افغانستان ڈائری

یہ تو آپکا تجربہ ہوا نا۔ جنابِ عالی میرے حلقہ احباب میں بہت سارے افغانی ہیں مختلف جگہوں پر اور مختلف اسٹیٹس کے ان کے خیالات ان نام نہاد طالبان کے بارے میں ایسے ہی ہیں کہ انہیں ظالمان کہنا بھی شاید لفظ ظلم کی توہین ہے۔۔۔ دوسری بات جب تک یہ ظالمان ہیں افغانستان اور پاکستان میں امن ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔
چوہدری صاحب آپ سے مکس ہو رہا ہے۔ یہاں طالبان کا ذکر خیرنہیں۔ محترم بھائی نے یہاں عام لوگوں کے بارے میں بتا یا ہے کہ انھوں نے ایک مجاہد کی مدد کی۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
2010 میں میں سلووینیا جا رہا تھا تو پولینڈ ایک جگہ رکا۔ وہاں ایک اچھا ویٹ میرا دوست ہے اور وہ کتوں کے دانتوں کا ماہر ہے۔ میرے پاس ایک کتا تھا جس کے دانتوں کا مسئلہ تھا کہ آؤٹ آف شیپ ایک دانت تھا، اسے ہم Sabre tooth کہتے ہیں۔ چونکہ وہ کتا بہت ہی اچھی اور شو ونر قسم کا ہے تو میں نے اس کے علاج کے لئے اس دوست سے بات کی۔ 2800 یورو فیس بنتی ہے لیکن اس نے مجھ سے صرف 1350 یورو لئے کہ وہ پیسے اس کے ٹیکنیشن کے بنتے تھے جو مولڈ وغیرہ بناتا ہے۔ پھر اس نے ایکسرے وغیرہ کر کے سانچہ بنایا اور ٹیکنیشن کے حوالے کر کے چلا گیا کہ اس کے دوسرے کلینک میں ایک ایمرجنسی آپریشن آ گیا تھا۔ اس وقت میرے پاس کرائلسر گرینڈ وائجر گاڑی تھی۔ جب کتے کو ہوش آیا تو میں باہر نکلا تو گاڑی سٹارٹ نہیں ہوئی۔ پتہ چلا کہ بیٹری بیٹھ گئی ہے۔ خیر وہاں ایک اجنبی خاتون اپنے کتے کے ساتھ آئی ہوئی تھیں اور ان سے گپ شپ ہوئی کہ کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں اور کیسے وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے اپنی گاڑی سے وائرز کے ذریعے میری گاڑی کو کرنٹ دیا لیکن فرق نہیں پڑا۔ پھر انہوں نے (اتوار والے دن چھٹی کے باوجود) ایک مکینک کو فون کیا۔ وہ مکینک اپنی چھٹی بھول کر میرے پاس آیا اور میری گاڑی کو ٹو کر کے لے گیا۔ وہ خاتون، میں اور ہمارے کتے ان کی گاڑی میں بیٹھ کر پیچھے گئے تھے۔ وہاں مکینک نے گیراج کھولا اور چیک کر کے بتایا کہ گاڑی کے کچھ برقی آلات کام چھوڑ گئے ہیں کہ بیٹری کم طاقت کی لگی ہوئی تھی۔ خیر مکینک نے بتایا کہ دو سے تین گھنٹے لگیں گے۔ وہ خاتون ہمارے کتوں کو اپنے گھر چھوڑ کر مجھے ریستوران لے گئیں کہ ان کا کافی وقت میرے ساتھ ضائع ہوا اور کھانا بنانا مزید دیر کر دیتا۔ خیر کھانا وغیرہ کھایا اور پھر ان کے گھر پہنچ کر ان کے شوہر (اس وقت تک کام سے واپس آ گئے تھے) اور بچوں سے ملے، کچھ گپ شپ کی اور پھر مکینک کا فون آیا کہ گاڑی ٹھیک ہو گئی ہے۔ میرا ذاتی اندازہ تھا کہ 1000 یورو کے لگ بھگ کے سپیئر پارٹس پڑے ہوں گے، مکینک کی اپنی فیس الگ سے، اتوار کی وجہ سے ڈبل پے منٹ ہوتی ہے عموماً۔ یعنی 1500 یورو کے لگ بھگ کا خرچہ ہوگا۔ مکینک نے بتایا کہ میرے پاکستانی ہونے کی وجہ سے (جی ہاں، پاکستانی ہونے کی وجہ سے) مجھے بتایا کہ وہ کوئی پیسے نہیں لے گا کہ میں مہمان ہوں ان کے ملک میں، صرف پارٹس کی قیمت دینی ہوگی اور پارٹس کی قیمت کے بارے ان خاتون نے سختی سے کہا کہ وہ ادا کریں گی اور انہوں نے ادا کئے
آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ اچھے لوگ دنیا کے کسی بھی ملک اور کسی بھی جگہ مل سکتے ہیں :)
 
