں کے دستخطی کے طور پر امریکہ کو انتیس اپریل دو ہزار بارہ تک اپنی قاتل گیسوں سے جو سو فیصد چھٹکارا پانا تھا۔وہ اپنی کوتاہی پر عالمی برداری سے معافی بھی مانگے گا اور شام پر حملے سے پہلے پہلے اپنے بقیہ پانچ ہزار ٹن کیمیاوی ہتھیاروں کے زخیرے کو بھی چوک میں رکھ کے آگ لگائے گا۔۔۔

مجھے قطعاً تعجب نا ہوگا کہ اگلے ہفتے سے ڈالر پر جارج واشنگٹن کے بجائے گوتم بدھ کی تصویر چھپنے لگے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/09/130901_baat_se_baat_zz.shtml

بہت شکریہ
 

Fawad -

محفلین
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے اس بیان سے بھلا کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ شام میں نہتے شہریوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال سفاک ترین حرکت ہے اور دنیا کو شتر مرغ بننے کے بجائے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا دینی چاہیے۔

اگر کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا تب بھی امریکہ اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر صف آرا ہوگا تاکہ آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کان ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد ہمارے دل میں امریکہ کے خلاف جو تھوڑی بہت کدورت تھی وہ بھی صاف ہوگئی۔

وہ دن اور تھے جب ہیروشیما ناگاساکی کو صدر ہیری ٹرومین نےجوہری عبرت کا نشان بنا دیا تھا اور سوا لاکھ جاپانیوں کے سائے تک جل گئے تھے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/09/130901_baat_se_baat_zz.shtml

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا لکھاری اپنی دليل سے يہ ثابت کرنا چاہ رہے ہيں کہ دنيا کا کوئ بھی ايسا ملک جو تاريخ ميں کبھی بھی کسی فوجی معرکے کا حصہ رہا ہو، اس سے يہ "حق" چھين ليا جانا چاہيے کہ وہ عالمی سطح پر کہيں بھی انسانيت سوز مظالم کے واقعات پر اپنا موقف دے سکے؟

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ شام کے عوام کی خود اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں قتل و غارت گری ايک ايسا قبيح فعل ہے جس کے خلاف آواز بلند کرنے ميں امريکی حکومت تنہا ہرگز نہيں ہے۔ ہم خطے کے عام شہريوں کی جان بچانے کی اس جاری عالمی کوشش کا حصہ ہيں جو ايک ايسی حکومت کے مظالم کا شکار ہيں جو کسی بھی منطق اور دليل کو ماننے سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔

يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ کچھ تجزيہ نگار دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کی منطق کو چيلنج کرنے کے ليے ان تنازعات اور جنگوں کے حوالے استعمال کرتے ہيں جو کئ دہائيوں پرانے ہيں اور جن کا موجودہ دور کے عالمی تنازعوں کے ساتھ نہ کوئ تعلق بنتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئ باہمی ربط ہے۔ يہ کوئ حيران کن بات نہيں ہے کہ يہ رائے دہندگان بآسانی ان عام لوگوں کی تکاليف اور مصائب کو پس پش ڈال ديتے ہيں جو دنيا سے اس بات کے طلب گار ہوتے ہيں کہ ان کے زندہ رہنے کے حق کے ليے آواز بلند کی جائے۔

جس وقت يہ "ماہرين" اور تجزيہ نگار ان برسوں پرانی جنگوں کے حوالے دے کر ايک محض علمی سطح کی بحث ميں مصروف ہيں اور يہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہيں کہ برسوں پہلے کيا ہونا چاہيے تھا، اسی دوران وہ اس تلخ حقيقت کا ادراک کرنے ميں ناکام ہو جاتے ہيں کہ آج کے موجودہ دور ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں دہشت گرد گروہ اور ظالم حکومتيں بے گناہوں کے خون سے اپنی تاريخ رقم کرنے ميں مصروف ہيں۔

جہاں تک ايک ايسی جنگ کے حوالے سے امريکہ پر تنقيد کا سوال ہے جو کم و بيش سات دہائيوں قبل لڑی گئ تھی تو اس ضمن ميں مفصل تجزيے کے ليے يکطرفہ جملہ بازی کی بجائے واقعات کے تسلسل اور درست تناظر کا غير جانب دارانہ مطالعہ ضروری ہے۔

