الفاظ بھی سادہ سے، مری بات بھی سادہ سی

الف عین

لائبریرین
اب یہ کاپی کر لی ہے کہ کچھ تو پکی پکائی مل رہی ہے۔ خوشی ہو رہی ہے کہ بلال (احمد) اور طارق آج کل میری مدد کو موجود ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
میں بندہِ دنیا ہوں، خدا مانگ رہا ہوں
//شعر یوں تو درست ہے، لیکن مفہوم کچھ سمجھ میں نہیں آیا

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں
// اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں

الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
//درست

بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
// اس کا بھی مفہوم؟

گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں
//بے بہا وزن میں کہاں آتا ہے؟ ایسی بڑی ے گرانا اچھا نہیں۔
پہلے مصرع میں بھی گر‘ کی جگہ ’جب‘ کر دو، اور اسی طرح دوسرے میں ’اب‘
اب مانگ رہا ہوں، تو یہ کیا مانگ رہا ہوں
یہ محض مثال کے لئے

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں
//درست۔ ویسے چاہو تو دوسرے مصرع میں ’بھی‘ کو ’کیوں‘ سے بدل دو

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں
//کیا کہنا چاہتے ہو، سمجھ میں نہیں آیا۔ ’ریاضت‘ کی جزا!!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
میں بندہِ دنیا ہوں، خدا مانگ رہا ہوں
//شعر یوں تو درست ہے، لیکن مفہوم کچھ سمجھ میں نہیں آیا
اگر اس کو ایسے کر دیں تو پھر؟
سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں
دیوانہ ہوں پتھر سے عطا مانگ رہا ہوں



اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں
// اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں



الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
//درست


بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
// اس کا بھی مفہوم؟
اگر پہلے مصرع کی جگہ محسن نقوی کا ہی مصرع لگا دیں تو پھر
"سوکھے ہوئے پتوں کو گرانے کی ہوس میں"
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں


گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں
//بے بہا وزن میں کہاں آتا ہے؟ ایسی بڑی ے گرانا اچھا نہیں۔
پہلے مصرع میں بھی گر‘ کی جگہ ’جب‘ کر دو، اور اسی طرح دوسرے میں ’اب‘
اب مانگ رہا ہوں، تو یہ کیا مانگ رہا ہوں
یہ محض مثال کے لئے
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں تو کیا کیا مانگ رہا ہوں


بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں
//درست۔ ویسے چاہو تو دوسرے مصرع میں ’بھی‘ کو ’کیوں‘ سے بدل دو
بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر کیوں شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں


میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں
//کیا کہنا چاہتے ہو، سمجھ میں نہیں آیا۔ ’ریاضت‘ کی جزا!!
(مطلب کہ میں اپنے نصیبوں کا رونا کیوں روؤں، میں نے تو کچھ بھی محنت نہیں کی، تو پھر کس چیز کا صلہ مانگ رہا ہوں۔ لیکن اگر اب اسے بدل دیں تو!)
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام عبادت کا صلہ مانگ رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اگر اس کو ایسے کر دیں تو پھر؟
سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں
دیوانہ ہوں پتھر سے عطا مانگ رہا ہوں
عطا مانگی نہیں دی جاتی، خود بخود مل جاتی ہے۔
"سوکھے ہوئے پتوں کو گرانے کی ہوس میں"
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
اب شعر بہتر ہو جاتا ہے، اسے واوین میں کر کے فٹ نوٹ لگا دو۔
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں تو کیا کیا مانگ رہا ہوں
’کیا کیا‘ بر وزن فعو غلط ہے، درست فعلن ہے۔ی اور الف دونوں کا اسقاط نہیں کیا جاتا۔ اس لئے میری اصلاح ہی رہنے دو۔
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام عبادت کا صلہ مانگ رہا ہوں
صلہ یقیناً بہتر قافیہ ہے، اس کو قبول کرتا ہوں۔
 

اسد قریشی

محفلین
تمام احباب کی خدمات میں سلام عرض ہے،

بلال اعظم صاحب کی یہ خوبصورت تخلیق اور اس پر احباب کی سیر حاصل گفتگو نگاہ نواز ہوئی جو کہ میرے لئے علم بہت نافع ثابت ہوئی. گو کہ مبتدی ہوں اور بزم میں بھی نووارد حق تو نہیں پر اس قدر خوبصورت تخلیق پر خاموش رہ نہ سکا... آپ کی غزل جو آپ نے تدوین کے بعد چسپاں کی ہے اس کو نقل کر رہا ہوں..