میں الحمد للہ مسلمان ہوں۔ تمام انبیاء کرام کی تعلیمات بہتر اخلاقیات کیلئے ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے حسنِ اخلاق کی تعلیم دی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کی عملی طور پر ان لوگوں کی پیشہ ورانہ احساسِ ذمہ داری ہم سے بہتر نہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں اور حسنِ اخلاق میں بھی ہم سے بہتر ہیں
 
بھیا پہلی بات تو یہ کہ ظاہری وضع سے بخوبی اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ میں یہاں کن کے ساتھ ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایسی صورتحال میں تعامل تین طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ جو بھی مدد، خدمت یا قربانی دی جا رہی ہو وہ ڈر کے دی جا رہی ہو کہ ایسا نہ کیا تو برا انجام ہو گا، دوسرا یہ کہ کسی اثرو رسوخ والے بندے سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض اوقات ظاہری محبت اور خلوص دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر ایسا کروں گا تو اس سے مجھے فائدہ مل جائے گا یا اس کے شر سے میں محفوظ ہو جاؤں گا اور تیسرا خالص محبت، بے لوث خدمت اور ایثار۔
اب پہلی دو صورتوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے اگر وہ ڈر کے کام کر رہا ہے تو بھی صاف چہرے پر نظر آجاتا ہے اگر وہ بناوٹی محبت دکھا رہا ہے تو بھی یہ بات واضح پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تو ایک واقع ہے اس کے علاوہ بھی میں نے مقامی عوام کے اندر جہاں جہاں میں گیا ہوں خالص عقیدت اور محبت کے جزبوں کے اور کچھ نہیں پایا۔ افغان قوم ویسے بھی پوری دنیا میں مہمان نوازی میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔

دوسری بات جب ہم موازنہ کرتے ہیں مسلم ممالک کے معاشروں کا مغربی ممالک کے معاشروں سے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم مسلم اکثریتی علاقوں کے معاشروں کا تقابل کر رہے ہیں نہ کہ کسی اسلامی معاشرے کا۔ اس بات میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں بحثیت مجموعی مسلم ممالک کے معاشرے حرس میں بہت آگے جا چکے ہیں، ہمارے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کے گھن چکر میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ہر معاملے کو فائدے اور نقصان کی صورت میں ہی دیکھتے ہیں۔ میں یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں ورنہ ایکسپشن از آلویز دیئر۔

اور تیسری بات رہ گئی اس مغربی معاشرے کی بھی تو آپ کو یہ مدد کی مثالیں تو ضرور مل جائیں گی لیکن آپ ان کے معاشروں کو بحثیت مجموعی دیکھیں تو ظاہری طور پر تعامل میں وہ اخلاق میں جتنے بھی اچھے نظر آرہے ہوں بحثیت مجموعی اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ ایک طرف نبی اکرم اور قرآن کی بے حرمتی کو ”آزادی اظہار رائے“ سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس میں ہماری مقدسات تو کیا اپنی مقدسات تک کو نہیں بخشتے۔ تو دوسری طرف ہالوکاسٹ پر بات کرنا جرم ٹھہرا۔ پھر یہی کہوں گا کہ یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں۔
اس کے علاوہ بھی جس قدر یہ معاشرے اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔ ایسے میں بعض تعاملات کو بنیاد بنا کر مکمل تصویر کو نظر انداز کرنا عدل کی بات نہیں لگتی۔

