الفاظ بھی سادہ سے، مری بات بھی سادہ سی

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محسن نقوی کی ایک غزل کل پڑھی تھی، اُس کی ردیف بدل کے کہی ہے۔ اصلاح کی منتظر ہے۔

اک چیز جو میں سب سے جدا مانگ رہا ہوں​
سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں​
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں​
حیرت ہے کہ کیں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں​
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ​
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں​
بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا​
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں​
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا​
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں​
بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں​
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں​
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں​
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اک چیز جو میں سب سے جدا مانگ رہا ہوں
سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں
اس میں اگر //سوتے کو //روتے کر دیا جائے تو زیادہ صحیح نہیں۔
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ کیں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں
اس میں اگر دوسرا مصرع ایسے کر دیں تو زیادہ ٹھیک نہیں //اپنے لئے ہی گویا سزا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ سے، مری بات بھی سادہ سی
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں
بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں
پہلے مصرع میں //جو کو //میں سے اور دوسرے مصرع میں //میں کو //پھر سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں
دوسرے مصرع میں //بے بہا میں //بے کی تقطیع بطور //بِ کی جا سکتی ہے؟
بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں
//ریاضت کی جگہ //عقیدت یا /عبادت کیسا رہے گا؟
 

احمد بلال

محفلین
اک چیز جو میں سب سے جدا مانگ رہا ہوں

سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں

اس میں اگر //سوتے کو //روتے کر دیا جائے تو زیادہ صحیح نہیں۔
نہیں۔ سوتے ہی رہنے دیں یا سوئے بھی ہو سکتا ہے۔ روتے سے سارے معنی کا ستیاناس ہو جائے گا


اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں

حیرت ہے کہ کیں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں

اس میں اگر دوسرا مصرع ایسے کر دیں تو زیادہ ٹھیک نہیں //اپنے لئے ہی گویا سزا مانگ رہا ہوں
یوں کر دیں "حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں" یا
"اپنے لئے خود گویا سزا مانگ رہا ہوں"


الفاظ بھی سادہ سے، مری بات بھی سادہ سی​

ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں​


بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا

ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں

پہلے مصرع میں //جو کو //میں سے اور دوسرے مصرع میں //میں کو //پھر سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
زمانہء فعل کا تضاد آ رہا ہے۔ نکلا ماضی اور رہا ہوں حال۔ خود صحیح کرنے کی کوشش کریں


گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا

گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں

دوسرے مصرع میں //بے بہا میں //بے کی تقطیع بطور //بِ کی جا سکتی ہے؟
کی جا سکتی ہے۔


بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں​

پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں​
پہلے مصرے کے آخر میں ایک رکن زیادہ کر دیا گیا ہے۔ اسے صحیح کریں


میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں​

بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں

//ریاضت کی جگہ //عقیدت یا /عبادت کیسا رہے گا؟
ریاضت بھی ٹھیک ہے
پہلے مصرے کے آخر میں ایک رکن زیادہ کر دیا گیا ہے۔ اسے صحیح کریں

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جن اشعار میں ایک رکن زیادہ ہے، وہاں یہ بحر استعمال کی ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولان
جبکہ اصل بحر یہ ہے

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

کیا یہ دونوں بحریں اکٹھی نہیں آ سکتیں،
جیسے محسن نقوی کی غزل کے اس شعر کے پہلے مصرع میں
جاگی ہوئی مخلوق ہے سورج کی عناں گیر
سویا ہوا انسان دعا مانگ رہا ہے
اور اس شعر میں بھی
محسن مرا وجدان بنامِ کفِ دلدار
ہر زخم سے کچھ رنگِ حنا مانگ رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ میں تقطیع غلط کر رہا ہوں پہلے مصرعوں کی۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اک چیز جو میں سب سے جدا مانگ رہا ہوں

سوتے ہوئے لوگوں سے وفا مانگ رہا ہوں

اس میں اگر //سوتے کو //روتے کر دیا جائے تو زیادہ صحیح نہیں۔
نہیں۔ سوتے ہی رہنے دیں یا سوئے بھی ہو سکتا ہے۔ روتے سے سارے معنی کا ستیاناس ہو جائے گا
میں پہلے سوتے ہی لگایا تھا، مگر میں نے کہا روتے کا پوچھنا زیادہ بہتر ہے۔

