العقیدۃ الطحاویۃ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرید احمد

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختصر حالات امام ابو جعفر طحاوی
سلسلہ نسب
ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبدالملک بن سلمہ بن سلیم بن سلیمان بن جواب الازدی الطحاوی۔
صحراءے مصر کی ایک بستی کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے طحاوی نام سے مشہور ہوئے۔
آپ سن 239 میں پیدا ہوئے ۔
سن بلوغ کو پہنچے تو تحصیل علم کے لیے مصر منتقل ہوئے ۔ ابتداء میں اسماعیل بن یحی المازنی سے علم حاصل کیا ۔جیسے ہی علم میں وسعت پیدا ہوتی گءی ویسے ہی مسائل فقہیہ میں انہماک بڑھتا گیا ، امام صاحب رح نے قریب تین سو شیوخ و اساتذہ سے کسب فیض اور تربیت علم و عمل پائی۔
مصر میں موجود اور نو وارد تمام علماء کی خدمت میں جا پہنچتے اور تبادلہ خیال کرتے ،
علامہ بن یونس اپ کے بارے میں لکھتے ہیں
امام طحاوی ثقہ ، جید ، عالم فقیہ اور ایسے دانشمند انسان تھے کہ ان کی مثال نہیں ۔
علامہ ذہبی فرماتے ہیں :
امام طحاوی بہت بڑے فقیہم ، محدث ، حافظ ، معروف شخصیت ، ظقہ راوی ، جید عالم اور زیرک انسان تھے ۔
امام طحاوی رح کو امام ابوحنیفہ رح کے طرز استدلال سے بہت زیادہ متاثر تھے اس لیے عمر بھر مسلک حنفی کی نشر و اشاعت کرتے رہے ، اسی بنا پر اپ کوحنفی مسلک کا بہت بڑا وکیل سمجھا جاتا تھا۔

تصانیف :
العقیدۃ الطحاویہ ، معانی الاثار ، مشکل الاثار ، احکام القران ، المختصر ، الشروط ، شرح الجامع الکبیر ، شرح الجامع الصغیر ، النوادر الفقہیہ ، الرد علی ابی عبید الرد علی عیسی بن ابان ۔
ذی القعدۃ 321 بروز جمعرات اپ نے وفات پاءی ،اور قرافہ نامی بستی میں دفن کیے گیے ، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
فرید احمد کاوی
مدرس ، جامعہ علوم القرآن ، جمبوسر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمیع حمد اس اللہ کے لیے ہیں ، جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔
حجۃ الاسلام امام ابوجعفر وراق طحاوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
یہ اہل سنت و الجماعت کے عقیدے کا بیان ہے ، جسے ملت اسلاامیہ کے فقہائے عظام امام ؛ ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ، امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم اور امام ابو عبداللہ محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے طریق پر ذکر کیا جاتا ہے ۔ انہی باتوں کا دین کے اصول کے طور پر وہ عقیدہ رکھتے تھے اور رب العالمین کے بارے میں ان کا یہی دین و ایمان تھا ۔

