پیاسا صحرا
محفلین
ضبط کروں میں کب تک آہ اب - چل رے خامہ ! بسم اللہ اب
کر ٹک دل کا راز نہانی - ثبت جریدہ میری زبانی
یعنی ۔ میر اک خستہء غم تھا - سرتاپا اندہ و الم تھا
تاب و توان و شکیب و تحمل - رخصت اس سے ہو گئے بالکل
سینہ فگاری سامنے آئی - بیتابی نے طاقت پائی
خواب و خورش کا نام نہ آیا - ایک گھڑی آرام نہ آیا
سوز سے چھاتی تا بہ گویا - اور پلک خوننابہ گویا
دل میں تمنا ۔ داغ جگر میں - شیون لب پر یاس نظر میں
نالے شب کو اس کے سن کر - مر گئے کتنے سر کو دھن کر
روئے و جبیں پہ خراش ناخن - داغوں سے خوں کے قامت گلبن
غم نے تو دل میں کیا ہی چھوڑا - پر میں تھا اک پکا پھوڑا
کام رہا ناکامی ہی سے - تسکین بے آرامی ہی سے
دشنہء غم سے سینہ کوچا - ناخن سے منہ سارا نوچا
دل آماجگاہ غمناکی - اور نفس اک تیر خاکی
نے طاقت نے یارا اس کو - ضعف دلی نے مارا اس کو
رنگ اڑے چہرے کا ہر دم - تھا گویا گل آخر موسم
رنگ شکستہ بس کے فسردہ - کہنے کو زندہ لیکن مردہ
دیدہ تر کے دریا قائل - ساحل خشک لبی کے سائل
ہر دم ہو ہر سمت کو جاری - خونباری سے سیل بہاری
خاک بسر آشفتہ سری سے - شور قیامت نوحہ گری سے
وادی پر جب اپنے آوے - صحرا صحرا خاک اڑاوے
سر پر اس کے سنگ ہمیشہ - جی پر عرصہ تنگ ہمیشہ
آہ سرد کرے وہ عریاں - بید سا کانپے موئے پریشاں
پامالی میں مثل جادہ - نقش قدم سا خاک افتادہ
اس کے جو پامال ہوئے سب - خار بیاباں لال ہوئے سب
جس نے دیکھا اس کو یکدم - اس نے کہا یہ بھول کے سب غم
چندے یہ ناشاد رہے گا
پر مدت تک یاد رہے گا
میر محمد تقی - میر