امام اعظم ابو حنیفہ کے وہ شاگرد جو محدث وقت بنے
ڈاکٹر سیّد وسیم الدین
ڈاکٹر سیّد وسیم الدین
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس دور میں پروان چڑھے اس وقت علم زیادہ تر موالی و اعاجم میں زیادہ پایا جاتا تھا۔ آپ نسبی فخر سے محروم تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو علم کا فخر عطا فرمایا جو نسب کے مقابلہ میں زیادہ مقدس زیادہ پھلنے پھولنے والا زیادہ پائیدار اور نام زندہ رکھنے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کائناتی حقیقت بن کرثابت ہوئی کہ اولادِ فارس علم کی حامل ہوگی۔ امام بخاری، شیرازی (1) اور طبرانی (2) وغیرہ نے بھی آپ کے یہ الفاظ روایت کیے ہیں کہ
ترجمہ: ”اگر علم کہکشاں تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کرکے رہیں گے۔“
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے وہ شاگرد جو محدثِ وقت بنے ان کے بارے میں چند اشارے اور جملے سپرد قلم کر رہا ہوں جس سے اِمام ابو حنیفہ کی عظمت کا مزید پتا لگایا جاسکتا ہے۔
یحیٰ بن سعید القطان:
فن رجال کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ علامہ ذہبی نے میزان اعتدال کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ فنِ رجال میں اول جس شخص نے لکھا وہ یحیٰ بن سعید القطان پھر اُن کے بعد اُن کے شاگردوں میں یحیٰ بن مدین، علی بن المدین، امام احمد بن جنبل، عمر و بن علی ور ابوخیثمہ نے اس فن میں گفتگو کی اور اُن کے بعد ان کے شاگردوں یعنی امام بخاری مسلم وغیرہ نے۔
حدیث میں ان کا یہ پایہ تھا کہ جب حلقہٴ درس میں بیٹھتے تو امام احمد بن حنبل، علی ابن المدین وغیرہ مُوٴدب کھڑے ہو کر ان سے حدیث کی تحقیق کرتے اور نمازِ عصر سے جو اُن کے درس کا وقت تھا۔ مغرب تک برابر کھڑے رہتے۔ (3) راویوں کی تحقیق و تنقید میں یہ کمال پیدا کیا تھا کہ ائمہ حدیث عموماً کہا کرتے تھے کہ ”یحیٰ جس کو چھوڑ دیں گے ہم بھی اُس کو چھوڑ دیں گے۔ (4) امام احمد بن جنبل کا مشہور قول ہے کہ
ترجمہ: میں نے اپنی آنکھوں سے یحیٰ کا مثل نہیں دیکھا۔ اس فضل و کمال کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے حلقہٴ درس میں اکثر شریک ہوتے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے۔ اس وقت تک تقلید معین کا رواج نہیں ہوا تھا تاہم اکثر مسائل میں وہ امام صاحب ہی کی تقلیدکرتے تھے۔ خود اُن کا قول ہے کہ (5(
ترجمہ: یعنی ہم نے امام ابو حنیفہ کے اکثر اقوال اخذ کیے ہیں علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں جہاں وکیع بن الجراح کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ وکیع، امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوٰی دیتے تھے۔ آپ 135ھء میں پیدا ہوئے اور 198ھء میں بمقام بصرہ وفات پائی۔
عبداللہ بن المبارک:
محدث نودی نے تہذیب الاسماء واللغات میں آپ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ”وہ امام جسکی امامت و جلالت پر ہر باب میں عموماً اجماع کیا گیا ہے جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے جس کی محبت سے مغفرت کی اُمید کی جاسکتی ہے۔“
حدیث میں جو آپ کا پایہ تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ محدثین اُن کو ” امیر المومنین فی الحدیث“ کے لقب سے پکارتے تھے۔ ایک موقع پر اُن کے شاگردوں میں سے ایک شخص نے ان سے خطاب کیا کہ عالم المشرق امام سفیان ثوری جو مشہور محدث ہیں اس موقع پر موجود تھے بولے کہ ”کیا غضب ہے عالم مشرق کہتے ہو وہ عالم المشرق والمغرب (6) ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ عبداللہ بن المبارک کے زمانہ میں ان سے بڑھ کر کسی نے حدیث کی تحصیل میں کوشش نہیں۔
صحیح بخاری و مسلم میں ان کی روایت کے بڑے ارکان سے سینکڑوں حدیث مروی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ فن روایت کے بڑے راویوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔ حدیث وفقہ میں ان کی بہت سی تصنیفات ہیں مگر افسوس کہ آج تک اُن کا پتا نہیں ملتا۔ آپ مرد کے رہنے والے تھے۔ 118ھء میں پیدا ہوئے اور 181ھء میں مقام ہیت میں وفات پائی۔
یحیٰ بن زکریا ابی مائدہ:
آپ معروف محدث تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں صرف اُن لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو حافظ الحدیث کہلاتے تھے۔ چنانچہ یحیٰ کو بھی اُنہی لوگوں میں داخل کیا ہے اور اُن کے طبقہ میں سب سے پہلے اُنہی کا نام لکھا ہے۔ علی بن المدین جو امام بخاری کے مشہور اُستاد ہیں کہا کرتے تھے کہ یحیٰ کے زمانے میں یحیٰ پر علم کا خاتمہ ہوگیا ۔ (7(