توحید باری تعالی
صفات باری تعالی
اللہ کے توفیق کے ہم توحید باری تعالی میں اپنا یہ عقیدہ بیان کرتے ہیں :
بلا شبہ اللہ تعالی ایک ہے ۔
اس کا کوئی شریک نہیں ۔
کوئی شیء اس کی مثل نہیں ۔
کوئی چیز اس کو عاجز کرنے والی نہیں ۔
وہ قدیم ہے ، اس کی کوئی ابتدا نہیں ۔
وہ دائمی ہے ، اس کو کوئی انتہا نہیں ۔
وہ فنا ہونے والا اور مٹنے والا ( مرنے یا ختم ہونے والا ) نہیں ۔
دنیا میں وہی کچھ ہوتا ہے ، جس کا وہ ارادہ کرتا ہے ۔
انسانی وہم و فکر اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ، نہ ہی انسانی فہم اس کی ذات کا ادراک کر سکتی ہے ۔
وہ مخلوق کے مشابہ نہیں ۔
وہ ( تنہا ) سب کا خالق ہے ، ( اور یہ سب کو پیدا کرنا ان میں سے ) کسی کے محتاج ہونے کی وجہ سے نہیں ۔
بدون کلفت وہ سب کو روزی دینے والا ہے ۔
وہ بے خوف و خطر سب کو موت دینے والا ہے ، اور دوبارہ سب کو پیدا کرنے والا ہے بلا مشقت ۔
وہ اپنی جمیع صفات کے ساتھ تخلیق عالم کے قبل ہی سے متصف ہے ۔ مخلوقات کی تخلیق سے اس کی صفات میں ایسی کوئی چیز زیادہ نہیں ہوئی جو پہلے نہ تھی ، وہ جس طرح اپنی صفات کے ساتھ ازل سے ہے ، اسی طرح ان صفات سے ابد تک متصف رہے گا ۔
" خالق " کی صفت سے اس کا اتصاف تخلیق کے بعد سے نہیں ، (بلکہ پہلے سے ہے ) اسی طرح " باری " کی صفت سے اتصاف بریت (مخلوق ) کو پیدا کرنے کے بعد سے نہیں ، ( بلکہ پہلے سے ہے ) ۔
" ربوبیت " کی صفت سے وہ تب سے متصف ہے ، جب کہ کوئی مربوب ( تربیت پانے والا ) نہ تھا اور " خالق " کی صفت سے تب سے متصف ہے جب کہ کوئی مخلوق پیدا بھی نہ کی گئی تھی ۔
وہ جس طرح کسی مردے کو زندہ کرنے کے وجہ سے " محی " ( زندہ کرنے والا ) کہا جاتا ہے اسی طرح اس ( صفتی ) نام سے زندہ کرنے سے قبل بھی متصف ہے ۔اور اسی طرح " خالق " کا ( صفتی ) نام بھی تخلیق سے قبل ہی اس کو حاصل ہے ۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ وہ تمام چیزوں پر ( پہلے سے ) قادر ہے ، اور تمام اشیاء ( وجود میں ) اسی کی محتاج ہیں ۔ اور یہ سب کچھ کرنا اس پر سہل ہے ، اور وہ کسی چیز کا محتاج و ضرورت مند بھی نہیں ۔
اس کے مثل کوئی چیز نہیں ، اور وہ سمیع و بصیر ہے ۔
مخلوق کو اسی طرح پیدا کیا جیسا کہ وہ جانتا ( اور چاہتا ) تھا ۔
اور ان کی تقدیریں مقدر فرمائیں ،
مدت حیات کی تعیین فرمائی ۔
اللہ تعالی پر کوئی شیء اس کی تخلیق سے قبل بھی پوشیدہ نہ تھی ۔
اور جو کچھ یہ کرنے والے ہیں ، وہ اسے تخلیق کے قبل ہی سے جانتا ہے ۔
تمام کو اس نے اپنی فرماں برداری کا حکم دیا ہے ، اور نافرمانی سے منع فرمایا ہے ۔
اور ہر شیء اس تقدیر اور مشیت کے مطابق ہی چلتی ہے ۔ اور ( ہر جگہ ) اسی کی مشیت ( ارادہ ) کار فرما ہے ، نہ کہ بندوں کی مشیت و ارادہ ۔ ہاں کچھ کسی بندے کے بارے میں اللہ چاہے ، تو جو اللہ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ، اور جس کچھ وہ نہیں چاہتا وہ وہ نہیں ہوتا ۔
جس کو چاہے وہ ہدایت دیتا ہے ، اور اپنے فضل سے عافیت و حفاظت دیتا ہے ، اور جسے چاہے وہ گمراہ کرتا ہے اور انصاف کے ساتھ ذلیل و مبتلائے ( عذاب )کرتا ہے ۔ اور اس طرح تمام ہی لوگ اس کے ارادے کے مطابق اس کے فضل و عدل میں دائر ہیں ۔
اللہ تعالی اپنے ہمسروں اور ہم مثل اضداد سے پاک ہے ، ( یعنی کوئی ہمسر و ضد نہیں )
کوئی اس کے فیصلہ کو رد کرنے والا نہیں ، اور نہ کوئی کسی بات پر اس کی گرفت کرنے والا ہے ، اور نہ ہی کسی کو اس کے برخلاف غلبہ حاصل ہے ۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم

محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) یقینا اس کے منتخب بندے ، خاص نبی، اور پسندیدہ رسول ہیں ۔ وہ خاتم النبیین ہیں ، تمام متقیوں ( نیکوں ) کے امام ، نبیوں کے سردار ، اور پردوردگار عالم کے محبوب ہیں ۔
آپ کے بعد کسی قسم کا دعوی نبوت گمراہی اور نفس پرستی ہے ۔
آپ تمام جناتوں اور جمیع انسانوں کے لیے دین حق، راہ ہدایت ، نور ایمان اور ضیاء اسلام لے کر بطور نبی مبعوث کیے ( بھیجے ) گئے تھے ۔

