اقیمو الصلوٰۃ و اٰتو الزکوٰۃ۔ نثار احمد سلفی

الف عین

لائبریرین


اقیمو الصلوٰۃ و اٰتو الزکوٰۃ


مؤلف


نثار احمد خاں السلفی
سیونی (مدھیہ پردیش)
 

الف عین

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم



افتتاحیہ​

الحمد للہ رب العلمین الصلوۃ والسلام علی خاتم النبین والمرسلین رحمۃ للعلمین محمدوعلی الہ واصحابہ اجمعین امابعدہ!
اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے زیرِ نظر کتاب ’’اقیموالصلوٰۃ و اتو الزکوٰۃ‘‘ میری دوسری تصنیف ہے مطالعہ قرآن کریم کے دوران ہی مذکورہ نام سے کتاب مرتب کرنے کا خیال تھا چونکہ نماز اور زکوٰۃ کی ہم آہنگی قرآن کریم میں بار بار دہرائی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے نماز توحید باری تعالیٰ کے بعد ایک مومن مسلمان کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے با ضابطہ پانچوں نمازوں کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا اور اسی کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ، انفاق، قرض حسنہ کی ترغیب اور بخل کی مذّمت بھی بیان فرمائی ہے
صلوٰۃ کے لغوی معنی رحمت کا نازل ہونا، دعا کرنا، نماز و عبادت کرنا ہے اور کسی کے لئے اللہ سے رحمت کی دعا کرنا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ومن الاعراب من یومن باللہ والیوم الاٰخر ویتخذ ماینفق قربت عنداللہ وصلوٰت الرسول(التوبہ:۹:۹۹)
’’اور بعض دیہاتی ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسی سے اللہ کا قرب چاہتے ہیں اور اس کی دعاؤں کا ذریعہ جانتے ہیں ‘‘
یہاں صلوٰۃ کی جمع صلوٰت ہے جو دعا کے لیے استعمال ہوا ہے مدینہ کے اطراف کے دیہاتی آپ کے پاس آتے تھے اور اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ کی دعا کی سعادت نصیب ہوتی تھی چونکہ نماز بھی اللہ کے لیے ہے جس میں قیام و رکوع وسجود و ذکر اذکار ہیں جو اللہ کے لیے خاص ہیں اس لیے اس کو صلوٰۃ نماز کہتے ہیں
اور ہم رحمۃ اللعلمین محمدرسول للہ ﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرتے ہیں کہ اللھم صل علیٰ محمد اے اللہ تو رحمتیں بھیج محمدﷺ پر اور آپ کی اٰل پر !(درود وسلام جیسے صل اللہ علیہ وسلم وغیرہم)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان اللہ وملئکۃ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنواصلواعلیہ وسلموا تسلیما(الاحزاب۳۳:۵۶)
’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اے مومنوں تم بھی اس پر درود (رحمتیں ) وسلام (سلامتی کی دعا) بھیجا کرو‘‘
اس لیے صلوٰۃ کے معنی رحمت کی دعا کرنا بھی ہے ایسی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں ہیں اور زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک کرنا، نیک کرنا، طہارت و پاکیزگی حاصل کرنا، نشو و نما پانا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
خذمن اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھاوصل علیھم ان صلوتک سکن لھم واللہ سمیع علیم (التوبہ۹:۱۰۳)
’’آپ ان کے مالوں سے صدقات (و زکوٰۃ) قبول کیا کریں اور اس کے ذریعہ ان کو پاک وصاف کر دیں اور ان کے لیے دعا کریں کیوں کہ آپ کی دعا ان کے لیے سکون کا باعث ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے ‘‘
ایسی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں چونکہ صدقات و زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال پاک ہوتا ہے جو خیر و برکت کا باعث ہے اس لئے صاحب نصاب کے لیے ادائیگی زکوٰۃ فرض ہے تاکہ مال پاک ہو جائے (آخری صفحات میں نصاب بیان کیا گیا ہے )اسی طرح پانچ وقتوں کی نمازوں کا اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذکر فرمایا
 

الف عین

لائبریرین
پانچ نمازیں قرآن میں
٭اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقران الفجر ان قران الفجرکان مشھودا(بنی اسرائیل۱۷:۸۷)
ترجمہ :نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پانچوں اوقات کی نمازیں قائم کرنے کا حکم دیا ہے آفتاب کے ڈھلنے یعنی زوال کے بعد نماز ظہر اور نماز عصر پڑھنا اور رات کی تاریکی تک شروع میں نماز مغرب اور تاریکی تک نماز عشاء پڑھنا اور پھر نماز فجر کا حکم کے ساتھ اس کی اہمیت بیان فرمایا:فجر کی نماز میں طویل قرآن اور فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت چونکہ اس وقت میں فرشتوں کی حاضری ہوتی ہے جب اللہ کے بندے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو فرشتے اللہ کے کلام کو غور سے سنتے ہیں مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں یہ سعادت نصیب ہو جائے