مصرع اولا میں لفظ سوتے ہوئے لوگوں سے وفا کچھ مناسب نہیں معلوم ہو رہا کیوں کہ میری ناقص رائے میں وفا سونے یا جاگنے سے مشروط نہیں ہے..ایک تجویز کہ اگر یوں کر لیں

دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں

جیسا کہ قبلہ الف عین نے فرمایا لفظ "کیا" کی تکرار سے وزن بھی متاثر ہو رہا ہے اور بیان میں بھی زبان لڑکھڑا رہی ہے اس لئے اگر اس کو صرف "یہ کیا" کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا..

الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں

بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
(اس کا کچھ بھی ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔)
اس مصرع میں اگر الفاظ کی نشست تبدیل کر دی جائے تو میرے خیال سے زمانہ_فعل کا مسلہ حل ہو سکتا ہے...یعنی "پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے"

گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں
ایک تجویز

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں

یہاں مصرع ثانی میں آپ عبادت لگائیں، ریاضت لگائیں یا کچھ بھی لگائیں، مفہوم واضح نہں ہو رہا ہے، یعنی "بے نام ریاضت" جو میری نقص عقل میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کہ جس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو یا یہ کہ جس کا کوئی شمار ہی نہ کیا گیا ہو...جبکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسی عبادت یا ریاضت جو کہ کی ہی نہیں، لہٰذہ اگر مصرع پھر سے ترتیب دیں تو زیادہ بہتر ہوگا...

اپنے ناقص علم کی بنیاد پر کچھ مشوره دینے کی کوشش کی ہے، ممکن ہے کچھ غلطی بھی ہو، امید کرتا ہوں کہ احباب درگزر فرمائیں گے...

والسلام
اسد قریشی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تمام احباب کی خدمات میں سلام عرض ہے،

بلال اعظم صاحب کی یہ خوبصورت تخلیق اور اس پر احباب کی سیر حاصل گفتگو نگاہ نواز ہوئی جو کہ میرے لئے علم بہت نافع ثابت ہوئی. گو کہ مبتدی ہوں اور بزم میں بھی نووارد حق تو نہیں پر اس قدر خوبصورت تخلیق پر خاموش رہ نہ سکا... آپ کی غزل جو آپ نے تدوین کے بعد چسپاں کی ہے اس کو نقل کر رہا ہوں..


مصرع اولا میں لفظ سوتے ہوئے لوگوں سے وفا کچھ مناسب نہیں معلوم ہو رہا کیوں کہ میری ناقص رائے میں وفا سونے یا جاگنے سے مشروط نہیں ہے..ایک تجویز کہ اگر یوں کر لیں

دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں

جیسا کہ قبلہ الف عین نے فرمایا لفظ "کیا" کی تکرار سے وزن بھی متاثر ہو رہا ہے اور بیان میں بھی زبان لڑکھڑا رہی ہے اس لئے اگر اس کو صرف "یہ کیا" کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا..

الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں

بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
(اس کا کچھ بھی ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔)
اس مصرع میں اگر الفاظ کی نشست تبدیل کر دی جائے تو میرے خیال سے زمانہ_فعل کا مسلہ حل ہو سکتا ہے...یعنی "پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے"

گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں
ایک تجویز

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں

یہاں مصرع ثانی میں آپ عبادت لگائیں، ریاضت لگائیں یا کچھ بھی لگائیں، مفہوم واضح نہں ہو رہا ہے، یعنی "بے نام ریاضت" جو میری نقص عقل میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کہ جس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو یا یہ کہ جس کا کوئی شمار ہی نہ کیا گیا ہو...جبکہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسی عبادت یا ریاضت جو کہ کی ہی نہیں، لہٰذہ اگر مصرع پھر سے ترتیب دیں تو زیادہ بہتر ہوگا...

اپنے ناقص علم کی بنیاد پر کچھ مشوره دینے کی کوشش کی ہے، ممکن ہے کچھ غلطی بھی ہو، امید کرتا ہوں کہ احباب درگزر فرمائیں گے...

والسلام
اسد قریشی


وعلیکم السلام
حد درجہ ممنون و مشکور ہوں آپ کا کہ آپ نے اس تُک بندی پہ اپنے قیمتی وقت میں سے اتنا لمبا کمنٹ کیا۔
کچھ اشعار میں جو گڑ بڑ ہے، اس پہ کوشش کرتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
استادِ محترم الف عین صاحب! یہ شکل بن گئی ہے۔​
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں​
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں

پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے​
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں​

گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں

 
Top