اقبال کی شاعری میں ملا کا کرادر از شاہ نواز فاروقی

سویدا

محفلین
اقبال کی شاعری میں‌ملا کا کردار

شاہ نواز فاروقی

دس بارہ سال تک طالبان کی مسلسل حمایت کے بعد جو لوگ اچانک اُن کے خلاف ہوگئے ہیں اُن میں ایک نام ملک کے معروف کالم نویس ہارون الرشید کا بھی ہے۔ وہ طالبان اور ان کی ملاّئیت کے خلاف ہوگئے ہیں تو خیر یہ اُن کا ذاتی مسئلہ ہے‘ مگر وہ اپنے ایک کالم میں علامہ اقبال کو بھی گھسیٹ لائے ہیں اور انہوں نے فرمایا ہیں
”کبھی کسی نے سوچا کہ اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے کیوں بھری ہے؟ اس لیے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں سےنفرت کرتا ہے اور انہیں جہنم کی وعید دیتا ہے۔“
اب مسئلہ یہ ہے کہ اوّل تو اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے بھری ہوئی نہیں ہے۔ آپ اقبال کی اردو کلیات سے ملاّ کے بار ے میں بمشکل دس بارہ شعر نکال کر دکھا سکتے ہیں۔ پھر مزید دشواری یہ ہے کہ اقبال نے کہیں بھی ملاّ کی مذمت نہیں کی ہے۔ دراصل اقبال کو ملاّ کے کردار سے گہری ”شکایت“ ہے‘ اور شکایت و مذمت اور ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر اقبال کو ملاّ سے شکایت کیا ہے؟ آیئے اس شکایت کا مرحلہ وار مطالعہ کرتے ہیں۔ اقبال کی ایک چار مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جس کا عنوان ہے ”ملاّئے حرم“۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
اس نظم میں اقبال کو ملاّ سے شکایت یہ ہے کہ وہ ”پہلے کی طرح“ خدا شناس یا ”عارف بااللہ“ نہیں رہا‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان شناسی یا خودشناسی کی اہلیت کھو دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک آدمی کا مقام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ اس کی نماز میں جلال اور جمال اس کی اسی حیثیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں ملاّ کے لیے اقبال کا مشورہ یہ ہے کہ اسے خداشناسی کے ہدف تک پہنچنے کے لیے خود شناسی پیدا کرنی چاہیے تاکہ اس کی نماز میں جلال و جمال پیدا ہوسکے اور اس کی اذان اقبال کی سحر یعنی غلبہ اسلام کی پیامبر بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال نے ملا کی مذمت کی ہے یا اس سے گہرے تعلق کی بنا پر شکایت کی ہے؟
خودشناسی اور خدا شناسی سےمحرومی معمولی بات نہیں۔ اس سےبڑ ے بڑے مسائل جنم لیتےہیں۔ اقبال کا ملاّ چوں کہ خداشناس نہیں رہا اس لیے وہ صرف تقریروں پر اکتفا کرنےلگا ہے اور اس نے”زورِ خطابت“ کو اپنےاور مسلمانوں کےلیے کافی سمجھ لیا ہے۔ اقبال نےاس امر کی بھی شکایت کی ہے‘کہتے ہیں؛
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
ظاہر ہے کہ ’’مستی گفتار‘‘ میں مبتلا ہونے کا نتیجہیہ نکلتا ہے کہ ’’قول‘‘ ’’عمل‘‘ کا متبادل بن جاتا ے۔ انسان کو لگتا ہے کہ اس کی گفتگو ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ اقبال کی نظراس مسئلے پر بھی ہے‘ چنانچہ انہوں نے کہا ہے۔
آہ اِس راز سےواقف ہے نہ ملاّ نہ فقیہ
وحدت افکار کی ب ے وحدت کردار ہے خام
مطلب یہ ہے کہ جب تک قول عمل نہ بن جائے اور عمل میں ایک قرینہ نہ پیدا ہوجائے اُس وقت تک فکر کا بھی کوئی خاص مفہوم نہیں‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی فکر سےخود فریبی پیدا ہوسکتی ہے۔ وہ خود فریبی جو ہند کےملا ّکو لاحق ہوئی۔ اقبال کےاپنےالفاظ ہیں:۔