٭ فاصبرعلی مایقولون وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھاومن اناءٔ الیل فسبح واطراف النھار لعلک ترضی(طہٰ۲۰:۱۳۰)
ترجمہ :پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ، بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے
توضیح :مشرکین مکہ آپ ﷺ کو طعنے دیتے تھے ، کوئی دیوانہ کہتا تو کوئی مذمم، کوئی ساحر جادوگر وغیرہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبیث حرکتوں کے لئے آپﷺ کو صبر کرنے کی تلقین فرمائی اور پانچوں نمازوں میں اس کی تسبیح و تعریف کا حکم دیاجس سے روح کو تسکین ملتا ہے اس آیت میں تسبیح (پاکی بیان کرنا) پنجوقتہ نماز ہے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی نماز ہے رات کے مختلف وقتوں میں مغرب اور عشاء کی نماز ہے اور دن کے حصہ میں ظہر کی نماز ہے گویا پانچوں نمازوں کے اوقات کا تعین ہے اور پھر ان نمازوں میں پوری اللہ کی پاکیزگی حمد و ثناء ہے کتنا بڑا اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام ہے اس امت پر اسی نمازوں سے آپ ﷺ کا نفس بھی راضی ہو جائے گا اور جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہے

٭ فاما الذین امنووعملوالصلحت فھوفی روضۃ یحبرون واما الذین کفرواوکذبوابایتنا ولقائی الاخرۃ فاولئک فی العذاب محضرون فسبحن اللہ حین تمسون وحین تصبحون ولہ الحمدفی السموات والارض وعشیاوحین تظھرون (الروم۳۰:۱۵سے ۱۸تک)
ترجمہ :جو ایمان لا کر نیک اعمال کرتے رہے وہ تو جنت میں خوش و خرم کر دئیے جائیں گے اور جنھوں نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھوٹا ٹھہرایا تھا وہ عذاب میں پکڑ کر حاضر رکھے جائیں گے پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو تمام تعریفوں کے لائق آسمان و زمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)
توضیح : اللہ تعالیٰ نے یہاں مومنین و کافرین کے فرق کو واضح فرمایا کہ مومن نیک اعمال کرتے ہیں اور کافرین ہٹ دھرم بے ایمان ہوتے ہوئے ہیں مومنین پنجوقتہ نمازی ہوتے ہیں اور کافرین بے نمازی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں پانچوں نماز کا ذکر فرمایا تسبیح بیان کرنا یعنی پانچوں اوقات میں نمازوں کی پابندی کرنا تمسون (شام کرو) میں مغرب و عشا کی نمازیں ہیں اور تصبحون (صبح کرو) میں فجر کی نماز ہے اور عشیاسہ پہر میں عصر کی نماز اور تظھرون ظہر کی نماز ہے گویا پنجوقتہ نمازی اصل میں مومن ہیں جنھیں رب العلمین جنت الفردوس میں مقام عطا کرے گا
پانچ نمازیں حدیث سے
معراج میں رحمۃ اللعلمین رسول اللہ ﷺ کو ملا تحفہ
جب آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پرپچاس وقت کی نماز فرض کیرسول اللہ ﷺ وہاں سے واپس ہوئے تو آپ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئیموسیٰ علیہ السلام نے پوچھا ’’آپ کو کیا حکم ملا؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں ’’موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں اللہ کی قسم میں نے بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کیا ہے اور بے شک آپ کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی آپ واپس جائیں اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کریں ‘‘تورسول اللہ ﷺواپس تشریف لے گئے اوپر پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے تخفیف کی درخواست کی اللہ نے دس کم کر کے چالیس کر دیں پھر رسول اللہ ﷺواپس ہوئے تو آپ ﷺ پھرموسیٰ علیہ کے پاس سے گزرے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اسی طرح گفتگو ہوئی تو آپ پھر اوپر تشریف لے گئے اللہ سے تخفیف کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے دس کم کر کے تیس کر دیں رسول اللہ ﷺ واپس ہوئے پھرموسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی پھر اسی طرح گفتگو ہوئیں رسول اللہ ﷺ پھر اوپر گئے اللہ سے تخفیف کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے کم کر کے بیس کر دیں وہاں سے رسول اللہ ﷺپھرواپس ہوئے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی پھر اسی طرح باتیں ہوئیں ، رسول اللہ ﷺواپس تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی درخواست کی تو اللہ عزوجل نے دس اور کم کر کے دس نمازیں مقرر کر دیں رسول اللہ ﷺ وہاں سے واپس ہوئے توموسیٰ علیہ السلام سے پھر ملاقات ہوئی اور پھر وہی باتیں ہوئیں رسول اللہ ﷺ پھر اوپر تشریف لے گئے اور اللہ سے تخفیف کی درخواست کی اللہ تعالیٰ نے پانچ اور کم کر کے پانچ نمازیں مقرر کر دیں واپسی میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انھوں نے پوچھا کیا حکم ملا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ ﷺ کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی میں نے آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کو خوب تجربہ کیا ہے اور بنی اسرائیل کی خوب جانچ کی ہے آپ اپنے رب کے پاس جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کئی مرتبہ درخواست کر چکا ہوں اب تو مجھے شرم آتی ہے بس اب تومیں راضی ہوں اور (پانچ نمازوں کو) تسلیم کرتا ہوں
جب رسول اللہ ﷺ واپس ہوئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ عزوجل نے آپؐ کو پکارا اور کہا ’’میں نے اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی میں ایک نیکی کا بدلہ دس دونگا اسی طرح پانچ نمازیں پچاس کے برابر ہوں گی میری بات بدلہ نہیں کرتی(صحیح بخاری باب المعراج)
اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام واحسان پر ذرا انسان غور کرے کہ اللہ نے ان پانچ نمازوں کے ثواب کو پچاس نمازوں کے برابر فرما دیا انسان ایسے انعامات کو ضائع کرے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
آیات قرض حسنہ
اسی طرح قرض حسنہ کے تعلق سے اللہ رب العلمین نے کئی مقام پر ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے راستے میں خرچ کریں اللہ کا ارشاد ہے :
٭ من ذا الذی یقرض اللہ قرضاحسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیراواللہ یقبض ویبصط والیہ ترجعون(البقرۃ۲:۲۴۵)
ترجمہ :ایسابھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے
توضیح : اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا ہے یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گناہ اضافہ فرماتا ہے ، حساب کے دن میں تو یقیناً اس میں اضافہ حیران کن ہو گا جہاں انسان کو ایک ایک نیکی کی ضرورت ہو گی