آخر میں رہ گئی بات طالبان کے ظلم کی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ میں ماضی کے متعلق کچھ دعویٰ نہیں کر سکتا وہی بتا سکتا ہوں جو خود میں نے سنا ہے۔ ہاں پچھلے تین سالوں کے متعلق میں زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہا ہوں وہ بھی ان میں جہاں طالبان کی مکمل عمل داری ہے تو میں نے ان علاقوں میں مقامی آبادی کے اندر طالبان کے لئے محبت ہی دیکھی اور یہی معاملہ طالبان کی طرف سے مقامی آبادی کے لئے بھی دیکھا اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ طالبان کے اندر شامل لوگ ان کے اپنے کنبے قبیلے کے ہی ہوتے ہیں۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ میں یہ باتیں تعصب کی عینک لگا کر کر رہا ہوں تو ہم کمپیوٹر سائنس کے لوگ لوجک اور منطق سے منافی بات خود بھی ہضم نہیں کر سکتے، میں یہاں ان کی تعریف سن کر آیا تھا اگر انہیں جو سنا اس کے منافی پاتا تو واپس کیوں نہ چلا جاتا۔ یہ میرے ”مامے کے پتر“ تو ہیں نہیں نہ ہی میرا بیک گراؤنڈ مدارس والا ہے کہ اپنے ”پیٹی بھراؤں“ کے ہر اچھے برے کو صحیح کہوں اور نہ یہ مجھے کوئی دولت کے انبار دے رہے ہیں کہ میں یہاں اپنا گھر گاڑی اچھی جاب ، عیش و عشرت چھوڑ کر ان کچے مکانوں میں ڈرون کے سائےتلے بیٹھنے پر رضامند ہو جاؤں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بھیا پہلی بات تو یہ کہ ظاہری وضع سے بخوبی اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ میں یہاں کن کے ساتھ ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایسی صورتحال میں تعامل تین طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ جو بھی مدد، خدمت یا قربانی دی جا رہی ہو وہ ڈر کے دی جا رہی ہو کہ ایسا نہ کیا تو برا انجام ہو گا، دوسرا یہ کہ کسی اثرو رسوخ والے بندے سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض اوقات ظاہری محبت اور خلوص دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر ایسا کروں گا تو اس سے مجھے فائدہ مل جائے گا یا اس کے شر سے میں محفوظ ہو جاؤں گا اور تیسرا خالص محبت، بے لوث خدمت اور ایثار۔
اب پہلی دو صورتوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے اگر وہ ڈر کے کام کر رہا ہے تو بھی صاف چہرے پر نظر آجاتا ہے اگر وہ بناوٹی محبت دکھا رہا ہے تو بھی یہ بات واضح پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تو ایک واقع ہے اس کے علاوہ بھی میں نے مقامی عوام کے اندر جہاں جہاں میں گیا ہوں خالص عقیدت اور محبت کے جزبوں کے اور کچھ نہیں پایا۔ افغان قوم ویسے بھی پوری دنیا میں مہمان نوازی میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔

دوسری بات جب ہم موازنہ کرتے ہیں مسلم ممالک کے معاشروں کا مغربی ممالک کے معاشروں سے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم مسلم اکثریتی علاقوں کے معاشروں کا تقابل کر رہے ہیں نہ کہ کسی اسلامی معاشرے کا۔ اس بات میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں بحثیت مجموعی مسلم ممالک کے معاشرے حرس میں بہت آگے جا چکے ہیں، ہمارے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کے گھن چکر میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ہر معاملے کو فائدے اور نقصان کی صورت میں ہی دیکھتے ہیں۔ میں یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں ورنہ ایکسپشن از آلویز دیئر۔

اور تیسری بات رہ گئی اس مغربی معاشرے کی بھی تو آپ کو یہ مدد کی مثالیں تو ضرور مل جائیں گی لیکن آپ ان کے معاشروں کو بحثیت مجموعی دیکھیں تو ظاہری طور پر تعامل میں وہ اخلاق میں جتنے بھی اچھے نظر آرہے ہوں بحثیت مجموعی اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ ایک طرف نبی اکرم اور قرآن کی بے حرمتی کو ”آزادی اظہار رائے“ سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس میں ہماری مقدسات تو کیا اپنی مقدسات تک کو نہیں بخشتے۔ تو دوسری طرف ہالوکاسٹ پر بات کرنا جرم ٹھہرا۔ پھر یہی کہوں گا کہ یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں۔
اس کے علاوہ بھی جس قدر یہ معاشرے اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔ ایسے میں بعض تعاملات کو بنیاد بنا کر مکمل تصویر کو نظر انداز کرنا عدل کی بات نہیں لگتی۔

