افغان شرپسند تماشائیوں سے شکست ہضم نہ ہوئی، پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش

فلسفی

محفلین
میچ ختم ہوتے ہی شرپسند افغانی میدان میں کود پڑے اور پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی، تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت مداخلت کرکے پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین پہنچا دیا۔

لیڈز(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔29جون2019ء) افغان شرپسند تماشائیوں سے شکست ہضم نہ ہوئی، پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش، میچ ختم ہوتے ہی شرپسند افغانی میدان میں کود پڑے اور پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی، تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت مداخلت کرکے پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین پہنچا دیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی جانب سے سنسنی خیز مقابلے کے بعد فتح حاصل کرنے پر شرپسند افغان تماشائی اوقات سے باہر ہوگئے اور رکاوٹیں پھلانگتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔

شرپسند افغانیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش بھی کی۔ تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت ایکشن میں آتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کو بحفاظت پویلین میں پہنچا دیا۔

اس سے قبل میچ کے دوران بھی بدنظمی پیدا ہوئی تھی اور افغان شرپسندوں نے پاکستانی شائقین کرکٹ پر حملہ کیا تھا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

آئی سی سی بھی اس معاملے کا نوٹس لے چکا ہے اور افغان کرکٹ بورڈ کیخلاف کاروائی عمل میں لائے جانے کا امکان ہے۔


افغان شرپسند تماشائیوں سے شکست ہضم نہ ہوئی، پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش میچ ختم ہوتے ہی شرپسند افغانی میدان میں کود پڑے اور پاکستانی کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی، تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت مداخلت کرکے پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین پہنچا دیا


انتہائی افسوس ناک۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ رویے ناقابل برداشت ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ دلوں میں یہ نفرتیں کیوں کر پیدا ہوتی ہیں؛ ہمیں ان کے اسباب کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ رویے ناقابل برداشت ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ دلوں میں یہ نفرتیں کیوں کر پیدا ہوتی ہیں؛ ہمیں ان کے اسباب کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔
یہ وہ مظاہر ہیں جو اقوام عالم میں ہمیں جہالت اور ذہنی پسماندگی کے تمغے سے سرفراز کرتے ہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ وہ مظاہر ہیں جو اقوام عالم میں ہمیں جہالت اور ذہنی پسماندگی کے تمغے سے سرفراز کرتے ہیں ۔
اسی وقعہ پہ دکھی ہوتے ہوئے کل میرا بیٹا کہہ رہا تھا کہ آخر ہم مسلمان ایک دوسرے سے نفرت و دشمنی کیوں کرتے ہیں؟
 