٭ من ذالذی یقرض اللہ قرضاحسنافیضعفہ لہ و لہ اجر کریم(الحدید۵۷:۱۱)
ترجمہ :کون ہے جواللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیدہ عزت والا ثواب ہے
توضیح :خوش نصیب ہیں وہ لوگ جواللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے فضل کو امانت سمجھتے ہوئے ضرورت مندوں کودیں اور بشارت الٰہی کے مستحق ہوں

٭ ان المصدقین والمصدقت واقرضواللہ قرضا حسنا یضعف لھم ولھم اجر کریم(الحدید۵۷:۱۸)
ترجمہ :بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جواللہ کو خلوص کے ساتھ قرض دے رہے ہیں ان کے لیے یہ بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے پسندیدہ اجروثواب ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان مردوں اور عورتوں کی تعریف فرمائی ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اس اللہ کو قرض حسنہ دے رہے ہیں جس نے اتنی عظیم کائنات کی ساری چیزوں کواحسن اندازے میں پیدا فرمایا اور ہر ایک کی وہ ضرورتیں پوری فرما رہا ہے وہی آخرت میں اس کے بدل وہ اجر دے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے

٭ ان تقرضواللہ قرضاحسنافیضعفہ لکم ویغفرلکم واللہ شکورحلیم(التغابن۶۴:۱۷)
ترجمہ :اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے ) تو وہ اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا اللہ بڑا قدردان بڑا بردبار ہے
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک خاص انعام کا اشارہ فرمایا ہے کہ انسان خطاکار ہے اس سے خطائیں سرزدہوتی ہیں اللہ تعالیٰ اس قرض حسنہ کی وجہ سے در گزر کا معاملہ فرمائے گا کہ میرے بندے نے میری رضا و خوشنودی کے لیے میری راہ میں خرچ کیا تھا آج ہم اسے اس کا اجر دیں گے

