اقوال زریں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام

سیما علی

لائبریرین
فرمانِ امیر المومنین حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام
‏خدایا !مجھ میں کسی چیز سے بچنے کی سکت نہیں سوائے اُس کے کہ جس سے مجھے تُو بچائے رکھے ۔
‏(نہج البلاغہ خطبہ 213سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
اگر کوئی بندہ مدتِ حیات اور اس کے انجام کو دیکھے تو امیدوں اور ان کے فریب سے نفرت کرنے لگے
‏مولا علی علیہ السّلام

‏( نہج البلاغہ )
 

سیما علی

لائبریرین
مولا علی علیہ السلام :
‏"جس دور میں دلیل کی کوئی اہمیت نہ ہو اُس دور میں خاموش رہنا عین عبادت ہے"
 

سیما علی

لائبریرین
"بے وقوف وہ ہے جو دنیا میں مصروف ہو کر آخرت کے حصّہ کو فوت کر دے۔"
‏(غررالحکم)
‏امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام
 

سیما علی

لائبریرین
وَ قَالَ عليه‌السلام يَا اِبْنَ آدَمَ إِذَا رَأَيْتَ رَبَّكَ سُبْحَانَهُ يُتَابِعُ عَلَيْكَ نِعَمَهُ وَ أَنْتَ تَعْصِيهِ فَاحْذَرْهُ

‏فرزند آدم(ع)! جب گناہوں کے باوجود پروردگار کی نعمتیں مسلسل تجھے ملتی رہیں تو ہوشیار ہوجانا-
نۂج البلاغہ
 

سیما علی

لائبریرین
کلام امیر المؤمنینؑ علی علیہ السلام
‏ دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
‏نہج البلاغہ،حکمت 10
 

سیما علی

لائبریرین
نہج ابلاغہ
‏حکمت 215
‏امیرالمؤمنین امامِ علی علیہ السلام نے نے فرمایا

‏“مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔”
 

سیما علی

لائبریرین
پردہ پوشی
‏▫️ڈرو..! ڈرو..! اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے ،کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے۔
‏✍🏻 کلام امیرالمؤمنینؑ علی علیہ السلام

‏📗 نہج البلاغہ۔حکمت 29
 

سیما علی

لائبریرین
⭐اللہ سے کچھ تو ڈرو! چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو! چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔
‏⭐مولا علی علیہ السلام ۔
 

سیما علی

لائبریرین
نہج البلاغہ
حکمت 260
‏“کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔”
 

سیما علی

لائبریرین
حکمت 255 نہج البلاغہ
‏“غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔”
 

سیما علی

لائبریرین
▪فرمان امام علی علیہ السلام*
‏جب تم میں سے کوئی اپنے گھر داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو اور اگر گھر والے نہ ہو تو کہے اسلام عِلینا ربنا اور گھر میں داخل ہوتے وقت قل ھو اللہ احد پڑھے تو اس سے تنگدستی دور ہوگی
‏*▪حوالہ: الخصال(اردو) ص 3554*
 

سیما علی

لائبریرین
قول۔128 مولا علی علیہ السلام
شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کر و ,کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے ,جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائ میں درختوں کو جھلس دیتی ہے ,اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.

موسم خزاں میں سردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے ,اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے .وجہ یہ ہوتی ہے کہ بد ن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگا ہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں ,اور مزاج میں برودت و پیوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں
اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی ,بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے ,حرارت غزیری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .
اسی طرح عالم نباتا ت پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و پیوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے ,چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں .
 

سیما علی

لائبریرین
امام على علیہ السلام نے فرمایا:
‏اللہ نے روزه واجب کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنی مخلوقات کے اخلاص کا امتحان لے.

‏(نہج البلاغہ، حكمت 252 )
 

سیما علی

لائبریرین
حقیقی عبادت :

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کچہ لوگ ایسے ہیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ہیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یہاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ہوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجہا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کہا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اَلتَّوْبَةُ عَلى اَرْبَعَةِ دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَ اسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ وَ عَزْمٌ اَنْ لایَعُودَ ۔
توبہ کے چار ستون ہیں :
۱: دل سے پشیمانی
۲: زبان سے استغفار
۳: اعضاء بدن سے عمل
۴: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
میزان الحکمۃ، باب 459، حدیث 2160
 

سیما علی

لائبریرین

خواہش پرستی​

إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ۔ (خطبہ 45)
فتنوں میں پڑنے کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔


کامیابی کی راہوں پر بیٹھے راہزن سے ہوشیار کرنا راہنماؤں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی نے جب صراط مستقیم کی بات کی تو شیطان کے اعلان کا بھی ذکر فرما دیا کہ وہ کہتا ہے میں صراطِ مستقیم پر بیٹھوں گا اور تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہاں ایسے ہی راہزن کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہنگامے، جھگڑے، فساد، فتنے اور جنگ و جدل جو امن و سکون کو برباد کرتے ہیں ان کی ابتدا انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ فتنوں کے پیچھے اگر نظر کریں تو دنیا کی محبت اور جوانی کی خواہشوں کی تکمیل دکھائی دے گی۔ قرآن مجید نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا خدا ان کی خواہشات ہوتی ہیں وہ انہی خواہشوں کے بندے اور غلام بن جاتے ہیں۔
انسان جب خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے تو وہ صحیح و غلط اور حق و باطل کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنی خواہشیں پوری کرنے کے لیے برے سے برا کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور یوں خواہشات کی تکمیل کے لیے قوانین کو پامال کرتا ہے اور عقل کے تقاضوں کو پاؤں تلے روند ڈالتا ہے۔ کرسی و حکومت کے حصول کی خواہش میں ظلم و بربریت کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ اسے مظلوموں کی چیخ پکار سنائی نہیں دیتی اور بے گناہ لوگوں کے بہتے ہوئےلہو کو وہ نہیں دیکھتا۔امیرالمؤمنینؑ نے اس خطرے سے آگاہ کر کے گویا عدل و انصاف اور انسانیت کی عزت و احترام کی دعوت دی اور یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ جب انسان خواہش پرستی کی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر نہ وہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو مدنظر رکھتا ہے اور نہ ہی دوسرے انسانوں کی آراء اس کے لیے اہم ہوتی ہیں۔
 
Top