اقبال کی فارسی شاعری مع اردو ترجمہ:

حکایات اقبال: (اقتباس از رموز خودی)

ایک شخص ترکستان کے شھر مرو (Merv) سے لاھور حضرت علی ھجویری رح کے دربار میں آئے اور ان سے درخواست کی کہ میرے دشمن بہت زیادہ ہیں مجھے ان کے درمیان محفوظ رہنے کا ہنر سکھا دیجیے...
شیخ نے ان کو جو نصیحت کی وہ اقبال نے ان اشعار میں کچھ یوں بیان فرمائے ہیں ..

گفت "ای نامحرم از راز حیات"
غافل از آغاز و انجام حیات
ترجمہ: (شیخ نے کہا "اے راز حیات سے ناواقف انسان, اے زندگی کے آغاز و انجام سے غافل)

فارخ از اندیشه اغیار شو
قوت خوابیدہ ی بیدار شو
(دشمنوں کے خوف سے خود کو دور کر, خواب سے جاگ اور اپنی حقیقی قوت پہچان)

سنگ چون بر خود گمان شیشہ کرد
شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد
(چٹان اگر خود کو شیشہ تصور کر لے تو شیشہ بن جائے گا اور آخرکار ٹوٹ جائے گا)

ناتوان خود را اگر رھرو شمرد
نقد جان خویش را بہ رھزن سپرد
(نااہل شخص اگر خود کو رہبر تصور کرنے لگے تو وہ اپنی جان اپنے ہاتھوں سے رہزن کو پیش کرنے جیسا ہے)

راست میگویم عدو ھم یارتست
بودن او رونق بازارتست
(سچ کہتا ہوں کہ دشمن بھی تیرا یار ہے, اس کے ہونے سے تیری زندگی کے بازار میں رونق ہے)

سنگ رہ آب است اگر ھمت قویست
سیل را پس و بلند جادہ چیست
(اگر پانی کی ہمت بلند ہو تو پتھروں کی حیثیت اس کے آگے مٹی سی ہے کیونکہ سیلاب کے سامنے راستے کی پستی یا بلندی کوئی معنی نہیں رکھتی)

تاکجا خود را شماری ماء و طین
ز گل خویش شعلہ طور آفرین
(کب تک خود کو مٹی اور پانی کا مجموعہ تصور کرتے رہو گے, اپنی مٹی سے شعلہ طور پیدا کرنے کا ہنر سیکھو)

تحقیق و ترجمہ: از قلم رحمت الله ترکمن
 
Top