ملاّ کو جو ہے ہند میں سجد ے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
صرف یہی نہیں‘ اسےملوکیت بھی اسلامی اسلامی سی لگنےلگتی ہے۔ اس معاملے کی طرف اشارہ کرتےہوئے اقبال نےشیطان کی زبان سےکہلوا دیا ہے:۔
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ظاہر ہے کہ جس کردار میں اتنی کمزوریاں در آئی ہوں اس کے پاس فراست تو نہیں ہوگی ‘چنانچہ اقبال نےملاّ کےخلاف یہ شکایت بھی درج کرائی ہے:۔
ملاّ کی نظر نورِ فراست سےہے خالی
مگر ان تمام باتوں کےباوجود اقبال ملا ّسےتعلق نہیں توڑتے۔ اِس کا ثبوت ان کی شکایات ہیں۔ مذمت اور شکایت کی نفسیات میں بڑا فرق ہے۔ مذمت لاتعلقی کےساتھ کی جاتی ہے اور شکایت تعلق کےساتھ۔ لیکن ملا ّکےکردار کا معاملہ اقبال کےیہاں اور بھی گہرا ہے۔
دراصل اقبال کےیہاں ”ملاّ“ اور ”مجاہد“ دو الگ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی شخصیت کےدو پہلو ہیں۔ مجاہد ملاّ کا عروج ہے اور ملاّ مجاہد کا زوال۔ یعنی اقبال کےیہاں ملاّ جب خود شناس ہوجاتا ہے تو وہ مجاہد بن جاتا ہے‘ اور جب مجاہد نسیان میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ ملاّ کےکردار میں ڈھل جاتا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے:۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاّ کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
مگر اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ ملاّ کےلیے اذان دینا ایک کام ہے ‘ ایک جاب ہے جس کا اسے معاوضہ ملتا ہے۔ اس کے برعکس مجاد کے لیے اذان ایک وجودی حقیقت ہے‘ جان کا سودا ہے‘ اس بات کا اعلان ہے کہ مجاہد وجود نہیں رکھتا‘ صرف اللہ وجود رکھتا ہے۔ اور اگر مجاہد کا وجود ہے تو صرف حق کی گواہی دینےکےلیے۔ اقبال کےاس شعر سےیہ مفہوم بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملاّ اور مجاہد کی فکری کائنات ایک ہے۔ ان کی لغت ایک ہے۔ لیکن اس کائنات میں مجاہد اسلام کی روح اور ملاّ جسم کی علامت ہے۔ یعنی ملاّ محض لفظ ہے اور مجاہد اس لفظ کا مفہوم۔ البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ملاّ اسلام اور اقبال کی فکری کائنات کا ایک ”ناگزیر“ کردار ہے۔ اس کی جگہ نہ کوئی ”مسٹر“ لے سکتا ہے نہ کوئی میجر جنرل یا جنرل۔ مگر پھر مسئلے کا حل کیا ہیے؟ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ملاّ کو مجاہد بننےپر مائل کیا جائے‘ اس کےسوا مسئلے کا ہر حل غلط اور فضول ہے۔ مگر ملاّ کےسلسلے میں اقبال کا سب سےمعرکہ آراءشعر تو رہ ہی گیا۔ اقبال نےکہا ہے:۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو اس کےکوہ و دمن سےنکال دو
اس شعر میں اقبال نےملاّ کو غیرتِ دین کی علامت کےطور پر پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس کا حوالہ افغانی ہیں مگر اقبال کےیہاں ملاّ کا کردار عالمگیر یا عالم اسلام کے حوالے سے یونیورسل ہے۔ چنانچہ ملا صرف افغانیوں کے لیے نہیں تمام مسلمانوں کے لیے اہم ہے‘ اس لیے کہ وہ قرآن وحدیث کا حافظ ہے ‘ دینی فکر اور مذہبی ورثے کی منتقلی کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ ان امور پر مطلع ہے جس سے محض آگاہ ہونے کے لیے بھی ایک عمر اور طویل تربیت درکار ہے۔ اقبال بھی ملا کو بدلنا یا ریپلیس کرنا نہیں چاہتے‘ اس لیے انہوں اس کی شکایات درج کرائی ہیں‘ مذمت نہیں کی۔ اور خواہش کی ہے کہ کاش وہ ایک بار پھر خودشناس اور خدا شناس ہوجائے۔ یعنی اقبال کا مجاہد اور مومن بن جائے۔