٭ واقرضوا للہ قرضاحسنا وماتقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عنداللہ ھو خیرا واعظم اجراواستغفروا اللہ ان اللہ غفور رحیم(المزمل۷۳:۲۰)
ترجمہ :اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤگے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے
توضیح : فی سبیل اللہ خرچ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے چونکہ اس کی صفت ہی غفورالرحیم ہے یہاں ہم سب کچھ چھوڑ جائیں گے مگر جو کچھ ہم نے خرچ کیا اللہ کی راہ میں اللہ کے یہاں اضافے کے ساتھ ہمیں نصیب ہو گا
جب یہ آیت نازل ہوئیں تو حضرت ابولدحداحؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہو اللہ تعالیٰ ہم نے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ ذات قرض سے بے نیاز ہے آپ نے فرمایا ہاں اللہ ہی قرض مانگتے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں وہ تمہیں جنت میں داخل کر دے انھوں نے عرض کی تومیں اپنے پروردگار کو قرض دیتا ہوں کیا وہ مجھے اور میری بچی دحداحہ کو جنت میں داخل کرے گا؟آپ نے فرمایا ہاں تو انھوں نے کہا لائیے اپنا دست مبارک بڑھائیے تو آپؐ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا تو اسے پکڑ کر کہنے لگے دو باغ میری ملکیت میں ہے ایک مدینے کے زیریں علاقہ میں ہے اور دوسرا بالائی حصہ میں ہے ان دو باغوں کے علاوہ اللہ کی قسم اور کوئی چیز میرے پاس نہیں میں یہ دونوں باغ اللہ کو قرض دیتا ہوں ، تو آپ ؐ نے فرمایا ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے دو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گزر اوقات کے لئے رکھ لو اس پر ابوالداحدحؓنے کہا پھر اے اللہ کے رسول ان میں سے جو بہتر ہے وہ اللہ کی راہ میں دیتا بہوں آپ گواہ رہیں اس باغ میں چھ سوکھجور کے درخت ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس انفاق کے بدلے میں اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں داخل کرے گا تو آپؓ یہ کہہ کر چل دیئے اور باغ میں پہنچے جہاں ام لداحداح اپنے بچوں کے ہمراہ کھجوروں کے درختوں میں پھر رہی تھیں انھیں دیکھ کر آپ نے یہ کہا:میں یہ باغ اللہ کو بطور قرض خوش دلی سے دے دیا ہے یہ سنتے ہی آپ کی بیوی نے اپنے شوہر کی تحسین فرماتے ہوئے بچوں کو لے کر باغ سے نکل گئی اور بچوں کے دامن و جیب میں جو کھجوریں تھیں اور جو ان کے منہ میں تھی سب نکلوا کر وہیں ڈھیر کر دی
انہیں آیات کے پیش نظر نبی اکرم ﷺ نے اصحاب کرامؓ کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت ابوعقیل انصاریؓ ایک عجیب و غریب مثال قائم فرمائی خود اپنی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کا حکم پاتے ہی میں تڑپ اٹھا اور اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا کہ خرچ کروں آخر کام کی تلاش میں نکل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے میری تمنا پوری فرما دیا دی مجھے ایک جگہ مزدوری مل گئی ایک یہودی کا کھیت سیراب کرنے کا کام دو صاع کھجور کے بدلے تومیں نے ساری رات اپنی پیٹھ پر پانی لاد کر سینچائی کرتا رہا صبح تک پورا کام کیا، صبح ہوئی تواس یہودی نے دو صاع کھجوریں مزدوری میں دیں تو ایک صاع نکال کر اپنے گھر والوں کے لئے لے گیا اور دوسراصاع اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے دربار رسالت مآب ﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر کر دیا (الطبرانی)صحابہ رسولؐ کے اس نیک عمل سے اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر سورۂ التوبہ، آیت نمبر۷۹ نازل فرمائی سبحان اللہ
اسی طرح احادیث نبوی ﷺمیں بھی نماز اور زکوٰۃ کو یوں بیان کیا گیا ہے :
٭ عن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ قال بینما نحن عند رسول اللہ ﷺ ذات یوم اذاطلع علینا رجل الحدیث رواہ مسلم
’’حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرتھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے آیاجس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی سیاہ تھے ، نہ اس پرسفرکا کوئی اثر نمایاں تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا یہاں تک کہ نبی ﷺکے پاس بیٹھ گیا اور اس نے اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور اپنے ہاتھ آپ ﷺکی رانوں پر رکھ دئیے اور کہا:اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم یہ شہادت دوکہ اللہ کے سواکوئی الہٰ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور اللہ کے گھرکا حج کرو، اگراس کے راستے کی استطاعت رکھتے ہو
اس نے کہا:آپ نے سچ کہا
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور اس کی تصدیق بھی کرتا ہے
پھراس نے کہا:مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے
آپؐ نے فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور یوم آخر اور تقدیر کے خیرو شر پر ایمان لاؤ
اس نے کہا:آپ نے سچ کہا
پھر کہا:مجھے احسان کے بارے میں بتائیے
آپؐ نے فرمایا:احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے
اس نے پھر کہا:مجھے اس گھڑی قیامت کے بارے میں بتائیے
آپ نے فرمایا:جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ اسے پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا
اس نے کہا:اچھا، مجھے اس کی نشانیوں سے آگاہ کیجئے
آپ نے فرمایا:نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تم ننگے پاؤں اور ننگے جسم والے کنگالوں اور بکریاں چرانے والوں کو دیکھو گے کہ وہ عمارتوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتے ہیں
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چلا گیا اور میں کچھ دیر ٹھہرا رہا پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:اے عمر!کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟
میں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں
آپؐ نے فرمایا:وہ جبرئیل علیہ السلام تھے ، تمہارے پاس آئے تھے کہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم سکھا دیں
توضیح : اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کے اہم ستون کو بتانے کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا جو انسانی شکل میں تشریف لائے تھے اس اہم ستونوں میں نماز اور زکوٰۃ بھی ہے جواس کا منکر ہو گا یاتساہلی برتے گا وہ کافر ہو گا