صحاح ستہ میں اُن کی روایت سے بہت سی حدیثیں ہیں وہ محدث و فقیہ دونوں تھے، اور ان دونوں فنون میں بہت بڑا کمال رکھتے تھے ۔ آپ امام ابو حنیفہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور مدت تک اُن کے ساتھ رہے آپ تدوین فقہ میں امام ابو حنیفہ کے شریک اعظم تھے ۔ امام طحاوی نے لکھا ہے کہ وہ تیس برس تک شریک رہے۔
آپ کا وصال 183ھء میں 63 برس کی عمر میں مدائن کے مقام پر ہوا۔
وکیع بن الجراح:
آپ فن حدیث کے ارکان میں شمار کیئے جاتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو اُن کی شاگردی پر فخر تھا چنانچہ جب وہ اُن کی روایت سے کوئی حدیث بیان کرتے تو اِن لفظوں سے شروع کرتے تھے۔
”یہ حدیث مجھ سے اس شخص نے روایت کی کہ تیری آنکھوں نے اُن کا مثل نہ دیکھا ہوگا۔“(8(
یحیٰ بن معین جو فنِ رجال کے ایک رکن خیال کیے جاتے ہیں اُن کا قول تھا کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کو وکیع پر ترجیح دوں۔ (9) اکثر ائمہ حدیث نے ان کی شان میں اِس قسم کے الفاظ لکھے ہیں۔ بخاری و مسلم میں اکثر ان کی روایت سے حدیثیں مذکور ہیں۔ فنِ حدیث و رجال کے متعلق ان کی روایتیں نہایت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ آپ کا وصال 197ھء میں ہوا۔
داوٴد الطائی:
صرفیہ آپ کو بڑا مرشد کامل مانتے ہیں۔ تذکرۃالاولیاء میں ان کے مقاماتِ عالیہ مذکور ہیں۔ فقہا اور خصوصاً فقہاے حنفیہ ان کے تفقہ اور اجتہاد کے قائل میں۔ محارب میں وقار جو معروف محدث تھے کہا کرتے تھے کہ داوٴد اگر پچھلے زمانہ میں ہوتے تو خدا قرآن مجید میں اُن کا قصہ بیان کرتا۔ (10(
آپ نے ابتداء میں فقہ و حدیث کی تحصیل کی ۔ پھر علم کلام میں کمال پیدا کیا اور بحث و مناظرہ میں مشغول ہوئے۔ ایک دن کسی موقع پر ایک شخص سے گفتگو کرتے کرتے اس پر کنکری پھینک ماری۔ اس نے کہا۔ داوٴد تمہاری زبان اور ہاتھ دونوں دراز ہو چلے۔ ان پر عجب اثر ہوا، بحث و مباحثہ و مناظرہ بالکل چھوڑ دیا۔ تاہم تحصیل علم کا مشغلہ جاری رکھا۔ ایک برس کے بعد کل کتابیں دریا میں ڈبو دیں اور تمام چیزوں سے قطع تعلق کرلیا۔ امام محمد کا بیان ہے کہ میں داوٴد سے اکثر مسئلے پوچھنے جاتا۔ اگر کوئی ضروری مسئلہ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ کہتے کہ بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں۔
آپ کا شمار امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کے مشہور شاگردوں میں ہوتا ہے۔ خطیب بغدادی، ابن خلکان علامہ ذہبی اور دیگر موٴرخین نے جہاں ان کے حالات لکھے ہیں وہاں امام ابو حنیفہ کی شاگردی کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا ہے تدوین فقہ میں بھی آپ امام ابو حنیفہ کے شریک تھے اور اس مجلس کے معزز رکن بھی تھے۔آپ کا وصال 160ھء میں ہوا۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چند معروف شاگردوں میں قاضی ابو یوسف، رفر، اسد بن عمر، عافیہ الازدی، قاسم بن معن، علی بن مسر، حبّان، سندل بھی خاصے مقبول و معروف ہوئے۔دینِ اسلام کی نشونما اور تدوین فقہ کے لیے امام اعظم ابو حنیفہ کی خدمات عالیہ اظہر من الشمس ہیں آپ کے شاگردوں اور تلامذہ نے بھی اس ضمن میں چراغ سے چراغ روشن کیا ہے اور ایمان کی حرارت اور روشنی کو اُجاگر کرنے میں آپ کے شاگردوں اور تلامزہ کی خدمات صدقہ جاریہ سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اِسلام کے مسلمان حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی علمی، دینی، فقہی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشرہ میں احیائے دین کی سرفرازی کے لیے کمر بستہ ہوجائیں تاکہ مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے میں بامراد ہوسکیں۔ اور یہ بامرادی و باآوری اُس وقت ممکن ہوگی کہ ہم دین اسلام کی آبیاری کے لیے عملًا قافلہٴ غلامانِ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں شریک ہوکر اس امر کا اعادہ کریں کہ ہم امام اعظم حضرت ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے صحیح معنوں میں پیروکار اور فدائیاں ابوحنیفہ ہیں۔ کاش کے ہم جملہ حنفی مسلمان حضرت ابو حنیفہ کے وارث و جانشین ثابت ہوسکیں۔
تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عُشّاق گئے وعدہٴ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخِ زیبا لے کر
(ڈاکٹر اقبال)
حوالہ جات:
1۔ ابوبکر احمد بن عبدالرحمن شیرازی متوفی 407ھء۔
2۔ مصنف نے یہ حصہ غالباً تبییض الصحیفہ از سیوطی سے لیا ہے۔
3۔فتح المغیث وجواہرمعینہ۔
4۔ تہذیب التدریب، حافظ ابن حجر ترجمہ یحیٰ بن القطان
5۔ میزان الاعتدال، علامہ ذہبی دیباچہ۔
6۔تہذیب الاسماء۔
7۔میزان الاعتدال، علامہ ذہبی ترجمہ یحیٰ۔
8۔ تہذیب الاسماء و اللغات علامہ نودی ترجمہ وکیع بن الجراح۔
9۔تہذیب الاسماء واللغات۔
10۔ میزان الاعتدال، ذہبی۔