http://talkhaabau.wordpress.com/2009/11/02/ہاں-میں-ملا-ہوں/
 
صوفی کی طریقت میں فقط مستیءِ احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستیءِ گفتار۔ ۔
وہ مردِ مجاھد نظر آتا نہیں مجھ کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہو جسکے رگ و پے میں فقط مستیءِ کردار​
کالم نگار ہارون الرشید کی بات ھی ٹھیک ہے۔ اگر وہ پہلے طالبان کی حمایت کرتے تھے اور اب مخالفت کررہے ہیں تو اسکی وجوہات بھی ہین۔ تجربہ سب سے بڑا استاد ہے۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
علّامہ اقبال نے بھی مصطفیٰ کمال سے بہت توقعات وابستہ کرلی تھیں بلکہ ایک خوبصورت نظم طلوعِ اسلام بھی لکھی لیکن بعد میں جب اسکا کردار کھل کر سامنے آیا تو اسی اقبال نے کہا کہ وہ جس جوہر کو ڈھونڈ رہے تھے ' نہ مصطفیٰ میں نہ رضا شاہ میں نمود اسکی'۔۔۔ نیز یہ کہ
لادینی یا لاطینی کس پیچ میں الجھا تُو
دارُو ہے ضعیفوں کا لاغالب الّا ھُو۔ ۔ ۔ ۔ ۔​
اب اگر افغانستان کے طالبان نے بھی اپنے مخصوص اسلام سے لوگوں کو مایوس ہی کیا ہے تو اس میں کونسی عجیب بات ہے۔ جس آئیڈیل ملّا کی آپ بات کررہے ہین وہ تو یہ جہادی مولوی بھی نہیں ہین۔ کیونکہ اسکے لئے جس نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں درکار ہے وہ ان حضرات میں مفقود ہے۔ جی۔ ۔ ۔ ۔ صرف کمالِ جنوں ہی نہیں بلکہ نہایتِ اندیشہ بھی درکار ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
علامہ اقبال کا اس مسئلے میں سب سے اہم شعر ہے جہاں دین ملا فی سبیل اللہ فساد قرار دے رہے ہیں۔
 

سویدا

محفلین
اب اگر افغانستان کے طالبان نے بھی اپنے مخصوص اسلام سے لوگوں کو مایوس ہی کیا ہے تو اس میں کونسی عجیب بات ہے۔ جس آئیڈیل ملّا کی آپ بات کررہے ہین وہ تو یہ جہادی مولوی بھی نہیں ہین۔ کیونکہ اسکے لئے جس نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں درکار ہے وہ ان حضرات میں مفقود ہے۔ جی۔ ۔ ۔ ۔ صرف کمالِ جنوں ہی نہیں بلکہ نہایتِ اندیشہ بھی درکار ہے۔

جناب اسی مقصد کے لیے یہ مضمون یہاں‌شامل کیا ہے
صحیح نتیجہ اخذ کیا آپ نے
 
ش

شوکت کریم

مہمان
علامہ اقبال کا اس مسئلے میں سب سے اہم شعر ہے جہاں دین ملا فی سبیل اللہ فساد قرار دے رہے ہیں۔