قرآن کریم

قرآن کلام الہی ہے ، وہ باری تعالی کی ہی فرمائی ( تکلم کی ) ہوئی بات ہے ، اس کی کوئی کیفیت متعین نہیں ، اپنے رسول پر بطریق وحی نازل فرمایا ۔ اور جمیع مسلمان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ، اور یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہے ، اور مخلوق کے کلام کی طرح مخلوق نہیں ؛ لہذا جو شخص قرآن سنے اور یہ کہے کہ وہ انسان کا کلام ہے تو وہ کفریہ بات کہتا ہے اور ایسے انسان کی اللہ تعالی نے برائی بیان کی ہے اور اسے جہنم ( سقر ) کی دھمکی دی ہے ، چنانچہ قرآن میں ہے : " ساصلیہ سقر " ( میں عنقریب اسے جہنم میں ڈالوں گا ) ۔ اللہ کی یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہتا تھا کہ " ان ہذا الا قول البشر " ( کہ یہ تو انسان کی باتیں ہیں ) ، پس ہمیں یقین ہیں کہ یہ قرآن خالق بشر کا کلام ہے ، اور کسی بشر کے کلام کے مشابہ نہیں ۔
اور جو کوئی اللہ تعالی کو انسانی صفت و حالت سے متصف کرے وہ کفر کرتا ہے ، پس جس شخص نے یہ سمجھ لیا ، اس نے درست کام کیا ۔ اور کافروں جیسی باتیں کرنے سے بچ گیا ، اور اس نے جان لیا کہ حق تعالی اپنی صفات میں کسی انسان کے مشابہ نہیں ۔
رویت باری تعالی ( یعنی اللہ تعالی کا دیدار )

حق تعالی کی رویت ( دیدار ) اہل جنت کو یقینا نصیب ہوگا ۔ جس میں ذات باری تعالی کا احاطہ نہ ہوگا اور نہ کوئی کیفیت ہوگی ۔ چنانچہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے : " وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربہا ناظرۃ ( بہت سے چہرے ( لوگ ) اس دن تروتازہ اپنے رب کو دیکھیں گے ) ۔
اس رویت کی کیفیت و تفصیل وہی ہوگی جیسی کہ اللہ کے علم و ارداہ میں ہے ۔ اور صحیح احادیث میں اس بابت جو کچھ ہے وہ سب جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ، بر حق ہے اور اس سے رسول اللہ نے جو مطلب مراد لیا وہ سب درست ہے ۔ اس مسئلہ میں ہم اپنی رائے سے تاویل و وضاحت نہیں کرتے اور نہ اپنی مرضی کے خیالات باندھتے ہیں ۔ اس لیے کہ دین کی ایسی باتوں میں وہی شخص سلامت رہتا ہے جو اپنے کو اللہ و رسول کے حوالے کر دے اور ایسی مشتبہ چیزوں کی حقیقت کو اس کے جاننے والے ( اللہ و رسول ) کے حوالے کردے ۔
اسلام پر وہی شخص ثابت قدم رہ سکتا ہے جوقرآن و سنت کے سامنے سر تسلیم خم کر کے خود کو ان کے حوالے کر دے ، لہذا جو شخص ایسی چیزوں کی تحقیق و خوض میں مشغول ہوگا ، جس کی فہم اس کو نہیں دی گئی تو وہ توحید خالص ، معرفت صافیہ اور ایمان صحیح سے دور ہی رہے گا ، اور کفر و ایمان ، تصدیق و تکذٰب ، اور اقرار و انکار میں ڈانواڈول ، گرفتار وسوسہ ، حیران و پریشان اور مبتلائے شک و تردد رہے گا ۔ اور نہ تو مومن مخلص بن پائے گا نہ منکر جاحد ۔
جنتیوں کو دیدار الہی نصیب ہونے کے عقیدہ پر اس شخص کا ایمان صحیح نہ کہلائے گا ، جو اس دیدار کو وہمی کہے یا اپنی فہم سے کوئی دوسری تاویل کرے ۔
رویت باری تعالی اور دیگر تمام صفات باری تعالی میں صحیح تاویل ( مطلب ) یہی ہے کہ ( انسانی ) تاویلات کو ترک کر کے کتاب وسنت کو تسلیم کر لیا جائے ۔ اور یہی مسلمانوں کو دین ہے ۔

تنزیہ باری تعالی
( یعنی باری تعالی کا صفات کملا سے متصف ہونا اور صفات نقص سے پاک ہونا )

جو شخص جناب باری تعالی کی صفات کی نفی کرنے سے نہ بچا اور ( اسی طرح ) وہ شخص جو صفات کو مشابہ مخلوق قرار دینے سے نہ بچا وہ گمراہ ہوا اور " تنزیہ " کے راستہ پر نہ چلا ۔
باری تعالی یکتائی صفات سے متصف اور منفرد اوصاف کے حامل ہیں ۔ مخلوق میں کوئی اس جیسی صفات والا نہیں ۔
باری تعالی حد ، انتہاء ، حصے ، اعضاء ، اور ادوات ( جوارح ) سے پاک ہے ۔
جہات ستہ ( فوق ، تحت ، یمین ، شمال ، قدام ، خلف) میں سے کوئی جہت باری تعالی کا احاطہ نیں کرتی ، جیسا کہ مخلوقات کا احاطہ کرتی ہیں ۔

