القدس الشریف - از: حسن نظامی، دبیر حلقہء نظام المشائخ ۔ 1900ء

کاشفی

محفلین
القدس الشریف
(از: حسن نظامی، دبیر حلقہء نظام المشائخ ۔ 1900ء)

کرہء خاک پر ایسا کوئی مقام نہیں جس کو دنیا کے تین بڑے بڑے مذہب متبرک و مقدس سمجھتے ہوں۔ یہ شرف صرف ارض فلسطین کے اس خطہ کو حاصل ہے جس کا نام ہے یروشلم، بیت المقدس یا قدس الشریف ہے۔ اہلِ عرب اس کو قدس اور القدس الشریف کے نام سے پکارتے ہیں۔

مصر کے مشہور بندرگاہ پورٹ سعید سے قسطنطنیہ جاتے وقت پہلا بند ر "یافہ" آتا ہے۔ انگریزی میں اس کو جافہ کہتے ہیں۔ یہاں سے بیت المقدس صرف پانچ گھنٹے کا راستہ ہے۔

یافہ بہت پُرانا شہر ہے۔ اس کی اُنچی اور گنجان عمارتیں سمندر میں میلوں کے فاصلہ سے نظر آتی ہیں۔ اس بندر کا سمندر ہمیشہ طوفانی رہتا ہے۔ اجنبی مسافروں خاص کر عورتوں کو کنارے جاتے وقت بڑی زحمت ہوتی ہے۔ چونکہ بیت المقدس کی زیارت عیسائیوں، مسلمانوں اور یہودیوں میں یکساں ثواب کا کام مانی جاتی ہے اس لئے ہمیشہ یافہ پر آنے جانے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ ہز مذہب کے رہبر کنارے پر کھڑے رہتے ہیں۔ جو زائرین کو بیت المقدس لے جانے یا پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس میں ان کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ یہودی اس علاقہ میں بکثرت آبادی ہیں۔ باہر کے آنے والے یہودیوں کو کچھ زیادہ تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا۔ عیسائی بھی کم نہیں ہیں۔ اور ان کے سب کام ضابطہ اور قرینہ کے ہیں۔ اپنے حاجیوں کو تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ مسلمان بھی اگر عربی زبان جانتے ہوں تو اُنہیں زحمت نہیں ہوتی۔ ورنہ ترجمان اور رہبر لوگ ناک میں دم کردیتے ہیں خصوصاَ ہندوستان کے بھولے بھالے عقیدت مند مسلمانوں کے سر کھنڈے استرے سے مونڈے جاتے ہیں۔

یافہ سے بیت المقدس تک رات دن میں صرف دوبار ریل آتی جاتی ہے۔ فرانسیسی کمپنی نے یہ لائن بنائی ہے۔ کچھ بہت اچھی گاڑی نہیں ہے۔ راستہ سب پہاڑی ہے۔ پہاڑ سرسبز اور خوش منظر ہیں۔ چاروں طرف انگوروں کی بیلیں اور میوؤں کے درخت نظر آتے ہیں۔ بیت المقدس پہاڑوں کی گود میں آباد ہے۔ قدیمی شہر گنجان میلا اور تاریک ہے۔ جدید آبادی یورپین طرز کی ہے۔ جو روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ باشندے یہودی زیادہ ہیں۔ ان کے بعد عیسائی ، مسلمان بہت کم ہیں۔ لیکن اسلامی حکومت ہونے کے سبب باوجود افلاس زدہ ہونے کے ہرجگہ ممتاز اور باوقار دیکھے جاتے ہیں۔ بظاہر حالات تینوں قومیں شیروشکر ہیں کوئی تفرقہ آپس میں نہیں پایا جاتا۔ جب سے ترکی کی پارلیمنٹ قائم ہوئی ہے غیر مسلم لوگ مسلمانوں سے زیادہ وابستہ ہوگئے ہیں۔ خصوصاَ یہودی اتحاد و میل جول میں بہت جھک رہے ہیں۔ صنعت و حرفت اور تجارت سب یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ مسلمان کچھ نوکری پیشہ اور کچھ زمیندار ہیں۔ عیسائیوں زیادہ تعداد پادریوں کی ہے جو حجاج کی نذر نیاز پر بسر اوقات کرتے ہیں ۔ تھوڑے زمیندار بھی ہیں۔ لیکن یہودی زمینداری میں عیسائیوں سے فائق ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔

بیت المقدس کے اکثر بڑے گرجاؤں کے پادری شکل و صورت میں سب سے اعلٰی مگر تمدن میں سب سے ادنیٰ ہیں۔ ہندو جوگیوں کی طرح لمبے لمبے بال رکھتے ہیں اور اُن کو اچھی طرح صاف نہیں کرتے۔ گرجاؤں میں صفائی کا معقول انتظام نہیں۔ دن کے وقت چراغ روشن رہتے ہیں۔ اس پر تاریکی کا یہ عالم رہتا ہے کہ اندر کی چیزیں صاف نظر نہیں آتیں۔ یہاں آج تک برقی روشنی کا رواج نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ پادری نئے زمانہ کی کسی چیز کو ہاتھ لگانا گناہ ِ عظیم سمجھتے ہیں۔

ہندوستان میں انگریزی حکومت کو جہلا کے ہاتھوں محّرم اور عید پر سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ ہمیشہ کہیں نہ کہیں فساد ہوتا رہتا ہے۔ اس سے پانچ حصہ زیادہ ترکوں کو جاہل عیسائیوں کے ہاتھوں تکلیف ہے۔ انکے مختلف العقائد فرقے آپس میں کٹ مرنا ثواب جانتے ہیں۔ اور اس واسطے حکومت کو ہر بڑے گرجے میں ایک مضبوط فوجی گارڈ رکھنا پڑتا ہے۔ ایک وقت میں دو فرقے کے آدمی گرجا میں جمع نہیں ہوسکتے۔ ایک ہندوستانی کے لیئے یہ نظارہ سب سے عجیب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ملک میں سب سے زیادہ شائستہ عیسائیوں کو پاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں عیسائیوں کے سوا کوئی قوم مہذب اور سنجیدہ نہیں۔ مگر بیت المقدس میں آ کر یہ خیال بدلنا پڑتا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ابھی عیسائی دنیا میں بے شعار آدمی ہندوستان کے احمق گنواروں سے زیادہ گئی گذری حالت میں ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ ۔)
 

کاشفی

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔ ۔

بیت المقدس میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی بکثرت زیارت گاہیں ہیں۔ یہودی صرف ایک دیوار کو سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں۔ یہ دیوار مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ کی ہے۔ یہودی مسجد اقصیٰ کے اندر نہیں آتے کیونکہ اُن کے خیال کے موافق تورات وہاں دفن ہے۔ اندر آئیں گے تو وہ پامال ہوگی۔ مسجد کی دیوار سے چمٹ چمٹ کر بے اختیار روتےہیں۔ یہ نظارہ بڑا پُراثر ہوتا ہے۔

مسلمانوں کی سب سے بڑی زیارت گاہ مسجد اقصیٰ ہے۔ اس کا نہایت وسیع حلقہ ہے۔ کسی زمانہ میں یہاں شاندار عمارتیں تھیں۔ اب صرف دو عمارتیں باقی ہیں۔ ایک طرف "صخرہ"کا گنبد ہے۔ صخرہ ایک پتھر ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ سے یہاں رکھا ہے۔ پانچ چھ گز مربع ہوگا۔ اسی کے قریب اس کا دَل ہے۔ کہتے ہیں پہلےیہ بالکل معلق تھا۔ لوگ اس کے سامنے قربانیاں کرتے تھے جو قربانی قبول ہوتی اس کو آسمانی آگ آکر جلا ڈالتی تھی۔ مسلمانوں کے عہد میں عبدالملک بن مروان نے اس پتھر کے گرد میں دیوار بنادی اور دونوں طرف سہارا لگا دیا۔ اب یہ پتھر بالکل معلق نہیں ہے۔ سہارے پر کھڑا ہے۔ تاہم ایک رخ سے معلق معلوم ہوتا ہے۔ لوگ اس کے نیچے جا کر نماز پڑھتے ہیں۔ اس پتھر کے اوپر بہت خوبصورت شاندار گنبدہے رنگ برنگ کے پتھروں کی جالیاں دھوپ کی شعاعوں میں جگمگاتی ہیں تو عجب بہار ہوتی ہے۔ باہر کے رُخ چینی کا نہایت باریک اور نظرفریب کام ہے۔ اہل یورپ اس قبہ کو غلطی سے مسجدعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض قتباالصخرا ہے۔ اس قبہ کے سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ممبر ہے جو فتح کی یادگار میں بنایا گیا ہے۔