کيا آپ سمجھتے ہيں کہ پاکستان پر اس بنياد پر يک طرفہ تنقید درست قرار دی جا سکتی ہے کہ يہ ملک 50 سالوں ميں 4 جنگوں ميں ملوث رہا ہے جبکہ اس تنقيد کے ضمن ميں ان پرانے تنازعوں، اس وقت کے سياسی حالات يا فوجی اور علاقائ حکمت عملی يا واقعات کے اس تسلسل کا سرے سے ذکر ہی نا کيا جائے جو ان جنگوں کا سبب بنے؟

آپ يہ اہم نقطہ کيوں نظرانداز کر رہے ہيں کہ جاپان نے بغير اعلان کے امريکہ پر حملہ کيا تھا جس کے نتيجے ميں 2 ہزار سے زائد امريکی جاں بحق ہو گئے تھے۔ امريکہ اس جنگ ميں اپنے دفاع اور جرمن کی اس فوجی يلغار کو روکنے کے ليے شامل ہوا تھا جس کے نتيجے ميں يورپ پر حملہ اور کئ علاقوں پر براہ راست قبضہ کر ليا گيا تھا۔ جاپان نے بھی ايسٹ ايشيا کے بيشتر علاقے فتح کر کے لوگوں پر غير انسانی مظالم کی انتہا کر دی تھی۔ بلکہ اکثر تاريخ دانوں کے مطابق نازی جرمنی اور جاپان کا جابرانہ تسلط حاليہ انسانی تاريخ کے سياہ ترين باب تھے۔ امريکہ نے اس تاريک دور کے خاتمے ميں فيصلہ کن کردار ادا کيا تھا۔ اگر آپ تاريخی حقائق کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہو گا کہ دوسری جنگ عظيم ميں ايٹمی ہتھيار استعمال نا کرنے کی صورت ميں جاپان ميں فوج بھيجی جاتی جس کے نتيجے ميں بڑے پيمانے پر فوجيوں اور شہريوں کی ہلاکت ہوتی جو کافی عرصے تک جاری رہتی۔ ايسی صورت حال ميں ہونے والا انسانی نقصان تاريخی لحاظ سے بے مثال ہوتا۔

آج بھی دوسری جنگ عظيم ميں زندہ بچ جانے والے ايسے لوگ موجود ہيں جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہيں کہ امريکہ نے خود اس جنگ ميں شموليت اختيار نہيں کی تھی جس کا آغاز 1939 ميں ہو چکا تھا۔ دسمبرسات 1941 کو ہوائ ميں پرل ہاربر کے مقام پر جاپان کے حملے کے بعد لامحالہ امريکہ کو اس جنگ کا حصہ بننا پڑا۔ اس حملے کے چار روز بعد ہٹلر نے باقاعدہ امريکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کيا۔

ايٹمی ہتھيار کا استمعال يقينی طور پر ايک کٹھن فيصلہ تھا ليکن اس وقت کے معروضی حالات کے تناظر ميں بادل نخواستہ يہ مشکل فيصلہ کيا گيا تھا تا کہ اس ممکنہ طويل جنگ کو روکا جا سکے جو جاپان پر زمينی حملے کی صورت ميں تمام فريقين کے ليے عظيم انسانی سانحے کا سبب بنتی۔

سات دہائيوں قبل ايک عالمی تنازعے کے دوران کيا پاليسی اپنائ جانی چاہيے تھی، اس ضمن ميں تاريخی حقائق اور علمی بحث کو ايک جانب رکھتے ہوئے لکھاری کے پاس ايسی کوئ مربوط دليل يا منطقی وجہ نہيں ہے جس کی بنياد پر وہ اسد کی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے پر امريکہ کو ہدف تنقيد بنائيں۔ اوروہ بھی پچاس اور ساٹھ کی دہائ کے واقعات کا تقابلی جائزہ پيش کر کے، جس کا شام ميں جاری ظلم و تشدد سے کوئ تعلق نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
امریکہ بم مارے تو طویل جنگ کو روکنے کے لئے ،، دوسرے کے خیال و تصور میں اگر بم تیار کرنے کا خواب آرہا ہے تو وہ دنیا کے لئے خطرہ۔۔۔
مجاق مت کرو فواد جی۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ہيروشيما / ناگاساکی – کچھ تاريخی حقائق اور امريکی موقف