معراج

معراج حق ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو رات میں معراج کرائی گئی ، اور بحالت بیداری نبی کریم صلی اللہ کو بنفس نفیس آسمان پر لے جایا گیا ، اور پھر وہاں سے جہاں جہاں اللہ تعالی نے چاہا ۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے اپنی شایان شان آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا استقبال فرمایا ، اور جو کچھ چاہا اس کا حکم ( وحی ) فرمایا ۔ وصلی اللہ علیہ فی الاخرۃ والاولی ( آپ پر درود ہو ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ) ۔

حوض کوثر ، شفاعت اور عہد ازل

حوض کوثر جواکرام و اعزاز کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے ، وہ بر حق ہے ۔ اور وہ شفاعت بھی جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو وعدہ کیا گیا ہے ، بمطابق بیان حدیث وہ بھی برحق ہے ۔
ازل میں اللہ تعالی نے اپنے معبود ہونے کا جو اقرار حضرت آدم اور اولاد آدم سے لیا وہ بھی حق ہے ۔

علم الہی اور تقدیر

اللہ تعالی کو ازل ہی سے جنت میں داخل ہونے والے اور جہنم میں جانے والے تمام حضرات کی تعداد کا علم ہے ، اس میں نہ تو کمی ہوگی نہ زیادتی ہوگی ۔ یہی حال بندوں کے افعال کا ہے ، جس کے بارے میں اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ وہ یہ کرنے والے ہیں ۔ چنانچہ ہر ایک کے لیے وہ کام جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا آسان کر دیا گیا ۔ اور ہر عمل کا (مقبول و غیر مقبول ہونے) اعتبار اس کے خاتمہ سے ہوگا ۔
نیک بخت وہ ہے جس کے نیک بخت ہونے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ، اور بدبخت بھی وہ جس کے بدبخت ہونے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ۔
مخلوق کے بارے میں نوشتہ تقدیر در اصل الہ تعالی کا ایک بھید ہے ، جس سے نہ تو کوئی مقرب فرشتہ واقف ہے نہ کوئی رسول ۔ اس بارے میں فکر و گہرائی میں جانے کی کوشش درماندگی اور اصول اسلام سے برگشتگی کا سبب ہے ۔ لہذا اس بارے میں فکر و نظر اور خیال و وہم سے بھی دور رہیے ، اللہ رب العزت نے علم تقدیر کو اپنی مخلوق سے پوشیدہ رکھا ہے اور مخلوق کو اس کے در پے ہونے سے منع فرمایا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اللہ جو کرے اس بارے میں سوال نہیں کیا جاتا اور ہاں ! لوگوں سے باز پرس ہوگی ۔پس جو دریافت کرے کہ یہ اللہ نے کیوں کیا ؟ اس نے اس حکم قرآنی کو نہ مانا ، اور جو حکم قرآنی کو نہ مانے وہ کافر ہے۔
یہ کچھ ضروری باتیں تھیں ، اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کے لیے جن کے قلوب روشن ہیں ، یہ لوگ راسخین فی العلم کے مرتبہ پر فائز ہیں ، کیوں کہ علم کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ علم جو مخلوق کو دیا گیا ، اور دوسرا وہ جو مخلوق میں مفقود ہے ( یعنی نیں دیا گیا ) ۔ پس موجود علم کا انکار کفر ہے اور مفقود علم میں رسائی کا دعوی بھی کفر ہے ۔ اور ایمان تب ہی سلامت رہ سکتا ہے جب موجود کو مانا جائے اور مفقود کی طلب کو ترک کر دیں ۔