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں

حیرت ہے کہ کیں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں

اس میں اگر دوسرا مصرع ایسے کر دیں تو زیادہ ٹھیک نہیں //اپنے لئے ہی گویا سزا مانگ رہا ہوں
یوں کر دیں "حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں" یا
"اپنے لئے خود گویا سزا مانگ رہا ہوں"
یہ مصرع زیادہ اچھا ہے
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں

بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا

ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں

پہلے مصرع میں //جو کو //میں سے اور دوسرے مصرع میں //میں کو //پھر سے بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟
زمانہء فعل کا تضاد آ رہا ہے۔ نکلا ماضی اور رہا ہوں حال۔ خود صحیح کرنے کی کوشش کریں
کوشش کرتا ہوں۔





 

جنید اقبال

محفلین
بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں
بے نام عبادت کی جزا مانگ رہا ہوں
 
بلال بھیا مطلع کا مصرع اولی متاثر نہیں کر رہا۔
خوابیدہ بتوں سے میں عطا مانگ رہا ہوں
یا
پتھر کے صنم سے میں عطا مانگ رہا ہوں
کچھ اور آگے جائیں تو ۔
دیوانہ ہوں بندوں سے خدا مانگ رہا ہوں
سوری اگر نا پسند ہو۔ ہہی ہی
 
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ ۔​
میرا خیال ہے کہ آخر میں (سی) نہ لگانے سے مصرع رواں بھی ہے اور مفہوم بھی پوری طرح واضع ہو جاتا ہے تو (سی) اضافی سا محسوس ہوتا ہے ۔ میں آخری رکن میں کسی لفظ کی تکمیل کے لئے تسبیغ پر یقین رکھتی ہوں نہ کہ ایک لفظ بڑھا دینے پر​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلال بھیا مطلع کا مصرع اولی متاثر نہیں کر رہا۔
خوابیدہ بتوں سے میں عطا مانگ رہا ہوں
یا
پتھر کے صنم سے میں عطا مانگ رہا ہوں
کچھ اور آگے جائیں تو ۔
دیوانہ ہوں بندوں سے خدا مانگ رہا ہوں
سوری اگر نا پسند ہو۔ ہہی ہی

بہت بہت شکریہ سارہ باجی۔
یہ والا مصرع مجھے ذاتی طور پہ بہت پسند آیا۔
دیوانہ ہوں بندوں سے خدا مانگ رہا ہوں


لیکن یہ مصرع لگانے سے مطلع میں ابلاغ صحیح طور پہ ہو گا کیا؟
اور نا پسند والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ اصلاحِ سخن میں پوسٹ کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ میں سیکھ رہا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلال بھیا مطلع کا مصرع اولی متاثر نہیں کر رہا۔
خوابیدہ بتوں سے میں عطا مانگ رہا ہوں
یا
پتھر کے صنم سے میں عطا مانگ رہا ہوں
کچھ اور آگے جائیں تو ۔
دیوانہ ہوں بندوں سے خدا مانگ رہا ہوں
سوری اگر نا پسند ہو۔ ہہی ہی

بہت زبردست، تدوین کر دی ہے۔
 
بلال بھیا ۔ غور کریں محسن نقوی مرحوم نے لفظ "گیر" یا "دلدار" میں تسبیغ کرتے ہوئے ان الفاظ کی تکمیل کے لئے "ر" استعمال کی ہے نہ کہ ایک مکمل یک حرفی لفظ بڑھایا ہے، سر عبید جیسے اساتذہ اس بارے بہتر رائے دے سکتے ہیں ، میں نے تو اپنے استاد سر درویش سے یہی سیکھا ہے
 
اس مصرع میں ایک حرف ربط کی کمی ہے، یعنی کسی مناسب مقام پر " ہے" ہو تو مصرع کا مفہوم کلیئر ہو گا
بے نام اندھیروں کی سیاہی مرے دامن میں​