فاخر

محفلین
پاکستان کو اس جیت پر مبارک باد ! ہم طبعی طور پر لالہ شاہد خان آفریدی کے دلدادہ اور بہت بڑے مداح ہیں ۔ ان کے علاوہ محمد حفیظ، احمد شہزاد ، عمر گل ، وہاب ریاض اور شعیب ملک ’’جیجو‘‘ کے مداح ہیں:LOL::in-love::in-love: ۔ ان کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جس میں عاصم کمال جیسے آتشی بلے باز اور یاسر حمید جیسا مضبوط اوپننگ بلے باز بھی ہیں جن کو شاید اکثر نئے پاکستانی جانتے بھی نہیں ہوں گے۔ الغرض جس طرح کی شرانگیزی افعان تماشائیوں کی طرف سے کی گئی ہے قابلِ مذمت ہے۔ کل میں نے ٹوئٹر ٹرینڈ چیک کیا تھا اس میں ’’نمک حرام‘‘ کا ٹرینڈ پورے پاکستان میں ٹاپ پر تھا ۔ ح شرم کی بات تو یہ تھی کچھ بھارتی حامی افغانیوں کی اس شرانگیزی کی تعریف بھی کرر ہے تھے ۔ اس سلسلے میں دیکھیں تو ’’ بات بہت تلک جاتی ہے‘‘ ۔ آخر یہ کیا ہے کہ:’ وہی بھارت بنگلہ دیش اور افغان کرکٹ ٹیم کی حمایت کرتا ہے ؛لیکن جب بات پاکستان کی آتی ہے تو ان حامیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ دراصل یہ سب سیاسی رحجانات کی وجہ سے ہے ۔ ورنہ تو ان دیرنشیں اور اصنام پرست کو افغانستان و بنگلہ دیشی کیوں پیارے ہوتے؟ ۔ ان چیزوں سے ’’سیریس‘‘ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
یہ رویے ناقابل برداشت ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ دلوں میں یہ نفرتیں کیوں کر پیدا ہوتی ہیں؛ ہمیں ان کے اسباب کو بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ :’ ہم (یعنی پاکستانی) بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا پاکستان بھر میں کل ٹوئٹر پر ’’نمک حرام‘‘ کا ٹرینڈ ٹاپ پر نہیں تھا ؟ اس کے تحت آپ نے کیسے کیسے ٹوئٹس ٹوئٹ کیے ؟ ہاں افغانی ہمارے بھائی ہیں۔ ان سے ہمیں ’’کلمۃ واحدۃ‘‘ کی بنیاد پر محبت ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے پاکستان نے افغان مہاجر کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے۔ انہیں اپنا بھائی سمجھا ۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے بعض تخریب کاری میں مصروف ہیں اور اس طرح کے لوگ دونوں طرف ہیں۔ جو دونوں طرف خلیج قائم کرر ہے ہیں ان میں ان لوگوں کی اکثریت زیادہ ہے جو افغانستان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اس سیاسی سوچ کی جڑ بہت گہری ہے ۔
 

آصف اثر

معطل
اچھا ! :)
تو کون کون سے اسپورٹس میں جنونیت مناسب ہے ؟ :)
ویسے تو کسی میں بھی نہیں۔:) لیکن کرکٹ کچھ زیادہ ہی گیا گزرا گیم ہے۔
یعنی وقت کا ضیاع، چانسی جیت ہار، صحت کو فائدہ نہ پہنچنا، فیصلہ سازی میں سست اور بےہنگم
 