آخر میں رہ گئی بات طالبان کے ظلم کی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ میں ماضی کے متعلق کچھ دعویٰ نہیں کر سکتا وہی بتا سکتا ہوں جو خود میں نے سنا ہے۔ ہاں پچھلے تین سالوں کے متعلق میں زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہا ہوں وہ بھی ان میں جہاں طالبان کی مکمل عمل داری ہے تو میں نے ان علاقوں میں مقامی آبادی کے اندر طالبان کے لئے محبت ہی دیکھی اور یہی معاملہ طالبان کی طرف سے مقامی آبادی کے لئے بھی دیکھا اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ طالبان کے اندر شامل لوگ ان کے اپنے کنبے قبیلے کے ہی ہوتے ہیں۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ میں یہ باتیں تعصب کی عینک لگا کر کر رہا ہوں تو ہم کمپیوٹر سائنس کے لوگ لوجک اور منطق سے منافی بات خود بھی ہضم نہیں کر سکتے، میں یہاں ان کی تعریف سن کر آیا تھا اگر انہیں جو سنا اس کے منافی پاتا تو واپس کیوں نہ چلا جاتا۔ یہ میرے ”مامے کے پتر“ تو ہیں نہیں نہ ہی میرا بیک گراؤنڈ مدارس والا ہے کہ اپنے ”پیٹی بھراؤں“ کے ہر اچھے برے کو صحیح کہوں اور نہ یہ مجھے کوئی دولت کے انبار دے رہے ہیں کہ میں یہاں اپنا گھر گاڑی اچھی جاب ، عیش و عشرت چھوڑ کر ان کچے مکانوں میں ڈرون کے سائےتلے بیٹھنے پر رضامند ہو جاؤں۔
ہمارے درمیان شاید کمیونیکیشن کا فقدان ہے۔ ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ مغربی دنیا حقوق العباد میں ہم سے کہیں آگے ہے، طالبان تو دور کی بات، ہر اسلامی ملک میں دیکھ لیجئے، حقوق العباد کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں
باقی رہی بات جہاں تک اخلاقی اقدار کی، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر معاشرے میں اچھائی کے ساتھ برائی بھی ہے۔ اگر مغربی معاشرے ہمیں برائی دیکھنے اور کرنے پر مجبور نہیں کرتے تو ہم انہیں کیوں برا کہیں؟ان کا بنایا ہوا اسلحہ ہماری خانہ جنگی میں استعمال ہو، ان کی بنائی گئی تعلیم کو ہم اسلام دشمن کہہ کر اپنی ترقی کی راہ روکے رکھیں، ان کی ساری اچھائیاں چھوڑ کر ہمیں ان کی شراب نوشی، خنزیر خوری، زنا اور آزادئ اظہار رائے پر اعتراض ہو تو بھائی میرے، ان کی شراب نوشی، زنا، خنزیر کھانے اور آزادئ اظہار رائے سے آپ کو کیا نقصان پہنچا ہے؟
یا تو سب سے پہلے آپ ان کی بنائی ہوئی پھر تمام تر چیزوں کو چھوڑ دیں۔ پھر اپنے بل بوتے پر یہ ساری چیزیں بشمول پہیہ بنائیں، کفار کو ٹیکنالوجی اور ایمان کی مدد سے ہرائیں اور پھر ان پر فتح کے جھنڈے گاڑ کر ان کی عورتوں کو لونڈیاں اور مردوں اور بچوں کو غلام بنائیں، کوئی "سچا مسلمان" آپ کو برا نہیں کہے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
ایسا کرتے ہیں کہ ہم آرام سے بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے چند سوالات کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ طب یعنی میڈیکل کے علم میں طالبان بالخصوص اور مسلمان بالعموم، گذشتہ چند صدیوں سے کیا کارنامے سرانجام دے چکے ہیں، اور مغربی "کافر" دنیا کیا کارنامے سرانجام دے چکی ہے؟
2۔ ٹیکنالوجی کی فیلڈ۔۔۔
3۔ اخلاقیات کے میدان میں۔۔۔
4۔ بینکنگ اور دیگر مالیاتی شعبے۔۔۔
5۔ زراعت۔۔۔
6۔ نینو ٹیکنالوجی۔۔۔
7۔ آئی ٹی۔۔۔
8۔ خلائی سائنس۔۔۔
9۔ غرض ہر وہ فیلڈ، جس کا نام لیا جا سکتا ہے، اس کو یہاں شامل کر لیجئے
 