حقيقت يہ ہے کہ سال 1941 سے امريکہ جنگ عظيم دوئم ميں شموليت سے سخت گريزاں تھا۔ بلکہ امريکہ ميں بڑے پيمانے پر ايک سوچ کا غلبہ تھا جس کے ماننے والوں کو آئ سوليشنسٹس کہا جاتا تھا۔ ان کے نزديک جنگ عظيم اول ميں شرکت کی امريکہ نے بڑی بھاری قيمت ادا کی تھی اس ليے امريکہ کو معاشی استحکام پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور امريکی صدر روزويلٹ کے "نيو ڈيلز پروگرامز" کو نافذ کرنا چاہيے۔ آئ سوليشنسٹس امريکی ايک مزيد مہنگی اور طويل جنگ ميں شموليت کے سخت مخالف تھے۔ ان امريکی شہريوں کی تحريک اور لابنگ اتنی متحرک اور مقبول تھی کہ اس وقت کی امريکی خارجہ پاليسی ميں بھی اس کی واضح جھلک موجود تھی۔ يہاں تک کہ کانگريس نے "نيوٹريلی ايکٹ آف 1935" کے نام سے باقاعدہ ايک قانون کی منظوری بھی تھی جس کے تحت جنگ ميں شامل ممالک کو فنڈز اور مال واسباب کی ترسيل کے عمل کو غير قانونی قرار دے ديا گيا تھا۔

انيس سو تيس کی دہائ ميں امريکی کانگريس کی جانب سے جو "نيوٹريليٹی ايکٹس" منظور کيے گئے تھے وہ براہراست ايشيا اور يورپ ميں ان منفی عوامل کے ردعمل ميں تھے جو دوسری جنگ عظيم کا سبب بنے تھے۔ ان قوانين کی منظوری کا محرک پہلی جنگ عظيم ميں امريکی شرکت کے منفی معاشی اثرات اور اس کے نتيجے ميں امريکہ ميں بتدريج پروان چڑھتی ہوئ يہ سوچ تھی کہ امريکہ کو لاتعلق رہنا چاہيےاور کنارہ کشی کی روش اپنانی چاہيے تا کہ اس بات کو يقینی بنايا جائے کہ امريکہ بيرونی تنازعات ميں شامل نہ ہو۔

مثال کے طور پر "نيوٹريليٹی ايکٹ" ميں يہ شق بھی شامل تھی کہ امريکی کسی ايسے بحری جہاز پر سوار نہيں ہوں گے جس پر ايسے ملک کا جھنڈا ہو گا جو يا تو خود جنگ ميں شامل ہو يا جنگ ميں ملوث ممالک کے ساتھ اسلحے کے لين دين ميں ملوث ہو۔

يہ وہ عمومی صورت حال اور مقبول رائے عامہ تھی جو دوسری جنگ کے دوران امريکہ ميں پائ جاتی تھی۔ اس تناظر ميں يہ تاثر دينا کہ امريکہ جان بوجھ کر اپنے جنگی عزائم کی تسکين يا اپنی جارج پسندی کی وجہ سے دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا، سراسر لغو اور غلط بيانی ہے۔

حقيقت يہ ہے کہ اس زمانے ميں امريکہ کی لاتعلق رہنے کی پاليسی اور بڑے بڑے عالمی تنازعات ميں مداخلت نہ کرنے کی روش کے سبب اکثر عالمی سطح پر ہميں شديد تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ يہ حقيقت اس دور کے بے شمار کالمز، جرنلز اور لٹريچر سے عياں ہے۔ اس ضمن ميں ايک مثال

