الفت کی رسم و راہ سے اتنا وہ بے پروا نہ تھا، علامہ طالب جوہری

الفت کی رسم و راہ سے اتنا وہ بے پروا نہ تھا
کل اجنبی بن کر ملا، پہلے تو وہ ایسا نہ تھا

اس سال کے سیلاب سے سارے کگارے کٹ گئے
دریا کے پیچ و تاب کا ساحل کو اندازہ نہ تھا

جب قربتوں کی چھاؤں میں اترے حیا کے قافلے
بڑھتے قدم خود رک گئے آگے کوئی رستہ نہ تھا

پلکوں کی چھاگل توڑ کر رزق زمیں بنتے رہے
ان آنسوؤں کے واسطے ترک وطن اچھا نہ تھا

کیا جبر فطرت کا گلہ، جب عہد ہونا مہرباں
دریا میں باڑھ آئی وہاں، بادل جہاں برسا نہ تھا

طالب دریچہ ذہن کا جب ذات کے اندر کھلا
پلکیں ادھر جھک کر اٹھیں اور دور تک صحرا نہ تھا
 
Top