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو خیر آباد کہہ کر مغرب میں جابسنے والے بھی اکثر مغربی معاشروں کو پاکستانی معاشرے سے ہر اعتبار سے بہتر ثابت کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو ناپاک ملک سمجھ کر افغانستان کے پاک ماحول میں زندگی گذارنے والوں کا بھی پاکستان کے بارے میں یہی خیال ہے۔۔۔۔اب بیچارہ پاکستان کہاں جائے کیا کرے۔۔۔:D
خدایا تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
 

قیصرانی

لائبریرین
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو خیر آباد کہہ کر مغرب میں جابسنے والے بھی اکثر مغربی معاشروں کو پاکستانی معاشرے سے ہر اعتبار سے بہتر ثابت کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو ناپاک ملک سمجھ کر افغانستان کے پاک ماحول میں زندگی گذارنے والوں کا بھی پاکستان کے بارے میں یہی خیال ہے۔۔۔ ۔اب بیچارہ پاکستان کہاں جائے کیا کرے۔۔۔ :D
خدایا تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
شاید پہلے کیس میں یہ وجہ ہو کہ بندہ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ دونوں جگہیں دیکھی ہوئی ہیں اور دوسری صورت میں اس لئے کہ واپس جانا اچھا نہیں لگتا :)
 
بھیا پہلی بات تو یہ کہ ظاہری وضع سے بخوبی اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ میں یہاں کن کے ساتھ ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایسی صورتحال میں تعامل تین طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ جو بھی مدد، خدمت یا قربانی دی جا رہی ہو وہ ڈر کے دی جا رہی ہو کہ ایسا نہ کیا تو برا انجام ہو گا، دوسرا یہ کہ کسی اثرو رسوخ والے بندے سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض اوقات ظاہری محبت اور خلوص دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر ایسا کروں گا تو اس سے مجھے فائدہ مل جائے گا یا اس کے شر سے میں محفوظ ہو جاؤں گا اور تیسرا خالص محبت، بے لوث خدمت اور ایثار۔
اب پہلی دو صورتوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے اگر وہ ڈر کے کام کر رہا ہے تو بھی صاف چہرے پر نظر آجاتا ہے اگر وہ بناوٹی محبت دکھا رہا ہے تو بھی یہ بات واضح پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تو ایک واقع ہے اس کے علاوہ بھی میں نے مقامی عوام کے اندر جہاں جہاں میں گیا ہوں خالص عقیدت اور محبت کے جزبوں کے اور کچھ نہیں پایا۔ افغان قوم ویسے بھی پوری دنیا میں مہمان نوازی میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔

دوسری بات جب ہم موازنہ کرتے ہیں مسلم ممالک کے معاشروں کا مغربی ممالک کے معاشروں سے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم مسلم اکثریتی علاقوں کے معاشروں کا تقابل کر رہے ہیں نہ کہ کسی اسلامی معاشرے کا۔ اس بات میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں بحثیت مجموعی مسلم ممالک کے معاشرے حرس میں بہت آگے جا چکے ہیں، ہمارے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کے گھن چکر میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ہر معاملے کو فائدے اور نقصان کی صورت میں ہی دیکھتے ہیں۔ میں یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں ورنہ ایکسپشن از آلویز دیئر۔

اور تیسری بات رہ گئی اس مغربی معاشرے کی بھی تو آپ کو یہ مدد کی مثالیں تو ضرور مل جائیں گی لیکن آپ ان کے معاشروں کو بحثیت مجموعی دیکھیں تو ظاہری طور پر تعامل میں وہ اخلاق میں جتنے بھی اچھے نظر آرہے ہوں بحثیت مجموعی اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ ایک طرف نبی اکرم اور قرآن کی بے حرمتی کو ”آزادی اظہار رائے“ سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس میں ہماری مقدسات تو کیا اپنی مقدسات تک کو نہیں بخشتے۔ تو دوسری طرف ہالوکاسٹ پر بات کرنا جرم ٹھہرا۔ پھر یہی کہوں گا کہ یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں۔
اس کے علاوہ بھی جس قدر یہ معاشرے اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔ ایسے میں بعض تعاملات کو بنیاد بنا کر مکمل تصویر کو نظر انداز کرنا عدل کی بات نہیں لگتی۔

