افغانستان:افیون کی کاشت کا دوبارہ رجحان

130325164851_opium_624x351_bbc_nocredit.jpg

دنیا بھر میں زیادہ تر غیر قانونی منشیات افیون سے تیار کی جاتی ہیں جو کہ افغانستان سے آتی ہے

افغانستان کے صوبہ ہلمند میں سال دو ہزار چھ کے مقابلے میں گزشتہ سال تین گنا زیادہ افیون پیدا ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اس سال بھی افیون کی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔
افیون ہیروئن اور دیگر غیرقانونی منشیات کی تیاری میں خام مال کا کردار ادا کرتی ہے اور اسے افغانستان سے سمگل کر کے برطانیہ سمیت دنیا کے محتلف حصوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کپاس کی قیمت بہت کم ہے اور اس سے فصل پر آنے والی لاگت بھی نہیں نکل پاتی ہے۔‘امریکہ اور برطانیہ کے زرعی ماہرین کے خیالات سے متاثر ہو کر ہلمند کے بہت سے دوسرے کسانوں کی طرح حمیداللہ نے گزشتہ سال کپاس کی فصل کاشت کی لیکن کپاس کی منڈی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رواں سال انھوں نے پھر سے اپنے کھیتوں میں افیون کی فصل کاشت کی ہے۔
انھیں اپنی کپاس کی فصل کو کم قیمت پر نقصان اٹھا کر فروخت کرنا پڑا تاکہ اپنے گھر والوں کے لیے خوراک حاصل کر سکیں۔ ان کے خیال سے افیون کی کاشت دس گنا منافع بخش ہے۔

130417134347_hamidullah_afghanistan_304x171_b.jpg

افغان کاشتکار حمیداللہ کا کہنا ہے کہ افیون کی کاشت دس گنا زیادہ منافع بخش ہے

ہلمند میں کپاس صاف کرنے والے دو کارخانوں میں سے ایک بند ہے جبکہ پڑوس میں کپاس کے کئی ایکڑ ابھی فروخت نہیں ہوئے ہیں۔
کئی برسوں سے غیرملکی زرعی ماہرین ہلمند کے کسانوں کی متبادل فصل لگانے کے لیے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں لیکن ان کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔
منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی کی ایک رپورٹ میں اس سال افیون کی پیداوار میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے اور اس کی ایک وجہ زرعی تعاون کی کمی بتایا ہے۔
ادارے نے اس کے لیے عدم تحفظ کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔جبکہ ملک میں تعینات بین الاقوامی فوج اپنے جنگی کردار کو کم کر رہی ہے اور افیون کی کاشت میں اضافہ بین الاقوامی منصوبے اور خاص طور پر برطانیہ کے کردار کی ناکامی کا اہم مظہر ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے افیون کی کاشت کو 2001 کی جنگ کا سبب بتایا تھا۔ انھوں نےاس وقت کہا تھا کہ منشیات کی تجارت طالبان حکومت کا حصہ تھی جسے ’ہم سب کو تباہ کر دینا چاہیے‘۔
برطانیہ شروع سے ہی منشیات مخالف اقدام میں پیش پیش تھا اور اس نے سال دو ہزار چھ میں ہلمند صوبے میں اپنی فوج اس لیے بھی روانہ کی تھی کہ یہ علاقہ افیون کی کاشت کا اہم علاقہ ہے۔
سنہ 2006 کےمقابلے میں رواں سال اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہلمند میں تین گنا پوست کی کاشت کی جا رہی ہے جو کہ 75 ہزار ایکٹر اراضی پر مشتمل ہے۔
ہلمند کے نئے گورنر محمد نعیم نے پوست کی کاشت کے خاتمے کا وسیع پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کے تحت اس میں کام کرنے والے پولیس کی سکیورٹی میں افیون کی فصل کو تباہ کرتے ہیں اور ان کنوؤں کو ختم کرنے میں لگے ہیں جہاں سے آب پاشی کی جاتی ہے۔
لیکن گزشتہ سال دسمبر میں جب میں وہا ں گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ ناد علی ضلع کے منتخب مقامی کونسلر متبادل منڈی کی عدم موجودگی میں اس پروگرام کے خلاف ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس سے کسان غریب ہو جائیں گے اور وہ طالبان کی حمایت کرنے لگیں گے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال افغانستان میں افیون کی پیداوار کا نصف ہلمند صوبے میں ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے علاقوں جیسے تخار اور ننگرہار میں بھی پیداوار میں اضافے کا امکان ہے۔
افیون سے پیدا منشیات پاکستان اور ایران کے راستے نہ صرف دنیا بھر میں سمگل کی جاتی ہیں بلکہ یہ منشیات کے عادی افغان شہریوں کو بھی فراہم کی جاتی ہے۔

130227101636_why_afghanistan_may_never_eradicate_opium_304x171_bbc_nocredit.jpg

ہلمند کے نئے گورنر نے صوبے میں افیون کی کاشت کے خلاف اقدامات شروع کیے ہیں

ایک اندازے کے مطابق اس وقت افغانستان میں تقریباً دس لاکھ افراد افیون کے عادی ہیں۔
ان میں سے ایک 22 سالہ حشمت کا کہنا ہے کہ وہ افیون 12 سال کی عمر سے لے رہے ہیں اور اب وہ ہر صبح اپنی اس عادت کے نتیجے میں خالی ڈبوں سے افیون نچوڑتے رہتے ہیں۔
تین بچوں کے والد فضل کا کہنا ہے کہ وہ کابل اس لیے آئے تھے کہ وہ اس لت سے چھٹکارہ پا سکیں لیکن وہ ناکام ہو چکے ہیں۔
منشیات کی روک تھام کرنے والے ایک اہلکار نے کہا کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو اس سلسلے میں گرفتار بھی کیا ہے حالانکہ ان کے سامنے ہی گلی میں لوگ کھلے عام اس کا استعمال کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ زیادہ لوگوں کو گرفتار کرنے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی بڑے لوگوں تک رسائی ہے اور ان کو خدشہ ہے کہ کہیں وہ اپنی نوکری نہ گنوا بیٹھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پوست کی کاشت نے افغان سماج کو تباہ کر رکھا ہے۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

شمشاد

لائبریرین
افغان کاشتکار حمیداللہ کا کہنا ہے کہ افیون کی کاشت دس گنا زیادہ منافع بخش ہے
کسر نفسی سے کام لے رہا ہے۔ ہزار گُنا کہنا چاہیے تھا۔

ہمارے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ وہاں پر ایک بڑے کمرے کے برابر زمین پر افیون کاشت کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس گھر کے چار بندے دبئی میں کمائی کر رہے ہیں۔
 
Top