"البانوی شہر ارگِری کے تمام افراد فارسی خواں ہیں" - عُثمانی سیّاح اولیا چلَبی کا مشاہدہ

حسان خان

لائبریرین
میری نظر میں عُثمانی سلطنت کی ایک لائقِ تحسین ترین چیز یہ ہے کہ وہ زبان و ادبیاتِ فارسی کی، بلقان تک کے علاقوں میں سرایت و اشاعت کا باعث بنی تھی۔ سترہویں عیسوی صدی کے عُثمانی سیّاح و سفرنامہ نگار اولیا چلَبی اپنے مشہور سفرنامے 'سِیاحت‌نامہ' کی جلدِ ہشتم میں عُثمانی البانیہ کے شہر ارگِری کے مردُم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اکثریّا خلقې اربابِ معارف و شُعَرایِ مؤلّفین‌لردیر. باخُصوص بُکایی و فغانی و نالِشی و سُکوتی و فضایی نام شُعَرالار حالا بو شهرده موجودلاردېر کیم هر بیری بیرر فن‌ده یدِ طُولالارېن عیان ائتمیش‌لردیر، امّا نالِشی پنج‌بیت‌ده و قصیده‌پردازلېق‌ده لانظیردیر.
و اکثریّا خلقې مُحِبِّ خاندان اۏلوپ 'یا علی' دئر اۏتورور، 'یا علی' دئر قالقار. جُمله فارسی‌خوان اۏلوپ مُحبِّ خاندان اۏلدوق‌لارېندان بیر فرقه‌سې نِهانی‌جه مُعاویه‌یه سبّ ائدۆپ یزیده آشکاره لعنت ائدرلرمیش امّا استماع ائتمه‌دیم."


ترجمہ:
"شہر کے اکثر مردُم اربابِ معارف اور شُعَرائے مُؤلفّین کے زُمرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بالخصوص بُکائی، فغانی، نالِشی، سُکوتی، اور فضائی تخلُّص والے شُعَراء اِس وقت اِس شہر میں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک، ایک ایک فن میں یدِ طُولیٰ عیاں کر چکا ہے، لیکن نالِشی پنج بیت (پنج بیتی غزل) اور قصیدہ پردازی میں بے نظیر ہے۔
اور اُس کے اکثر مردُم مُحبِّ خاندانِ [علی] ہیں، اور وہ 'یا علی' کہتے ہوئے اُٹھتے اور 'یا علی' کہتے ہوئے بیٹھتے ہیں۔ تمام افراد فارسی خواں ہیں، اور مُحبِّ خاندانِ [علی] ہونے کے باعث ظاہراً اُن میں سے ایک گروہ بطورِ نِہانی مُعاویہ پر سبّ کرتا ہے، اور یزید پر آشکارا لعنت کرتا ہے، لیکن میں نے [خود] نہیں سُنا۔"


لاطینی رسم الخط میں:
Ekseriyyâ halkı erbâb-ı ma‘ârif ve şu‘arâ-yı mü’ellifînlerdir. Bâhusûs Bükâyî ve Figanî ve Nâlişî ve Sükûtî ve Feza‘î nâm şu‘arâlar hâlâ bu şehirde mevcûdlardır kim her [bir]i birer fende yed-i tûlâların ayân etmişlerdir, ammâ Nâlişî penç-beytde ve kasîdeperdâzlıkda lâ-nazîrdir.
Ve ekseriyyâ halkı muhibb-i Hânedân olup “yâ Alî” der oturur, “yâ Alî” der kalkar. Cümle Fârisî-hân olup muhibb-i Hânedân olduklarından bir fırkası nihânîce Mu‘âviye’ye sebb edüp Yezîd’e âşikâre la‘net ederlermiş ammâ istimâ‘ etmedim.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
باعثِ افتخار ہے کہ میری محبوب زبان فارسی کے نقشِ پا مغرب میں بوسنیا سے مشرق میں بنگال تک، اور شمال میں تاتارستان سے جنوب میں دکن تک موجود ہیں۔ فارسی زبان و ادبیات کی اِس وسیع ترویج کا سبب بننے والی تمام سلطنتوں پر سلام ہو!
 
Top