سید شہزاد ناصر
محفلین
کچھ سامان ایسے ہوں توکچھ مرے دل کو کل ہو
مٹر ابلے ہوئے ہوں اور اک ٹھرے کی بوتل ہو
وہ مضمون ڈھونڈ کر باندھوں جو اشکل سے اشکل ہو
کہوں وہ مطلعِ ثانی جو اوّل سے اوّل ہو
اگر جاڑے میں تُو مل جائے تو کیا غم
تری زلفیں ہوں شانے پہ، دوشالہ ہو نہ کمبل ہو
کہو بے چارگی میں بھی طبعیت خوش رکھے مجنوں
کہ چر لے ناقہِ لیلیٰ جب ہری دل کی کونپل ہو
کہو عشاق سے اپنے کہ ضبطِ گریہ فرمائیں
رکے گا راستہ گھر کا اگر کوچے میں دلدل ہو
ہمیں رشک آئے اپنے سے ہمیں سے غیر پیدا ہو
ہم ایسے دو نظر آئیں اگر معشوق احول ہو
ابھی کمسن ہیں، ان کو شوق ہے لنگڑ لڑانے کا
تکلا ڈور کا ہو اک،نہ کنکیا ہو نہ تکل ہو
کوئی ان سے کہے جو شعر معنی بند کہتے ہیں
کُھلے کیا راز سربستہ جو دروازہ مقفل ہو
کس صورت سے بہلائیں گے اس معشوق کمسن کو
ڈبل پیسہ نہ ہو، ریوڑی نہ ہو تو گول گپل ہو
کبھی گالی سنا بیٹھے، کبھی جوتی لگا بیٹھے
حکومت کا مزہ آئے اگر معشوق ارذل ہو
خدا کے فضل سےاترا تھا کیا ہی عرش سے جوڑا
نہ مجھ سا کوئی گرگا ہو نہ تم سی کوئی شفتل ہو
ہم اس نازک ادا کی شوخیوں پہ جان دیتے ہیں
شتر کے جس میں غمزے ہوں،فرس کی جس میں چھلبل ہو
میں دل کو چیر ڈالوں گا جو تم پہلو سے اُٹھ جاؤ
میں آنکھیں پھوڑ ڈالوں گا جو تم آنکھوں سے اوجھل ہو
تمہاری سادگی میں کچھ عجب عالم نکلتا ہے
نہ چوٹی ہو، نہ کنگھی ہو، نہ مسی ہو،نہ کاجل ہو
ٹکا ہم سے جب وہ مانگیں انہیں چپکے سے ہم دے دیں
نہ بک بک ہو، نہ جھک جھک ہو،نہ کچ کچ ہو، نہ کل کل ہو
بس اے قزاق طبع قیامت خیز کو روکو
غضب ہو جائے گا نوج، مضامین میں جو ہلچل ہو