لوح و قلم اور نوشتہء تقدیر

ہم لوح و قلم اور جو کچھ اس میں لکھا ہے ، اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے جس چیز کے ہونے کو لکھ دیا ، تو ساری مخلوق جمع ہو کر بھی اس کو نہ ہونے والی نہیں کر سکتی ۔ اسی طرح ساری مخلوق جمع ہو کر جس چیز کے ہونے کو نہیں لکھا ، اس کے ہونے والی بنا دینا چاہیں تو یہ نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب لکھ کر قلم تقدیر خشک ہوچکا ۔ ( یعنی یہ کام تمام ہو چکا ) ۔
بندے نے جو کچھ خطا کی وہ اس میں درستگی کو پانے والا بھی نہ تھا ، اور جہاں اس نے درستگی دکھائی وہ وہاں خطا کرنے والا بھی نہ تھا ۔
بندے کو یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالی کو اس کی مخلوقات میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم ہے ۔ یہ اللہ تعالی کی تقدیر مبرم ( پختہ ) ہے اور آسمان و زمین میں نہ کوئی اس کا مخالف ہے نہ باز پرس کرنے والا ، نہ کوئی اس کو ختم کر سکتا ہے نہ بدل سکتا ہے ، نہ کوئی کم کر سکتا ہے نہ زیادہ ۔ عقیدہ ایمان ، اصول معرفت ، اوراعتراف توحید اور اقرار ربوبیت کے لیے یہ سب ضروری ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے :
" اللہ تعالی نے تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے ، اور ہر ایک کی تقدیر متعین کر دی ہے ۔ " نیز اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا ہے :
" اور اللہ تعالی کا حکم مقدر کردہ تقدیر کی طرح ہے ۔ "
پس جو کوئی تقدیر کے باب میں اللہ تعالی کا مقابل ہوا اور اپنی ناقص فہم ( بیمار دل ) سے اس میں غور و فکر کرے اس کے لیے بربادی ہے ۔ ایسا شخص اپنے خیالات سے تلاشِ غیب میں مخفی راز دریافت کرنا چاہتا ہے ، اور اپنی تمام باتوں میں گنہ گار کذاب ثابت ہوگا ۔

عرش و کرسی ، انبیاء اور ملائکہ پر ایمان

عرش و کرسی برحق ہے ۔ اور اللہ تعالی عرش اور دوسری چیزوں سے بھی مستغنی ہے ، ہر چیز پر محیط اور بالا و برتر ہے ، اور اللہ تعالی کے احاطہ سے اس کی مخلوق عاجز ہے ۔
ہم ایمان ، تصدیق اورتسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ؛
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ، اور حضرت موسی علیہ کو شرف کلام سے نوازا ۔
ہم ملائکہ ، انبیاء علیہم السلام اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں ، اور گواہی دیتے ہیں کہ تمام انبیاء حق پر تھے ۔
ہماری طرح کعبہ کو قبلہ سمجھنے والوں کو ہم مسلمان کہیں گے جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کا اعتراف کرے ، اور جو کچھ آپ نے فرمایا اور خبر دی اس کی تصدیق کرے ۔
ذات و صفات میں غور و فکر سے ممانعت

ہم ذات خداوندی ( کی حقیقت دریافت کرنے ) میں غور و فکر نہیں کرتے ، نہ دین خداوندی میں بحث کرتے ہیں ، نہ در بارہ قران مجادلہ ( نزاع) کرتے ہیں ۔
اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ قرآن رب العالمین کا کلام ہے ، جو حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر نازل ہوئے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھلایا ۔ یہ قران اللہ تعالی کا کلام ہے ، مخلوق کا کلام اس کی برابری نہیں کر سکتا ۔ ہم نہ کلام الہی کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں ، نہ ایسا کہہ کر جماعت مسلمین کی مخالفت کرتے ہیں ۔

گناہ اور ایمان ۔۔ امید مغفرت اور خوف عذاب

کسی اہل قبلہ کو گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہ کہیں گے ، جب تک کہ وہ اس گناہ کے فعل کو حلال نہ سمجھیں ۔
ہم اس بات کے قائل نہیں کہ ایمان والے کو گناہ کوئی نقصان نہیں کرتا ۔
نیکوکاروں کے لیے ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ ان کو معاف فرما دے ، اور اپنی رحمت سے داخل جنت کر دے ، البتہ اس کا یقین نہیں اور اور نہ جنت کی ہم گواہی دیتے ہیں ۔ ان کے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ، اور ان کے بارے عذاب کا خوف کرتے ہیں اور مغفرت سے نا امید بھی نہیں ۔
گناہ کے باوجود عذاب سے اطمینان اور معافی سے مایوسی آدمی کو مذہب اسلام سے خارج کر دیتی ہے اور اہل قبلہ کی راہِ حق اس امید و ناامیدی کے درمیان ہے ۔

ایمان سے خارج کرنے والی چیز

بندہ ایمان سے اس وقت تک نہیں نکلے گا ، جب تک ان چیزوں کا انکار نہ کرے جس کے تسلیم سے وہ ایمان میں داخل سمجھا جاتا ہے ۔

