ذاتی کتب خانہ العطایاالنبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ، از: امام احمد رضا بریلوی(مکمل تیس جلدیں)

مہ جبین

محفلین
بہت زبردست کام ہے
یقیناؐ یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔ محترم ندیم قادری صاحب یقیناؐ مبارکباد کے مستحق ہیں
ڈاکٹر مشاہد رضوی بھائی کو اللہ اجرِ عظیم عطا فرمائے کہ انہوں نے اس کو نیٹ پر پیش کرکے ثوابِ جاریہ کا سامان کرلیا اب لوگ اس سے بڑے پیمانے پر مستفیض ہوسکتے ہیں
اس کتاب کی تیاری کے مراحل سے لیکر نیٹ پر پیش کرنے تک جتنے بھی لوگوں نے اس کام میں دامے درمے قدمے قلمے حصہ لیا ، ان سب کو اللہ پاک خیرِ کثیر عطا فرمائے اور علم کے پیاسوں کو اس سے سیراب ہونے کے بھرپور مواقع عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
 

محب اردو

محفلین
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
مہہ جبین باجی !
اس عبارت پر بھی تقریبا وہی اعتراض ہے جو ’’ باتیں مہ جبین کی ‘‘ نامی موضوع میں آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں ۔
بس فرق اتنا ہے کہ وہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا مسئلہ تھا یہاں آپ کی ’’ جاہ ‘‘ کا مسئلہ ہے ۔ جہاں آپ کی ذات مبارکہ کا لانا شریعت نے جائز نہیں رکھا وہاں ذات کی جاہ کا لانا تو بالأولی نامناسب ہے ۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر اکابرین اہل علم نے بھی اس طرح کی باتوں کو ناپسند کیا ہے ۔
اللہ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 
محترم محب اردو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جاہ کو وسیلہ بنانا شریعت نے کہاں ناروا قراردیا ہے
قرآن میں المائدہ آیت 35 میں اللہ کی راہ میں وسیلہ تلاش کرنے کا ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے،، یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعمال صالحہ سے وسیلہ لیاجائے، تو عرض ہے کہ ہمارے اعمال مقبول ہیں یا مردود اس کی ہمیں کیا خبر ۔۔ ہاں !! نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم تو یقینا مقبول ہیں جن کی ذات کاوسیلہ لیا جاتا رہاہے ،

ابن قیم جوزی نے زادالمعاد ج 1 صفحہ 28 پر لکھاہے کہ :
لا سبیل الی السعادۃ والفلاح لا فی الدنیا ولافی الآخرۃ الا علیٰ ایدی الرسل ولا ینال رضا اللہ البتۃ الا علی ایدیہم۔۔۔
فیروز مندی و کامیابی کی کوئی راہ نہیں ، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں مگر رسولانِگرامی کے ہاتھوں ،اور قطعا اللہ کی خوشنودی بھی میسر نہ ہوگی مگر ان کے ہاتھوں۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں فقرا و مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی ہیں۔ مشکوٰۃ ص447 کی حدیث : حضرت امیہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔حضرت ملاعلی قاری نے اس کی شرح میں یوں لکھاہے کہ: ابن الملک فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے تھے: اے اللہ اپنے فقیر اور مہاجر بندوں کے طفیل ہمیں دشمنوں کے خلاف مدد عطا فرما۔" مرقاۃ المفاتیح ، مکتبہ امدادیہ ، ملتان ج 10 صفحہ 13
اسی طرح امام اعظم بوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار دیکھیں : بہ حوالہ : قصیدہ نعمانیہ مع خیرات الحسان ، مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص 200،199
یامالکی کن شافعی فی فاقتی
انی فقیر فی الوریٰ لغناک
یااکرم الثقلین یاکنز الوریٰ
جدلی بجودک وارضنی برضاک
انا طامع بالجود منک ولم یکن
لابی حنیفۃ فی الانام سواک

"اے میرے مالک آپ میری حاجت میں شفیع ہوں ،میں تمام مخلوق میں آپ کے غنا کا فقیر ہوں
اے جن و انس سے زیادہ کریم اے مخلوق کے خزانے مجھ پر احسان فرمائیں اور اپنی امید و رضا سے مجھ سے راضی ہوں
میں آپ کی بخشش کا امیدوار ہوں اور آپ کے سوا مخلوق میں ابو حنیفہ کا کوئی نہیں ۔۔

