اللہ کا بندہ

چند سال پہلے کی بات ہے ایک دوست جو کہ ایک سرکاری محکمہ میں ذمہ دار عہدہ پر تعینات تھے انہوں نے اپنے محکمہ میں نئے ملازمیں کی بھرتی کا ایک واقعہ سنایا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسے پڑھئے اور اللہ کا بندہ بننے کی جستجو میں لگ جایئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ چند آسامیوں کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں جیسا کہ ہمارے ہاں دستور ہے کہ بہت سے عہدوں پر بعض اوقات میرٹ لسٹ کو نظر انداز کرکے اہم شخصیات کی سفارشات کو میرٹ بنایا جاتا ہے۔
لسٹ تیار ہوگئی ایک امیدوار ایسا بھی تھا جو ہر لحاظ سے مستحق تھا اور محکمہ کے لوگ اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہتے تھے اسے کہا گیا کہ کسی اہم شخصیت کا سفارشی رقعہ لے آؤ وہ گھوم پھر کہ واپس آگیا، کہنے لگا کہ مجھے کوئی بھی سفارشی رقعہ دینے پر تیار نہیں ۔ چار و ناچار لسٹ میں اسکا نام درج کردیا گیا ۔ اب ہر نام کے آگے کسی نا کسی اہم شخصیت کا حوالہ تھا کہ یہ فلاں کا بندہ ہے اور یہ فلاں کا بندہ ہے جس کی سفارش نا تھی اسکے نام کے آگے لکھ دیا گیا کہ یہ "اللہ کا بندہ " ہے ۔
اس کے بعد لسٹ نے تین اہم افسران کی منظوری کے بعد فائنل ہونا تھا۔ ایک افسر نے اپنا آدمی رکھوانا تھا اس نے لسٹ دیکھی تو اسکے آدمی کا نام نا تھا وہ بڑا سیخ پا ہوا کہ میرا آدمی کیوں نہیں رکھا انہیں کہا گیا کہ لسٹ آپ کے ہاتھ میں ہے جو نام چاہیں کاٹ کر اپنے منظور نظر آدمی کا نام لکھ دیں۔ بڑ ی سوچ و بچار کے بعد انہوں نے لسٹ کو ویسے ہی منظور کر لیا اور کسی افسر کو بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ "اللہ کے بندے" کا نام کاٹ کر کسی دوسرے کا نام لکھ سکیں اس طرح ایک غریب آدمی بغیر کسی سفارش کے روزکار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
(ماخوز بکھرے موتی۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بالکل سچ ہے۔ ایسا ہی ہوا ہو گا۔

میں ایک محکمے میں نوکری کرتا تھا۔ وہاں نوکری کرتے مجھے 8 سال ہو گئے تھے۔ کہ ایک اور محکمے میں، اور محکمہ بھی بہت اعلٰی، بھرتی کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں۔ میں نے بھی درخواست دے دی۔ ٹیسٹ اور انٹرویو بھی ہوا۔ کوئی 30 کے قریب امیدوار تھے۔ اور ہر کوئی کسی نہ کسی سیاسی لیڈر کی سفارش لیکر آیا تھا۔ اس دوران میں نے بھی کئی ایک جگہ سے سفارش حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں میرا باس بھی شامل تھا کہ اس کا والد بہت بڑے عہدے پر کام کرتا تھا۔ تو میرے باس نے کہا کہ تمہارا ٹیسٹ کیسا ہوا تھا اور انٹرویو کیسا ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ بہت اچھے ہوئے تھے تو کہنے لگا آج کے بعد کسی سے سفارش کے لیے نہ کہنا۔ صرف اور صرف اللہ پر چھوڑ دو۔ میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد کسی سے سفارش کے لیے نہ کہوں گا۔ (یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا تھا کہ باپ بیٹے کے سفارتی تعلقات خراب تھے)۔ کوئی آٹھ ماہ گزرنے کے بعد مجھے تقرری کا پروانہ ملا اور بغیر کسی سفارش کے ملا۔

تقرری کے بعد جب وہاں میری اچھی جان پہچان ہو گئی تو میں نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ انٹرویو/ٹیسٹ اور تقرری میں اتنا زیادہ وقت کیوں لگا تو انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ باہر سے بھرتی کی بجائے موجودہ عملے کو ترقی دینے پر زور دے رہے تھے جس کی وجہ سے معاملہ کٹائی میں پڑا رہا۔
 
Top