حسب معمول موضوع سے دور اور تعصب سے بھر پور تبصرہ ۔

حالانکہ اس دھاگے پر خود ہی برادر سویدا نے بہترین لکھا اور پھر برادر محمود غزنوی نے مزید اس کو واضح کر دیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ آفرین سے زیادہ اور کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ دونوں حضرات نے حضرت علامہ کی سوچ اور درد اور خواہش کی بہت مناسب عکاسی کی ہے۔
 

سویدا

محفلین
حسب معمول موضوع سے دور اور تعصب سے بھر پور تبصرہ ۔

حالانکہ اس دھاگے پر خود ہی برادر سویدا نے بہترین لکھا اور پھر

بھائی میں‌نے کچھ بھی نہیں‌لکھا میں‌صرف ناقل ہوں‌
اصل مضمون شاہ نواز فاروقی کا تحریر کردہ ہے
 

S. H. Naqvi

محفلین
از: شوکت کریم:
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
علامہ اقبال کا اس مسئلے میں سب سے اہم شعر ہے جہاں دین ملا فی سبیل اللہ فساد قرار دے رہے ہیں۔
حسب معمول موضوع سے دور اور تعصب سے بھر پور تبصرہ ۔

حالانکہ اس دھاگے پر خود ہی برادر سویدا نے بہترین لکھا اور پھر برادر محمود غزنوی نے مزید اس کو واضح کر دیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ آفرین سے زیادہ اور کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ دونوں حضرات نے حضرت علامہ کی سوچ اور درد اور خواہش کی بہت مناسب عکاسی کی ہے۔
جی بالکل صیح یہ شاید ان کی اقبالیات سے ناواقفی ہے یا پھر اقبال کی شاعری میں سے اپنے من پسند اشعار کو چن کر انھی کو اقبال کے وژن کا نام دینے کی غلطی۔۔۔۔! یا پھر اپنے نظریات کی مخصوص عینک۔۔۔۔۔!:)
 

مہوش علی

لائبریرین
شوکت بھائی صاحب اور نقوی بھائی صاحب،
آپ لوگوں کو جو اقبال کے شعر کے چھوڑ کر میرے خلاف الزامات پر لگ گئے ہیں، تو اسکی وجہ کا مجھے اچھی طرح علم ہے۔ آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ یہ بات اچھی نہیں ہے اور اپنے اندر اختلاف رائے برداشت پیدا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
انتہائی معذرت کے ساتھ محترمہ کیا آپ بتائیں گی کہ آپ کو کس نے یہ حق دیا کہ آپ اقبال کے ایک شعر کو ان کے پورے فلسفے کے ترجمان کے طور پر پیش کریں؟؟؟ کیا آپ نے محترم سویدا اور محترم غزنوی بھائی کے مراسلوں کو پورا نہیں پڑا؟‌بات تو انھوں نے بھی کی ہے اور کتنے سلیقے سے کی ہے اور آپ نے ڈائریکٹ، علامہ اقبال کا اس مسئلے میں سب سے اہم شعر ہے جہاں دین ملا فی سبیل اللہ فساد قرار دے رہے ہیں۔ لکھ کر کتنے تعصب کا ثبوت دیا ہے؟؟ اگر آپ نے تبصرہ کرنا ہی تھا تو ایک جامع بات کرتی تا کہ اقبال کی شاعری کے دونوں رخ سامنے آ جاتے اور کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نا ملتا۔۔۔۔!
 

اکمل

محفلین
جب اقبال نے یہ فیصلہ لکھ دیا کہ ع
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
تو پھر ایک ہی نتیجہ نکلتا ہےکہ نکالا دین فساد ہے۔
اس پر شعر لکھنے والے اقبال سے جھگڑا جائے نہ کہ شعر پڑھنے والے پر۔
 
Top