٭ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال نھینا ان نسال رسول اللہ ﷺ عن شی فکان یعحبنا ان یجیٔ الرجل(الحدیث متفق علیہ)
’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ پوچھیں تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آئے اور آپؐ سے کچھ پوچھے اور ہم سنیں چنانچہ اہل بادیہ میں سے ایک شخص آیا اس نے کہا:اے محمد!آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہم سے بیان کیا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اللہ نے آپ کورسول بنا کر بھیجا ہے آپؐ نے فرمایا:اس نے سچ کہا پھر اس شخص نے کہا:آسمان کوکس نے پیدا کیا؟آپؐ نے فرمایا:اللہ نے اس نے کہا: زمین کوکس نے پیدا کیا آپؐ نے فرمایا: اللہ نے پھراس نے کہا:یہ پہاڑ کس نے کھڑے کئے ہیں اور ان میں جو کچھ بنایا ہے وہ کس نے بنایا ہے ؟ آپ نے فرمایا:اللہ نے اس نے کہا:پس قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور یہ پہاڑ کھڑے کئے ، کیا اللہ نے آپؐ کو بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپؐ کے قاصد نے بیان کیا کہ ہمارے دن اور رات میں ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں آپؐ نے فرمایا: اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس کی جس نے آپؐ کورسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپؐ کو اس کا حکم دیا ہے ؟فرمایا:ہاں اس نے کیا:اور آپؐ کے قاصد نے بیان کیا کہ ہم پر ہمارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض ہے فرمایا: اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐکورسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کواس کا حکم دیا ہے ؟ فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ سال میں رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہے فرمایا:اس نے سچ کہا اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کورسول بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ نے آپ کواس کا حکم دیا ہے فرمایا: ہاں اس نے کہا:آپ کے قاصد نے یہ بھی بیان کیا کہ ہم میں سے اس پربتی اللہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو فرمایا:اس نے سچ کہا (راوی) بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، میں ان میں اپنی طرف سے نہ کچھ بڑھاؤں گا اور نہ ان میں کوئی کمی کروں گا اس پر نبی ﷺ نے فرمایا اگر یہ سچاہے تو ضرور جنت میں داخل ہو گا‘‘ (بخاری ومسلم)
اسلام میں نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کے بغیر ایمان ادھورا ہے
 

الف عین

لائبریرین
نماز کی اہمیت​
٭ وعن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺقال:والذی نفسی بیدہ لقد ھممت ان آمر بحطب فیحطب ثم امربالصلوٰۃ فیوذن بھاثم آمر رجلا فیوم الناس ثم اخالف الی رجال فاحرق علیھم بیوتھم بخاری ومسلم
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،میں نے ارادہ کیا کہ حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں ، پھر نماز کا حکم دوں اور اس کے لئے اذان دی جائے پھر ایک شخص کو لوگوں کا امام مقرر کروں پھر لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں ‘‘