406px_Flagg_Wake_Up_America.jpg




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
کل ہی کسی ایسا بتایا کہ جس کے بارہ میں گمان بھی نہیں تھا
کہ اگر افغانستان میں کینیڈا کا ایک فوجی بھی مرتا ہے تو دور دراز کینیڈا کی مسجد جلادی جاتی ہے
اس کی سچائی کا علم نہیں، لیکن مہذب لوفر ایسا کرسکتے ہیں کیا؟
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
کل ہی کسی ایسا بتایا کہ جس کے بارہ میں گمان بھی نہیں تھا
کہ اگر افغانستان میں کینیڈا کا ای فوجی بھی مرتا ہے تو دور دراز کینیڈا کی مسجد جلادی جاتی ہے
اس کی سچائی کا علم نہیں، لیکن مہذب لوفر ایسا کرسکتے ہیں کیا؟
تمہارے اس جھوٹ میں کوئی حقیقت نہیں۔
 

x boy

محفلین
تمہارے اس جھوٹ میں کوئی حقیقت نہیں۔
بغور پڑھ تو لیا سمجھا نہیں،، میں نے کہا کسی نے بتایا ہے اور آگے مزید کہا تھا کہ اس سچائی کیا علم نہیں۔
جس بنگالی نےیہ خبر دی اس کی بیٹی بھی وہاں رہتی ہے
پھر اس حقیقت کی کوئی تو کڑی ہوگی جس سے یہ پھیل رہا ہے؟
 

عثمان

محفلین
بغور پڑھ تو لیا سمجھا نہیں،، میں نے کہا کسی نے بتایا ہے اور آگے مزید کہا تھا کہ اس سچائی کیا علم نہیں۔
جس بنگالی نےیہ خبر دی اس کی بیٹی بھی وہاں رہتی ہے
پھر اس حقیقت کی کوئی تو کڑی ہوگی جس سے یہ پھیل رہا ہے؟
"پھیل رہا ہے " ؟ میں ایک عرصہ سے یہاں مقیم ہوں۔ یہ "پھیلاؤ" مجھ تک تو نہیں پھیلا۔
باقی سازش نظریات اور جھوٹ پھیلانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
گوگل دور نہیں، سرچ کر لیجیے کہ ماضی میں کتنی مسجدوں کو آگ لگائی گئی ہے۔ پچھلے پندرہ برسوں میں آگ لگنے کے محض دو واقعات تلاش کرنے پر ملے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
حسبِ معمول پھر وہی بحث ہے جو اایک عرصے سے یہاں جاری ہے ۔ ایک مخصوص سوچ صرف اس پس منظر میں سوچتی ہے کہ کس طرح نفرتوں کے بیج بوئیں جائیں ۔ ذہنوں کو کس طرح گمراہ کیا جائے ۔ اسلام کا وہ تشخص جو مسلمانوں کی میراث ہے ۔ اسے اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ مسلمان تو مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ پر اسے ایک پُرتشدد مذہب سمجھنے پر مجبور ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں اس قسم کی سوچ اور نظریہ کے حامل لوگ شاید اپنے اپنے ممالک میں کامیاب ہوں ۔ جہاں وہ مسجدوں ، اما م بارگاہوں، شادی بیاہ کی تقربیوں ، بازاروں ، گھروں ، گلی کوچوں میں انسان کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔ مگر جس مغرب کو وہ اپنی کوتاہیوں ، نااہلیوں کا سبب بتاتے ہیں ۔ وہاں زیادہ تر لوگ اس قسم کی سوچ اور نظریے سے بلکل متاثر نہیں ہوئے ۔ وہ مذہب کے حوالے سے شاید اپنے محسوسات کا اظہار نہ کرتے ہوں ۔ مگر انسانیت کے ناطے وہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو ایک پُرتشدد قوم نہیں سمجھتے ۔ ان وڈیوز کو دیکھیں ۔ اور مغرب کے طرزِ عمل کو سمجھیں جو کہ ایک عام شہریوں سے متعلق ہے ۔ اور ایسی ہی ایک کوشش دو معصوم مسلمانوں نوجوانوں کی" پُر تشد د" عیسائیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے تناظر میں یوحنا آباد سے کسی عیسائی نوجوان کو لاکر کسی سڑک پر اس طرح کھڑا کرکے دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ اُس نوجوان کے ساتھ یہ قوم کیا سلوک کرے گی ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے ۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیئے اپنی نااہلیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مغرب کی اعلیٰ قدروں کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیئے اور یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قوم نے گذشتہ 150 سا ل میں کسی طرح ایک جو ہر ی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ۔
۔
سوئیڈن

کینیڈا

نیوریاک

 
آخری تدوین:
Top