حقیقت ایمان اور مراتب ایمان

ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تسلیم کرنے کا نام ہے ، ( یعنی دونوں باتوں کا ہونا ضروری ہے )
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شریعت کی وضاحت فرمائی وہ سب برحق ہے ۔ اور ایمان ایک ہی جامع چیز کا نام ہے ، اور سب ہی مومن اصل ایمان میں برابر ہے ۔ ہاں ! خشیت ، تقوی ، گناہوں سے اجتناب اور نکیوں پر پابندی کے اعتبار سے ہر ایک میں درجہ بندی ہے ۔
مومنین تمام اللہ کے ولی ہیں ، اور سب سے مکرم اللہ کے نزدیک زیادہ فرمابردار اور قران کی زیادہ اتباع کرنے والا ہے ۔
اور ایمان نام ہے اللہ تعالی کو ، اس کے فرشتوں کو ، اس کی نازل کردہ کتابوں کو ، اس کے رسولوں کو ، اور آخرت کے دن کو ، اچھی بری ، کڑوی میٹھی تقدیر کو تسلیم کرنے کا ۔ ہم ان تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں ( تسلیم کرتے ہیں )
اور اللہ کے رسلوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے ۔ ( یعنی کسی کو نبی مانے اور کسی کو نہ ماننے کی تفریق نہیں کرتے ) اور جو بھی خدا کی تعلیمات انہوں نے پیش کی ہم ا س کی تدیق کرتے ہیں ۔
گناہ کبیرہ
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لوگ جنہوں نے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، وہ جہنم میں جائیں گے ، لیکن توحید کے قائل ہونے اور ایمان پر مرنے کی صورت میں وہ جہنم میں ہمیشہ نہ رہیں گے ۔ چاہے وہ توبہ کیے بغیر مرے ہوں ۔ ایسے لوگ اللہ کی تعالی کی مشیت اور حکم کے تابع ہوں گے ، اگر اللہ چاہے تو ان مغفرت فرمادے اور اپنے فضل سے ان کو معاف کر دیں ۔ چنانچہ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : "وہ شرک کے علاوہ جو گناہ بھی چاہے گا بخش دے گا " ۔ اور اگر اللہ تعالی چاہے تو ان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے جہنم میں عذاب دیں ، اور سزا بھگت لینے کے بعد اپنے رحم کرم سے یا نکوکاروں کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دیں ۔
اللہ تعالی نے اہل ایمان کو دنیا و اخرت میں ان منکرین و کفار سے جدا قرار دیا ہے ، جو ہدایت یافتہ نہیں اور نہ خدا کی مدد کے حق دار ہیں ۔
اے اللہ ! اے اسلام اور مسلمانوں ولی ! ہمیں اسلام پر ثابت قدم رکھ ، تا آن کہ ہم تجھ سے ملاقات کریں ۔
گنہ گار فاسق کے بارے میں
ہم تمام مسلمانوں کے پیچھے ، چاہے وہ نیک ہو فاسق ہو ، نماز پڑھنے کو درست سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح نیک اور فاسق تمام کی نماز جنازہ پڑھے جانے کو ضروری سمجھتے ہیں ۔
کسی نیک و بد کے بارے میں جنت یا جہنم کا فیصلہ ہم نہیں کرتے ، ایسے کسی شخص کے بارے میں کفر ، یا نفاق یا شرک کی گواہی بھی نہیں دیتے ، جب تک کہ اس سے اس قبیل ک کوئی بات ظاہر نہ ہو ، اور ان کے پوشیدہ احوال کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں ۔
کسی مسلمان کو ہم واجب القتل نہیں سمجھتے ، جب تک کہ وہ واجب القتل قرار نہ دیا جائے ۔
اطاعت اولی الامر
ہمارے امام اور حکام کے خلاف بغاوت کو ہم درست نہیں سمجھتے ، چاہے وہ ظلم کریں ، نہ ان کے بارے میں بد دعا کریں گے نہ ان کی اطاعت کو چھوڑیں گے جب تک کہ وہ ہم کو کسی معصیت کا حکم نہ دیں ، ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت سمجھی جائے گی ۔ ( اور وہ خود ظالم و بدکار ہوں تو) ان کے لیے اللہ سے اصلاح و عفو کی دعا کرتے رہیں گے ۔
راہ اعتدال
ہم سنت رسول اور جماعت مسلمین کے طریقہ پر چلنے کا عہد کرتے ہیں ، جدا گانہ راہ و رائے اختیار کرنے ، اخلتاف کرنے اور تفرقہ بازی سے دو رہیں گے ۔ عدل و امانت والوں کو پسند کرتے ہیں ، اور ظلم و خیانت کرنے والوں سے نفرت کرتے ہیں ۔
جن چیزوں کا علم ہم پر مشتبہ ہے ، اس بارے میں ہمارا کہنا یہی ہے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے ۔
بعض مخصوص چیزوں پر ایمان
سفر و حضر میں مسح علی الخفین کو م جائز سمجھجتے ہیں ، جیسا کہ حدیث پاک میں اس کا بیان ہے ۔
فریضہ حج اور فریضہ جہاد مسلمانون کے امیر کی زیر قیادت چاہے وہ نیک ہو بد ، قیامت تک جاری رہیں گے ۔ کوئی چیز اس کو منسوخ نہیں کر سکتی ۔
ہم کراما کاتبین کے ہونے پر بھی ایمان رکھتے ہیں ، اللہ تعالی نے ان کو ہم پر نگران مقرر کیا ہے ۔
ملک الموت کے بارے میں بھی ہم کو یقین ہے ، جنہیں اہل جہاں کی ارواح قبض کرنے کا ذمہ دار بنایا گیا ہے ۔