علاوہ ازیں ۔۔۔ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی کے تین اشعار ہدیۃ المہدی اسلامی کتب خانہ سیالکوٹ ص 20 کے حاشیے سے سنیں
یاسیدی یا عروتی ووسیلتی
یاعدتی فی شدۃ و رخاءِ
قد جءتک بابک ضارعا متضرعا
متا ء وھا بتنفس صعدا ء
مالی ورا ء ک مستغاث فارحمن
یا رحمۃ للعالمین بکا ء
" اے میرے آقا اے میرے سہارے میرے وسیلے ، سختی اور نرمی میں میرے کام آنے والے۔
میں آپ کے دروازے پر اس حال میں حاضر ہواہوں کہ میں ذلیل ہوں ، گڑگڑا ہوں اور میری سانس پھولی ہوئی ہے
آپ کے سوا میرا کوئی نہیں ہے جس سے مدد مانگی جائے۔
ان مختصر اشاریوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علما نے نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بھی وسیلہ بنایا ہے اور آپ کی عزت و عظمت کو بھی ۔۔
اللہ ہمیں حق قبول کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم
 

محب اردو

محفلین
مشاہد رضوی صاحب آپ کی توجہ کے لیے تہہ دل سے شاکر ہوں اور آپ کے حسن تعامل کا اعتراف کرتا ہوں ۔ جزاکم اللہ خیرا ۔
کچھ باتیں سمجھنے کی کوشش کریں :
وسیلہ کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کےلیے کسی چیز کا واسطہ دینا
جیساکہ کسی چیز کو وسیلہ پکڑنے کا حکم قرآن میں موجود ہے شریعت میں یہ بھی موجود ہے وسیلہ کس کس چیز کو بنایا جا سکتا ہے ۔ درج ذیل چیزو ں کو وسیلہ بنانا قرآن وسنت میں وار ہے :
1۔ اللہ کے اسماء وصفات کو وسیلہ بنانا۔ مثلا اللہ کی رحمت و عظمت کا واسطہ دے کر اللہ سے کوئی چیز مانگنا ۔ یہ بات قرآن و حدیث دونوں سےثابت ہے قرآن میں ہے :
حضرت سلیمان کی دعا نقل کی گئ ہے :
وأدخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین اے اللہ مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے نیک بندوں میں شامل کردے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے :
اللہم بعلمک الغیب و قدرتک علے الحق أحینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی .... ( سنن النسائی )
اے اللہ اپنے علم غیب اور قدرت علے الحق کے ساتھ مجھے اس وقت تک زندہ رکھناجب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے ۔
2۔ اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جیساکہ اصحاب غار کا قصہ مشہور و معروف ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ سےدعا کی تو ان سے مصیبت ٹل گئی ( بخاری و مسلم )
3۔ کسی نیک آدمی سے جو بقید حیات ہو دعا کروانا ۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ کی زندگی میں آپ سے آکر دعا کروایا کرتے تھے جیساکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جیساکہ بخاری شریف میں موجود ہے ۔
البتہ کسی فوت شدہ سے دعا کی امید لگا کر اس کو وسیلہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ
جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ، جب قحط پڑگیا تھا تو حضرت عباس ( عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم) سے دعا کروائی تھی جیساکہ بخاری شریف میں موجود ہے ۔ الفاظ کچھ یوں ہیں :

[ARABIC]
عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - كان إذا قحطوا استسقى بالعباس ابن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال: فيُسقَون.

[/ARABIC]
حضرت عمر کایہ معمول تھا کہ جب بھی لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عباس کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور کہتے :
الے اللہ ہم تجھ سے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیتے تھے تو تو بارش برسادیتا تھا اور اب ہم تیرے نبی کے چچا عباس کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ہمارے لیے بارش بر سادے ۔
یہاں مقام غور و فکر ہے کہ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور کا وسیلہ ترک کرکے حضور کے چچا عباس کو بطور وسیلہ کیوں پیش کیا ۔ صرف اس لیے کہ فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنا خلاف شریعت ہے ۔
وسیلے کی یہی تین صورتیں ہیں جن کا ذکر قرآن وسنت میں ملتا ہے اور پوری امت کا ان کے جائز ہونے پر اتفاق ہے ۔
اس کے علاوہ باقی جتنی بھی صورتیں ان کی قرآن وسنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ واللہ أعلم
اگر یہ اعتراض کیا جائےکہ اوپر جتنی بھی دلائل ذکر کیے گئے ہیں ان میں ان تینوں کا جواز تو ہے لیکن ان تینوں کے ماسوا کی نفی نہیں ہےجیساکہ محترم رضوی صاحب نے اپنے افادات کی ابتداء ہی اس بات سے کی ہے کہ :

