التجائے دید - عطاء اللہ کلیم

کاشفی

محفلین
التجائے دید
(عطاء اللہ کلیم)
کب تک یوں ہی مشقِ ستم و ناز کروگے
کب تک نہ درِ لطف و کرم باز کروگے
تم قہر کے پردے میں بھی ہو مائلِ الطاف
ہم دیکھیں گے افشا جو نہ یہ راز کروگے
تم حسن کے سلطاں ہو لگاؤ گے جسے ہاتھ
گزراغ بھی ہے تم اسے شہباز کروگے
یہ رسمِ وفا جس کو مٹاتے ہو جہاں سے
تم آپ اسی رسم کا آغاز کروگے
کیوں کھنچتے ہو، کیوں مجھ کو گراتے ہو نظر سے
میں وہ ہوں کہ تم مجھ پہ کبھی ناز کروگے
تم مجھ کو بھلا دو، میں تمہیں یاد کروں گا
اس بات کو کیسے نظر انداز کروگے!
امکاں نظر آتا نہیں، لیکن یہ یقیں ہے
تم آؤ گے اور مجھ کو سرفراز کروگے
پھر ڈالو گے مجھ پر وہی مخمور نگاہیں
یعنی کہ درِ مےکدہ پھر باز کروگے
پھر پوچھو گے مجھ سے گل و بلبل کا کچھ احوال
پھر حسن و محبت کو بہم ساز کروگے
پھر کر کے اشارہ کہ کلیم اب ہو غزل خواں
لاہور کو ہم پایہء شیراز کروگے
 
Top