قبر اور سوال و جواب

ہم مردے سے قبر میں اس کے رب ، اس کے دین ، اور نبی کے بارے میں سوال کیے جانے پر ایمان رکھتے ہیں ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی روایات اور صحابہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ۔
اور قبر مرنے والے کے لیے یا تو جنت کا ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کا گڑھا ۔

آخرت اور اس کے احوال
ہم قیامت میں دوبارہ پیدا کیے جانے ، اعمال کا بدلہ ملنے ، اللہ کے حضور پیش ہونے ، حساب و کتاب ، اعمال نامہ پیش کیے جانے ، اور اس کے مطابق ثواب و عقاب دیے جانے اور پل صراط پر سے گذرنے اور اعمال کے تولے جانے پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔

جنت و جہنم
جنت و جہنم پیدا کی جا چکی ہیں ، یہ کبھی نابود نہ ہوں گیں ، اور نہ پرانی ہوں گی ، اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہی سے جنت و جہنم کو پیدا کر لیا تھا ، اور پھر ہر دو میں جانے والے انسانوں کو پیدا کیا ، پس جس کو چاہا اپنے فضل سے جن کا حقدار بنایا ، اور جس کو چاہا اپنے عدل و انصاف سے جہنم کا حق دار بنایا ۔
بندے کا خیر و شر اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے ۔
اور " استطاعت فعل " بایں معنی کہ جس حاصل ہونے سے ہی بندہ کوئی کام کر سکے ، اور جو بندے کے قبضہ میں نہیں سمجھی جاتی ، وہ فعل کے ساتھ ساتھ انسان کو حاصل ہوتی ہے ، اور استطاعت بمعنی تندرستی ، گنجائش ، طاقت ، اور اسباب و الات کا میسر ہونا ، یہ بندے کو پہلے سے حاصل ہوتی ہے ، اور اسی کی بنیاد پر بندے کو اللہ کی طرف سے کسی کام کا مکلف بنایا جاتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : لا یکلف الللہ نفسا الا وسعہا ، ( اللہ ہر ایک کو اس کی طاقت کے بقدر ہی مکلف بناتے ہیں ۔

افعالِ عباد

افعال عباد ( بندوں کے افعال ) اللہ کے پیدا کردہ اور بندوں کے کسب کردہ ہیں ۔ اللہ نے انہیں اسی کا مکلف بنایا جس کی وہ طاقت رکھتے تھے ، اور بندے اسی کی طاقت رکھتے ہیں جس کا انہیں مکلف بنایا ہے ۔ چنانچہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا یہی معنی ہے ، یعنی گناہ سے بچنے کا کوئی حیلہ ، حرکت ، اور طاقت ( حول ) بندے کو اللہ کی مدد کے بغیر نہیں ، اور اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری کی قوۃ و قدرت بھی اللہ کی توفیق کے بغیر نہیں ۔

نظام کائنات اور مرضی مولی

ہر چیز اللہ تعالی کے ارادہ ، علم ، فیصلہ اور تقدیر کے مطابق ہی چلتی ہے ۔ اللہ تعالی کی چاہت دیگر تمام کی چاہتوں پر غالب ہے ، اور اللہ تعالی کا فیصلہ دوسرے تمام کی تدبیروں پر غالب اتا ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہر برائی اور خرابی سے وہ پاک ہے ، اور ہر عیب اور خامی سے وہ منزہ ہے ۔ قران میں ہے : وہ جو کرے اس پر باز پرس نہیں ، اور اور ہاں لوگوں سے بازپرس ہوگی ۔

دعا اور اس کے اثرات

زندوں کے دعا کرنے سے اور صدقہ کرنے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے ۔ اللہ تعالی لوگوں کی دعاوں کو قبول فرماتے ہیں ِ ضرورتیں پوری فرماتے ہیں ، اور تمام چیزوں کے مالک ہیں ، اور اللہ کا کوئی مالک نہیں ۔


سب اللہ کے محتاج
پلک جھپکنے کے برابر بھی کوئی اللہ سے مستغنی نہیں ، جو کوئی خود کو اللہ سے ذرہ برابر مستغنی سمجھے وہ کافر ہے ، اور گنہ گار ہے ۔