آخر میں رہ گئی بات طالبان کے ظلم کی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ میں ماضی کے متعلق کچھ دعویٰ نہیں کر سکتا وہی بتا سکتا ہوں جو خود میں نے سنا ہے۔ ہاں پچھلے تین سالوں کے متعلق میں زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہا ہوں وہ بھی ان میں جہاں طالبان کی مکمل عمل داری ہے تو میں نے ان علاقوں میں مقامی آبادی کے اندر طالبان کے لئے محبت ہی دیکھی اور یہی معاملہ طالبان کی طرف سے مقامی آبادی کے لئے بھی دیکھا اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ طالبان کے اندر شامل لوگ ان کے اپنے کنبے قبیلے کے ہی ہوتے ہیں۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ میں یہ باتیں تعصب کی عینک لگا کر کر رہا ہوں تو ہم کمپیوٹر سائنس کے لوگ لوجک اور منطق سے منافی بات خود بھی ہضم نہیں کر سکتے، میں یہاں ان کی تعریف سن کر آیا تھا اگر انہیں جو سنا اس کے منافی پاتا تو واپس کیوں نہ چلا جاتا۔ یہ میرے ”مامے کے پتر“ تو ہیں نہیں نہ ہی میرا بیک گراؤنڈ مدارس والا ہے کہ اپنے ”پیٹی بھراؤں“ کے ہر اچھے برے کو صحیح کہوں اور نہ یہ مجھے کوئی دولت کے انبار دے رہے ہیں کہ میں یہاں اپنا گھر گاڑی اچھی جاب ، عیش و عشرت چھوڑ کر ان کچے مکانوں میں ڈرون کے سائےتلے بیٹھنے پر رضامند ہو جاؤں۔
میرے پیارے بھائی آپ نے کوئی تعصب کی عینک نہیں لگائی ہوئی آپ سب کچھ جانتے ہوئے بلکل میڈیا کی طرح ظالمان کے حق میں پروپوگنڈا کر رہے ہیں اوربس۔۔
 

زیک

مسافر
عین ممکن ہے کہ آپ نے باتوں باتوں میں بتا دیا ہو کہ آپ طالبان سے تعلق رکھتے ہیں؟ یا موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ ایسی ہو؟
یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ طالبان کے ڈر سے پیسے نہ لئے ہوں کہ نعمان طالبانی کام ہی سے جا رہے تھے
 

زیک

مسافر
بھیا پہلی بات تو یہ کہ ظاہری وضع سے بخوبی اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے کہ میں یہاں کن کے ساتھ ہوں اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایسی صورتحال میں تعامل تین طرح کا ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ جو بھی مدد، خدمت یا قربانی دی جا رہی ہو وہ ڈر کے دی جا رہی ہو کہ ایسا نہ کیا تو برا انجام ہو گا، دوسرا یہ کہ کسی اثرو رسوخ والے بندے سے فائدہ اٹھانے کے لئے بعض اوقات ظاہری محبت اور خلوص دکھا دیا جاتا ہے کہ اگر ایسا کروں گا تو اس سے مجھے فائدہ مل جائے گا یا اس کے شر سے میں محفوظ ہو جاؤں گا اور تیسرا خالص محبت، بے لوث خدمت اور ایثار۔
اب پہلی دو صورتوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے اگر وہ ڈر کے کام کر رہا ہے تو بھی صاف چہرے پر نظر آجاتا ہے اگر وہ بناوٹی محبت دکھا رہا ہے تو بھی یہ بات واضح پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تو ایک واقع ہے اس کے علاوہ بھی میں نے مقامی عوام کے اندر جہاں جہاں میں گیا ہوں خالص عقیدت اور محبت کے جزبوں کے اور کچھ نہیں پایا۔ افغان قوم ویسے بھی پوری دنیا میں مہمان نوازی میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔

دوسری بات جب ہم موازنہ کرتے ہیں مسلم ممالک کے معاشروں کا مغربی ممالک کے معاشروں سے تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم مسلم اکثریتی علاقوں کے معاشروں کا تقابل کر رہے ہیں نہ کہ کسی اسلامی معاشرے کا۔ اس بات میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں بحثیت مجموعی مسلم ممالک کے معاشرے حرس میں بہت آگے جا چکے ہیں، ہمارے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان کے گھن چکر میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ ہر معاملے کو فائدے اور نقصان کی صورت میں ہی دیکھتے ہیں۔ میں یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں ورنہ ایکسپشن از آلویز دیئر۔