میدان کے دوسرے رخ پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ آجکل نماز اسی میں ہوتی ہے۔ یہ بہت وسیع اور گنجائش دار جگہ ہے۔ مختلف کتبوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتاَ فوقتاَ کئی بادشاہوں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ اس مسجد کے پہلو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ مسجد ہے جو فتح بیت المقدس کے وقت بنائی گئی تھی۔ یہ چونہ کی معمولی عمارت ہے۔ کسی قسم کی صنعت اس میں نہیں ہے۔ مسجد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نیچے سلیمان علیہ السلام کا اصطبل اور پُرانی مسجد کی عمارت ہے جو تہ خانہ کےطور پر بالکل مخفی ہے۔ اندر جاکر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی مستحکم عمارت ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
 

کاشفی

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔ ۔

بیت المقدس میں عیسائیوں کا سب سے بڑا مقام زیارت حضرت مسیح کا صلیب خانہ ہے جہاں اُن کے عقیدے کے موافق حضرت مسیح صلیب دیئے گئے ۔ یہاں حضرت کا مزار بھی ہے جہاں 3 دن کے بعد حضرت آسمان پر اُٹھا لئے گئے۔
اس کے علاوہ متعدد مقامات بنے ہوئے ہیں جہاں حضرت کو یہودیوں نے قید رکھا، اور عذاب دیا۔ عیسائی حاجی ان کل مقامات کی نہایت عقیدت سے زیارت کرتے ہیں۔
حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا مزار بھی عیسائیوں کے قبضہ میں ہے۔ اور ان کی نیز مسلمانوں کی شہرہء آفاق زیارت گاہ ہے بیت المقدس سے 6 میل کے فاصلہ پر بیت اللحم واقع ہے جہاں حضرت میسح پیدا ہوئے۔ یہ جگہ بھی نہایت برگزیدہ مانی جاتی ہے۔ مسلمان و عیسائی دونوں اس کی زیارت کو جاتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ ۔)
 

کاشفی

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔ ۔
قدس سے 32 میل کے فاصلہ پر قصبہ خلیل الرحمٰن میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام جیسے نامور پیغمبروں کے مزارات ہیں۔ اسی طرح دوسری طرف 32 میل کے فصل پر پہاڑ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کا مزار ہے۔ یہاں مسلمان عیسائی یہودی تینوں فرقے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح کا صلیب خانہ مسلمانوں کے تحت میں ہے۔ یعنی اس گرجا کی کنجی مسلمانوں کے پاس ہے۔ صبح کے وقت شیخ آتا ہے اور گرجا کھول کر دروازہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ زائریں شام تک نہایت آزادی سےجاتے آتے رہتے ہیں۔ رات کو شیخ گرجا بند کردیتا ہے۔ پھر کسی کو داخلہ کا حق نہیں رہتا۔ یہ صرف اسی گرجا میں ہے باقی مقامات پر ہرجگہ عیسائی آزاد ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے وقت سے برضامندی اقوام یورپ مسلمانوں کو اس گرجا کی کنجی دی گئی ہے۔ کیونکہ عیسائی قوموں کی باہمی رقابت کے سبب کسی صورت انتظام ممکن نہ تھا۔ اس واسطے ایک غیر شخص اس کا محافظ قرار پایا۔
(جاری ہے۔۔۔ ۔)
 
Top