اقبال کے ایک شعر کا مفہوم؟

عرفان سعید

محفلین
اگر آپ کو برا نہ لگے تو کہوں کہ ہمارے کالج کے زمانے کے ایک دوست (کم و بیش ربع صدی پہلے) اس شعر کی وہی تشریح کرتے تھے جو پہلی بار پڑھنے میں سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی ایک میخانے کا ماحول ہے وہاں کی دلکش ویٹریس آ رہی ہیں جا رہی ہیں، پینے والوں کو شراب بعد میں ملتی ہے، سرور پہلے آ جاتا ہے، اللہ اللہ :)
وارث بھائی! آپ کے بے ساختہ تبصرے سے یہ تو اب طے ہے کہ جب کبھی اب ریسٹورنٹ جانا ہوا، دہن ناآشنائے مئے تو رہے گا، لیکن نظارۂ سرور کا موقع اس وقت تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا جب تک زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت رہے گی۔ اور اب اس شعر کا مفہوم لوحِ یاداشت سے محو ہونے کا نہیں۔
 

زارا آریان

محفلین
اس شعر کی تشریح چاہیے ...

ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا
خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو

وزیر علی صبا لکھنؤی
 
محمد وارث کی نظر

رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا
نظارہ ہے مسحور اسی جلوہ گری کا

رفتار قیامت یوں نہیں کیا کم تھی پھر اس پر
اک طُرہ ہے فتنہ تری نازک کمری کا

پوشاک میں کیا کیا شجری نقش ہیں دلکش
باعث نہ یہی شوق کی ہوں جامہ دری کا

لاریب کہ اس حسن ستم گار کی سرخی
موجب ہے مرے زہد کی عیصاں نظری کا

باوصف تلاش اُن کی خبر کچھ بھی نہ پا کر
کیا کہئے جو ہے حال مری بے خبری کا

جب سے یہ سنا ہے کہ وہ ساکن ہیں یہیں کے
عالم ہے عجب شوق کی آشفتہ سری کا

ساتھ اُن کے جو ہم آئے تھے بیروت سے حسرت
یہ روگ نتیجہ ہے اُسی ہم سفری کا

حسرت موہانی
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی! آپ کے بے ساختہ تبصرے سے یہ تو اب طے ہے کہ جب کبھی اب ریسٹورنٹ جانا ہوا، دہن ناآشنائے مئے تو رہے گا، لیکن نظارۂ سرور کا موقع اس وقت تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا جب تک زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت رہے گی۔ اور اب اس شعر کا مفہوم لوحِ یاداشت سے محو ہونے کا نہیں۔
آپ نے شرط ہی ایسی کڑی لگا دی ہے کہ بس "انکار" ہی سمجھیں۔ زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث کی نظر

رعنائی میں حصہ ہے جو قبرص کی پری کا
نظارہ ہے مسحور اسی جلوہ گری کا

رفتار قیامت یوں نہیں کیا کم تھی پھر اس پر
اک طُرہ ہے فتنہ تری نازک کمری کا

پوشاک میں کیا کیا شجری نقش ہیں دلکش
باعث نہ یہی شوق کی ہوں جامہ دری کا

لاریب کہ اس حسن ستم گار کی سرخی
موجب ہے مرے زہد کی عیصاں نظری کا

باوصف تلاش اُن کی خبر کچھ بھی نہ پا کر
کیا کہئے جو ہے حال مری بے خبری کا

جب سے یہ سنا ہے کہ وہ ساکن ہیں یہیں کے
عالم ہے عجب شوق کی آشفتہ سری کا

ساتھ اُن کے جو ہم آئے تھے بیروت سے حسرت
یہ روگ نتیجہ ہے اُسی ہم سفری کا

حسرت موہانی

کسے کیفیّتِ چشمِ تو را چوں من نمی دانَد
فرنگی قدر می دانَد شرابِ پرتگالی را
طالب آملی
تیری کیفیتِ چشم جیسے میں جانتا ہوں اور کوئی بھی نہیں جانتا، جیسے پرتگالی شراب کی صحیح قدر کوئی فرنگی ہی جانتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ نے شرط ہی ایسی کڑی لگا دی ہے کہ بس "انکار" ہی سمجھیں۔ زوجہ کی عقابی نگاہوں سے بچت۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ :)
وارث بھائی! آپ کا تبصرہ پڑھ کر ایک فی البدیہہ شعر ہو گیا۔ عرض کیا ہے:

کچھ زوجہ کی نظریں کچھ ایماں میرا
بچتا ہوں خطاؤں سے میں احساں تیرا
 

فرقان احمد

محفلین
اس شعر کی تشریح چاہیے ...

ساکن دیر ہوں اک بت کا ہوں بندہ بخدا
خود وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں مسلماں مجھ کو

وزیر علی صبا لکھنؤی

ہماری ناقص فہم کے مطابق، شاعر موصوف بت خانہ کے مکین ہو چکے تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک ہی بت کو خدا بنا رکھا ہے جس کی وہ خدا کا نام لے کر قسم بھی کھاتے ہیں۔ یعنی کہ خدا کے نام کی قسم تبھی کھا رہے ہیں جب وہ خدا کو مانتے ہیں؛ ایک تو سیدھا مطلب یہی ہو گیا کہ خدا کو بہرصورت مانتے ہیں اور معروف معنوں میں مسلمان ہیں اس لیے دوست احباب انہیں مسلم ہی تصور کرتے ہیں تاہم مصرع ثانی میں وہ اس کی تردید کر دیتے ہیں۔

ایک اور زاویے سے بھی شعر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی نسبت سے فراز کا یہ یہ شعر بھی دیکھیے۔۔۔!

ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھا۔۔۔۔۔۔۔!


غالب کا یہ شعر بھی ملاحظہ ہو:

وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو


گویا ایک معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک بت کو خدا ماننا عین توحید پرستی ہے۔

تاہم، شاعر دوسرے مصرع میں معاملہ واضح کر دیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم کہاں کے مسلماں؟ میر کا شعر یاد آ گیا۔۔۔!

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا!


تاہم، یہ تو کچی پکی تشریح ہے، ہمیں یہاں محمد وارث بھیا کی قیمتی رائے درکار ہے۔




 
آخری تدوین:
اس سے اتفاق کرنے کے لیے آپ کو عقیدت کی ضرورت ہے تاریخ پڑھنے کی نہیں، سیاہ و سفید کچھ نہیں ہوتا۔ مغربی تہذیب اپنی تمام برائیوں کے باوجود انسانی تمدن اور ترقی کا عروج ہے جس نے تمام عالم کو بہت فیض پہنچایا ہے۔ اور انھیں برا بھلا کہنے والوں کی لمبی قطاریں، جو وہاں جانے کے لیے بیتاب ہیں، اس بات کی واضح دلیل ہیں۔
 
Top