محترم محب اردو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جاہ کو وسیلہ بنانا شریعت نے کہاں ناروا قراردیا ہے۔

تو اس بات کا آسان سا جواب ہے کہ عبادات میں اصل حرمت اور عدم جواز ہے لہذا ہر وہ چیز جس کے بارے میں شریعت خاموش ہے اس کو ناجائز سمجھا جائے گا ۔ اس کی عام فہم مثال ہے کہ احادیث میں فرض نمازوں کی فرض رکعات کی تعداد صبح کی دو رکعت ، ظہر ، عصر اور عشاء کی چار چار اور مغرب کی تین رکعات تعداد بیان کی گئی ہے ۔ اگر اسی قاعدہ کو یہاں چلایا جائے کہ دو ، تین اور چار کا حکم تو ہے لیکن پانچ یا چھے یا اس سے سے زائد کی نفی نہیں ہے لہذا جتنی مرضی پڑھتے رہو تو کیا یہ بات درست ہوگی ؟ فتدبر ، و اللہ المعین ۔
باقی صرف اقوال علماء سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی خاص کر اس صورت میں جب کچھ علماء اس کو جائز قرار دے رہے ہوں اور کچھ عدم جواز کے قائل ۔ ایسی صورت میں ارشاد ربانی ہے :
فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ والرسول ( النساء )
کہ اختلاف رائے کی صورت میں معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی عدالت میں رکھ دیا جائے ۔ جس کی تائید کتاب وسنت سے ہوگی اس کو لے لیا جائے گا دوسرے کو چھوڑ دیا جائے گا ۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں فقرا و مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی ہیں۔ مشکوٰۃ ص447 کی حدیث : حضرت امیہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا مہاجرین کے وسیلے سے فتح و نصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔حضرت ملاعلی قاری نے اس کی شرح میں یوں لکھاہے کہ: ابن الملک فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگتے تھے: اے اللہ اپنے فقیر اور مہاجر بندوں کے طفیل ہمیں دشمنوں کے خلاف مدد عطا فرما۔" مرقاۃ المفاتیح ، مکتبہ امدادیہ ، ملتان ج 10 صفحہ 13

لیکن یہ ہمارے زیر بحث موضوع کی دلیل نہیں بن سکتا اس کی دو وجہیں ہیں :
1۔ یہ حدیث ہی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔ یعنی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے ۔ ( اگر تفصیل مطلوب ہوئی تو پیش کی جا سکتی ہے ۔ )
2۔ دوسرا یہ کہ اس میں کسی جگہ بھی ذکر نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے فوت شدگان فقراء و مہاجرین کو بطور وسیلہ پیش کرتے تھے ۔ رہا مسئلہ زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ تو یہ تو وسیلہ کی جائز تین صورتوں میں سے ہے جیساک پہلے گزر چکا ہے ۔
رضوی صاحب لکھتے ہیں :

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعمال صالحہ سے وسیلہ لیاجائے، تو عرض ہے کہ ہمارے اعمال مقبول ہیں یا مردود اس کی ہمیں کیا خبر ۔۔ ہاں !! نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم تو یقینا مقبول ہیں جن کی ذات کاوسیلہ لیا جاتا رہاہے ۔
عرض ہے کہ توسل مشروع کی تین صورتیں ہیں اگر کوئی شخص اپنے اعمال پر مطمئن نہیں ہے اللہ کے اسماء وصفات یا کسی نیک بزرگ سے دعا کروا سکتا ہے ۔


رضوی صاحب ! ایک گزارش ہے کہ آپ نے عموما وسیلہ کے حوالے سے دلائل ذکر کرنےکی کوشش کی ہے لیکن آپ نے توسل بجاہ النبی کا ذکر قرآن و حدیث یا صحابہ سے نقل نہیں فرمایا ۔ اس پر بھی کچھ روشنی ڈالیں ۔

تنبیہ : یہاں یہ غلط فہمی قطعا نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ معاذ اللہ ہم حضور کی وجاہت کا انکار کر رہے ہیں ۔ بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ حضور اعظم الناس جاہا کے درجہ پر فائز ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جامع ترمذی میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بینائی کے حصول کے لئے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ دعا سکھلائی کہ یوں کہہ : اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں اور پھر یہ الفاظ سکھائے کہ :
يا محمد انی قد توجهت بک الی ربی فی حاجة هذه فتقضی لی اللهم فشفعه فی
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی اس حاجت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے اللہ اس معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے کے ساتھ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ندا کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ امام ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور دیگر حدیث کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔

امام نووی کتاب الاذکار میں حدیث الاستغاثہ بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث اسے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حاجت در پیش ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھی جائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا جائے۔ احادیث کتب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس ارشاد پاک کے پیش نظر ایک نابینا اعرابی نے مذکورہ طریقہ کار کے تحت دعا کی تو اسے فوری بینائی مل گئی۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الذاکرین میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں اہل حدیث کے عالم عبدالرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل اس حدیث سے متعلق تفصیل تحریر کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا اور مدد مانگنے کے معاملہ میں ابتدائی دور اسلام یعنی متقدمین سے متاخرین تک کسی میں اختلاف نہیں ہے۔

آج بعض لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے اور ذات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیاء وصالحین سے جائز نہیں۔ اس طرح کا نظریہ پیش کر کے وسیلہ کا انکار کرنے والے درحقیقت 1300 برس کے اجماع امت کو رد کر رہے ہیں۔ عمل صالح خود کیا ہیں؟ کوئی بھی عمل حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمل صالح بنتا ہے، اگر امر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تو عمل خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ پس عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے عمل صالح بن رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ہٹ کر ہو تو وہ خود بدعت ہے۔ قرآن پاک میں ہے :

إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا.
(النِّسَآء ، 4 : 64)
’’اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔

یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جاری تھا اور قیامت تک اس آیت کا حکم جاری رہے گا۔

ایک مرتبہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور اس طرح دعا کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آسمان کے درمیان میں کوئی پردہ نہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے روضہ انور کی چھت میں سوراخ کیا تو ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ منورہ سرسبز و شاداب ہو گیا۔ جانور فربہ ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پھٹنے لگے۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسے پیٹ پھٹنے کا سال قرار دیا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنا ام المومنین کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہے۔
 

محب اردو

محفلین
جامع ترمذی میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بینائی کے حصول کے لئے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ دعا سکھلائی کہ یوں کہہ : اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں اور پھر یہ الفاظ سکھائے کہ :
يا محمد انی قد توجهت بک الی ربی فی حاجة هذه فتقضی لی اللهم فشفعه فی
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی اس حاجت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے اللہ اس معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے کے ساتھ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ندا کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ امام ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور دیگر حدیث کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
نظامی صاحب شکریہ کہ آپ نے ایک دینی مسئلہ کے افہام و تفہیم کی غرض سے وقت نکالا ورنہ آج کل کون اتنا وقت پاتا ہے ایسے مسائل کے لیے ۔
میرے خیال سے مباحثہ کو مفید بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ محل نزاع کا تعین ہوجائے تاکہ فریقین کو اتفاقی باتیں زیر بحث لانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
محل نزاع یہاں یہ نہیں ہے کہ وسیلہ جائز ہے کہ نہیں ؟
یہ بھی اختلافی بات نہیں کہ اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت (سفارش ) طلب کرنا جائز ہے کہ نہیں ؟
یہ بات بھی محل نزاع نہیں کہ کسی نیک بزرگ سے (نبی کریم امام المتقین ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی زندگی میں دعا کروانی جائز ہے کہ نہیں ؟
نقطہ اختلاف یہ بھی نہیں ہے کہ وسیلہ کی تین جائز صورتیں (اسماء وصفات الہیہ کا وسیلہ ، کسی نیک بزرگ کی زندگی میں اس کا وسیلہ ، اپنے نیک اعمال کا وسیلہ ) ہیں ۔
نقطہ اختلاف یہ ہے کہ کیا وسیلہ کی ان تین صورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ نہیں ؟
مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یا کسی اور بزرگ کی ذات یا جاہ کا وسیلہ اس کی زندگی کے بعد دینا ۔

آپ نے جتنی گفتگو فرمائی ہے اس میں اس نقطہ اختلاف کوسامنے رکھ کر دلائل پیش نہیں کیے گئے ۔
مثلا آپ نے سب سے پہلے جو حدیث نقل کی ہے سنن ترمذی کے اندر بایں الفاظ موجود ہے :

أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله أن يعافيني قال: «إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك». قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في»: هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث أبي جعفر وهو الخطمي (السنن مع التحفة ج 10 ص 23 )
اس میں یہ ہے کہ اس نابینے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی گزارش کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ تم بھی یوں دعا مانگوں اب اس کو جو دعا سکھائی گئی اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں :
1۔ اے اللہ میں تیرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں ۔
2۔ اے اللہ میرے حق میں اپنی نبی کی سفارش کو قبول فرما ۔
اس حدیث میں کوئی بھی بات ایسی نہیں ہے جو ہمارے درمیان محل اختلاف ہو کیونکہ پہلے گزارش کرچکا ہوں کہ حضور کی زندگی میں ان کا وسیلہ دینا یہ محل نزاع نہیں ہے ۔
اسی طرح حضور کی شفاعت طلب کرنا اس میں بھی کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے ۔
یہاں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ نہیں مانگا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا کہ تم مجھ سے مانگو ۔ کہ یہاں سے ہم کہیں کہ استعانت بالنبی ثابت ہورہا ہے ۔
ترمذی کی اس روایت میں ’’ یا محمد ‘‘ کے الفاظ موجود نہیں ہیں جیساکہ آپ کے سامنے ہے ۔ البتہ ابن ماجہ میں موجود ہیں ۔ اور اس میں بھی کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ ’’ یا ‘‘ حروف ندا میں سے ہے ظاہر ہے جب کوئی شخص آپ کے پاس ہوگا جسطرح آپ اردو میں اس کو ’’ اے فلاں ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اسی طرح عربی میں اس کو ’’ یا فلاں ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے گا ۔
تنبیہ : مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے درست ہے لیکن آپ کا یہ پورا جملہ :
یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک امام حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
غیر درست ہے کیونکہ یہ حدیث خبر واحد ہی ہے جیساکہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے ۔ لہذا آپ کے اصول کے مطابق اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے ۔
اسی طرح یہ کہنا کہ اس کو صحاح ستہ کے ہر امام نے درست کہا ہے یہ بھی ثبوت کا محتاج ہے ۔
امام نووی کتاب الاذکار میں حدیث الاستغاثہ بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث اسے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حاجت در پیش ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھی جائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا جائے۔ احادیث کتب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس ارشاد پاک کے پیش نظر ایک نابینا اعرابی نے مذکورہ طریقہ کار کے تحت دعا کی تو اسے فوری بینائی مل گئی۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الذاکرین میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں اہل حدیث کے عالم عبدالرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل اس حدیث سے متعلق تفصیل تحریر کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا اور مدد مانگنے کے معاملہ میں ابتدائی دور اسلام یعنی متقدمین سے متاخرین تک کسی میں اختلاف نہیں ہے۔
میرے خیال سے ہم ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کررہے ہیں جو چیزیں دلیل بن سکتی ہیں ان کوباحوالہ پیش کرنا چاہیے ۔ مختلف فیہ مسائل میں ہر ایک طرف کئی اقوال نقل کیے جاسکتے ہیں لیکن یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔
کوشش کریں کے یہ سب چیزیں باحوالہ پیش کریں ۔
آج بعض لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے اور ذات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیاء وصالحین سے جائز نہیں۔ اس طرح کا نظریہ پیش کر کے وسیلہ کا انکار کرنے والے درحقیقت 1300 برس کے اجماع امت کو رد کر رہے ہیں۔ عمل صالح خود کیا ہیں؟ کوئی بھی عمل حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمل صالح بنتا ہے، اگر امر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تو عمل خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ پس عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے عمل صالح بن رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ہٹ کر ہو تو وہ خود بدعت ہے۔
اس میں کسی بھی مسلمان کی دو رائے نہیں ہیں کہ کسی بھی عمل کے قابل قبول ہونے کے لیے اتباع سنت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہونا بنیادی شروط میں سے ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جس وسیلہ کی آپ بات کررہے ہیں خود اس پر حضور نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی مہر نہیں ہے ۔ حضور کی مہر صرف تین قسم کے وسیلوں پر ہے جن کو اوپر ذکر کردیا گیا ہے ۔

إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا.
(النِّسَآء ، 4 : 64)
’’اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘۔
یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جاری تھا اور قیامت تک اس آیت کا حکم جاری رہے گا۔
اس آیت میں کیا ہے ظلم کرنے والے خود بھی اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ بھی ان کے لیے استغفار کردیتے تو اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے دعا کروانا اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
رہی بات یہ کہ آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تو آپ نے کہا کہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ ذرا کوشش کریں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت کردیں ۔
یقینا حضرت ابو بکر و عمر ، عثمان وعلی اور دیگر عشرو مبشرہ اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی یہ آیت پڑھی بھی ہوگی سمجھی بھی ہوگی کیا کسی بھی ثابت ہے کہ انہوں نے محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کا آپ کی وفات کے بعد وسیلہ دیا ہو ۔ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کےخلاف ثابت ہے چنانچہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ، جب قحط پڑگیا تھا تو حضرت عباس ( عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم) سے دعا کروائی تھی جیساکہ بخاری شریف میں موجود ہے ۔ الفاظ کچھ یوں ہیں :
عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - كان إذا قحطوا استسقى بالعباس ابن عبد المطلب، فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال: فيُسقَون. (صحیح الخاری حدیث رقم 1010 )
حضرت عمر کایہ معمول تھا کہ جب بھی لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عباس کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اور کہتے :
الے اللہ ہم تجھ سے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیتے تھے تو تو بارش برسادیتا تھا اور اب ہم تیرے نبی کے چچا عباس کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ہمارے لیے بارش بر سادے ۔
یہاں مقام غور و فکر ہے کہ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور کا وسیلہ ترک کرکے حضور کے چچا عباس کو بطور وسیلہ کیوں پیش کیا ۔
صرف اس لیے کہ فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنا خلاف شریعت ہے ۔

ایک مرتبہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور اس طرح دعا کرو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آسمان کے درمیان میں کوئی پردہ نہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے روضہ انور کی چھت میں سوراخ کیا تو ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ منورہ سرسبز و شاداب ہو گیا۔ جانور فربہ ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پھٹنے لگے۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسے پیٹ پھٹنے کا سال قرار دیا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرنا ام المومنین کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہے۔
حوالہ ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
اذا سمعتم الموذن فقولوا مثل ما یقول ،ثم صلوا علی ، فانہ من صلی علی صلوۃ صلی اللہ علیہ بھا عشرا ، ثم سلوا اللہ لی الوسیلۃ۔ فانھا منزلۃ فی الجنۃ لا تنبغی الا لعبد من عباد اللہ و ارجو ان اکون انا ھو ، فمن سال لی الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ۔
(الصحیح المسلم ، سنن ابوداود ، جامع الترمذی ، سنن النسائی ، مسند احمد بن حنبل)
جب تم موذن کو اذان دیتے سنو ، تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، بے شک جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہے۔ پھر اللہ سے میرے لیے وسیلہ مانگو ، بے شک یہ (وسیلہ) جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے خاص بندے کے لیے مخصوص ہے اور مجھ امید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ مانگا ، اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہوگئی۔

مندرجہ بالا حدیث میں ہی آپ کی اس مشکل کہ "کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد وسیلہ جائز ہے یا نہیں" کا جواب پنہاں ہے۔
اگر آپ کا موقف درست ہے تو آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ نبی اکرم نے اس عمل( (ثم سلوا اللہ لی الوسیلۃ) جس کا ثمر ( فمن سال لی الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ) ہے ) کو بعد از وصال ممنوع قراد دیا ہے۔

115.gif


116.gif

برائے تفہیم:
عقیدہ توسل
 
آخری تدوین:

محب اردو

محفلین
الله كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شفاعت کریں گے اس میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ۔ آپ نے جو حدیث مبارکہ پیش کی ہے اس میں اسی چیز کی وضاحت ہے ۔
ہمارے درمیان جو محل نزاع ہے اس حوالے سے آپ کے نقطہ نظر کی دلیل کم ازکم میں نہیں سمجھ سکا۔ اگر آپ وضاحت فرمادیں تو شاید کوئی بات سمجھ آسکے ۔
آخر میں آپ نے مختلف فیہ وسیلہ کے منع کی دلیل کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ :
عبادات میں اصل حرمت اور عدم جواز ہے لہذا ہر وہ چیز جس کے بارے میں شریعت خاموش ہے اس کو ناجائز سمجھا جائے گا ۔ اس کی عام فہم مثال ہے کہ احادیث میں فرض نمازوں کی فرض رکعات کی تعداد صبح کی دو رکعت ، ظہر ، عصر اور عشاء کی چار چار اور مغرب کی تین رکعات تعداد بیان کی گئی ہے ۔ اگر اسی قاعدہ کو یہاں چلایا جائے کہ دو ، تین اور چار کا حکم تو ہے لیکن پانچ یا چھے یا اس سے سے زائد کی نفی نہیں ہے لہذا جتنی مرضی پڑھتے رہو تو کیا یہ بات درست ہوگی ؟ فتدبر ، و اللہ المعین ۔
خلاصہ یہ کہ ثبوت کی دلیل پیش کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اللہ آپ کو توفیق سے نوازے ۔
 
آخری تدوین:
Top