٭ وعن ابی الدرذآء قال:قال رسول اللہ ﷺ :مامن ثلثلۃ فی قریۃ ولابدولاتقام فیھم الصلوٰۃ الاقد استحوذعلیھم الشیطان فعلیک بالجماعۃ فانمایاکل الذئب القاصیۃ ابوداؤد
’’ابودردائؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی بستی یا بادیہ میں تین آدمی ہوں اور وہاں نماز یا جماعت کا اہتمام نہ ہوتا تو ان پر شیطان قابو پا لیتا ہے تو تم جماعت کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ بھیڑیا اسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو گلے سے دور رہتی ہے
قرض حسنہ کی مثال
٭ وعن ابن مسعودؓ قال:قال رسول اللہ ﷺ:ایکم مال وارثہ احب الیہ من مالہ؟ قالوا: یا رسول اللہ!مامنا احدالامالہ احب الیہ قال:فان مالہ ماقدم ومال وارثہ ما اخر بخاری مسلم
’’ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں کس کو اپنے مال سے بڑھ کر اپنے وارث کا مال زیادہ عزیز ہے ؟(صحابہؓ نے ) عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں تو ہر ایک کا اپنا ہی مال سب سے زیادہ عزیز ہے آپ نے فرمایا: اس کا مال تو وہی ہے جواس نے آگے بھیجا اور وہ اس کے وارث کا مال ہے جواس نے پیچھے چھوڑا‘‘
بخل کی مذمت
٭ وعن ابی ھریرۃؓ قال رسول اللہ ﷺ:مثل البخیل والمتصدق:کمثل رجلین علیھما جنتان من حدیدقد اضطرت اید یھما الی ثد یھماوتر قیھما فجعل المتصدق کلما تصدق لصدقۃ انبسطت عنہ وجعل البخیل کلما ھم بصد قۃ قلصت واخدت کل حلقۃ بمکا نھا مسلم بخاری
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بخیل اور صدقہ دینے والوں کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جنھوں نے لوہے کی زرہیں پہن رکھی ہوں ، ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہیں ، صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہو جاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ زرہ مزید تنگ ہو جاتی ہے اور زرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے

زکوٰۃ نہ دینے والے کافر ہیں
رحمۃ اللعلمین نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینا بند کر دیا تھا وہ لوگ نمازیں تو پڑھتے تھے مگر زکوٰۃ نہیں دیتے تھے تو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان لوگوں کے خلاف فوجی کاروائی شروع فرما دی(یعنی جہاد) حضرت عمر بن الخطابؓ نے آپؓ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ لا الہٰ الا اللہ نہ پڑھ لیں پھر جس نے یہ پڑھ لیا تواس نے اپنا جان ومال کو مجھ سے بچا لیا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں ضرور ان سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا (یعنی جو نماز تو پڑھے گا مگر زکوٰۃ نہیں دے گا)
اللہ کی قسم اگر ایک بھیڑ کا بچہ جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو زکوٰۃ دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تومیں ضرور ان سے اس بچہ کو روک لینے پرجنگ کروں گا
حضرت عمر بن الخطابؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم اللہ نے ابوبکرؓ کے سینے کو کھول دیا تھا بعد میں سمجھ گیا کہ یہ حق ہے (یعنی زکوٰۃ نہ دینے والوں کے ساتھ جنگ)
(بخاری شریف کتاب الزکوٰۃ)
جس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت انسؓ کو بحرین زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل بنا کر روانہ فرمایا ایک تحریر کتاب الزکوٰۃ کی لکھ کر عنایت فرمائے جس کا مضمون اس طرح تھا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ زکوٰۃ کے فرائض ہیں جورسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کئے ہیں اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو دیا تھا لہٰذا مسلمانوں میں سے جس شخص سے بھی اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ مانگی جائے وہ زکوٰۃ دے دیں اور جس سے اس سے زیادہ مانگی جائے وہ زیادہ نہ دیں (پھر پورا نصاب تحریر فرمایا جو آخری صفحات میں تحریر کیا گیا ہے )
اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنے گورنروں کو خصوصی طور سے زکوٰۃ کے ساتھ نمازوں کی اقامت کا حکم صادر فرمایا تھا آپ نے گورنروں کو خط لکھا کہ:
’’میرے نزدیک تمہارے تمام کاموں میں سب سے بڑھ کر اہمیت نماز کی اہمیت ہے تو جس نے بھی اس کی حفاظت کی اور اس کی برابر نگہبانی کرتا رہا تو اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے اس نماز کو ضائع کر دیاتو وہ دوسری ساری چیزوں کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہو گا‘‘
 
Top