اور تیسری بات رہ گئی اس مغربی معاشرے کی بھی تو آپ کو یہ مدد کی مثالیں تو ضرور مل جائیں گی لیکن آپ ان کے معاشروں کو بحثیت مجموعی دیکھیں تو ظاہری طور پر تعامل میں وہ اخلاق میں جتنے بھی اچھے نظر آرہے ہوں بحثیت مجموعی اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ ایک طرف نبی اکرم اور قرآن کی بے حرمتی کو ”آزادی اظہار رائے“ سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس میں ہماری مقدسات تو کیا اپنی مقدسات تک کو نہیں بخشتے۔ تو دوسری طرف ہالوکاسٹ پر بات کرنا جرم ٹھہرا۔ پھر یہی کہوں گا کہ یہ بات بحثیت مجموعی کر رہا ہوں۔
اس کے علاوہ بھی جس قدر یہ معاشرے اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔ ایسے میں بعض تعاملات کو بنیاد بنا کر مکمل تصویر کو نظر انداز کرنا عدل کی بات نہیں لگتی۔

آخر میں رہ گئی بات طالبان کے ظلم کی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ میں ماضی کے متعلق کچھ دعویٰ نہیں کر سکتا وہی بتا سکتا ہوں جو خود میں نے سنا ہے۔ ہاں پچھلے تین سالوں کے متعلق میں زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہا ہوں وہ بھی ان میں جہاں طالبان کی مکمل عمل داری ہے تو میں نے ان علاقوں میں مقامی آبادی کے اندر طالبان کے لئے محبت ہی دیکھی اور یہی معاملہ طالبان کی طرف سے مقامی آبادی کے لئے بھی دیکھا اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ طالبان کے اندر شامل لوگ ان کے اپنے کنبے قبیلے کے ہی ہوتے ہیں۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ میں یہ باتیں تعصب کی عینک لگا کر کر رہا ہوں تو ہم کمپیوٹر سائنس کے لوگ لوجک اور منطق سے منافی بات خود بھی ہضم نہیں کر سکتے، میں یہاں ان کی تعریف سن کر آیا تھا اگر انہیں جو سنا اس کے منافی پاتا تو واپس کیوں نہ چلا جاتا۔ یہ میرے ”مامے کے پتر“ تو ہیں نہیں نہ ہی میرا بیک گراؤنڈ مدارس والا ہے کہ اپنے ”پیٹی بھراؤں“ کے ہر اچھے برے کو صحیح کہوں اور نہ یہ مجھے کوئی دولت کے انبار دے رہے ہیں کہ میں یہاں اپنا گھر گاڑی اچھی جاب ، عیش و عشرت چھوڑ کر ان کچے مکانوں میں ڈرون کے سائےتلے بیٹھنے پر رضامند ہو جاؤں۔
آپ کی (اور طالبان کی) ظاہری وضع کیا ہوتی ہے؟
 
اوپر آپ لوگوں نے جو جو باتیں کی ہیں ان کا جواب میں اپنے پچھلے مراسلے میں دے چکا ہوں میرے خیال میں مجھے اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
 
اوپر آپ لوگوں نے جو جو باتیں کی ہیں ان کا جواب میں اپنے پچھلے مراسلے میں دے چکا ہوں میرے خیال میں مجھے اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
 
محمود احمد غزنوی بھائی آپ کے متفق نہ ہونی کی وجہ معلوم کرسکتا ہوں؟
آپ نے لکھا کہ "مسلمان کبھی ظالم نہیں ہوسکتا"۔۔۔۔اب یہ دنیا میں جو کروڑوں مسلمان اپنے آپ پر اور دوسروں پر ظلم کرتے نظر آرہے ہیں انکو کیا کافر سمجھنا چاہئیے؟۔۔۔
 

سویدا

محفلین
افغانستان کے اسی مثالی معاشرے کی وجہ سے خود افغانستان اور دراندازی کرنے والا پاکستان کس حال میں ہے یہ روز روشن کی طرح واضح ہے
 
آپ نے لکھا کہ "مسلمان کبھی ظالم نہیں ہوسکتا"۔۔۔ ۔اب یہ دنیا میں جو کروڑوں مسلمان اپنے آپ پر اور دوسروں پر ظلم کرتے نظر آرہے ہیں انکو کیا کافر سمجھنا چاہئیے؟۔۔۔
خوارجی، رافضی، منافقین، مرتدین وغیرہ بھی تو مسلمانوں کے لبادے اوڑھنے والوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔شاید خالد صاحب کا اشارہ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر ہو کہ مسلمان ظالم نہیں ہو سکتا۔
:)
 
Top