اللہ کا غضب اور رضامندی

اللہ تعالی غصہ فرماتے ہیں اور خوش بھی ہوتے ہیں ، مگر اللہ کا غصہ اور رضامندی مخلوق کی طرح نہیں ۔

صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء اربعہ

ہم صحابہ رسول سے محبت کرتے ہیں ، البتہ نہ کسی کی محبت میں غلو کرتے ہیں ، نہ کسی سے برائت کرتے ہیں ، اور جو کوئی ان سے بغض رکھے ، اور برائی سے ان کا ذکر کرے ، ہم ان سے بغض رکہتے ہیں ۔
ہم تو صحابہ کا ذکر خیر ہی سے کریں گے ۔ صحابہ سے محبت دین ، ایمان اور احسان ہے ، اور ان سے دشمنی کفر و نفاق اور سرکشی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اولا ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت مانتے ہیں ، اس لیے کہ آپ ہی پوری امت سے افضل اور مقدم ہیں ۔ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ، پھر حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کے لیے ۔ یہی چار خلفاء راشدین اور ائمہ مہدیین ہیں ۔

عشرہ مبشرہ

جن دس صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ، ہم بھی ان کے حق میں جنت کی گواہی دیتے ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں جنت کی گواہی دی ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات برحق ہے ۔ یہ حضرات حسب ذیل ہیں ،

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،
حضرت علی رضی اللہ عنہ ،
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ،
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ،
حضرت سعد رضی اللہ عنہ ،
حضرت سعید رضی اللہ عنہ ،
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ،
حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ۔

بزرگان دین کو اچھے لفظوں یاد کرنا

جو شخص صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گناہوں سے دور ہونے اور برائیوں سے پاک ہون کی اچھی بات کرے ، وہ منافق نہیں ہو سکتا ۔
علماء سلف ، ان کے متبعین نیک لوگ ، اور اہل فقہ اور اہل نظر کو اچھے لفظوں ہی سے یاد کیا جائے گا ۔ اور جو ان کی برائی کرے وہ راہ راست پر نہیں ۔
کسی ولی کو ہم کسی رسول سے افضل نہیں سمجھتے ۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ فقط ایک نبی تمام اولیاء سے بڑھ کر ہے ۔

کرامات اولیاء
اولیاء کی کرامات کو ہم حق سمجھتے ہیں اور جو قصے معتبر حضرات سے مروی ہیں ، ان کوبھی درست سمجھتے ہیں ۔

علامات قیامت
اشراط ساعت ( علامات قیامت ) مثلا خروج دجال ، حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، اور ایک مخصوص چوپایہ جانور کا اس کی جگہ سے نکلنا وغیرہ پر ہم ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔

دعوائے غیب کرنے والے کاہن اور نجومی
کسی کاہن اور نجومی کی ہم اس کی کہانت اور نجوم میں تصدیق نہیں کرتے ۔ اسی طرح کتاب و سنت اور اجماع امت کے خلاف بات کرنے والے کسی کی ہم تصدیق نہیں کرتے ۔

جماعت کی شیرازہ بندی

جماعت مسلمین کی بات کو درست اور ان کی مخالفت کو گمراہی اور عذاب کا سبب سمجھتے ہیں ، اللہ کا دین آسمان و زمین میں ایک ہی ہے اور وہ " دین اسلام " ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں : " ان الدین عند اللہ الاسلام " ( دین اللہ کے اسلام ہی ( معتبر ) ہے ) ۔ " و رضیت لکم الاسلام دینا ( " تمہارے لیے میں نے دین ِ اسلام کو پسند کیا
اسلام کی راہ اعتدال

دین اسلام افراط و تفیرط کے درمیان ، تشبیہ و تعطیل کے ما بین ، جبر و قدر کے بیچ ، اطمینان و ناامیدی میں سے ایک راہ اعتدال فراہم کرتا ہے ۔
یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے ، ظاہر میں بھی اور دل میں بھی ۔
اور جو کوئی اس کا مخالف ہو ، ہم اللہ کے سامنے اس سے بری ہیں ۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے ، اور غلط خواہشوں پر چلنے سے ، جداگانہ رائے اختیار کرنے سے ، اور مشبہ ، معتزلہ ، جہمیہ ، جبریہ ، قدریہ ، وغیرہ غلط مسالک پر چلنے سے حفاظت فرمائے ، جنہوں نے سنت رسول اللہ کی اور جماعت مسلمین کی مخالفت کر کے گمراہی سے ناطہ جوڑ رکھا ہے ۔ ہم ایسے گمراہوں سے بری ہیں ، اور یہ سب ہمارے نزدیک گمراہ اور بے راہ ہیں ۔
اللہ ہی سب کو محفوظ رکھنے والا ہے ، اور وہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top