فرقان احمد

محفلین
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ :’ ہم (یعنی پاکستانی) بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا پاکستان بھر میں کل ٹوئٹر پر ’’نمک حرام‘‘ کا ٹرینڈ ٹاپ پر نہیں تھا ؟ اس کے تحت آپ نے کیسے کیسے ٹوئٹس ٹوئٹ کیے ؟ ہاں افغانی ہمارے بھائی ہیں۔ ان سے ہمیں ’’کلمۃ واحدۃ‘‘ کی بنیاد پر محبت ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے پاکستان نے افغان مہاجر کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے۔ انہیں اپنا بھائی سمجھا ۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے بعض تخریب کاری میں مصروف ہیں اور اس طرح کے لوگ دونوں طرف ہیں۔ جو دونوں طرف خلیج قائم کرر ہے ہیں ان میں ان لوگوں کی اکثریت زیادہ ہے جو افغانستان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اس سیاسی سوچ کی جڑ بہت گہری ہے ۔
نمک حرام کے ٹویٹس کرنے والے برابر کے مجرم ہیں۔ ہم نے اپنی ضرورت کے تحت افغانوں کو بھی خوب استعمال کیا تھا۔ اسی طرح افغانستان نے بھی پاکستان کی سرزمین سے بہت فیض پایا؛ انہیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے۔ تاہم، افغانوں کو نمک حرام کہنا ایک پوری قوم کو تہمت لگانا ہے۔ نفرت کی یہ آگ دونوں طرف برابر بھڑک رہی ہے جو کہ خطرناک رجحان ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس معاملے میں ہماری حتمی کمزوری قوانین کا نفاذ کا ضعف ہے ۔ جب ہمارا ملکی و عدالتی نظام قانونی نفاذ میں بڑے بڑے جرائم اور ظلم و ستم پر بے بس و مفلوج نظر آتا ہے جو معاشرے میں بہت بڑے پیمانے پر بے اعتدالیوں کا سبب ہیں تو ایسے انتظامی معاملات ( یعنی جو موضوع محل نظر ہے ) میں قانون کی کون سنے گا جو محض عارضی واقعات میں اٹھتے ہیں ۔ اس معاملے کو اگر ہم اپنے معاشرے میں ہی نہ سمجھیں تو کسی غیر ملک میں بھی اس کا لحاظ نہ کرنا ایک منطقی سی بات ہے ۔مجموعی طور پر اگر ہم اپنے ملک میں قانون کا احترام کرنے کی روایت اور شعور رکھیں تو باتیں تشدد کی حد تک نہ پہنچیں ۔ پھر کئی سطحوں سے رد عمل آنے سے معاملہ پیچیدہ تر ہو جاتا ہے اور برائی پھیلنے کے امکانات بڑھتے ہی جاتے ہیں جنہیں سیمٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا ہے ۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہمیں اس صورت حال کا جلد از جلد ادراک کر لینا چاہیے کہ افغانستان میں بسنے والے 'روشن خیال'، 'اعتدال پسند'، 'ترقی پسند' اور 'لبرلز' افغانستان میں جنگ و جدل اور خون خرابے کا ذمہ دار پاکستان کو 'بھی' سمجھتے ہیں، خاص طور پر، طالبان کو وہاں تقویت فراہم کرنا، ان کی نظر میں پاکستان کی ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ افغانستان میں معاملات کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہری بات ہے، اس میں پراپیگنڈا عنصر بھی شامل ہے اور بوجوہ، اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ یہی نقطہء نظر یہاں بسنے والے پشتون تحریک کے رہنماؤں کا بھی ہے جن کو ہم غدار کے لقب سے بھی نوازتے ہیں۔ تاہم، ہماری دانست میں سچائی دو انتہاؤں کے درمیان ہے اور ہمارے پالیسی سازوں کی نظر میں یہ حقائق ہوں گے تو تبھی معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہوں گے وگرنہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو نفرتوں کو مزید بڑھاوا ملے گا۔
 

آصف اثر

معطل
9 سال کی عمر میں، سال 1999 کے ورلڈ کپ کے فوراً بعد کرکٹ کو خیر باد کہنے کا فیصلہ الحمدللہ آج تک درست ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ اس کا مذکورہ لڑی سے ایک جزوی تعلق ہے لیکن کرکٹ جیسے کھیل کو اتنا زیادہ فروغ دینا اور معاشی، معاشرتی سمیت علمی تباہی کی شکار قوم کو کم از کم ایک دن تفریح کے نام پر فارغ رکھنا خود اس بات کا غماز ہے کہ اس کھیل کو محض ٹائم پاس اور قوم کو غیر ضروری امور میں لگاکر اہم قومی مسائل سے توجہ ہٹانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے۔
اس واقعے کو بھی اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو وہی ہورہاہے کہ اکثریت جس طرح نفرت کا ایندھن بن رہی ہے وہ کس روشن مستقبل کا ضامن اور یکجہتی کو فروغ دےگا؟
افغانستان میں تو پھر بھی ایسے کم شعور عوام کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے جو اس طرح کی فضولیات میں وقت برباد کرے، اوپر سے بھاگ ایک بار پھر طالبان کے نظریاتی طبقے کے ہاتھ میں آیا ہے، لیکن پاکستانی کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں یہ سوچ کر رونے اور ہنسنے کی ملغوبہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
افغان باقی، کہسار باقی

افغان ہمارے بھائی ہیں۔ لیکن موجودہ (مجموعی طور پر) حالات میں یہ شعر یاد آرہا ہے
آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
 
میڈیا صرف منفی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ ورنہ ایسے مظاہر بھی موجود تھے۔
FB-IMG-1561881767387.jpg
 
Top