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے دامن میں ( "ہے " لگانے سے زبان کا عیب جاتا ہے لیکن وزن بگڑ جاتا ہے تو اب ہے بھی لگانا ہو گا اور وزن بھی درست کرنا ہو گا، الفاظ آگے پیچھے کریں، یہی محنت اچھا سخنور بنائے گی آپکو۔ ہی ہی​
 

احمد بلال

محفلین
جن اشعار میں ایک رکن زیادہ ہے، وہاں یہ بحر استعمال کی ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولان
جبکہ اصل بحر یہ ہے

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

کیا یہ دونوں بحریں اکٹھی نہیں آ سکتیں،
جیسے محسن نقوی کی غزل کے اس شعر کے پہلے مصرع میں
جاگی ہوئی مخلوق ہے سورج کی عناں گیر
سویا ہوا انسان دعا مانگ رہا ہے
اور اس شعر میں بھی
محسن مرا وجدان بنامِ کفِ دلدار
ہر زخم سے کچھ رنگِ حنا مانگ رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ میں تقطیع غلط کر رہا ہوں پہلے مصرعوں کی۔
آ سکتی ہیں ۔ لیکن آپ نے جس طرح استعمال کیا ہے اس طرح فعولان کی بجائے مفاعیلن بن رہا ہے۔
محسن: عناں گیر = فعو لان
لیکن آپ کے شعر میں کروں جاناں= مفا عی لن
اگر آپ فعولان پر ڈال رہے ہیں تو یہ غلط ہے
 

احمد بلال

محفلین
میں پہلے سوتے ہی لگایا تھا، مگر میں نے کہا روتے کا پوچھنا زیادہ بہتر ہے۔​
آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ متکلم بحالتِ گریہ یا بحالت نینددوسرے لوگوں سے مانگ رہا ہے۔ جبکہ میں اور باقی بھی جیسا کہ سیدہ سارا کی اصلاح سے واضح ہے یہ سمجھ رہے ہیں کی متکلم جن سے مانگ رہا ہے وہ لوگ سو رہے ہیں یا رو رہے ہیں۔ اس لیے سوتے ہوئے یا سوئے ہوئے ہی مناسب ہے۔ ایک اور بات کہ اس مصرعے میں وہی غلطی ہے جو آخری دو اشعار کے پہلے مصرعوں میں ہے۔ میں پہلے لکھنا بھول گیا
الفاظ بھی سادہ سے، مری بات بھی سادہ سی۔
اس کے لیے سیدہ سارا کی اصلاح بالکل درست ہے
 
جن اشعار میں ایک رکن زیادہ ہے، وہاں یہ بحر استعمال کی ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولان
جبکہ اصل بحر یہ ہے

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن

کیا یہ دونوں بحریں اکٹھی نہیں آ سکتیں،
جیسے محسن نقوی کی غزل کے اس شعر کے پہلے مصرع میں
جاگی ہوئی مخلوق ہے سورج کی عناں گیر
سویا ہوا انسان دعا مانگ رہا ہے
اور اس شعر میں بھی
محسن مرا وجدان بنامِ کفِ دلدار
ہر زخم سے کچھ رنگِ حنا مانگ رہا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ میں تقطیع غلط کر رہا ہوں پہلے مصرعوں کی۔

بلال تم اسے سمجھنے میں غلطی کر رہے. جسے تم ایک رکن مان رہے ہو وہ رکن نہیں بلکہ ایک حرف ہے. یہ ہر بحر میں آتا ہے. لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ پورے رکن کا اضافہ کرلیا جائے.

محسن مرا وجدان بنامِ کفِ دلدار

اس شعر کی دوبارہ تقطیع کرو.
محسن م ( مفعول) ر وجدان (مفاعیل) بنامےک
(مفاعیل) ف دلدا (فعولن/فعولا)
یہ شعر دلدا پر بھی پورا وزن میں تھا لیکن لفظ کی مناسبت سے الف کے بعد ایک ساکن ر بھی موجود ہے تو ہم نے فعولا میں ایک ساکن حرف نون بڑھایا اور فعولان بنا دیا اور دلدار پورا پڑھا.

