القاعد ہ کیخلاف پاکستان کی ناکامی پر امر یکا کو خود کارروائی کر نا ہو گی ،اوبامہ

کاشف رفیق

محفلین
واشنگٹن (جنگ نیوز) امریکا کی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کو پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستان کی بھرپور مدد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی امداد بند نہیں کی جائے گی، جبکہ ڈیمو کریٹک صدارتی امیدوار بارک اوباما نے کہا ہے کہ القاعدہ کیخلاف پاکستان کی ناکامی کی صورت میں امریکا کو خود کارروائی کرنا ہوگی ،انہوں نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کی حمایت کرکے پاکستانی عوام کو تنہا کیا گیا،ان خیالات کا اظہار دونوں صدارتی امیدواروں نے آکسفورڈ مسّی سپی میں اپنے پہلے ٹی وی مباحثے کے دوران کیا۔ یہ مباحثہ 90 منٹ جاری رہا۔50 فیصد سے زیادہ امریکی شہریوں نے ٹی وی مباحثے میں بارک اوباما کی کارکردگی جبکہ 38 فیصد نے جان مک کین کی کارکردگی کو بہتر قرار دیا۔ بارک اوباما اور جان مک کین کے درمیان صدارتی انتخاب سے قبل دو مزید مباحثے ہونگے جن میں سے دوسرا مباحثہ 7 اور تیسرا 15اکتوبر کو ہوگا۔تفصیلات کے مطابقجان مک کین کے مدّمقابل ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بارک اوباما نے کہا کہ القاعدہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو چکی ہے، پاکستان القاعدہ کے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے لیکن اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکا سے تعاون نہیں کرنا چاہتا تو امریکا کو خود کارروائی کرنا ہوگی۔ بارک اوباما نے کہا کہ امریکا نے پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس پرویز مشرف کی حمایت کی۔ اب ہمیں پاکستانی عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ جان مک کین نے کہا کہ عراق کی جنگ مرکزی جنگ ہے اگر اوباما کی پالیسیوں پر عمل کیا گیا تو پوری دنیا میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اوباما نے کہا کہ امریکا کا معاشی بحران ری پبلکن پارٹی کی آٹھ سالہ ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی فوجی طاقت کا استعمال دانش مندی سے کرنا چاہئے۔ اوباما نے کہا ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں معذوری دکھائی تو وہ امریکی افواج کو پاکستان کے اندر انتہا پسندوں کے اڈوں کو نشانہ بنانے کا حکم دیں گے تاہم حیرت انگیز طورپر ری پبلکن امیدوار جان مک کین نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ کھلے عام اس پالیسی پر بیان بازی نہیں کریں گے ۔جان مک کین نے کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے مبینہ عدم تعاون کے حوالے سے سزا کے طور پر پاکستان کو دی جانے والی امداد میں کٹوتی کی بھی مخالفت کریں گے۔ نومبر میں امریکا کے صدارتی انتخاب کے امیدواروں نے اپنے پہلے مباحثے میں پاکستان کی حمایت جاری رکھنے اور پاکستان کی جانب سے امریکی افواج کو مزید تعاون فراہم کرنے پر گفتگو کی۔ نوّے منٹ کے مباحثے کے دوران ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر جان مک کین کا کہنا تھا امریکا کو پاکستان کی امداد جاری رکھنی چاہئے،یہ ختم نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ افغانستان کی جنگ جیتنے کے لئے اسلام آباد کا تعاون بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر اوباما کو کھلے عام پاکستان پر حملے کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار بارک اوباما نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان القاعدہ کی قیادت کو پکڑنے کے لئے عمل نہیں کرتا تو امریکا کو ایسا کرنا چاہئے۔ دونوں رہنماوٴں نے واضح کیا کہ اگر وہ صدر بنے تو وہ پاکستان کے بارے میں کیا پالیسی رکھیں گے۔ اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا کی پالیسی یہ رہی کہ اس نے جنرل (ریٹائرڈ) مشرف سے تعلق رکھا لیکن پاکستانی عوام کو تنہا کر دیا جب میں امریکا کا صدر بن جاوٴں گا تو یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔اس کے جواب میں سینیٹر مک کین کا کہنا تھا کہ جب پرویز مشرف صدر بنے اس وقت پاکستان ایک ناکام ریاست تھی۔ امریکا کو پاکستانی عوام کی حمایت کی ضرورت ہے جس کی ان کے صدر بننے کی صورت میں کوشش جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میریٹ ہوٹل پر گزشتہ ہفتے کو ہونے والے حملے کا مقصد یہ تھا کہ شدت پسند نہیں چاہتے کہ پاکستانی حکومت امریکا کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔ بارک اوباما نے کہا کہ 10 بلین ڈالر کی امداد کے باوجود پاکستان نے دہشت گردوں کیخلاف وہ کچھ نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا جبکہ ان کے مدمقابل ری پبلکن امیدوار مک کین نے کہا کہ افغانستان میں جنگ جیتنے کیلئے پاکستان کی مدد ضروری ہے اور امریکا کو اسلام آباد کی امداد ختم نہیں کرنی چاہئے۔قبائلی علاقوں میں کارروائی کیلئے پاکستان کے عوام کی حمایت ناگزیر ہے جو اگرچہ موجودہ صدر آصف زرداری کو حاصل ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سکندر اعظم سے لے کر اب تک کوئی بیرونی قوت قبائلی علاقوں پر حکومت نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بارک اوباما نے یہ بیان دے کر کہ پاکستان چاہے یا نہ چاہے وہ اسامہ بن لادن کے خلاف جنگ کو اس کے ٹھکانے تک لے جائیں گے، دراصل موجودہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسی کی حمایت ہے۔ شمالی کوریا کو دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے جان مک کین نے کہا کہ اس ملک کے حکمرانوں کے ساتھ بات چیت ایک بے فائدہ مشق ہے کیونکہ انہوں نے ماضی میں کسی بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کی تاہم بارک اوباما نے جان مک کین سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ بغیر پیشگی شرائط عائد کئے مذاکرات کے حامی ہیں۔ بارک اوباما نے جان مک کین کو موجودہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی انتظامیہ کی ناکام اقتصادی اور خارجہ پالیسیوں کا وارث قرار دیا تاہم جان مک کین نے ان پالیسیوں میں اصلاحات کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بارک اوباما اقتصادی اور خارجہ امور کے حوالے سے ناتجربہ کار ہونے کے باعث موجودہ پالیسیوں میں اصلاحات کی اہلیت نہیں رکھتے۔

سورس
 
Top