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں
اب اپنا مصرع تقطیع کرو.
یہ مصرع جاناں کے "جا" تک وزن میں یعنی فعولن تک. باقی "ناں" وزن سے باہر.
جان ہوتا تو فعولان ہوجاتا ایک ساکن کی زیادتی سے.
باقی جو بلال صاحب اور سارا صاحبہ نے کہا اس پر غور کرو.
دوسری بات یہ بتاتا چلوں کے کے یہاں فعولن سے فعولان تسبیغ نہیں ہے اس بات کا دھیان رکھیں. بلکہ فعولان کی جگہ مفاعیل سے تقطیع کی جائے تو زیادہ حقیقی ہوگی.
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہِیں بھائی
اوپشن میں عبادت لکھا تھا تو مینے لکھ دیا
برا لگا تو سوری

نہیں جناب برا نہیں لگا، اصل میں نے پورا شعر نہیں پڑھا تھا، میرا خیال تھا کہ شاید آپ نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔
اس غلط فہمی پہ میں معذرت کرتا ہوں آپ سے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلال تم اسے سمجھنے میں غلطی کر رہے. جسے تم ایک رکن مان رہے ہو وہ رکن نہیں بلکہ ایک حرف ہے. یہ ہر بحر میں آتا ہے. لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ پورے رکن کا اضافہ کرلیا جائے.

محسن مرا وجدان بنامِ کفِ دلدار

اس شعر کی دوبارہ تقطیع کرو.
محسن م ( مفعول) ر وجدان (مفاعیل) بنامےک
(مفاعیل) ف دلدا (فعولن/فعولا)
یہ شعر دلدا پر بھی پورا وزن میں تھا لیکن لفظ کی مناسبت سے الف کے بعد ایک ساکن ر بھی موجود ہے تو ہم نے فعولا میں ایک ساکن حرف نون بڑھایا اور فعولان بنا دیا اور دلدار پورا پڑھا.

میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں جاناں
اب اپنا مصرع تقطیع کرو.
یہ مصرع جاناں کے "جا" تک وزن میں یعنی فعولن تک. باقی "ناں" وزن سے باہر.
جان ہوتا تو فعولان ہوجاتا ایک ساکن کی زیادتی سے.
باقی جو بلال صاحب اور سارا صاحبہ نے کہا اس پر غور کرو.
دوسری بات یہ بتاتا چلوں کے کے یہاں فعولن سے فعولان تسبیغ نہیں ہے اس بات کا دھیان رکھیں. بلکہ فعولان کی جگہ مفاعیل سے تقطیع کی جائے تو زیادہ حقیقی ہوگی.
آ سکتی ہیں ۔ لیکن آپ نے جس طرح استعمال کیا ہے اس طرح فعولان کی بجائے مفاعیلن بن رہا ہے۔
محسن: عناں گیر = فعو لان
لیکن آپ کے شعر میں کروں جاناں= مفا عی لن
اگر آپ فعولان پر ڈال رہے ہیں تو یہ غلط ہے
بلال بھیا ۔ غور کریں محسن نقوی مرحوم نے لفظ "گیر" یا "دلدار" میں تسبیغ کرتے ہوئے ان الفاظ کی تکمیل کے لئے "ر" استعمال کی ہے نہ کہ ایک مکمل یک حرفی لفظ بڑھایا ہے، سر عبید جیسے اساتذہ اس بارے بہتر رائے دے سکتے ہیں ، میں نے تو اپنے استاد سر درویش سے یہی سیکھا ہے

آخری حرف ساکن آئے گا۔
اب میں سمجھ گیا۔
کوشش کرتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ سب کے مشوروں کی روشنی میں کی گئی تبدیلیاں​
مطلع بھی بدل دیا ہے۔​
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
میں بندہِ دنیا ہوں، خدا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں​
حیرت ہے کہ میں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں​
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ​
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں​
بکھرے ہوئے پتوں کو جو پہنے ہوئے نکلا​
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں​
(اس کا کچھ بھی ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔)
گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا​
گر مانگ رہا ہوں، بے بہا مانگ رہا ہوں​
بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں​
میں اپنے نصیبوں کا گِلہ کس سے کروں گا
بے نام ریاضت کی جزا مانگ رہا ہوں​
 
Top